پوری دنیا میں اسلام دشمنی زوروں پر ہے۔ مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ گاہے بگاہے ان پر بلاوجہ کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ بےقصور نوجوانوں سے جیل کی کوٹھری بھری جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اسلاموفوبیا کے زیر اثر ہو رہا ہے۔اسلاموفوبیا یہ دو لفظ اسلام اور فوبیا کا مرکب ہے۔ جس کا معنی اسلام اور مسلمانوں سے خواہ مخواہ خوف زدہ ہونا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے۔(۱)
یہ لفظ اسلام کے ساتھ مل کر پچھلی کئی دہائیوں سے استعمال ہو رہا ہے البتہ اس کا عام استعمال 11/9 کے بعد سے کثرت سے ہونے لگا ہے۔(۲)
لیکن اسلامی تہذیب سے ڈرنا، مسلم گروہوں سے ہراساں ہونا، اسلام کے خلاف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی ذہن سازی کرنا، ان کے قلوب و اذہان میں ایسا ڈر پیدا کرنا جو لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت و عداوت پرابھارے، مسلمانوں کو غلط الزامات سے متہم کرنا اور اور پروپیگنڈہ کرنے کی تاریخ لفظ اسلاموفوبیا سے کافی قدیم ہے۔
اسلام کے روز اول سے چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی کشمکش جاری رہی ہے۔ چاہے وہ دارالندوہ کی میٹنگ ہو، صلیبی جنگیں ہوں، یا برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور بھارت میں ماب لنچنگ؛ تمام کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا اللہ کی وحدانیت پر اقرار ہے۔ جب تک مسلمان اسلام پر قائم رہیں گے ان سے کسی نہ کسی صورت میں دنیا برسرِ پیکار رہے گی۔(۳) مسلمانوں سے شدید درجہ کی دشمنی کرتی رہے گی (۴) الا یہ کہ یہ ان کی تہذیب و ثقافت میں ضم ہو جائیں۔(۵) اس طرز عمل کو چاہے کوئی بھی نام دے دیا جائے۔ اسے اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ردعمل کہا جائے، یا مسلمانوں کی تاریخی غلطیوں کا نتیجہ سمجھا جائے یا اسلاموفوبیا کا مظہر تصور کر لیا جائے۔ بہر کیف مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے اور ان کی تعداد کو کم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
بھارت میں اسلاموفوبیا
ہندوستان شروع سے ہی ذات پات کے طبقاتی نظام سے جکڑا ہوا تھا۔ جس میں اعلی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو غلام سمجھتے تھے۔ ان پر ظلم و ستم کرنا اور بغض و عداوت عام بات تھی۔ وہ چاہ کر بھی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔ عبادت یا مذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کے لیے ممنوع تھا۔ ویدوں کے مطابق انسان پورے ایک جسم کی مانند ہے۔ اس کا سر برہمن ہے۔ اس کے بازو چھتری ہیں۔ اس کے ران ویشو اور پاؤں شدر ہیں۔(۶) اسی ترتیب کے لحاظ سے ان کا معاشرے میں مقام و مرتبہ تھا اس لیے ہندوستان کے لوگ قدیم دور سے آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔ اعلیٰ ذات والے اپنے سے کمتر لوگوں سے اور نچلی ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے ظلم و ستم کی وجہ سے انھیں پسند نہیں کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں اسلام آیا اور اس کے نظام عدل میں سب کے لیے یکساں مقام و مرتبہ دیکھ کر ہندوستانیوں کو یہ انوکھی چیز معلوم ہوئی۔ جس کے بعد بہت سارے لوگ مشرف بہ اسلام ہو کر اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں آ کر سکون محسوس کرنے لگے۔ ایک بڑی تعداد کے تبدیلئ مذہب سے ’’مہابھارتی‘‘ آگ بگولہ ہوگئے اور ان نچلی ذات سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی اسی نوعیت کی عداوت رکھنے لگے۔ یہیں سے ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی شروعات ہوتی ہے۔ یعنی جب سے مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے ان سے نفرت و عداوت کی فضا بن گئی تھی۔ میں ان لوگوں سے ہرگز متفق نہیں ہوں جو اسلاموفوبیا کا سرا 2014 سے جوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ سیاسی جانبداری کے شکار ہیں۔ انڈیا کی اونچی ذاتوں کی فطرت میں اپنے علاوہ دوسروں سے نفرت کرنا تھا۔ گاندھی جیسے شخص بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکے۔(۷) البتہ 1915 سے بتدریج اسلاموفوبیا بڑھا ہے۔ 1915 میں ہندو سبھا کا قیام، 1923 میں ساورکر کی ہندوتو نامی کتاب کی اشاعت، 1925 میں آر ایس ایس کا گٹھن اور 1939 میں گولوالکر کی تصنیف We or Our Nationhood Defined سے مسلم دشمنی ایک نئے رنگ و روپ میں شروع ہوئی۔ جس میں قومیت اور حب الوطنی کا پیمانہ ہندومت سے وابستگی ہے۔(۸) اور ہندو نہ ہونا ملک سے غداری کی علامت ہے۔ گولوالکر لکھتا ہے:
Those only are nationalist patriots, who, with the aspiration to glorify the Hindu race and Nation next to their heart, are prompted into activity and strive to achieve that goal. All others are either traitors and enemies to the National cause, or, to take a charitable view, idiots.(۹)
اس کے مطابق ہندوستان میں ہندوؤں کے علاوہ اگر کوئی رہنا چاہتا ہے تو وہ اس وقت تک ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ سکتا ہے جب تک یہ اسے حقوق شہریت سے محروم رکھ کر غلام کی طرح رکھنا چاہیں یا پھر دوسری صورت یہ کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت میں ضم کر لے۔(۱۰) گولوالکر وہ شخص ہے جس سے نریندر مودی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ مودی نے گجراتی زبان میں ایک کتاب جیُوتی پنج نامی ان سولہ اشخاص کے بارے لکھا جن سے وہ متاثر تھے اور اس میں گولوالکر کی سوانح عمری کو سب سے زیادہ تفصیل سے ذکر کیا ہے۔(۱۱) جو شخص ایسے آدمی سے متاثر ہو اس کے اسلاموفوبیا کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نریندر مودی یا پورے ہندوستان کی عوام یوں ہی اچانک Radicalize نہیں ہوگئی بلکہ سالوں سے نفرت کرنے کی مختلف شعبوں میں کھیتی کی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مختلف النوع لوگوں کی الگ الگ انداز میں مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی گئی ہے۔ اگر آپ صرف آر ایس ایس کی قائم کردہ تنظیموں کی لسٹ اور ان میں دی جا رہی تعلیم و تربیت پر نظر ڈالیں گے تو دنگ رہ جائیں گے۔ اگلے چند سطور میں کچھ تنظیموں کے نام سن قیام کے ساتھ ذکر کیے جا رہے ہیں:
1936 راشٹریہ سیویکا سمیتی: آر ایس ایس کا خواتین ونگ (۱۲)
1949 اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی): طلبہ ونگ(۱۳)
1952 سرسوتی ششو مندر: نرسری اسکول(۱۴)
