اہلِ وطن کو ایسا ہے درکار ایک شخص

فیضان اسعد شعروسخن

اہلِ وطن کو ایسا ہے درکار ایک شخص

طوفاں کے سامنے ہو جو دیوار ایک شخص


مدت ہوئی ہے لوگ ابھی تک ہیں سوگوار

ویسے تو مر گیا ہے یہ بے کار ایک شخص


فاقوں سے اپنے بچے تڑپتا وہ دیکھ کر

خود کو چلا ہے بیچنے بازار ایک شخص


جنگل کٹا اکیلا شجر زرد پڑ گیا

مرنے لگا ہے ایسے ہی بیزار ایک شخص


تسلیم ہے سبھی کو ہر اک بات ہر ادا

ہوتا ہے کیسے اتنا اثردار ایک شخص


مصروفیت ہے ٹھیک، شناسائی کیا ہوئی

آیا ہے پورے شہر سے غمخوار ایک شخص


جاں پر بنی تو ایک ہے بھاری ہزار پر

ہو جاتا ہے کبھی کبھی بسیار ایک شخص


ہر وقت اس کی چاہ اسی کی ہے یاد، دُھن

یوں رفتہ رفتہ ھو گیا سنسار ایک شخص


اے ناخدا تجھے ہی بچانی ہیں کشتیاں

لازم نہیں کہ آئے گا ہربار ایک شخص


سب سے محبتیں ہیں مگر عشق و پیار میں

اسعؔد ہے تیرے دل کا بھی حقدار ایک شخص

آپ کے تبصرے

3000