سلفیت اور بدویت کے درمیان فرق

سعد احمد

خواب اور تعبیر کے درمیان کا رشتہ ہر اس آنکھ کا موضوع ہے جو ایک مثقف ماحول اور متدين تہذیب میں دیکھنا، سوچنا اور سمجھنا سیکھتی ہے۔ خواب کا تعلق  نفسیات یا بدنی تکالیف سے ہی نہیں بلکہ اجتماعی و قومی یادداشت اور اس میں مضمر رموز سے بھی ہے، جبکہ تعبیر خواب کو حقیقت میں بدل دینے کی تگ و دو کا نام ہے۔ تعبیر تعبیرات کی تفہیم کا نام ہے۔ تعبیری کاروائی آنکھیں چاہتی ہے، ملاحظہ چاہتی ہے۔ تعبیری کارروائی ثقافت کھڑی کرتی ہے، تدین کے امکانات کو اجاگر کرتی ہے۔ تعبیری کاروائی علم  کے سمندر کو اصول کے پل سے منظم کر ان سے ذہن و خرد کو منور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تعبیری کاروائی فیضانِ عام کو بڑھاوا دیتی ہے۔

اسلام کے تصور دنیا میں بھی خواب سے تعبیر تک کے سفر کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام اگر ایک فطری دنیاوی نظام ہے جس کا تعلق بعید از دنیاوی مقاصد کے لیے بھی ہے تو خواب و تعبیر کی ریل گاڑی کو وجہ رفتار عطا کرنا اس کی اولین ذمہ داری بھی ہے۔ خواب و تعبیر کی جوان ہوتی ہوئی تمام تر کوششوں کو ایک راستہ دکھانا فطری چیزوں کی ماہیت ہوتی ہے لہذا اسلامی سوچ خواب سے تعبیر اور تعبیر سے آنکھوں کے رشتے کو واضح کرنے کے لیے بہترین نظام ہے۔

