نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈکل ہیریٹج حیدرآباد: ایک تعارف

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

کسی بھی ملک کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا اندازہ اس ملک میں موجود تاریخی عمارتوں اور مقامات سے ہی نہیں بلکہ اس ملک کے حکمرانوں کے ذوق علوم و فنون سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر حیدرآباد اپنی تاریخی عمارتوں اور عمدہ تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن یہاں کے حکمرانوں نے تعلیم و تعلم اور اس کے باقیات کی حفاظت کے لیے جو اقدامات کیے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، اسی لیے حیدرآباد میں واقع چند مشہور اداروں کا تعارف پیش خدمت ہے:

سالار جنگ میوزیم لائبریری:
حیدرآباد کی تہذیبی وراثت کا ذکر آتے ہی سالار جنگ میوزیم کو کون نظر انداز کر سکتا ہے کہ جس کی آفاقیت کو دنیا نے قبول کیا، 1949 میں نواب میر یوسف علی خان سالار جنگ سوم کی وفات کے بعد، ان کا سارا مجموعہ ان کے رہائشی دیوان، دیوان ڈیوڑھی سالار جنگ میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا جو ان کی رہائش گاہ کا احاطہ تھا۔ اس کا نام سالار جنگ میوزیم رکھا گیا، جس کا افتتاح 16 جنوری 1951 کو جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا سالارجنگ میوزیم کا دورہ کرنا اور اس کی اہمیت و یگانگت پر قیمتی تبصرہ دینا اس بات کی عظمت میں اضافے کا سبب ہے۔ سالار جنگ میوزیم کے مشاہدے کے بعد مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ ’مجھے سالار جنگ میوزیم کے معائنہ سے خوشی حاصل ہوئی۔ ایک شخصی ذوق نے اتنا سامان بہم پہنچادیا جو کہ حکومتوں کی کوششوں سے بھی فراہم نہیں ہوا کرتا’ ۔ آج سالار جنگ میوزیم لائبریری میں طب یونانی کے ہزاروں مخطوطات محفوظ ہیں جو تشنگان علم کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

گورنمنٹ اورینٹل مینوسکرپٹ لائبریری اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (GOMLRI) حیدرآباد:
اس اہم لائبریری کی تعمیر اپریل 1975 میں عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس، حیدرآباد میں ہوئی۔ نظام حیدرآباد کے زمانے سے آصفیہ لائبریری ایک بہت مشہور لائبریری ہوا کرتی تھی جس کا نام 1975 میں آندھرا پردیش اسٹیٹ سینٹرل لائبریری رکھ دیا گیا۔ آصفیہ لائبریری سے فارسی اور عربی کے مخطوطات اس نو تشکیل شدہ ادارہ کی عمارت میں منتقل کردیے گئے۔ اس لائبریری کے ریکارڈ کے مطابق اس میں تقریبا سترہ ہزار سے زائد مخطوطات عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں ہیں جن میں سے بیشتر مخطوطات طب یونانی پر مشتمل ہیں، حال میں اس ادارہ سے بعض یونانی کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی ہے جن میں علاج الاطفال کے فارسی متن مع انگریزی ترجمہ اور قرابادین معصومی کے فارسی متن کی اشاعت بھی شامل ہے۔ اس ادارہ میں کوئی یونانی کے اہلکار موجود نہ رہنے کی وجہ سے ان مخطوطات کا تحفظ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔

دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد:
اس ادارہ کا قیام 1888ء میں مولانا انوار اللہ خان فاروقی، ملا عبدالقيوم اور نواب عماد الملک کی مشترکہ کوششوں سے نواب میر محبوب علی خان کے دور حکومت میں عمل میں آیا، یہ ادارہ مخطوطات کی اشاعت اور عربی کتابوں کے ترجمہ میں عالمی شہرت کا حامل ہے۔ طب یونانی پر مشتمل چار اہم کتابیں یہاں سے شیع ہوچکی ہیں مثلا کتاب العمدہ فی الجراحۃ، تذکرۃ الکحالین، کتاب المختارات اور کتاب الحاوی فی الطب۔ کتاب الحاوی فی الطب کی مطبوعہ بایئس جلدیں ہیں جن میں سے بعض جلدوں کا انگریزی ترجمہ بھی شایع ہوچکا ہے۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج، حیدرآباد:
شہر حیدرآباد کے قلب میں دلسکھ نگر اور ملک پیٹ کے درمیان ایک بہت ہی اہم ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج کے نام سے موجود ہے مگر عوام کی نظروں سے مخفی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج کا وجود ریسرچ اسکالرس اور علم کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کسی انمول نعمت سے کم نہیں کیوں کہ تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ علم کا مرکز اور گہوارہ ہے۔ اس میں موجود کتب خانے کو ہندوستان بھر میں ایک انفرادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں آیوش سسٹم پر مبنی ہزاروں کتابیں موجود ہیں جو کہ اردو، عربی، فارسی، ہندی، تلگو، سنسکرت، تامل اور دیگر زبانوں میں ہیں۔ اس وقت لائبریری میں 10384 کتابیں موجود ہیں، جن میں 448 نادر و نایاب طبی کتابوں کا ذخیرہ ہے جن کا کہیں اور ملنا بہت مشکل ہے، ان میں چند ایسی ہیں جو بالکل قدیم زمانے کی ابتدائی دور کی ہیں، ان میں 285 مخطوطات (manuscripts) ہیں جو کہ پام کے پتوں اور پیپر پر لکھے ہوئے ہیں، ان میں آیوروید کے 173، یونانی کے 106، اور سدھا کے 6 ہیں۔ یونانی کے 500 سے زائد مخطوطات ڈیجیٹلائزڈ محفوظ ہیں۔ اس لائبریری میں ملکی و عالمی 1187 جرنلس موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر اور خصوصاً ایشیائی ممالک کے اسکالرس روزانہ اس کتب خانہ کا رخ کرتے ہیں اور گھنٹوں ان قدیم اور کمیاب کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنی تحقیق کے لیے ایک جملہ، ایک تاریخ، ایک صفحہ نمبر اور ایک سطر کو حاصل کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد و منفرد ادارہ ہے، کیونکہ ایک ہی چھت کے نیچے آیوروید، یونانی، ہومیوپیتھی اور سدھا کے ماہرین اسکالرس موجود ہیں جو ریسرچ آفیسر کے طور پر اس ادارے میں اپنی خدمات انجام دے کر اور بالترتیب اپنی طبی وراثت کو محفوظ کرنے میں سرگرم عمل ہیں، تمام باقیات کو عام فہم زبان میں لاکر اس طب کو عوام کے لیے نفع بخش بنانا ان ماہرین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس ادارہ کا قیام اور اس میں فی الوقت ہو رہے تحقیقی و تصنیفی اور میوزیم و لائبریری کا قیام اسی طرز کی عکاسی کر رہی ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج کا پس منظر:
26 ستمبر 1956 کو ڈپارٹمنٹ آف ہسٹری آف میڈیسین کے نام سے آندھرا میڈیکل کالج وشاکھا پٹنم میں ایک ادارہ قائم کیا گیا اور اس طرح اس شعبہ تاریخ طب کی بنیاد آندھرا میڈیکل کالج وشاکھا پٹنم میں پڑی۔ اس شعبہ تاریخ طب کے بانی پروفیسر ڈی وی سبا ریڈی تھے جو شعبہ فزیالوجی کے سربراہ بھی تھے۔ دسمبر 1956 میں اس شعبہ کو حیدرآباد منتقل کیا گیا اور انڈین کونسل آف انڈین میڈیکل ریسرچ (ICMR) کے حوالہ کیا گیا، 14 فروری 1969 میں اس کا نام بدل کر انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسین رکھا گیا، اس کے بعد یکم اپریل 1970 میں اس کو سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان انڈین میڈیسین اینڈ ہومیوپیتھی (CCRI&H) کے حوالہ کیا گیا، اور اس کا نام انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسین رکھا گیا۔ ابتدا ہی سے اس ادارہ میں تاریخ طب میں کام کرنے کے لیے تمام نظامہائے طب سے متعلق آفیسرس کا تقرر ہوتا رہا مثلا آیوروید، یونانی، سدھا، ہومیوپیتھی اور ماڈرن میڈیسن۔
جنوری 1979 میں CCRI&H کو چار کونسل میں تقسیم کیا گیا:

