مختلف اقوام و مذاہب کی ایک جگہ قیام اور بود و باش سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان کی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں اور جب یہ اجتماع طوالت اختیار کر لیتا ہے تو ان کا ملا جلا معاشرہ ایک دوسرے کے افکار و نظریات، رسوم و رواج اور الفاظ بولیاں غیر شعوری طور پر قبول کرنے لگتا ہے۔ اگر ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو آریوں سے لے کر مغل دور تک اسی تہذیبی نور و ظلمت کی دھوپ چھاؤں نظر آئے گی جن کے معاشرتی تعلقات نے اردو جیسی شیریں زبان کو جنم دیا۔ اس زبان کے وجود میں آنے کے بعد اس کی زلفوں کو خانقاہ کے سجادہ نشینوں نے سنوارا۔ اس کے چہرے پر جام و سبو کے رکھوالوں نے غازہ ملا تاکہ جب یہ مے خانہ میں رقص کرے تو اس کی حسن آفرینی شراب کے نشے کو دوبالا کر دے کیونکہ اس منظر کے تماش بین الحاد و دہریت اور سیکولرازم کے پرستار بھی تھے۔ یہ تمام لوگ باطل عقائد کے حاملیں و دعاۃ تھے جن کی بدعقیدگیاں زبان کی پرورش کے ہی زمانے سے رفتہ رفتہ کلمات و محاورات کی روپ اختیار کر گئیں جو اپنے دامن میں صحابہ کرام کے خلاف تبرا بازی اور سب و شتم، کفر و شرک کی غلاظت، ہر چند کہ بڑی آسانی سے عوام الناس، مصنفین اور مقررین کے زبان زد ہو گئیں۔ سو علماء نے ضرورت محسوس کی کہ ادبی قبیلے کو ملحدانہ افکار، فکری آوارگی، واعظین و ناصحین کی تضحیک و استہزاء سے پاک کیا جائے اور ان کے سامنے فکری و عملی نعم البدل پیش کیا جائے۔
ان شاء اللہ زیر نظر مضمون میں ادبی بداعتقادگی کی ایک جھلک اور اس پر ایک مختصر تبصرہ بھی کیا جائے گا، جیساکہ میرا عنوان اردو ادب کے دو جزء سے جڑا ہوا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جہت سے چند مثالوں پر طبع آزمائی کی جائے اس لیے سرنامہ کی ترتیب کے لحاظ سے پہلے کلمات پھر محاورات پر خامہ فرسائی کی جسارت کروں گا۔
کلمات
اگر:
مصائب و مشکلات کے وقت انسان خلجان کا شکار ہو جاتا ہے، وہ اپنی پریشانیوں پر جزع فزع کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے اور یہ کہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ ”اگر ایسے نہ کرتا تو……“ ”اگر ایسا ہو تو……“ ”اگر میں یوں کرتا تو فلاں صورت پیش نہ آتی“ وغیرہ جو کہ ایمان بالقدر کے سراسر منافی عمل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
(و مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْر. لِکَیْْلَا تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ)(۱)
ترجمہ: تمھیں جو بھی مصیبت زمین اور تمھاری ذات پر آتی ہے اس کا تذکرہ تخلیق سے قبل ہی کتاب میں ہو چکا ہے۔ یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے تاکہ جو چیز تم سے فوت ہو جائے اس پر نادم نہ ہو اور جو نعمت اللہ کی طرف سے میسر ہو اس سے (حددرجہ) خوش نہ ہو جاؤ اور اللہ جل شانہ تکبر و غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
اس لیے تکلیف کے عالم میں نبی ﷺ کے فرامین کے مطابق ایک مومن کو تقدیر الٰہی پر توکل کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ ”اللہ رب العالمین نے جو کیا وہ میرے لیے بہتر تھا“ اور اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اسے چھوٹی پریشانی کے عوض بڑی مصیبت سے نجات دی ہے کیونکہ ہماری تخلیق سے ہزارہا سال قبل ہماری قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اپنی ناکامی کا الزام قسمت کو دینا یا اسے ”شومئی قسمت“ سے تعبیر کرنا خلاف شرع ہے، ان جیسی تاویلات کو نبیﷺ نے اگر مگر شیطان کی ڈگر کہا ہے۔ ارشاد ہے:
”إن أصابک شیء فلا تقل: لو أنی فعلت کذا لکان کذا وکذا ولکن قل: قدر اللّٰہ وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشیطان“(۲)
