کیا آپ اس سال حج کا ارادہ رکھتے تھے؟

عبدالرحمن عالمگیر عبادات

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی معمولات زندگی میں کافی تغیرات واقع ہوئے ہیں۔ خصوصاً بین الممالک تعلقات اور حج و عمرہ کا نظام رکا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو اس سال حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے تھے انھیں مجبوراً اپنا خیال ترک کرنا پڑا اور جب میڈیا کی جانب سے اس سال حج کے موقوف ہونے کے امکانات کی خبریں آ رہی ہیں تو رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔ ہمارے ملک ہندوستان کی حالت بھی نہایت تشویش ناک ہے، یہ وبا دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ابھی ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا ہے لہٰذا مریضوں کی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا رہا ہے کہ حکومت ہند بھی امسال حج کو منسوخ کر رہی ہے۔ لہذا وہ معمر حضرات جنھیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی کی ڈور آئندہ سال تک ساتھ نہ دے سکے گی وہ مایوسی کے شکار ہوگئے ہیں۔ ایسی ناگفتہ بہ صورتِ حال میں جب ہم شریعت اسلامیہ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں چند ایسے چھوٹے چھوٹے اعمال ملتے ہیں جن کا بدلہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رحم و کرم سے حج کے برابر قرار دیا ہے۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، جو ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ اگر راستہ پُرامن ہو، حاجی صحت و تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو، زادِ راہ اور اپنی غیر موجودگی میں اہل و عیال کے لیے نفقہ برداشت کرسکتا ہو تو اس پر حج کرنا لازم و ضروری ہے۔
حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے، اللہ جل شانہٗ اس کے ہر ہر قدم پر اجر و ثواب سے نوازتا ہے، اس کے چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ جنت کی بشارت دیتا ہے اور اس کی برکت سے فقر و فاقہ دور کردیتا ہے فرمان نبوی ہے:
«تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ» (سنن نسائی:2631)
پے در پے حج و عمرہ کیا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔
وبائی بیماری کووِڈ 19 کی وجہ سے حالات اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان فضیلتوں کے حصول کے لیے کوشش کرسکیں لہذا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ان چھوٹے چھوٹے اعمال کو بجا لانا چاہیے اور اللہ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان اعمال کے بدلے ہمارے نامۂ اعمال میں مکمل حج وعمرہ کا ثواب لکھ دے گا۔ ایسی چند عبادتوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