کسی کے خواب کی تعبیر بتانا ایک عالم کے لیے بہت آسان ہے مگر کسی کی بتائی ہوئی تعبیرات کے مطابق خواب دیکھنا اسی عالم کے لیے بہت مشکل۔ ہم اپنی دینی سوچ کی تاریخ پہ ایک نظر ڈالیں تو اطمینان کا سانس ضرور لیں گے مگر جوں جوں ہم اسے غور سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو رنج و یاس کے علاوہ ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا، بالخصوص ہم سے متعلق صدیوں میں؛ اور اس میں ارتقا پذیر افکار و خیالات کو دیکھ اور سمجھ کر۔ یعنی پچھلی کئی دہائیوں سے ہماری دینی سوچ کے ایک بہت بڑے حصے کو یہی فکر دامن گیر رہی کہ جدید دور کےاتنے آڈیاز اور خیالات کی موجودگی میں، اتنے زیادہ مادی ترقی کے سامنے دینی سوچ کا پروان چڑھنا تو درکنار ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں علماء کا ایک ایسا جتھہ ابھر کر آیا جس نے خواب دیکھنے اور تعبیر بیانی کے عمل کو ایک دوسرے کے سیاق سے ازسر نو جوڑا۔ اس جتھہ کو کبھی السلفیة التنویریة کہا گیا تو کبھی مجتہدین کی جماعت۔ ان کے ساتھ یہ بات نہیں تھی کہ نہ تو خواب کی بات کریں گے نہ تعبیر کی۔ تصور اسلامی کو بتانے لیے اصول کو علم الحساب کے فارمولوں کی طرح وہ پیش کرنے کے قائل رہے نہ ہتھوڑیوں سے مار کر سروں میں ٹھوک ڈالنے کے موید۔ لہذا انھوں نے بہت سے جدید علوم اور ان کی دستیاب مادی شکلوں کا مطالعہ کرنا اور انھیں سمجھنا شروع کیا۔ ان کی تعبیریں کیں۔ مفید علوم کے جواز کی تاویلیں کیں اور نقصان دہ علوم (وقتی طور سے) پر فتاوی دینے کے بجائے ان پر قدرے کم توجہ دی۔ ساتھ ہی اپنے دور کی ترقیوں اور ان کی ترقیوں کے پھیلتے ہوئے معاشرتی اثرات کو اسلامی علوم کے احیا سے جوڑنے کی بھی کوشش کی۔ مگر جس طرح بہترین اقتصاد کی سوچ کے بغیر بہترین معاشرہ اور بہترین سیاست مشکل ہے اسی طرح سوچ کی اقتصاد کے بغیر خواب اور اس کی تعبیر کا کاروبار بھی ناممکن ہے۔ سوچ اور فہم کا اقتصاد صرف سوچنا اور اسے عمل میں لانا نہیں بلکہ اسے خیر اور شر کے تصور سے جوڑنے کے لیے سیاق کو منضبط کرنا ہے۔
ہمارے اس دور میں خواب اور تعبیر کا سفر بھی جاری ہے مگر وہ ہم سے موسوم نہیں۔ آپ غالبا یہ کہیں گے اس سفر کے دوران ایسی راتیں زیادہ دیر تک رکتی ہیں جس پر اماوس کے سائے اپنی فال آپ نکالتے ہیں، تو اس بات کے جواب میں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ خواب و تعبیر ایک دوسرے سے اپنے اپنے وصال کی تلاش میں ہیں۔ یا تو خواب کا تعبیر کے ساتھ کوئی رشتہ ہی نہیں یا تو معبیرین نے وہ کھیل کھیلا ہے جس کی باز پرس کے لیے دیواریں بھی بولنے والی ہیں۔
اس تعلق سے بر صغیر کی دینی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو معاملہ معبرین کے سر زیادہ جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اس کی تعبیرات ایسے اشاریوں میں کی گئی ہیں جس سے ہمارا حالیہ دینی منظر بھی نہ سمجھ آنے والی ایک عجیب تصویر بن چکا ہے۔ برصغیر کی تاریخ کے شہروں کی فضاؤں میں ابھرتا ہوا جو پرچم نظر آتا ہے وہ خاصہ تخریبی اور نظام مخالف پیش کیا گیا ہے۔ ایسے میں کچھ عقل و خرد کے استعمال سے واقف کار اور موید اسلام کی ایک دنیوی اور ”کم کراماتی“، ”کم معجزاتی“ تعبیر کو عمل میں لانے کے موافق ہیں تو ان کی مخالفت کیوں کی جائے؟ یا امت مسلمہ کی خیر خواہی میں اصلاحات اور تجدیدی کارروائیوں پہ گر کوئی غور و خوض کرتا ہے تو اسے مطعون کیوں کر کیا جائے؟
نفس مضمون کو تہذیب و ثقافت کی ترویج کے رجحان سے سمجھیں تو سمجھ آئے گا کہ اصلاح اور تجدید کے مسائل مختلف فارمولوں کی بنیاد پہ اخذ نہیں کیے جاتے، بلکہ اس پہ گفت و شنید سے پہلے مفاہمت اور معاونت کا جذبہ درکار ہوتا ہے جس کا لامحالہ تعلق مادی اغراض اور غیر مادی مصالح سے برابر کا ہوتا ہے۔ اگر مسلم معاشرہ کسی غیر مسلم معاشرے کے زیر نگیں ہو تو آپ کی تاریخ کی مملکت خواہ کتنی ہی وسیع و عریض ہو آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ اپنے گھوڑے کی لگام مضبوطی سے پکڑ رہیں اور ساتھ ہی یہ کام کرتے رہیں کہ آپ کی دینیاتی تعبیر آپ کے دور میں بے معنی محسوس نہ ہو۔ ایسے میں ایسا تصور جو دین کی تفہیم اور اس کی عملی تنظیم میں اشراف-خواص کی اجارہ داری کے پیدا کردہ ”تقریبا ظلم“ کے نتیجہ میں ایک نئے تخلیصی تشخص کے ساتھ ”عوام موافق“ تحریکات میں اسلامی تفہیم کو ایک نمایاں موضوع دے تو انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسے تصور کو خاصی اہمیت دی جانی چاہیے۔