ترجمہ: جب تمھیں کوئی پریشانی لاحق ہو تو یہ نہ کہا کرو”اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا“ بلکہ یہ کہا کرو جو اللہ نے مقدر کیا اور چاہا وہی ہوا کیونکہ لفظ ”اگر“ شیطانی عمل کو کھول دیتا ہے۔
شہنشاہ:
اہل لغت کے نزدیک شہنشاہ فارسی کے شاہان شاہ کا مخفف ہے۔(۳) جس کا معنی بادشاہوں کے بادشاہ کے آتے ہیں۔(٤) یہ کلمہ اپنے اندر حد درجہ کبریائی اور بڑکپن سموئے ہوئے ہے۔ کبر و غرور کے بارے میں نبیﷺکا فرمان ہے:
”لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر“(۵)
ترجمہ: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی غرور ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے اور اسے پسند نہیں کہ کوئی بھی ذی روح اس جیسا نام یا صفت کا دعویٰ کرے اگرچہ وہ شخص دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنت کا مالک ہو۔ نبیﷺ کی حدیث ہے:
”أغیظ رجل علی اللہ یوم القیامۃ أخبثہ وأغیظہ علیہ: رجل کان یسمي ملک الأملاک، لا ملک إلا للّٰہ“، قال سفیان: مثل شاھان شاہ(٦)
ترجمہ: قیامت کے دن اللہ کی ناراضگی کا سب سے زیادہ سزاوار، خبیث اور غصہ دلانے والا وہ شخص ہوگا جس کو دنیا میں شہنشاہ کہا جاتا ہو، اللہ کے علاوہ کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ سفیان نے (ملک الاملاک کی تشریح کرتے ہوئے) کہا: شاہان شاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ۔
یعنی ملک کے فرماں روا کے لیے ایسے القاب سے گریز کیا جائے اور ان الفاظ کے بدلے اولوالامر، حکمراں، راجا، سلطان، شاہ اور ملک وغیرہ کلمات استعمال کیے جائیں۔
خدا:
اردو طبقہ کی ایک بڑی تعداد اللہ وحدہ لاشریک کا ترجمہ یا تعارف کے لیے لفظ ”خدا“ بڑے زور و شور سے استعمال کرتی ہے۔ یہ کلمہ فکری لغزش، معنوی کجی، ایرانی مذہب کی بو کے ساتھ اللہ کی علو شان میں تنقیص سے بھرا ہوا ہے، جس کی مختصر وضاحت ذیل کے سطور میں آئے گی ان شاء اللہ۔
(الف)قواعد لغت سے بے اعتنائی:
ترجمہ نگاری کا اصول ہے کہ ایک زبان کے پیغام کو دوسری زبان میں منتقل کرتے وقت مخصوص ذات، جگہ، شخص، ادارہ وغیرہ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا، بعینہٖ ”اللہ“ علم ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس لفظ کو دوسری زبان میں اصلی حالت میں بولا اور لکھا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ اردو اور فارسی کے ترجمہ نگاران، مقررین اور مصنفین ”اللہ“ کا ترجمہ خدا سے کرتے ہیں۔ آئیے ایک نظر خدا کی معنوی حیثیت پر ڈالتے ہیں۔
خدا: ”خود“ اور ”آ“ کا مرکب ہے۔(٧) جس کا معنی خود ہی آنے والا، موجود ہونے والا، واجب الوجود، الہ، مالک اور سردار وغیرہ کے آتے ہیں۔(٨)
اللہ کے بدلے خدا کے لفظ کو قبول کرنے سے لازم آئے گا کہ دنیا میں الٰہ اور معبود کے لیے رائج تمام الفاظ بلا امتیاز مسلک و مشرب استعمال کیے جائیں جیسے وشنو، دیوی، دیوتا، ایشور، برہما وغیرہ۔
(ب) غیروں کی مشابہت:
برصغیر کے مسلمان اپنے آپ کو جس طرح غیروں کی تہذیب و تمدن سے محفوظ نہیں رکھ سکے اسی طرح وہ زرتشت مذہب کے خدائے خیر”یزداں“ اور خدائے شر”اہرمن“ کی مشابہت لفظی کے شکار ہوگئے اور اللہ عزوجل کے بہترین ناموں کو چھوڑ کر لفظ ”خدا“ کو اپنے روزمرہ کا معمول بنا لیا جب کہ نبی ﷺ کا مشابہت بالغیر کے تعلق سے ارشاد ہے:
”من تشبۃ بقوم فھو منھم“(٩)
ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہے۔
(ج)نصوص شرعیہ کی مخالفت:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعا کے آداب اور اپنی ذات کے مخالف اسماء کی وضاحت کرکے حکم دیا کہ جو شخص ان امور سے بے اعتنائی کرے تو تم بھی اس سے لاتعلقی اختیار کرلو، ارشاد ربانی ہے:
(وَلِلّہِ الأَسْمَاء الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ أَسْمَآءِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ)(١٠)
ترجمہ: اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں پس ان کے ذریعے اللہ سے دعا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑدو جو اللہ کے نام میں الحاد کرتے ہیں، یہ لوگ عنقریب اپنے کیے کا بدلہ پائیں گے۔
قرآن وحدیث کے اندر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ کے ثابت شدہ اسماء حسنیٰ اپنی نگارشات و بیانات میں استعمال کریں کیوں کہ ان ناموں کے علاوہ کسی لفظ میں اللہ کے اسماء حسنیٰ کی ہمسری کی قوت نہیں جس کی وضاحت خود قرآن کرتا ہے:
(ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیّا)(١١)
ترجمہ: کیا تم اس (اللہ) کا کوئی ہم نام جانتے ہو۔
زمانہ بہت خراب ہے:
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آزمائش گاہ بنایا ہے وہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے دوچار کرکے آزماتا ہے، ارشاد ہے:
(وَنَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَالْخَیْْرِ فِتْنَۃً وَإِلَیْْنَا تُرْجَعُونَ)(١٢)
ترجمہ: اور ہم تمھیں برے اور اچھے حالات سے آزماتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف لوٹنے والے ہو۔
اس لیے آسائش سے پر اور پریشانی سے دوچار دونوں صورتوں میں اللہ کی حمدوثنا بیان کرنی چاہیے نہ کہ حالات کا رونا رویا جائے اور زمانے کو برا بھلا کہا جائے جیسا کہ مشرکین کا زمانہ جاہلیت میں شیوہ تھا جن کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ رب العالمین فرماتا ہے:
(وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُم بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ)(١٣)
ترجمہ: اور وہ (مشرکین) کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس دنیاوی زندگی ہے، یہیں مرتے ہیں اور یہیں جیتے ہیں اور ہمیں گردش ایام ہی ہلاک کر سکتا ہے، ان لوگوں کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، بے شک وہ محض گمان کرتے ہیں۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ لوگ زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ ان کی مذمت بالواسطہ اللہ رب العالمین کو پہنچتی ہے۔ یہ لوگ انجانے میں اللہ کو گالیاں دیتے ہیں کیوں کہ وہی مدبر الامور ہے اسی کے ذمہ دنیا وما فیہا کا نظم و نسق ہے گویا زمانہ پہ کلام کرنا اللہ پر کلام کرنے کے مترداف ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے:
”یؤذیني ابن آدم بسب الدھر وأنا الدھر أقلب اللیل والنھار.“(١٤)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم زمانہ کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتا ہے، کیونکہ میں زمانہ ہوں دن و رات کو الٹ پھیر کرتا ہوں۔
زمانہ کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے اور کامل توکل علی اللہ کے ساتھ دنیا و آخرت کی سرفرازی کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
شبھ دیپاولی (ہیپی دیوالی) یا میری کرسمس وغیرہ:
ان دنوں مسلم معاشرہ میں ہم وطن غیر مسلمین کے ساتھ رواداری اور حسن اخلاق کے نام پر ان کے تہواروں پر مبارک بادی کی مداہنت کا زور کافی تیز ہے۔ کچھ نام نہاد روشن خیال دانشوران اپنی دلی خواہشات کی تکمیل کے لیے اسلامی رواداری کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ یہ غیر مسلموں کے درمیان اسلامی دعوت و تبلیغ کا حسین موقع ہے، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ جس خوشامد کو وہ اسلام کی نشر و اشاعت قرار دیتے ہیں وہ دراصل اسلام کی بنیادوں کو مسمار کر دینے والا عمل ہے یا جس چیز کو وہ لوگ تعامل حسنہ کہہ رہے ہیں وہ شرک باللہ اور باطل نظریات پر رضامندی کی دلیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یہ حضرات طاغوت کو قابل پرستش اور اللہ رب العالمین کو صاحب اولاد ہونے پر شادیانے بجانے کا فرمان سنا رہے ہیں جو کہ صریح کفریہ عمل ہے۔