1954 ون واسی کلیان آشرم دلتوں کی تربیت اور ان کی ذہن سازی کے لیے قائم کیا گیا تھا(۱۵)
1955 بھارتیہ مزدور سنگھ(۱۶)
1964 وشو ہندو پریشد: گولوالکر کی ہندو مذہب کی حفاظت کے لیے قائم کردہ تنظیم ہے۔ آر ایس ایس کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اسے لوگوں کے مذاہب کو تبدیل کرکے ہندو بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔(۱۷) یہ تنظیم گئورکھشا کے نام پر قتل وغارت گری کرنے اور بابری مسجد کے انہدام میں پیش پیش رہ چکی ہے۔(۱۸) اسے CIA امریکا نے 2018 میں مذہبی جنگجو تنظیم قرار دیا تھا۔(۱۹)
1972 اکھل بھارتیہ گراہک پنچایت(۲۰)
1977 ودیا بھارتی: 2016 کی رپورٹ کے مطابق اس کے تحت 12,000 اسکول 250 انٹرمیٹییٹ کالج، 25 اعلیٰ تعلیمی مراکز اور کئی سارے تعلیمی ادارے ہیں۔ جن میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب خصوصاً مسلمان طلبہ بھی پڑھتے ہیں۔(۲۱)
1978 اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا: ہندوستانی تاریخ کو نئے سرے سے ہندوتوا بنیادوں پر مرتب کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔(۲۲)
1982 ہندو جاگرن منچ: ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنے کا کام کرتی ہے۔ دو ہزار چودہ میں 50 مسلم خاندانوں کو جبراً تبدیلئ مذہب کے لیے سرخیوں میں رہ چکی ہے۔(۲۳)
1986 راشٹریہ سکھ سنگت: سکھوں کی ذہن سازی کے لیے قائم کیا گیا۔(۲۴)
1986 آر ایس ایس کے اصولوں اور اس سے انسپائر ’’سنکلپ‘‘ کے پورے انڈیا میں 11 کوچنگ سینٹر ہیں۔ اس کا دراصل قیام انٹرویو گائیڈنس کے طور پر ہوا تھا پھر 2001 سے باضابطہ کوچنگ دی جانے لگی، آج بھی ان کے کوچنگ کے علاوہ دوسرے طلبہ بڑی تعداد میں انٹرویو کی ہدایت لینے آتے ہیں۔ یہ اگرچہ خود کو کسی تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس کے تمام ذمہ داران آر ایس ایس اور بی جے پی سے منسلک ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما ان کے پروگراموں میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لاتے ہیں، موقع بموقع کوچنگ سینٹروں پر ایسے لوگوں کے بیانات ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں سے ہر سال بڑی خاموشی سے سینکڑوں افراد بیوروکریسی میں جا رہے ہیں۔ 2019 میں 466 طلبہ جو کل تعداد کی 61.39٪ تھی۔ اور 2018 میں 651 طلبہ جو کل تعداد کی 65.75٪ فیصد تھی۔ اسی توازن سے سالہا سال بچے آئی پی ایس اور آئی اے ایس بن رہے ہیں۔(۲۵)
1988 اکھل بھارتیہ راشٹریہ شکچھک مہا سنگھ: اس تنظیم کی ماتحتی میں اساتذہ کی ایسی تربیت کی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے عملی زندگی میں بچوں کو ہندوانہ طور طریقے کے مطابق ڈھال سکیں۔ ویسے تو اس سے جڑے ہوئے اساتذہ ہندوستان کے تمام مرکزی اداروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی کوشش ہے کہ ابتدائی کلاسوں سے لے کر اعلی تعلیمی درجات کے ہر شعبہ میں ان کا اپنا ایک سینٹر ہو۔ جس کے لیے ان کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے کئی ریاستوں کے وزرائے اعلی کے ساتھ کلوزڈ ڈور میٹنگیں بھی کی ہیں تاکہ ان کے مقاصد سرکاری سرپرستی میں مکمل ہوں۔ جیسا کہ 23 اگست 2018 کی اتراکھنڈ کے وزیر اعلی کے ساتھ میٹنگ کی خبریں موضوع بحث بنی تھیں۔(۲۶)
1991 درگا واہنی: وشو ہندو پریشد کا خواتین ونگ(۲۷)
1992 اکھل بھارتیہ ادِھوکتا پریشد: وکلاء کی تنظیم(۲۸)
1993 اکھل بھارتیہ پوروَ سینک سیوا پریشد: ریٹائر فوج کی خدمات حاصل کرنے کے لیے(۲۹)
2002 مسلم راشٹریہ منچ: مسلمانوں کو ہندوتوادی فکر کا ہم خیال بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔(۳۰)
2012 بھارتی گئو رکھشا دل(۳۱)
2020 رجّوبھیّا سینیک ودیا مندر: یوں تو آر ایس ایس اپنی شاکھاؤں میں ہتھیاروں کی ٹریننگ دیتی رہی ہے۔ البتہ اب باقاعدہ اپریل 2020 سے ان کا آرمی اسکول شروع ہو چکا ہے۔ کورونا کی وجہ سے اب تک ایڈمیشن کی کارروائی جاری ہے۔(۳۲)
اوپر صرف چند ایسی تنظیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا براہ راست آر ایس ایس سے تعلق ہے۔ جن میں تنظیم کے عنوان پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ممبران کے ذہن میں مسلم دشمنی کو اتارا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس کے معیار کے مطابق کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریڑھی والے سے لے کر اعلیٰ عہدیداران تک تمام لوگ اسلاموفوبک ہیں۔ آج جو قانون رہتے ہوئے قانون نہ رہا اور عدالت مجبور و بے اثر ہوگئی یہ اسی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
بھارت میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے مظاہر
انڈیا میں اسلاموفوبیا معاندانہ رویہ اختیار کر چکا ہے۔ مسلمانوں کی شناخت سے لے کر ان کے وجود کے خاتمہ کی سعی کی جارہی ہے۔ ان کی تاریخ سے لے کر ذاتی زندگی تک داؤ پر ہے۔ مسلم پہچان کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے۔ دہلی کی میونسپل کونسل نے 2 ستمبر 2015 کو وہاں کے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرکے عبدالکلام روڈ کردیا۔(۳۳) یوپی حکومت نے 5 اگست 2018 کو مغل سرائے جنکشن کا نام آر ایس ایس کے رہنما کے نام پر پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن،(۳۴) 16 اکتوبر 2018 کو الٰہ باد کا نام پریاگ راج(۳۵) اور 6 نومبر 2018 کو فیض آباد کا نام ایودھیا سے تبدیل کر دیا۔(۳۶) اسی طرح ہریانہ میں 2 فروری 2016 کو مصطفیٰ باد کا نام سرسوتی نگر رکھ دیا گیا۔(۳۷) اسی طریقے پر گجرات، مہاراشٹر اور دیگر صوبوں میں جگہوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔ اور بہت سارے تبدیل ہونے کے لیے ’’شبھ مہورت‘‘ کے انتظار میں ہیں۔