برصغیر کی معاشرت میں دینی تاریخ کو جن حوالوں سے سمجھا جاتا ہے وہ (الف) صوفیاء اور ان کی گراں قدر عوامی خدمات کے ذریعہ یا (ب) خفیف تصوف کے حاملین کی دینی خدمات کے ذریعے جس کا ایک بڑا تاریخی اور حکومتی پس منظر بھی رہا ہے یا (ج) عہد جدید کے حوالے سے دینی تعبیر پہ اشرافیہ کی بالادستی کے ذریعہ۔ اس کے علاوہ کی تفہیم مین سٹریم ہونے کے مواقع سے محروم ہے۔
سوشیالوجیکلی دیکھیں تو یہاں مسالک کی دین فہمی یا دینی عقل کے استعمال میں مصلحت کا خیال رکھنا عقل مخالف رجحان سے زیادہ معاشرت کے کنٹرول کے لیے رہا۔اس میں مثال کے طور سے عورت شر کے گلیاروں کا دہانہ کھولتی ہوئی نظر آتی ہے اور مرد عورت کی نفس پروری کا شکار ہوکر پینتالیس سال کی عمر میں بھی پارسا کا پارسا بنا رہتا ہے۔ دراصل بات انصاف کی نہیں تہذیبی تعینات کی بھی ہے۔ تہذیب میں عورت و مرد کی جگہ متعین ہے جس میں دین کی تعبیر کا نمایاں کردار ہے۔ ایسے میں کوئی کتاب و سنت کا پابند سچے دل سے تعبیر کی غلط بیانی کو اجاگر کر قرآن مجید اور سنت رسول اللہ کو معیار بنا کر انصاف کی بات کرے تو ایسی بات کرنے والے کو دینی فقہیات کی چہار قطبی محل میں کیوں جگہ دی جائے گی؟ اسے تہذیب کا قاتل کیوں نہ کہا جائے گا؟ قرآن و سنت کی یہ تخلیصی تعبیرات یقینا فقہی سوچ کی برہمنیت سے آزادی کی راہ تلاش کرنے کے لیے اور فرائض خداوندی کو تصور حق سے جوڑنے کے لیے تھی۔
برصغیر کی دینی تاریخ میں رقعہ رقعہ اور حرف حرف پہ نظر رکھنے والی فکر کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ تعبیری کاروائی میں بھی اپنی انرجی صرف کرتی رہی۔ اس کی سب سے بڑی تعبیر فرنگی استعماریت مخالف مزاحمتی کرنٹ کو ایک وجہ وجود اور وجہ تسلسل دینا تھا وہیں اسی استعماریت کی فکری تربیت اور تنویری افکار کو سمجھنا اور ان سے ایک سے زیادہ طور کا حوار کا انتظام کرنا اور ”سرکاری مذہبی کلنسنگ“ سے خود کو بچانا بھی ٹھہرا۔ حواری یا ڈائیلاگ کا اہتمام کرنے کی جد و جہد تجدیدی بصارت اور اصلاحی دوربینی کا پیش خیمہ تھی جبکہ مزاحمت مٹی کا حق ادا کرنے اور حکم الہی کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے تھی ۔
برصغیر میں اشرافیہ کے قضیہ کو سمجھنے کے لیے یک سطری صوابدید کافی نہیں مگر اشرافیت کا منفی اثر جذب کرنے والے سب سے زیادہ وہ علماء رہے جو ”محض“ علماء کے علم کی بالادستی پہ بضد تھے۔ یہ ضد چند لوگوں تک محدود نہیں تھی بلکہ برابر بنا تفریق مسلک و ملت پھیلتی رہی گو کہ وہ آج کے کتاب و سنت کے حاملین اور سلف کے معنی کو بھرپور انداز میں سمجھنے والے علماء کے درمیان ہی کیوں نہ ہوں۔
کتاب و سنت کے رکھوالے اجتہاد کی غلطی کو اجتہاد کی غلطی ہی سمجھتے تھے۔ اگر ایسی کوئی غلطی واقع ہوئی جس نے افکار کا ایک ملغوبہ اندرون اسلام میں کھڑا کر دیا اور افراد کے ایک سیلاب کو منظم کر دیا تو اسے خواب کی تعبیرات کے عمل میں ایک تعبیر مان لینے میں کیا حرج ہے؟ تعبیر کا عمل جاری تو ہے۔ ایسی تعبیر کو مزید سوچنے کے جرم کی پاداش میں صبح و شام کسی کو سولی پہ چڑھانا عجیب ہے۔ فکر کی مختلف الجہات پوزیشن ہوتی ہیں جو کہ تعبیرات کی عمل میں ملوث ہونے کے نتیجے میں نکل کر آتی ہیں۔ فکر کی پوزیشن کو کسی بیرون ریاست موافق کردینا بھی اچھا ہو سکتا ہے اس شرط پہ کہ ریاست اور تعبیر کے عمل میں کوئی تعلق ہو مگر ریاست موافق ذاتی قسم کے حرکات و سکنات کو فکر مان لینا ایسے ہی ہے جیسے پٹزا پہ لگی ہوئی چیز کو گھی سمجھ لیا جائے۔
کتاب و سنت کے متبعین جو نص قرآنی کی بالادستی اور نص فہمی کی معنویت کے قائل ہیں وہ دو خیالی باتوں کو حقیقت بننے نہیں دیں گے؛ پہلی بات یہ کہ سلف کے منہج کو سمجھنے کے لیے وہ فروعیاتی چشمہ کو پہننے کو عین اسلام نہیں مانیں گے۔ دوم، وہ سلفیت کے نام پہ ذاتی اغراض، علاقائی و خاندانی فخر اور اداریاتی سوچ کو حاوی ہونے نہیں دیں گے۔
ہم ایسی دہلیز پہ کھڑے ہیں جہاں سے خواب اور تعبیر کے درمیان رشتہ کی تجدید کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ دینی سوچ کو ایک وجہ دینے کے بجائے جامعاتی علماء کا مکڈونالڈائزیشن اپنے عروج پہ ہے۔ شوگر کینڈی کھاتے کھاتے اب تو ہمارے الفاظ بھی بے اثر ہیں اور محض ایک شور سے زیادہ کچھ نہیں؛ یہ ہماری موجودہ صورتحال ہے———آپ مانیں یا نہ مانیں۔ خواہ اس تجزیے کو انگریزی لہجہ کہیے یا جدید تعلیم کا خمار، اس پہ اخوانی اثر کا برانڈ لگایئے یا مراد سے ناخواندگی کا اظہار کر ہاتھ جھاڑ لیجیے یا انصاف پسند حنفی علماء کی فکری مواصلات کا عکس باور کرائیے، ایک مثقف ذہن یہی کہے گا کہ اینٹیں مار کر میدان مار لینا آسان ہے مگر علمی ہنر، فکری لیاقت، کیسہ میں کم پیسہ رکھ کر بلند سوچ کو سیکھنے سکھانے پہ زور دینا کسی طور سے وہ عمل نہیں جو سلف صالح کے تصور سے نبرد آزما ہو۔ جبکہ بدویت ایک میں اسی طرح پہچانی جاتی ہے جس طرح ہزار میں۔