مسلمانوں کو ان امور کے سلسلے میں غور کرنا چاہیے، غیر مسلموں کی کسی بھی مذہبی تقریب پر مبارک بادی سے گریز کرنی چاہیے، دین کی تبلیغ اور قومی یکجہتی وغیرہ کے لیے پورا سال پڑا ہے آپ بلا تردد اس کار خیر میں سبقت کر سکتے ہیں۔
محاورات
بلائیں لینا:
عورتیں جب عرصے کے بعد کسی ایسے عزیز سے ملتی ہیں یا کسی بچے سے خوش ہوتی ہیں تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرکر اپنی کنپٹیوں پر دونوں ہاتھ کی انگلیاں رکھ کر چٹخانے یا کسی شخص کی مصیبت اپنے اوپر لینے کو بلائیں لینا کہتے ہیں۔(١٥)
اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں میں بہت سی بداعتقادگی ہندوانہ تہذیب سے درآئی ہیں انہی خرافات میں سے ایک عورتوں کا انگلیوں کے مخصوص انداز سے حرکت دینے سے سامنے والے شخص کی پریشانیوں کو اپنے نفس کی طرف منتقل کرنے یا اسے نظر بد سے بچانے کا فاسد اعتقاد ہے جو عقیدہ اسلامیہ سے متصادم ہے کیوں کہ اللہ جل شانہ نے اپنے علاوہ کسی نفس کے اندر اتنی قوت ودیعت نہیں کی کہ وہ کسی کی بلاؤں کو ٹال سکے، اللہ نے اس حقیقت کو قرآن میں واضح کیا ہے:
(وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ)(١٦)
ترجمہ: اور اگر اللہ تمھیں کوئی تکلیف میں مبتلا کر دے تو اس (اللہ) کے علاوہ کوئی دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ تمھارے لیے کوئی بھلائی چاہے تو اللہ کے فضل سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جس طرح کسی انسان کے اندر کسی کی پریشانی دور کرنے کی طاقت نہیں ہے بالکل اسی طرح اللہ کے فضل و انعام کو چھیننے کی قوت نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
”واعلم أن الأمۃ لو اجتمعوا علی أن ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشیء قد کتبہ اللّٰہ لک، ولو اجتمعوا علی أن یضروک بشیء لم یضرک إلا بشیء قد کتبہ اللّٰہ علیک“(١٧)
ترجمہ: اور جان لو کہ اگر پوری امت تمھیں کسی چیز کا فائدہ پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو تمھیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی سوائے اس چیز کے جو تمھارے لیے مقدر ہے اور اگر پوری امت تمھیں کسی چیز کا نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو وہ تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی الا کہ جو تمھارے لیے اللہ نے لکھ دیا ہے۔
جب یہ بات مسلّم ہے کہ قلق و اضطراب دور کرنا انسانی بساط میں نہیں ہے تو ہمیں باطل رسوم و رواج سے ناطقہ توڑ کر اپنا رشتہ دعائے ماثورہ سے جوڑنا چاہیے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کے حفظ و امان کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
محرم کی پیدائش:
زمانہ جاہلیت میں کفار و مشرکین جن مہینوں میں نحوست کا عقیدہ رکھتے تھے ان میں سے ایک ماہ صفر بھی تھا، لیکن اسلامی تعلیمات نے اس ضلالت و گمراہی کا قلع قمع کر دیا البتہ بددینی کی لہر نے نئے خدوخال میں بدشگونی کو ہوا دے کر ماہ صفر کی مانند محرم الحرام کو بھی نحوست زدہ کر دیا۔ اس رسمِ نو کی ترویج میں شیعوں کے ”یا علی“، ”یا حسین“ وغیرہ کے نعروں نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس مہینہ میں پیدا ہونے والے بچے کو منحوس خیال کیا جانے لگا اور ہر اس رنجیدہ، دکھی، غمگین اور رونی صورت والے شخص کو بطور استعارہ محرم کی پیدائش کہنے کا عام رواج چل پڑا۔(١٨) جب کہ یہ مہینہ اسلامی شریعت میں ایک عظیم مقام رکھتا ہے اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
(إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُم)(١٩)
ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہیں، جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ حرمت والے مہینوں کے اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
”السنۃ إثنا عشر شھرا منھا أربعۃ حرم، ثلاثۃ متوالیات ذو القعدۃ، وذو الحجۃ، والمحرم، ورجب مضر الذی بین جمادی و شعبان“(٢٠)
ترجمہ: سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم نیز رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔
نبیﷺ نے بلا تقیید مہ و سال ہر قسم کی بدشگونی کی نفی کی ہے اور اسے اشراک باللہ قرار دیا ہے۔ فرمان نبوی ہے:
”لا عدوی ولا طیرۃ“(٢١)
ترجمہ: چھوت چھات اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
”الطیرۃ شرک، الطیرۃ شرک ثلاثا وما منا إلا ولکن اللہ یذھبہ بالتوکل“(٢٢)
ترجمہ: بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، اسی طرح تین مرتبہ فرمایا ہم میں سے ہر شخص کے دل میں برا شگون پیدا ہونے کا امکان ہے، لیکن اللہ پر توکل کرنے سے یہ دور ہو جاتا ہے۔
عوام میں مہینوں کی طرح دنوں، موسم اور اشخاص کے تعلق سے بھی بدشگونی لینا عام ہے، عموماً سننے میں آتا ہے کہ ”کیا تیرے ہاتھ میں سنیچری ہوگیا؟“، ”ارے او بُدھنا“، ”آج کس کا منہ دیکھ کر اٹھے ہو؟“، ”کیا تیلی سے ملاقات ہو گئی تھی؟“ الی آخرہ جیسے جملے بولنے کا رواج چلا آرہا ہے اور ”خطائے بزرگاں گرفتن خطا است“ کے نظریہ نے اس روایت کو توڑنے کے بجائے تقویت دینے کا کام کیا ہے۔
مذکورہ گفتگو کا نچوڑ ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے نحوست کی غلاظت سے پاک رہنے کی کوشش کریں اور محرم کی پیدائش کے طور پر ”غم کی تصویر“ وغیرہ محاورات اپنی روزمرہ کے بول چال میں استعمال کریں۔
فاتحہ نہ درود مر گیا مردود:
شریر یا بدمزاج کی موت یا نااہل کا کسی چیز کو ضائع کر دینے پر بولتے ہیں۔ یہ محاورہ فاتحہ نہ درود کھاگئے مردود یا کھانے کو موجود کے لاحقے کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔(٢٣) اس محاورہ کی معنوی شاخیں مروجہ فاتحہ خوانی سے جڑی ہوئی ہیں جس کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے دور دور تک نہیں ملتا، بلکہ ”فاتحہ نہ درود مر گیا مردود“ کا بدعی تصور شریعت میں مردود ہے۔ حدیث نبوی ہے:
”من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد“(٢٤)
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین اسلام میں نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ(عمل) مردود ہے۔
اگر مذکورہ محاورہ بدعی، شرکی اور عقدی خرابی تک محدود ہوتا تو غنیمت تھا، لیکن اس میں شرک و بدعت سے بے زار موحد کا تمسخر اڑایا گیا ہے اور مسخرے پن کا یہ سلسلہ جنت و جہنم، داڑھی ٹوپی، صلاۃ و صوم، اللہ اور اس کے رسول تک دراز ہے۔ شعر و شاعری اور محاورات و تلمیحات میں دین کی ٹھٹھے بازی کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جیسے مرزا غالب کا ایک شعر ہے:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور دوسرے محاورات جیسے ”چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ“، ”ملا کی دوڑ مسجد تک“، ”سو چوہے کھاکر بلی چلی حج کو“، ”چور کی داڑھی میں تنکا“ علی ہذا القیاس۔