سی سی آر اے ایس،

سی سی آر یو ایم،

سی سی آر ایچ اور

سی سی آر وائی این،

اس وقت یہ ادارہ سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان آیورویدک ساینسز (سی سی آر اے ایس) کے زیر انتظام آگیا۔ حکومت ہند نے اس انسٹی ٹیوٹ کی انفرادیت اور اہمیت کے پیش نظر اس کو ترقی عطا کی اور 15 دسمبر 2009 میں اس کا نام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج (NIIMH) رکھا گیا ۔
اس ادارہ کے امتیازی خصوصیات اب بھی وہی ہیں جو اس کے قیام کے وقت تھے۔ اس کے اہم مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ تاریخ طب اور اس کی معلومات کو فروغ دیا جائے، طلباء اساتذہ اور عوام کے لیے اسے نفع بخش بنایا جائے۔ تاریخ طب میں ریسرچ کو فروغ دینا، تاکہ یہ بات لوگوں کے علم میں آسکے کہ طب کی ترویج و اشاعت بتدریج الگ الگ زمانوں میں کیسے ہوئی۔ بیماریوں کے متعلق نظریہ امراض کا ارتقا اور تاریخی نشو و نما کا مطالعہ کرنا، ادویہ اور آیوش سے دیگر طبی ادب عالیہ کو فروغ دینا۔ مختلف ادوار کے اطباء، معالجین، مصنفین اور شارحین کی سوانح حیات تیار کرنا۔ مقامات، ادوار اور موضوعات کے اعتبار سے تاریخ طب پر مضامین لکھنا۔ ادارے کے طبی جریدے میں اشاعت کے لیے طبی تاریخ پر اور طبی وراثت پر مضامین تیار کرنا۔ ریسرچ اسکالر کی رہنمائی اور انھیں حوالہ جات فراہم کرنا۔ جرنلس اور آرٹیکلس کی فہرست تیار کرنا۔ جو شعبے یا ادارے یا اسکالرز تاریخ طب سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے ایک علمی، تحقیقی اور مرکزی پلیٹ فارم مہیا کرانا، ہندوستانی طبی تعلیم کے متعلق بیداری مہم چلانا تاکہ لوگ دیسی طب کو جان سکیں اور اس کی اہمیت کا اندازہ کر سکیں۔