باریش مردوں اور باپردہ عورتوں کو ملازمت سے بے دخل کر دیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو سوسائٹی اور اپارٹمنٹ میں گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔(۳۸) ان کو ٹوپی اور داڑھی کی وجہ سے ہوٹلوں سے نکال دیا جاتا ہے۔(۳۹) انڈین ائیر فورس کے انصاری آفتاب احمد نے عدالت میں 24 فروری 2003 سے 10 دسمبر 2016 تک داڑھی رکھتے ہوئے ملازمت کے لیے پیروی کی لیکن انڈین ایئر فورس نے سپریم کورٹ کو یہ کہتے ہوئے ملازمت کی اجازت نہیں دی کہ ’’صرف ان لوگوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت مل سکتی ہے جن کے مذہب میں واضح طور پر بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہو، جبکہ اسلام میں یہ ایک اضافی معاملہ ہے اور دنیا کے مسلمان کی اکثریت داڑھی نہیں رکھتی ہے‘‘۔(۴۰) بعینہٖ علی گڑھ یونیورسٹی کی سابق کیبنیٹ ممبر غزالہ احمد کو 2 ستمبر 2020 کو ایک ہندی نیوز پورٹل میں اینکر کی ملازمت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس سے کہا گیا کہ’’یہ ہندوستان ہے۔ یہاں کسی بھی براڈکاسٹ میڈیا میں حجابی صحافی کام نہیں کرتی۔ اگر نوکری چاہیے تو حجاب اتارنا ہوگا‘‘۔(۴۱) اس قسم کے کئی معاملے روز بروز پیش آتے رہتے ہیں۔ کتنوں کو جمعہ کی دو رکعت نماز پڑھنے کی وجہ سے کالج سے نکال باہر کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں جیسا کہ 4 مئی 2018 کو سَنیُکت ہندو سنگھرش سمیتی نے دس کھلی جگہوں پر ہورہی جمعہ کی نماز کو رکوا دیا تھا۔ جب یہ لوگ گڑگاؤں سیکٹر 53 میں نماز رکوانے آئے تو مسلمانوں کی نماز مکمل کرنے کی درخواست پر مارنے پیٹنے پر آمادہ ہوگئے۔(۴۲)
آج کل بم دھماکوں کی آوازیں بعد میں آتی ہیں۔ پہلے یہ الزام لگتا ہے کہ یہ کسی مسلمان نے کیا ہوگا۔ جب معلوم پڑتا ہے کہ کوئی بم دھماکا ہوا ہی نہیں تھا تو اشتعال انگیزی، ملک مخالف اور غیر قانونی ایکٹویٹی کے مفروضہ جرم میں معصوم نوجوانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے پھر ان معصوموں کی بازیابی کے لیے احتجاج و مظاہرے بھی دہشت گردی کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ جبکہ کھلے عام ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔‘‘ کی تلقین کرنے والوں پر کچھ نہیں ہوتا۔ 23 فروری 2020 کو کپل مشرا کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دہلی دنگا کا الٹی میٹم دینے کو نظر انداز کردیا گیا۔(۴۳) یہی پولیس ایک روز بعد 24 فروری کو دنگائیوں کو اکساتے ہوئے کہتی کہ’’جو چاہو کر لو‘‘ اور خود وہاں تماشائی بنی کھڑی رہتی ہے۔(۴۴) بلکہ بنفس نفیس دنگا میں شریک رہتی ہے۔ جب نگہبان ہی انتہا پسند ہو جائے تو پھر کیا کہنے۔ کچھ نے تو جنسی درندگی کا بھی مظاہرہ کیا اور پولیس ان کے ساتھ مل کر اپنے جنسی اعضاء کا مظاہرہ کر رہی تھی۔(۴۵) اس طرح ریاست کے زیر اہتمام دہشت گردی میں 55 لوگوں کی موت، 14 مساجد جن میں سے چند ایک کے ساتھ مشترک مدرسہ بھی تھا، 4 مستقل مدارس، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کو شدید نقصان پہنچایا گیا(۴۶) اور قرآن کریم کے نسخوں کو جلایا گیا۔(۴۷) اس کے علاوہ ماب لنچنگ کا طویل سلسلہ ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی ناچاقیوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ چوری، بچہ کے اغوا، گائے کا گوشت کھانے، بین المذاہب شادی اور جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے کے الزام میں 200 سے زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بچہ کے اغوا اور چوری کے الزامات جھوٹے ہیں۔ بفرض محال یہ واقعات سچے بھی ہوئے تو یہ دو اشخاص کے آپسی معاملات تھے جسے دو قوم کا فرقہ وارانہ مسئلہ بنا کر معصوموں کی جان لی گئی ہے۔ اس طرح اور بھی ایشوز ہیں جیسے مدارس، علماء اور دعاۃ کے ساتھ ناروا سلوک، ان کو دہشت گرد کہنا، ان کی تہذیب و ثقافت پر زبانی حملہ کرنا، ان کے تہواروں کو نشانہ بنانا، مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنا، ان کے شرعی معاملات جیسے چار شادیاں، طلاق اور خلع وغیرہ پر بھدے تبصرے کرنا، مسلم بادشاہوں کو ظالم وجابر ٹھہرانا، ان کے تعمیری کارناموں کو مشکوک بتلانا، مسلم ہیروز کے سوانح حیات کو نصاب سے خارج کر دینا، شریعت کی پامالی کو اظہار رائے اور اسلامی احکامات کی پاسداری کو مذہبی جبر کہنا، اسلام پر عمل کرنے والوں کو طنزیہ ملّا و مولوی سے بڑھ کر بنیاد پرست اور انتہا پسند کہنا اور انھیں اپنی مرضی کے اسلام پر چلنے کے لیے ابھارنا جیسے صوفی اسلام، معتدل اسلام اور لبرل اسلام کی نئی نئی اصطلاحات کی ایجاد کرنا۔ ان مستقل اعتراضات کی بوچھار کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ پہلے سے اسلام سے برگشتہ تھے وہ تو تھے ہی لیکن ان جھوٹے الزامات کی وجہ سے دوسرا صاف شفاف ذہن بھی پراگندہ ہو رہا ہے۔ اس کی زد میں صرف غیر مسلم ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ پہلے صرف غیر مسلمین اسلام کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ اب ان کا ساتھ دینے کے لیے ماڈرن مسلموں کی نئی کھیپ تیار ہو چکی ہے۔ پہلے ایک سلمان رشدی تھا۔ اب سلمان رشدیوں کی قطار لگ چکی ہے۔ یہ تمام چیزیں اس بدلتے سماجی عارضہ کا مظہر ہیں جسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔ اگر اب بھی لوگوں کو خطرے کا طبل سنائی نہیں دیتا تو وہ بہرے ہیں۔
اسباب
آئیے اب دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اتنی تیزی سے بڑھتے اسلاموفوبیا کے پیچھے کون سے اسباب ہیں۔ پچھلے صفحات میں اس کے چند بنیادی اسباب ضمناً ذکر کر دیے گئے ہیں۔ جیسے مسلمانوں کا اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا، ہندوتوا، آپسی معاملات کو فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھنا، ہندو مسلم دونوں عوام کی بڑے پیمانے پر ذہن سازی، پولرائزیشن، مستقل غلط بیانی اور بے بنیاد اعتراضات۔ اس کے علاوہ مزید دوسرے اسباب کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:
ہندوؤں کی ذہنیت
ہندوؤں کے مذہب میں اتنی خرابیاں ہیں کہ لوگ اگر اس کی تعلیمات پر سرسری نگاہ بھی ڈالیں گے تو وہ اس سے متنفر ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ ہندومت کو ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلیں۔ اس لیے ان کے مذہبی رہنماؤں اور ذات پات کی تفریق کے مدعیان نے اپنے مذہب کے دوسرے ہم پایہ مذاہب کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں۔ چونکہ تمام مذاہب میں سے سب سے بڑا مد مقابل اسلام ہی تھا۔ اس لیے اس کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا گیا۔ جس کے باعث لوگ اسلام اور مسلمانوں سے بدظن اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے۔ اگرچہ یہ وقتی طور پر لوگوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روک سکے لیکن ہندومت کی گمراہیاں ہندوؤں کو الحاد کے گود میں جانے سے نہیں روک پا رہی ہیں۔ آج ہندوؤں کی اکثریت خود کو سیکولر ہندو کہلوانا پسند کرتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو خود کو کٹر ہندو کہتے پھرتے ہیں۔ وہ بھی چند رسم و رواج کے علاوہ ہندومت کی بیش تر تعلیمات کو ناقابل عمل مانتے ہیں۔
میڈیا
ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں میڈیا کی مختلف جہتوں نے الگ الگ انداز میں اسلامو فوبیا پھیلانے کا کام کیا ہے۔