افسوس کہ عوام الناس اس تعلق سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین کو بھول کر ادیبوں اور شاعروں کی فکری لغزشوں کو آج تک مہمیز دے رہے ہیں اور دین کے احکام و شرائع کا دھڑلے سے مذاق اڑا رہے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
(وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خَالِدُونَ. تَلْفَحُ وُجُوہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیْہَا کَالِحُونَ. أَلَمْ تَکُنْ آیَاتِیْ تُتْلَی عَلَیْْکُمْ فَکُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ. قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْماً ضَالِّیْنَ. رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ. قَالَ اخْسَؤُوا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُونِ.إِنَّہُ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْْرُ الرَّاحِمِیْنَ. فَاتَّخَذْتُمُوہُمْ سِخْرِیّاً حَتَّی أَنسَوْکُمْ ذِکْرِیْ وَکُنتُم مِّنْہُمْ تَضْحَکُونَ. إِنِّیْ جَزَیْْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّہُمْ ہُمُ الْفَاءِزُونَ)(٢٥)
ترجمہ: جس کا ترازو ہلکا ہوگا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنا گھاٹا کرلیا اور ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، ان کے چہرے آگ میں جھلستے ہوں گے اور چہرے بگڑ جائیں گے، کیا میری آیتیں تمھارے اوپر تلاوت نہ کی گئیں جسے تم نے جھٹلا دیا وہ کہیں گے اے ہمارے پالنہار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ قوم تھے، ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم (گناہوں) کا اعادہ کریں گے تو ہم ظلم کرنے والے ہوں گے۔ (اللہ) کہے گا: ذلیل ہو جاؤ اور مجھ سے گفتگو نہ کرو، بے شک میرے بندوں کی ایک جماعت کہتی تھی اے میرے رب ہم ایمان لائے ہماری مغفرت فرمادے اور رحمت نازل کر تو ہی بہت رحم کرنے والا ہے تو تم(مشرکین) نے ان کا تمسخر کیا جو تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم ان کا کھِلِّی اڑاتے رہے، میں نے آج ان کو ان کے صبر کا بدلہ دیا ہے، بے شک وہ کامیاب لوگ ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ استہزاء باللہ وآیاتہ کی شدت کو سمجھیں اور گفتگو کے درمیان احتیاط برتیں۔
چڑھتے سورج کی پوجا کرنا:
جس کو اقتدار حاصل ہو اس کی ہاں میں ہاں ملانا اور حق ناحق دیکھے بغیر طاقتور کا ساتھ دینے کو ادبی ٹولہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے سے تعبیر کرتا ہے۔(٢٦)
اس کہاوت کو بولتے وقت اگرچہ اس کا ظاہری معنی جس کے لفظ لفظ سے شرک رِس رہا ہے اور اس کی قباحت کا احساس تک نہ ہو، بہرکیف اس قسم کی بے ہنگم باتیں جہنم کے گڑھے تک لے جا سکتی ہیں۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
”إن العبد لیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللّٰہ لا یلقی لھا بالاً یرفعہ اللّٰہ بھا درجات وإن البعد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللّٰہ لا یلقی لھا بالا یھوی بھا فی جھنم“(٢٧)
ترجمہ: بے شک ایک شخص اللہ کی خوشنودی کے کلمات ادا کرتا ہے جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا اللہ اس کلمہ کے ذریعہ اس کے درجات بلند کرتا ہے اور وہ شخص جو اللہ کی ناراضگی کے کلمات زبان سے نکالتا ہے جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اسی کلمے کی وجہ سے جہنم واصل ہوگا۔
اردو میں ایسے بے شمار الفاظ اور جملے پائے جاتے ہیں جن کا احصا عقیدہ کی خدمت میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔ یہاں پر چند الفاظ اور جملوں کا ضمناً تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
اسماء:
غلام نبی، غلام رسول، عبد النبی، غلام یاسین، رضاء الحسن، معین اللہ، کلب صادق، کلب جواد وغیرہ۔