5
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
3 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rahman Siddiqui

بہت ہی گنجلک مضمون ہے ۔

سعد احمد

جی میں اسے سدھاروں گا اور مزید اختصار اور وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا.

Saad Ahmad

جی صدیقی صاحب توجہ: ظاہر سی بات ہے لکھنے پڑھنے کا پورا عمل دراصل شہری عمل ہے. دیہاتی عمل کسی طور سے نہیں. آپ لکھنے پڑھنے کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلے گا لفظ کی ایجاد، ان کا بولیوں میں ڈھلنا، اور تہذیبوں کے بنانے میں ان کا کردار دراصل ان مکان اور جگہوں میں ہوتا ہے جسے شہر کہتے ہیں. اسلام کو ہم ہمیشہ شہری اور مدنی مذہب اس لئے کہتے ہیں کہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد تعلیم، تربیت، تہذیب اور تمدن پیدا ہوتی ہے. اسلام نے پرانے عرب اور ان کے غلط عمل اور ضد… Read more »

Saad Ahmad

توجہ: ظاہر سی بات ہے لکھنے پڑھنے کا پورا عمل دراصل شہری عمل ہے. دیہاتی عمل کسی طور سے نہیں. آپ لکھنے پڑھنے کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلے گا لفظ کی ایجاد، ان کا بولیوں میں ڈھلنا، اور تہذیبوں کے بنانے میں ان کا کردار دراصل ان مکان اور جگہوں میں ہوتا ہے جسے شہر کہتے ہیں. اسلام کو ہم ہمیشہ شہری اور مدنی مذہب اس لئے کہتے ہیں کہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد تعلیم، تربیت، تہذیب اور تمدن پیدا ہوتی ہے. اسلام نے پرانے عرب اور ان کے غلط عمل اور ضد کو ٹھنڈا بھی… Read more »

SAAD AHMAD

مکڈونالڈائزیشن مشہور سوشیولوجسٹ جورج رٹزر کی اصطلاح ہے جسے اس نے اپنی کتاب ” مکڈونالڈائزیشن آف سوسائٹی (۱۹۹۳)“ میں ذ کر کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک معاشرہ جب ریستوران کی فاسٹ فوڈ خصوصیات اپناتا ہے توہ معاشرہ مکڈونالڈائزیشن کے پروسس میں مبتلا ہو چکا ہوتا ہے۔