پرنٹ میڈیا
انڈیا میں پرنٹ میڈیا کے شعبے میں ہندی اخبار بڑے پیمانے پر جانبدارانہ رپورٹنگ اور خبروں پر تجزیہ کرتی ہے۔ خبروں اور سرخیوں کو اس انداز میں ڈھالا جاتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے جذبات کے موافق ہوں اور جب خبریں ہندو مسلم مسائل سے جڑی ہوں تو اخبار ایک خاص فریق کا طرفدار اور اس کی نیابت کرتا نظر آتا ہے۔ ہندو تہواروں پر ہندی اخباروں کا ایسا منظر ہوتا ہے گویا یہ اخبار نہ ہوں بلکہ کوئی مذہبی روزنامچہ ہو اور یہ ہندی نہیں بلکہ ’’ہندو اخبار‘‘ ہو۔ یہ رویہ اگر کسی خاص مذہبی، رفاہی یا سیاسی تنظیم کا آرگن اپناتا تو معاملہ تشویش ناک نہ ہوتا کہ اپنے ادارے کے افکار کی نمائندگی کر رہا ہے لیکن یہی کام سارے لیٹنگ ہندی نیوز پیپر کرنے لگے تو اس کا غلط اثر عوام کے ذہن پر پڑتا ہے اور پھر یہ اسلاموفوبیا کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا
پورے ملک میں پرائیویٹ نیوز چینل اور فلم انڈسٹری نے مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی ہے۔ جب تک پرائیویٹ نیوز چینل نے خبر رسانی میں قدم نہیں رکھا تھا اور صرف حکومت کی جانب سے دور درشن اکیلا چینل تھا تو ٹی آر پی کی لڑائی میں فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ پھر جب اس میدان میں پرائیویٹ نیوز چینل آئے تو ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی لیکن جوں جوں ان میں تجارتی عنصر غالب آتا گیا توں توں ان کی صورتیں بگڑنے لگیں۔ ان کے پروگرام ریٹنگ کی بنیاد پر تیار کیے جانے لگے، مشمولات جتنے سطحی ہوتے ہیں اسے اتنی زیادہ ریٹنگ ملتی ہے۔ پھر اسی ریٹنگ کے بقدر اشتہارات ملتے ہیں اور ریٹنگ کی بنیاد پر ہر سیکنڈ کی قیمت لگتی ہے۔ دراصل ریٹنگ براڈکاسٹ آڈِیَنس ریسرچ کونسل (BARC) کی جانب سے ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ (TRP) دیے جاتے ہیں۔ اس کا تعین مشاہدین کی تعداد اور ان کا چینل پر گزارے گئے اوقات پر ہوتا ہے۔(۴۸) اسی لیے ہر چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ ناظرین کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنے پاس روکے رکھیں، وہی پروگرام اور رپورٹ پیش کریں جو اکثریت کے مزاج کے موافق ہو اور وہ اسے پسند کریں۔ لہذا اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ملک کے منظرنامے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نیوز چینل اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے انداز و اطوار میں بھی بدلاؤ آئے۔
فلم انڈسٹری
ذرائع ابلاغ میں فلم پیغام رسانی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ یہ معاشرے کے ناخواندہ طبقہ سے لے کر دانشور گروہ تک کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔ اسے غریب سے غریب شخص اور امیر سے امیر ترین فرد بھی دیکھتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ صرف ابلاغ وترسیل کا ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ کامیاب تجارتی میدان اور نظریاتی جنگ کا وسیلہ ہے۔ اسی کے پیش نظر فلموں میں وہی کانٹینٹ پروسا جاتا ہے جس کی زیادہ مانگ ہو۔ اور ان مضامین پر زیادہ فلمیں بنائی جاتی ہیں جسے عوام کی اکثریت پسند کرے۔ اسی لیے جب معروف فلم ہدایت کار مہیش بھٹ سے نومبر 2011 کو پیس کانفرنس، ممبئی میں پوچھا گیا کہ اسلام کو فلموں میں اچھے انداز میں کیوں نہیں پیش کیا جاتا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’’فلم انڈسٹری ایک دوکاندار کی مانند ہے وہ وہی چیز بیچتی ہے، جسے لینے والے خریدار موجود ہوں۔ جہاں تک بات رہی اسلام کو اچھے انداز میں فلموں میں پیش کیے جانے کی یا مسلمان پر بیت رہی حالات کی عکاسی کی تو ایسی فلمیں باکس آفس پر نہیں چلتیں۔ میں نے بھی زخم (1998) اور دھوکہ (2007) جیسی فلمیں 92-93 کے حالات کو مدنظر رکھ کر بنائی لیکن لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا۔‘‘(۴۹)
مہیش بھٹ کی بات درست ہے کہ ایسی فلمیں اچھا بزنس نہیں کر پاتیں، مزید یہ کہ ایسی فلمیں بنانے والوں کو اسلامسٹ یا جہادی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ جس کے پیش نظر فلم کاروں کو یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ کتنے ہندو ہیں۔ لیکن ایسا ماحول بنانے میں بھی ان فلموں کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ 1990 کے بعد سے لگاتار ایسی فلمیں بنائی گئیں جن میں مسلمانوں کو غدارِ وطن، پاکستان کا جاسوس، حملہ آور، اسمگلر، عالمی دہشت گرد، وحشی اور درندہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو کبھی وفادار، امانت کا پاس ولحاظ رکھنے والا، جھوٹ، شراب اور لایعنی کاموں سے دور رہنے والے کے طور پر نہیں فلمایا گیا۔
بلاشبہ ہر سماج کے اندر چند برے لوگ ہوتے ہیں لیکن میڈیا بڑی عیاری کے ساتھ بری شبیہ والے مسلمانوں کے کردار کو فلماتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کہیں بم بلاسٹ ہوا اور اس کے مجرمین غیر مسلمین پائے گئے تو میڈیا انھیں ملیٹین، نکسل یا جنگجو کے روپ میں دکھاتی ہے۔ جبکہ کسی بم بلاسٹ کا صرف الزام ہی کسی اردو نام والے شخص سے جڑ جاتا ہے تو اسے جہادی اور شدت پسند کے طور پر دکھلایا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا
سوشل میڈیا کو جہاں لوگوں نے مثبت افکار کی اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے، وہیں ابن الوقتوں نے گھٹیا مفاد کے تحت فرضی خبروں کی اشاعت کر کے مخصوص گروہ کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنایا ہے۔ سخت گیر ہندوؤں نے یوٹیوب اور فیس بک پر تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر مسلم بادشاہوں کو حملہ آور اور ہندو مخالف، مسلم شناخت سے جڑی تاریخی عمارتوں کو مندروں کی بنیاد پر قائم ہونے کے جھوٹے دعوے پر چھوٹی چھوٹی ویڈیوز کو عام کیا۔ آئی ٹی سیل والوں نے گئو رکھشا، ناری سرکھشا (صنف نازک کی حفاظت) راشٹریہ سوابھیمان (قومی فخر) بھارتیہ آرمی (ہندوستانی فوج) وغیرہ جیسے ناموں سے ہزاروں واٹس اپ گروپ تشکیل دیا۔ بظاہر مذکورہ عمومی اسماء سے نفرت نہیں جھلکتی ہیں۔ لیکن ان گروپوں میں روزانہ مکمل منصوبہ بندی سے متعلقہ مضامین سے جڑے پیغامات کے ساتھ ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلایا گیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ ان گروپس کے ذریعے لوگوں کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ وہ گئو رکھشا کے نام پر ماب لنچنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ جیسا کہ دی کیونٹ کی رپورٹ میں لوگوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ماب لنچنگ میں واٹس اپ گروپ کے ذریعے لوگوں کو ایک مقام پر جمع کیا جاتا تھا تاکہ ان مسلمانوں کو پکڑکر پیٹا جائے جو گائے لاتے اور لے جاتے ہیں۔(۵۰) ایسی ہی ہجومی پٹائی میں کئی مسلمانوں کی جانیں جا چکی ہیں۔