القاب:
ظل الٰہی، ظل سبحانی، داتا گنج بخش، دستگیر، غوث اعظم، قادر، متصرف وغیرہ، اسمائے حسنیٰ کو عبدیت کے اضافے کے بغیر استعمال کرنا، انبیاء کے علاوہ دوسرے اشخاص کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ اور صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ یا اسی طرح ”مد ظلہ العالی“،”قدس اللہ سرہ“،”صاحب قبلہ وکعبہ“ وغیرہ کا لاحقہ۔
ہندوانہ عقائد سے مستعار:
”بھارت ماتا کی جے“ یا کسی بھی لفظ کے ساتھ لفظ ”ماتا“ یا ”بھکتی“ کا اتصال، بھاگ وداتا، وندے ماترم، نمسکار، ست سری اکال، بھوت، پریت، ڈائن، “دھرتی کے ذرے ذرے میں بھگوان کا روپ ہے”، “خدا آپ کو سدا جیوت رکھے”، جنم جنم کا ساتھ۔
منادی:
باپ رے باپ، یا علی مدد، اے نبی! تیری پناہ۔
تقدیر پر بے اعتمادی:
مقدر کا چکر، مقدر کا ہیٹا، ہماری دعا کو نبی ﷺ کے صدقہ طفیل میں قبول فرمالے، فلاں ڈاکٹر کی دوا سے شفا مل جاتی ہے، دایاں آنکھ پھڑکنا۔
متفرقات:
اللہ کو حاضر و ناظر مان کر بولنا، دن عید اور رات شب برأت، ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف، خدا دل کے اندرونی احساسات کا نام ہے، ہم اور آپ دونوں ایک ہی ذات کی پوجا کرتے ہیں صرف نام کا اختلاف ہے، ظاہر اللہ باطن اللہ، قرآن مخلوق ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ زبان و بیان میں ایسے جملوں کا انتخاب کیا جائے جو ظاہری و معنوی دونوں سطح پر صاف و شفاف ہوں اور اسلامی عقیدے سے ہم آہنگ ہوں۔
(١) الحديد: ٢٢-٢٣
(٢) صحیح مسلم، کتاب القدر ، باب في الأمر بالقوة و ترك العجز (٢٦٦٤)
(٣) لغات کشوری از تصدق حسین، ص :٢٣٤
(٤) فرہنگ آصفیہ از سید احمد دہلوی، ١٢٨٤/٢ و فرہنگ عامرہ از محمد عبد اللہ خاں خویشگی، ص:٢٨٦
(٥) صحیح مسلم، کتاب الإيمان ، باب تحریم الكبر و بيانه (٩١)
(٦) صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب تحریم التسمي بملک الأملاک وبملک الملوک.(٢١٤٣)
(٧)غیاث اللغات از مولانا غیاث الدین، ص: ٢٥٩
(٨) فرہنگ آصفیہ از سید احمد دہلوی، ٨٤٤/١
(٩) سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرۃ(٤٠٣١)
(١٠) الأعراف:١٨٠
(١١)مریم: ٦٥
(١٢)الأنبیاء:٣٥
(١٣) الجاثیہ:٢٤
(١٤) صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الجاثیۃ، باب وما یھلکنا إلا الدھر(٤٨٢٦)
(١٥) نور اللغات از مولانا نور الحسن نیرکارکوری، ٦١٨/١
(١٦) یونس: ١٠٧
(١٧) سنن الترمذي، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (٢٥١٦)
(١٨) نور اللغات ٥٠١/٤ ، و فیروز اللغات اردو از مولوی فیروز الدین، ص: ١٢١٢
(١٩) التوبہ: ٣٦
(٢٠) صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی سبع أرضین.(٣١٩٧)
(٢١)صحیح بخاری، کتاب الطب، باب الطیرۃ.(٥٧٥٣)
(٢٢)سنن أبی داود، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ (٣٩١٠) صححہ الألبانی رحمہ اللّٰہ.
(٢٣)نور اللغات ٥٦٢/٣ ، و فیروزاللغات اردو، ص:٩٢١
(٢٣) صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحو علی صلح جور. (٢٦٩٧)
(٢٤) المومنون: ١١١-١١٣
(٢٥)علمی اردو لغت از وصی اللہ کھوکھر، ص: ٤٨١
(٢٧) صحیح البخاري، کتاب الرقائق، باب حفظ اللسان(٦٤٧٨)
ما شاء اللہ بہت عمدہ تحریر۔ پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ اللہ عبد الرحمن عالمگیر سلفی کے اندر تحریر کا یہ جذبہ باقی رکھے اور مزید توفیق دے۔
ماشاءاللّٰہ
بہت ہی بہترین مضمون ہے جسکے اندر حقیقت کی عکاسی کی گئ ہے ۔
اللّٰہ قبول فرمائے ۔آمین یارب
masha allah allah aap ko aur bhi ilm ki daulat se maala maal karde ameen
ماشاء اللہ
بہت ہی عمدہ مضمون قلمبند کیے ہیں ۔وقت کی اہم ضرورت پوری ہوئی