اس ادارے کے ذریعہ طب یونانی کی ترویج:
اس ادارے میں آیوروید کے ساتھ ساتھ طب یونانی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، یونانی سیکشن کے سربراہ ڈاکٹر اشفاق احمد (ایم ڈی یونانی، اے ایم یو، علی گڑھ) جو عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر بھی ہیں بڑی محنت اور جانفشانی سے طب یونانی کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جو کام بڑے بڑے اداروں کا ہے وہ کام الحمد للہ صرف ایک شخص کے ذریعہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج میں انجام دیا جارہا ہے۔ یہ ادارہ ڈاکٹر این ٹی آرہیلتھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی یونانی کے لیے بھی رجسٹرڈ ہے اور اب تک دو طلباء طب یونانی کی تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر اشفاق احمد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی یونانی مکمل کر چکے ہیں۔
اس ادارہ میں مختصر سی مدت میں کافی اہم اور بنیادی کام طب یونانی کے فروغ کے لیے انجام دیا گیا ہے، مثلا:
1۔ “علاج الاطفال” فارسی زبان کا ایک اہم مخطوطہ ہے جسے سید فضل علی شفائی خان نے (1836) تصنیف کیا تھا، اس کی تدوین و تحقیق اور انگلش اور اردو زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
2۔ عین الحیات تصنیف محمد بن یوسف الہروی 1532 AD)) کا انگلش میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب مشایخ کے امراض و تدبیر پر مشتمل ہے۔
3۔ “امراض کبد کا قدیم یونانی کتابوں میں تذکرہ، ایک مطالعہ”: اس کتاب میں قدیم طب یونانی کے حوالے سے جن کا مقصد و موضوع امراض کبد کے متعلق قدیم یونانی طب کا نظریہ کیا تھا اسے واضح کیا گیا ہے۔
4۔ مختلف اداروں میں موجود یونانی مخطوطات کا حصول اور ان کا Digitization کیا گیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت تقریبا 500 سے زائد یونانی مخطوطات کو digitized اور محفوظ کیا گیا ہے۔
5۔ بقراط کے زمانے سے آٹھویں صدی عیسوی تک تحریر شدہ اہم یونانی کتابوں کا تذکرہ: اس کتاب میں بقراط کے زمانے سے آٹھویں صدی عیسوی تک لکھی گئی کتابوں کا ان کے مصنفین کے ساتھ تعارف کا احاطہ کیا گیا ہے۔
6۔ نویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک تحریر شدہ اہم یونانی کتابوں کا تذکرہ: اس کتاب میں نویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک ہر صدی میں بالترتیب لکھی گئی کتابوں کا ان کے مصنفین کے ساتھ تعارف احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔
7۔ تیرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک تحریر شدہ اہم یونانی کتابوں کا تذکرہ: اس کتاب میں تیرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک ہر صدی میں بالترتیب لکھی گئی کتابوں کا ان کے مصنفین کے ساتھ تعارف پیش خدمت ہے۔ ساتھ ہی سولہویں صدی کے بعد بھی چند اہم طبی کتب کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔
8۔ (NAMSTP) اس پروجیکٹ کے تحت یونانی اصطلاحات اور ان کی تشریحات کو انگریزی جامہ پہنایا گیا، اور ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا جس کا افتتاح وزیر اعظم ہند کے ذریعہ اکتوبر 2017 کوعمل میں آیا ۔ یہ پورٹل طلباء طب یونانی کے لیے بہت ہی مفید ہے بالخصوص جو انگلش میڈیم سے آتے ہیں۔
9۔ القانون فی الطب (E BOOK): اس ادارہ میں آیوروید کے کلاسک کتابوں مثلا چرک سمھتا اور سشرت سمھتا کے ای بکس تیار کیے جا چکے ہیں ٹھیک اسی طرح طب یونانی کے حوالہ جاتی کتب پر ای بکس کی تیاری کا بھی پروجکٹ لیا گیا تاکہ قدیم یونانی سرمائے کو محفوظ کیا جاسکے اور نئی نسلوں تک جدید انداز میں قدیم کتابوں کی رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔
اسی تناظر میں سب سے پہلے ابن سینا کی مشہور زمانہ کتاب القانون فی الطب کا انتخاب کیا گیا ہے اور اس کی (E BOOK) کی تیاری کا مرحلہ زوروں پر ہے، اس پروجیکٹ کی جلد عمل آوری کے لیے درج ذیل تین سینئر ریسرچ فیلو (یونانی) کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے: 1۔ ڈاکٹر صہباء سمرین، 2۔ ڈاکٹر عبدالکریم، 3۔ ڈاکٹر صبا فردوس۔ القانون کے بعد طب یونانی کی درج ذیل اہم حوالہ جات کتب کا بھی ای بک تیار کرنے کا منصوبہ ہے ۔1۔ الحاوی فی الطب 2۔ فردوس الحکمت 3۔ کامل الصناعۃ
10۔ آیوش ریسرچ پورٹل: اس پورٹل میں شائع شدہ ریسرچ پیپرس اور مضامین کو اپلوڈ کیا جاتا ہے تاکہ ایک ہی مقام پر آیوش کے تمام نظامہائے طب پر مضامین ایک جگہ دستیاب ہوسکیں اور تحقیق کے لیے مضامین کے انتخاب میں تکرار نہ ہو۔
حکیم اشفاق احمد کی سربراہی میں اس ادارہ کے ذریعہ طب یونانی کے لیے عمدہ اور بہترین کام انجام دءے گئے ہیں جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، اللہ تعالی باہمت اور یونانی کے تئیں غیور لوگوں کو قوم میں پیدا کرے تاکہ وہ طب کے حقیقی وارث بن کر اسے محفوظ کر سکیں تاکہ پوری دنیا ان معلومات سے فیض پا سکے۔ طب یونانی سے منسلک تمام افراد سے گذارش ہے کہ جتنا ممکن ہو طب کے فروغ کے لیے آگے آئیں، بڑے بڑے عہدیداران اور کالجز کے ذمہ داران و یونیورسٹیز کے پروفیسران سے گذارش ہے کہ جس میدان میں آپ ہیں اسی میں یونانی کو اعلی معیار عطا کریں تاکہ طب یونانی کی تاریخ آپ کو بھی یاد رکھے اور آپ کا تذکرہ طب یونانی کے خادمین میں ہوسکے۔
ایک ایسے سنٹر پر جہاں سارے کے سارے یونانی کے لیے اجنبی ہیں وہاں یونانی کے لیے اتنا موقع دینا اور یونانی پر کام کرانا تعجب خیز لیکن قابل ستائش عمل ہے، اس کے لیے پروفیسر دھیمان، ڈائرکٹر جنرل، سی سی آر اے ایس، حکومت ہند، تمام طبی دنیا کی طرف سے تشکر اور امتنان کے مستحق ہیں جو آیوروید سے متعلق ہونے کے باوجود یونانی کے بہی خواہ ہیں اور تمام یونانی پروجیکٹس کی منظوری میں تعاون کرتے ہیں۔ اس ادارہ کے ڈائرکٹر بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ ورنہ بہت سے ایسے ادارے آپ کو ملیں گے کہ جہاں مکمل یونانی کمیونٹی ہے لیکن سطحی سیاست کی وجہ سے یونانی کا کافی نقصان ہو رہا ہے جب کہ یہاں پر دوسرے لوگ یونانی کو محفوظ کرنے میں تعاون دے رہے ہیں۔ لہذا تمام محبین یونانی کو غور کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بہت اچھا مضمون!

IRSHAD AHMAD RABBANI ALIG

ما شاء اللہ، بہت ہی نفیس ترین مضمون رہا، علمی حرارت فروزاں ہو گئی، اور آج بڑی خوشی کی بات ہے کہ جس ادارے کے بارے میں صرف پڑھا تھا آج برادرم ڈاکٹر عبدالکریم علیگ کی معیت میں زیارت نصیب ہوئی۔ میں موصوف کا زندگی بھر ممنون و مشکور رہوں گا۔
ارشاد احمد ربانی علیگ