مسلم آبادی کا ہوّا
مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے ہندوستان کے باشندوں کو خوفزدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سازش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جائیں اور اپنی آبادی بڑھائی جائے تاکہ جب وہ اکثریت میں ہو جائیں تو انڈیا ان کے قبضے میں چلا جائے اور یہ ایک نیا ’’پاکستان‘‘ بن جائے۔ جس کی وجہ سے 2050 کے بعد بھارت کا کوئی پردھان منتری ہندو نہیں بن پائے گا۔ یہی بھرم آزادی کے بعد بھی پھیلایا گیا تھا کہ مسلمان اتنی تیزی سے بڑھیں گے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوؤں سے زیادہ ہوجائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار دھیمی ہو رہی ہے۔ ہر سال ہندوؤں کی اتنی آبادی بڑھ جاتی ہے جتنی مسلمانوں کی کل آبادی ہے۔ مسلم آبادی کا خوف دلا کر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر مسلمانوں کی حکومت آگئی یا وہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے تو ہندوؤں کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے، انھیں ’’دوبارہ غلامی کے دور‘‘ میں جینا ہوگا اور ظلم و جور کی ایک نئی تاریخ ہندوؤں کے خون سے لکھی جائے گی۔
اسلام کے تعارف کے غلط ذرائع
کوئی بھی غیر مسلم اسلام کو دو طریقے سے جانتا ہے:(۱)مسلمانوں کو دیکھ کر (۲)ذرائع ابلاغ سے۔ پہلے طریقے سے اسلام کو جاننے والے مزید گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی بستیاں اور ان کی نجی زندگی اسلام کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے گلی کے لفنگے سے لے کر داعش کے دہشت گرد تک اسلام مخالف ذہن بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی لیے علماء کو کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کا مطالعہ مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ کرنا چاہیے۔
دوسری قسم کے وہ لوگ جو اسلام کو کتابوں اخباروں اور فلموں کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اخبارات اور فلموں پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے۔ البتہ جو لوگ اسلام کا مطالعہ کتابوں کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں انھیں جو کتابیں میسر آتی ہیں وہ یا تو مستشرقین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں یا ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے مستفاد ہوتی ہیں۔ آپ اس سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ان کتابوں میں اسلام کے تئیں کیسے کیسے مغالطے پھیلائے جاتے ہیں۔ جیسے مسلمان عورتوں کو قید میں رکھتے ہیں۔ غیر مسلموں کو مار ڈالتے ہیں اور اپنا مذہب جبر و تشدد کے ذریعے پھیلاتے ہیں وغیرہ۔
مستشرقین نے اسلام پر اتنی کتابیں تصنیف کی ہیں کہ اس موضوع پر عربی، اردو اور فارسی کے علاوہ آنکھ بند کرکے کوئی بھی زبان میں اسلام پر کتاب اٹھائی جائے تو پہلی کتاب انھی کی لکھی ہوئی یا ان سے مستفاد کتاب ملے گی۔ ایسا اس لیے ہے کہ مسلمانوں نے دین اسلام کے تعارف کے لیے اپنے مدعو کی زبان اور ان کے معیار کے مطابق لیٹریچر تیار نہیں کیا۔ اس موضوع پر مستشرقین کی کثرت ِتصانیف کا اندازہ ایڈورڈ سعید کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربیوں کی جانب سے صرف 1800 سے 1950 تک 60 ہزار کتابیں لکھی گئیں۔(۵۱) اسی کا نتیجہ ہے کہ انڈیا میں غیر مسلمین کی اسلام کے تعارف پر انگریزی و ہندی میں لکھی جانے والی تمام کتابیں مستشرقین کا چربہ ہوتی ہیں۔ گویا کہ جو سنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں ہم انھیں بھی اسلاموفوبک ہونے سے نہیں بچا پائے۔ امبیڈکر جن کو ہندوستان کا سیکولر اپنا امام مانتا ہے اور ان کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، انھوں نے اپنی کتاب Pakistan, or Partition of India میں مکمل ایک مضمون Break-up of Unity میں مسلمانوں پر لگائے جانے والے تمام گھسے پٹے الزامات کو سجا سنوار کر پیش کر دیا ہے۔ جس میں انھوں نے مختلف بے بنیاد دلائل کی مدد سے دکھلانا چاہا ہے کہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی، بابر، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، تیمور اور محمد غوری تمام کے تمام ظالم و جابر حکمران تھے۔ جنھوں نے لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا، اسلام قبول نہ کرنے پر مختلف قسم کی سزائیں دی، بے دریغ خون بہایا، مندروں کو منہدم کرکے مسجدیں بنائیں وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں ایسا انھوں نے کیوں لکھا؟ کیوں کہ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ سے آگاہی کے لیے جو کتابیں انھیں میسر ہوئیں وہ تمام کتابیں مستشرقین کی تالیف کردہ تھیں۔ امبیڈکر نے اپنی کتاب میں اس عنوان کی تیاری کے لیے جن مصنفین کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ تھے:(۱)Alexander Cunningham (۲)Murray Thurston Titus(۳) Stanley Lane-Poole پہلے دو عیسائی مشنری کے لیے کام کیا کرتے تھے اور تیسرا خاندانی مستشرق تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو کتاب ایسے لوگوں کے افکار کا مجموعہ ہو اس میں کیسے انصاف پسندی کی باتیں ہو سکتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ پر دوسری زبانوں میں ہم نے کیا کام کیا ہے؟ اگر آپ اپنا میدانِ عمل خالی چھوڑ دیں گے تو اغیار ضرور اس میں طبع آزمائی کریں گے۔ پھر چاہے گولوالکر جیسا انتہا پسند ہندو ہو یا امبیڈکر جیسا سیکولر وہ اپنی علمی تشنگی کے لیے اسی جانب رخ کریں گے۔ نصابی کتابوں کی تدوین ہو یا تاریخ کا فلمائزیشن ہو ان کی عمارتیں انھی کتابوں پر کھڑی ہوں گی۔ پھر اس کے بعد نصابی کمیٹی یا فلم کار کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور پر درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان اہل علم مسلمانوں کا جرم ہے جنھوں نے اپنے فرض منصبی سے غفلت برتی تھی۔
لسانی یورش