(1) نیت کا بدلہ
اپنے بندے کی صرف نیک نیتی کے بدلے اللہ تعالی اپنی رحمتوں کی فیاضی کرتے ہوئے اس عمل کا مکمل اجر اس کے لیے لکھ دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَعَمِلَهَا، كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، لَمْ تُكْتَبْ، وَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ» (صحیح مسلم 130)
جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جس نے کسی نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل بھی کیا تو اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا لیکن اس کا ارتکاب نہیں کیا تو وہ نہیں لکھی جاتی اور اگر اس کا ارتکاب کیا تو وہ لکھی جاتی ہے۔ 
نیک عمل کی چاہت جس قدر صدق دل اور خلوص سے ہو اس کا اجر اسی قدر اللہ تعالی اس کے نامۂ اعمال میں اندراج کرے گا۔ بعض اوقات انسان اپنے حسنِ نیت سے بڑے بڑے اعمال کے ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔ آدمی کو اس زریں موقع (Golden Chance) سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کبھی کبھی بڑے بڑے مشکل ترین اعمال ریا و نمود کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور نیکی کے بجائے ہولناکی کا سبب بنتے ہیں۔
(2) گھر سے وضو کرکے جانا اور جماعت کے ساتھ فرض نماز ادا کرنا
بظاہر فرض نماز کے لیے گھر سے وضو کرکے مسجد جانے والا اپنی دانست میں ایک نماز کا ثواب صرف پچیس سے ستائیس گنا تصور کرتا ہے لیکن اللہ رب العزت اپنی شفقت و رحمت سے ایک نماز کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں مکمل ایک حج کے برابر لکھ دیتا ہے۔ فرمان نبوی ہے:
 «مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ» (سنن ابو داود 559)
جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلے تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے۔
(3) باجماعت فجر پڑھنے کے بعد اشراق کی نماز پڑھنا
جو شخص فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کے بعد اسی مجلس میں سورج طلوع ہونے تک اللہ کی تکبیر و تہلیل کرتا رہے اور پھر دو رکعت نفل پڑھے گا تو اِس پورے عمل کا اجر ایک حج اور ایک عمرہ کے مساوی ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‏‏‏‏  «مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ.» (سنن ترمذی 586)
جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔“ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا، پورا، پورا، یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب۔“
(4) دینی علم حاصل کرنے کے لیے مسجد کا رخ کرنا
فرمان نبوی ہے:
«من غدا إلى مسجدٍ لايريدُ إلا أن يتعلَّمَ خيرًا أو يُعلِّمَه، كان له كأجرِ حاجٍّ، تامًّا حجَّتُه» (صحيح الترغیب 86)
جو شخص صرف اس لیے مسجد گیا تاکہ کوئی خیر کی چیز سیکھے یا سکھائے، اس کے لیے مکمل حج کا ثواب ہے۔
(5) نماز کے بعد اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ مِنَ الْأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَا وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ ؛ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ يَحُجُّونَ بِهَا وَيَعْتَمِرُونَ وَيُجَاهِدُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ. قَالَ : ” أَلَا أُحَدِّثُكُمْ إِنْ أَخَذْتُمْ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ يُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ، وَكُنْتُمْ خَيْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ : تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ “۔ (صحیح البخاری: 843)
کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ مال والے تو بلند مقام اور جنت لے گئے۔ وہ ہماری طرح ہی نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں۔ اور ان کے لیے مال کی وجہ سے فضیلت ہے، مال سے حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں، جہاد کرتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کا درجہ پاسکو اور کوئی تمھیں تمھارے بعد نہ پاسکے اور تم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے۔ وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تم 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 33 بار اللہ اکبر کہو۔
(6) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إني أشتهي الجهاد ولا أقدر عليه، قال: هل بقي من والديك أحد؟ قال: أمي، قال: «قابل الله في برِّها، فإن فعلت فأنت حاج ومعتمر ومجاهد»
(الترغيب والترهيب 3/292 المعجم الأوسط 2915، امام منذری اور ابن عثیمین رحمہما اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے)
ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں مگر اس کی طاقت نہیں۔ تو آپ نے پوچھا کہ تمھارے والدین میں سے کوئی باحیات ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میری ماں۔ تو آپ نے بتایا کہ جاؤ ان کی خدمت کرو، تم حاجی، معتمر اور مجاہد کے زمرے میں ہو گے۔
ان کے علاوہ اور بھی بعض ایسے اعمال ہیں جن کے بدلے اللہ تعالی حج و عمرہ کا ثواب عطا کرتا ہے۔ لیکن ان پر بھی عمل پیرا ہونا موجودہ صورتِ حال میں ناممکن ہے۔ بہرحال افادۂ عامہ کے لیے ان کا بھی تذکرہ نیچے کیا جا رہا ہے۔
(7) رمضان المبارک میں عمرہ کرنا
رمضان میں عمرہ کرنے سے حج کا ثواب ہی نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا جانے والا حج کے برابر اجر ملے گا۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں:
«لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَجَّتِهِ ، قَالَ لِأُمِّ سِنَانٍ الْأَنْصَارِيَّةِ : مَا مَنَعَكِ مِنَ الْحَجِّ ؟ قَالَتْ : أَبُو فُلَانٍ تَعْنِي زَوْجَهَا ، كَانَ لَهُ نَاضِحَانِ حَجَّ عَلَى أَحَدِهِمَا ، وَالْآخَرُ يَسْقِي أَرْضًا لَنَا ، قَالَ : إِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً ، أَوْ حَجَّةً مَعِي» (صحیح بخاری 1863)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سنان انصاریہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انھوں نے عرض کیا کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ 
(8) حاجی کی معاونت یا اس کی غیر موجودگی میں اس کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا 
رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من جَهَّزَ غازيًا أوجهز حاجا أو خلفَهُ في أَهْلِهِ، أو أفطر صائمًا كان لَهُ مثلُ أجورهم، من غيرِ أن ينقصَ من أجورهم شيء» (الترغيب والترهيب 1/152)
جس نے کسی مجاہد کو جہاد پر بھیجا، یا کسی حاجی کی مدد کی، یا اس کے حج پر جانے کے بعد اس کے اہل خانہ کی خبر گیری کی، یا کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے ان کے ثواب کے مثل اجر دیا جائے گا اور ان کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
(9) مسجد قبا میں نماز ادا کرنا
  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَنْ خَرَجَ حَتَّى يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلَّى فِيهِ كَانَ لَهُ عَدْلَ عُمْرَةٍ» (سنن نسائی 700)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی (گھر سے) نکلا، حتی کہ اس مسجد، یعنی مسجد قباء میں آیا اور اس میں نماز پڑھی تو اسے ایک عمرے کے برابر ثواب ملے گا۔
اللہ تعالی اسی طرح بہت سارے چھوٹے چھوٹے عمل کے بدلے بہت بڑے بڑے اجر سے نوازتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثواب اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ وہ جسے چاہے اپنی عنایات سے فیاض کردے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے حج وعمرہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال کے اجر و ثواب سے حج کے ثواب کی مشابہت و یکسانیت ہے۔ اگر اس سال جن کو حج کی توفیق نہ مل سکی ہو ان پر آئندہ حج کرنا فرض ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں زیارتِ حرمین شریفین کی توفیق عطا فرمائے اور کورونا سے پوری دنیا کو نجات عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Sajid

موجوہ صورت حال میں بہت ہی بہترین مضمون
مسجدوں کے اندر اس عنوان پر خطبے دیے جانے چاہیے