مسلمانوں سے نفرت و عداوت کی بنیاد ہی شبہات و اعتراضات پر رکھی گئی ہے۔ مسلمان اپنے تئیں پرانے الزامات سے تو جوجھ ہی تھے مگر روز بروز نئے نئے طریقے سے ان پر ہورہی حرف گیری ان کے لیے مزید پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ ان سے اور بھی متنفر ہو رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ کل تک لوگوں کو پریشانی مسلمانوں سے نہیں بلکہ اسلام سے تھی۔ صرف وہ لوگ مورد الزام ٹھہرتے تھے جو مکمل اسلام پر عمل پیرا تھے یا داڑھی، ٹوپی اور پنچ وقتہ نماز کے پابند تھے۔ انھیں ملّا، مولوی، بنیاد پرست اور انتہا پسند کہا جاتا تھا۔ لیکن آج نام نہاد مسلم، ٹِک ٹاک یا بالی ووڈ اسٹار اور جنسی خواہشات سے سرشار ہوکر غیر شرعی طور پر غیر مسلموں سے عشقیہ شادی رچانے والا بھی ’’جہادی‘‘ ہے۔ پہلے صرف بم بلاسٹ اور دہشت گردانہ حملے ہی ان کے خود ساختہ جہاد کے مفہوم میں آتے تھے۔ مگر اب مقابلہ جاتی امتحانات میں 829 طلبہ میں 40 مسلم امیدواروں کا کامیاب ہو جانا جو مکمل سیٹوں کا پانچ فیصد کا تناسب ہے اور مسلمانوں کی کل آبادی کے لحاظ سے نہایت کم ہے۔ وہ ’’یو پی ایس سی جہاد‘‘ ہے۔ وبا کی گرفت میں آجانا اور اپنے کسی مسلمان بھائی کو بیماری سے متاثر کر دینا ’’کورونا بم‘‘ ہے۔ جموں کے مسلمانوں کا اپنی مرضی کے مطابق اپنی جگہ پر گھر، مسجد یا مدرسہ بنانا ’’زمین جہاد‘‘ ہے۔ اور اس قسم کی بہت ساری مسلمانوں کی معمولات زندگی ’’جہاد‘‘ کے خانے میں آتی ہے جس کا مقصد ہندوؤں کو غلام بنانا ہے۔ گویا مسلمانوں کی عام زندگی چاہے وہ شریعت کے موافق ہو یا مخالف اسے کسی نہ کسی طور پر پروپیگنڈہ کی شکل دے دی جاتی ہے۔
اشتعال انگیز بیانات
بے شمار شبہات اور من گھڑت اعتراضات و الزامات کو بنیاد بنا کر لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ گائے ہماری ماں ہے۔ اس کو ذبح کرنا اور کھانا ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کی سزا دینے کا حق خود وہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے والوں کو بزدل اور دیوث کا طعنہ دیتے ہیں۔ گئو ہتیا اور لو جہاد کی روک تھام کے لیے اے کے 47 اور تِرشول و بھالے کی تربیت ہندوتوا کے لیے فخر بتلاتے ہیں۔ جس کا برسرعام اظہار کرنے سے کبھی نہیں کتراتے ہیں۔ ان باتوں سے مسلموں کے تئیں ہندوؤں میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کا سیدھا فائدہ مشتعل لیڈروں کو ہوتا ہے۔
ہندوتوادی حکومت
اشتعال انگیز بیانات پر چُن کر حکومت میں آنے والے سیاست دانوں کی منشا ہوتی ہے کہ جس جذباتیت کے سہارے وہ اقتدار کی کرسی تک پہنچے ہیں اس کو کبھی سرد نہ ہونے دیں بلکہ وہ ہمیشہ جواں رہے۔ جس کے لیے وہ ہر شعبے کو مہر بلب کر دیتے ہیں یا اس کی کمر توڑ دیتے ہیں جو ان کے کھیل میں رخنہ انداز ہوسکے۔ جب شکنجہ کسنے والوں کو ہی پژمردہ کردیا جائے تو اسلاموفوبیا کی مسموم لہر پھیلنا لازمی ہے۔ اس کے بعد کل تک جو سر پھرے بلوائی یوں ہی بھٹک رہے تھے ان کی ہندوتوادی حکومت سرپرستی کرنے لگتی ہے۔ جو بے بنیاد الزامات تھے انھیں ثبوت فراہم ہونے لگتے ہیں۔ اب تک جو اپنے پچھلے گناہوں کی وجہ سے کورٹ کا چکر کاٹ رہے تھے یا جیل کی چکی میں پِس رہے تھے انھیں ’’باعزت بری‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ کل تک جو مجرم تھے اب وہ مؤقر عہدیدار اور وزارتِ عظمٰی کے رکن بن جاتے ہیں۔ ان سے حوصلہ پا کر گلی کے چور اچکے بھی اس امید میں وہی ہڑبونگ مچانے لگتے ہیں کہ کہیں ہمیں بھی اس طفیل میں وزارتِ عظمیٰ کی رکنیت میسر ہو جائے۔
سد باب
اسلام سے وابستگی
آج مسلمانوں کو درپیش تمام مسائل صرف اس وجہ سے ہیں کہ وہ ایک اللہ کو الٰہ و معبود مانتے ہیں۔ ان مسائل کا حل بھی اسلام پر مکمل عمل پیرا ہونے میں ہی پنہاں ہے۔(۵۲) جب ہم پر مسلمان ہونے ہی کی وجہ سے مشکلات کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور جب تک ہمارا اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق رہے گا ہمیں یوں ہی پریشان کیا جاتا رہے گا۔ تو کیوں نہ ہم اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو کر ان مشکلات کا مقابلہ کریں۔ یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے پریشان کیا جاتا ہے اور ہم مسلمان بن کر اپنی زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان سے وابستگی پر کامیابی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ تو پھر انجام کار سے گھبرانا کیسا؟ حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسلمانوں کو ماضی میں جو سر بلندی ہاتھ آئی تھی وہ اسلام سے وابستگی کی ہی بنیاد پر آئی تھی اور اگر آئندہ کبھی انھیں کامیابی مل سکتی ہے تو وہ اسی راستے سے مل سکتی ہے۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے عمر بن فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ’’إنا كنا أذلَّ قومٍ فأعزَّنا اللهُ بالإسلامِ فمهما نطلبُ العزَّ بغيرِ ما أعزَّنا اللهُ به أذلَّنا اللهُ‘‘(۵۳) ہم لوگ بہت پسماندہ قوم تھے۔ ہمیں اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت عطا کی ہے جب بھی ہم اس کے علاوہ عزت حاصل کرنا چاہیں گے اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا۔
صحیح دین پر عمل
اسلام پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حقیقی تعلیمات پر عمل کیا جائے خصوصاً معاملات میں جیسے وراثت میں انصاف، سود سے اجتناب، اسلامی طریقے پر شادی، طلاق اور خلع وغیرہ۔ اگر روایتی طریقے پر چلتے ہوئے بدعات و خرافات کی راہ اپنائی جائے یا بد اعمالیوں میں ملوث رہا جائے تو ایسے دین پر چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا اور نام نہاد مسلمانوں کے طرز عمل سے معاشرے میں مسلمانوں کی تصویر سنورنے سے زیادہ بگڑ جاتی ہے۔
اخلاق حسنہ
قرآن و حدیث میں اخلاق حسنہ کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔(۵۴) مسلمانوں کو ہر میدان میں اپنے بہتر ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ جذباتیت سے گریز، اختلافات کے باوجود اتحاد و اتفاق، برداشت، رواداری، عدل کی روش اور استقامت کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں اور اپنے جارحانہ رویہ میں تبدیلی نہیں لاتے ہیں تو اغیار کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ بلکہ اسلام کی وہی شبیہ بنتی ہے جیسا کہ اسلام دشمن طاقتیں بنانا چاہتی ہیں۔ کیونکہ اسلام کے بارے میں سب سے پہلا تصور آپ کے کردار و عمل کو دیکھ کر ہی قائم ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اخلاق و اطوار کو سنواریں، اپنے کردار کو سیرت نبوی کا نمونہ بنائیں۔ ہمارا یہ عمل ان کے بہت سارے شکوک و شبہات کو دور کرنے اور انھیں اسلام سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ جب مسلمان ایسا کرنے لگے تو وہ دن دور نہیں جب میڈیا کی سرخیوں میں ہوگا کہ مسلمانوں نے جاں بلب مریضوں کی مدد کی اور ان کی جان بچائی۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے انھوں نے اسکول کھولے اور غریب بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا۔ مسلمانوں نے ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے پودے لگائے یا ندیوں کی صفائی کی مہم میں حصہ لیا وغیرہ۔
رفاہی کام
مسلمانوں کو چاہیے کہ اُن معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں جن میں تمام لوگوں کے مصالح مشترک ہوں۔
اجتماعیت
اسلاموفوبیا اجتماعی سطح پر پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے بھی اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی انفرادی کوششوں کا اثر دیرپا نہیں ہوتا ہے۔
بین المذاہب مکالمہ
اپنے علاقے کے غیر مسلم سے تعلقات استوار کریں خصوصاً ان لوگوں سے جن کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ یہ اسلاموفوبیا کی زد میں آسکتے ہیں۔ ممکن ہے آپ سے ملنے کے بعد ان کے ذہن میں مسلمانوں کی ’’خیالی تصویر‘‘ محو ہو جائے۔ ان کو اپنے قریب لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ انھیں سماجی و دینی پروگراموں میں مدعو کریں۔ انھیں بتلائیں کہ اسلام اپنے علاوہ دوسرے مذاہب اور ان کے معبودان کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔(۵۵) اسی طرح مدارس و جامعات میں ادیان و مِلَل کے تعارف پر کتابیں داخل نصاب کی جائیں تاکہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے موازنہ اور بین المذاہب مکالمہ میں آسانی ہو۔
اسلامی تعلیمات کو عام کرنا
غیر مسلمین مستشرقین کی اسلام پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھ کر گمراہ ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے صحیح اور حقائق پر مبنی کتابیں، پمفلٹ، ویڈیوز اور ڈاکومینٹری تیار کی جائے۔ جس میں بتایا جائے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد ہی امن و سلامتی پر ہے۔ جو مذہب کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہو۔(۵۶) جنگی حالات میں بھی سایہ دار اور پھل دار درخت کاٹنے سے منع کرتا ہو۔(۵۷) وہ مذہب دہشت اور تشدد کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہوں جیسے بکھرتا خاندانی نظام، جمع خوری، سود، جوا، جنسی بے راہ روی، اباحیت، اندھی قومیت، ذات پات اور ماحولیات کی اصلاح کے لیے اسلام کے روشن اصول کو مشتہر کیا جائے۔ اگر یہ کر لیا گیا تو لوگوں کو مسلمان ملک کی تمام پریشانیوں کی جڑ نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسائل کا واحد حل معلوم ہوگا۔ ان شاء اللہ
شبہات و اعتراضات کا جواب
اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ پر لگائے جارہے ہر الزام کا علیحدہ علیحدہ تشفی بخش جواب دیا جائے۔ اور اس کو عام کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جس سے وہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے۔
دعوت الی اللہ
اسلام کے تعارف اور شبہات کے ازالہ کے ساتھ ساتھ ان کو حکیمانہ انداز میں اسلام کی دعوت دی جائے۔(۵۸) دعوت کے نئے نئے اسلوب کو اپنایا جائے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے دعوت کا مخصوص انداز ہو۔ ان کو مساجد و مدارس اور اسلامی مراکز میں مدعو کیا جائے۔
اعلیٰ تعلیم
ملک کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی رسائی ممکن بنائی جائے، میڈیا، ایڈمنسٹریشن، جوڈیشری اور بیوروکیسی میں مسلم طلبہ کو بھیجا جائے۔ اور یہ کام اعلیٰ تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ جب تک ہم عصری تعلیم کے لیے دوسروں کی بیساکھیوں کے محتاج رہیں گے ہماری قوم اعلیٰ تعلیم نہیں پاسکتی ہے۔ اس کے لیے وہی پروسیس اپنانا ہوگا جو طریقۂ کار ہم نے دینی تعلیم کی بقا کے لیے اپنا رکھا ہے۔ پورے ہندوستان میں مدارس کے جال پھیلے ہوئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے چپے چپے میں مساجد، مدارس، علماء و دعاۃ موجود ہیں اور جن کی محنتوں سے ہندوستان کے مسلمان لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ سے واقف ہیں۔
میڈیا
میڈیا کی دوغلی پالیسی کے ردعمل میں اچانک پورا میڈیا انفراسٹرکچر کے قیام کا مشورہ دینا کسی طور پر درست نہیں ہے اور نہ ہی یہ اتنا آسان ہے۔ بےشک مسلمانوں کی اپنی میڈیا سروس ہو۔ لیکن ابھی ہنگامی ضرورت کے تحت مسلم جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ قسم کے ویب پورٹل اور یوٹیوب چینل شروع کروایا جائے۔ ابھی چند سالوں سے ویب پورٹل اور سوشل سائٹس کی کافی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ لہذا یہاں مستحکم محاذ تیار کیا جائے اور جب یہاں بہتر نتیجے آنے لگیں تو دھیرے دھیرے میڈیا سروس کا بھی آغاز ہو۔
اسلاموفوبیا کے واقعات کی رپورٹ درج کروائیں
دیکھا جاتا ہے کہ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہو کر احتجاج و مظاہرے تو خوب ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی مناسب قانونی چارہ جوئی کی فکر نہیں کی جاتی ہے۔ جبکہ اصل لڑائی پولیس اسٹیشن اور کورٹ میں لڑی جاتی ہے۔ سیاسی بساط پر کچھ بھی جاری ہو لیکن قانونی لڑائی کا اثر ہمیشہ مثبت ہی رہتا ہے۔ اس لیے اسلاموفوبیا کے ادنیٰ سے ادنیٰ معاملہ کی رپورٹ درج کروائیں اور اس کے لیے قابل وکیلوں کا انتخاب کریں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو ایسے معاملات کی خبریں پہنچائی جائیں، ان کو خطوط لکھے جائیں اور ان سے ذاتی ملاقاتیں کی جائیں اگرچہ وہ ان واقعات سے آپ سے زیادہ باخبر ہوں پھر بھی یہ عمل مسلسل جاری رہے۔
ہندوتوا کی منشا کی وضاحت
مسلمانوں کو چاہیے کہ دفاعی پوزیشن سے اوپر اٹھ کر اقدامی رویہ اپنائیں۔ جس طرح وہ اسلام کے تعارف اور دعوت الی اللہ کے لیے توانائی صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ واضح کریں کہ کس طرح ہندوتوادی دس فیصد برہمنوں کو ۸۰ فیصد ہندوستانیوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ منوسمرتی کا احیا چاہتی ہے۔ منوسمرتی کی طبقاتی تعلیمات اور غیر انسانی قوانین کس طرح انسانیت مخالف ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ صرف انھیں مسلمانوں سے بیر نہیں ہے بلکہ عیسائیوں، سکھوں، جینیوں کے بشمول ہندوؤں کی چھوٹی ذاتوں سے بھی یہ اسی قدر نفرت کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کی شاکھاؤں کی اندرونی سچائیوں کو سامنے لایا جائے۔ ملک کی عوام کو بتائیں کہ کس طرح وہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ کیسے اس کے افکار دہشت گردی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح ہندو مذہب کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ ان کا ہندوستان کی آزادی میں کتنا حصہ تھا وغیرہ۔ اس کام میں برادران وطن کے سیکولر ذہن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ساتھ لے لیا جائے۔ تو اس کا نتیجہ دور رس اور متاثر کن ہوگا۔ نیز ان کے تعاون سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے کہ ہندوتوادیوں کا فکر و نظریہ مسلم مخالف نہیں بلکہ ملک اور انسانیت مخالف ہے۔
اخلاص اور دعا
اسلاموفوبیا کے مقابلے کے لیے اعلی درجہ کا اخلاص و للہیت چاہیے۔ نمائشوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اسی طرح اپنی تمام کوششوں کے بعد اللہ پر توکل و یقین رکھیں کہ ان شاء اللہ ہمیں فتح ملے گی اور اللہ سے کامیابی کی دعائیں کرتے رہیں۔
وَٱصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِۚ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡهِمۡ وَلَا تَكُ فِی ضَیۡقࣲ مِّمَّا یَمۡكُرُونَ(۵۹)
اور صرف اور صرف اللہ پر صبر و توکل کریں۔ ان کے بارے میں غمزدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی ریشہ دوانیوں سے کبیدہ خاطر رہیں۔
———————-
(۱)Muslim in the west: From Sojourners to Citizens by Yvonne Yazbeck Haddad, Oxford University Press, New York,2002, P:19
(۲)New Muslim in the European context: The Experience of Scandinavian converts by Anne Sofie Roald, Brill,Boston,2004, P:53
(۳)القرآن؛ البقرۃ 2/217
(۴)القرآن؛ المائدۃ 5/82
(۵)القرآن؛ البقرۃ 2/217
(۶)رگ وید؛ 10:90
(۷)تفصیل کے لیےملاحظہ ہوں ارندھتی رائے کی کتاب The Doctor and the Saint: Caste, Race, and Annihilation of Caste, the Debate Between B.R. Ambedkar and M.K. Gandhi, Haymarket Books, Chicago,2017
(۸)We or Our Nationhood Defined by M.S. Golwalkar, Bharat Parakashan, Nagpur,1947, P:53
(۹)ibid: P:52
(۱۰)ملاحظہ ہوں کتاب کا چوتھا اور پانچواں مضمون ص : 48تا59
(۱۱)ملاحظہ ہوں Jyotipunj by Narendra Modi,Translated into English by A.K. Gandhi,Prabhat Prakashan, New Delhi, P:43-75
(۱۲)https://www.rss.org//Encyc/2012/10/22/rss-vision-and-mission.html
(۱۳)https://en.wikipedia.org/wiki/Akhil_Bharatiya_Vidyarthi_Parishad
(۱۴)https://en.wikipedia.org/wiki/Vidya_Bharati
(۱۵)https://en.wikipedia.org/wiki/Vanavasi_Kalyan_Ashram
(۱۶)https://www.rss.org/hindi/Timeline.html
(۱۷)https://www.rss.org//Encyc/2012/10/22/rss-vision-and-mission.html
(۱۸)https://en.wikipedia.org/wiki/Vishva_Hindu_Parishad
(۱۹)https://theprint.in/india/governance/cia-document-tags-vhp-and-bajrang-dal-as-militant-religious-outfits/70409/
(۲۰)https://www.rss.org/hindi/Timeline.html
(۲۱)https://en.wikipedia.org/wiki/Vidya_Bharati
(۲۲)https://en.wikipedia.org/wiki/Akhil_Bharatiya_Itihas_Sankalan_Yojana
(۲۳)https://en.wikipedia.org/wiki/Hindu_Jagran_Manch
(۲۴)https://www.rss.org/hindi/Timeline.html
(۲۵)ذکر کردہ معلومات مضمون نگار نے سنکلپ کی دھیرپور، دہلی سینٹر سے براہ راست نجی طور پر حاصل کیا ہے۔ مزید جانکاری کے لیے ان کی ویب سائٹ https://www.samkalpiascoaching.com/ پر موجود سالانہ آرگن سَمیک درشٹی کا مطالعہ مفید ہوگا۔
(۲۶)https://www.newsclick.in/rss-affiliate-set-its-units-all-educational-institutions-uttarakhand
(۲۷)https://en.wikipedia.org/wiki/Durga_Vahini
(۲۸)http://www.adhivaktaparishad.org/
(۲۹)http://abpssp.org/
(۳۰)http://www.muslimrashtriyamanch.org/
(۳۱)http://bgrd.org/
(۳۲)http://www.rbsvm.in/
(۳۳)https://www.firstpost.com/india/renaming-aurangzeb-road-after-apj-abdul-kalam-new-delhi-was-inspired-by-history-not-bigotry-2416606.html
(۳۴)https://www.indiatoday.in/india/story/mughalsarai-station-now-deen-dayal-upadhyay-1305833-2018-08-05
(۳۵)https://www.indiatoday.in/education-today/featurephilia/story/allahabad-to-be-renamed-as-prayagraj-a-look-at-up-govt-s-renaming-streak-1368908-2018-10-16
(۳۶)https://www.thehindu.com/news/national/faizabad-district-to-be-renamed-as-ayodhya-yogi-adityanath/article25434603.ece
(۳۷)https://www.tribuneindia.com/news/archive/features/mustafabad-renamed-saraswati-nagar-194618t
(۳۸)https://www.cnbctv18.com/views/muslims-not-allowed-the-stereotypes-of-mumbais-rental-property-market-6970051.htm
(۳۹)https://www.bbc.com/hindi/india-54265779
(۴۰)https://www.indiatoday.in/amp/india/story/indian-air-force-supreme-court-dress-code-beard-357634-2016-12-15
(۴۱)https://twitter.com/GhazalaAhmad5/status/1301116493090836480?s=08
(۴۲)https://scroll.in/article/877901/in-gurgaon-hindutva-groups-stop-friday-namaaz-in-several-open-spaces
(۴۳)Report of the Fact-Finding Committee on the North-East Delhi Riots of February 2020, Prepared for Delhi Minorities Commission, by the Fact-Finding Committee headed by M.R. Shamshad, Published on 16 July 2020, P:30
(۴۴)ibid: P:36
(۴۵)https://thewire.in/women/delhi-riots-women-sexual-harassment
(۴۶)Report of the Fact-Finding Committee on the North-East Delhi Riots of February 2020, P:42-55 & 126
(۴۷)ibid: P:54
(۴۸)مزید معلومات کے لیے وزٹ کریںhttps://www.barcindia.co.in/
(۴۹)Mahesh Bhatt ‘s Feeling about Islam at Peace Conference https://youtu.be/s6ox34rspAo
(۵۰)The Making of Lynchistan: Inside India’s Deadly ‘Gau Raksha’ Network, Documentary by The Quint https://youtu.be/UaCtvYtV2f0
(۵۱)Orientalism by Edward W. Said, Penguin Books, London, 2003, P:204
(۵۲)القرآن؛ آل عمران: 3/139
(۵۳)مستدرک حاکم:207، وصححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ 1/117
(۵۴)القرآن؛ فصلت: 41/34،القلم:68/4 ،
الحدیث؛ صحیح بخاری: 6035، مسند احمد: 2/180، قال احمد شاکر اسنادہ صحیح، سنن ابی داود :4682
(۵۵)القرآن؛الانعام: 6/108
(۵۶)القرآن؛ المائدۃ: 5/32
(۵۷)القرآن؛ الحشر؛: 59/5
(۵۸)القرآن؛النحل: 16/125
(۵۹)القرآن؛ النحل:16/127
آپ کے تبصرے