وقت، لمحے، ساعت، منٹ، گھڑی بھر، پل بھر، وقتی اور اس جیسے بہت سے الفاظ ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ انسان کے وجود کا جغرافیہ کیسے متحرک ہے۔ وقت کے مختلف زاویوں میں ایک انسان کس قدر لپٹا ہوا ہے، پھنسا ہوا ہے اور کبھی کراہتا ہے اور بعض اوقات خوش بھی ہو جاتا ہے۔ شاید یہ وقت نامی ایجاد کے اندر لمحے، منٹ، گھڑی اور وقتی اس خیال کا خیال ہیں جسے ہم مان لیتے ہیں۔ آپ یہ جان لیں کہ وقت بھی ایک ایسا عقیدہ ہے جو پہلے مانا جاتا ہے۔ اس عقیدے پہ عمل کرنے کے لیے پہلے سے ہی کوئی ثبوت ہے بھی اور نہیں بھی۔ مثال کے طور پہ کسی بھی شئی کا ہونا اور اس پر ایک عرصہ گذر جانے پر وقت نامی اصطلاح سے ہم واقف ہوتے ہیں۔ رات و دن کے الٹ پھیر کا عمل تبدیلیوں کا احساس کراتے ہیں۔ تو کیا وقت کو اس کے متعلقات کے بغیر سوچا جا سکتا ہے ۔۔۔یا نہیں؟ وقت کی کوئی مادی ساخت ہے بھی نہیں مگر اسے تو بہت واضح انداز میں سوچا جاتا ہے۔ ہماری زبانوں میں وقت کو بیان کرنے کے لیے بے تحاشہ انداز ہیں۔ سارے انداز میں وقت کا تعلق حرکت سے ضرور ہے۔ مثال کے طور پہ کہا یہی جاتا ہے کہ وقت چل رہا ہے، وقت گذر رہا ہے۔ کسی کا دور آیا، تمھارا زمانہ گیا وغیرہ۔ لہذا وقت کے بارے میں تمام باتوں کی بات محسوساتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یعنی ہم نے اس بات کو محسوس کیا کہ صبح ہوئی یا شام ہوئی، صبح ہونے یا شام ہونے کا تعلق فطری چیزوں سے ہے جس پر یہ وقت آیا اور اسے دیکھا گیا، محسوس کیا گیا۔
اب دیکھیے، وقت کو محسوس کرنے کے لیے انسان عقل کا استعمال کرتا ہے، آب و ہوا سے لے کر تندی و سختی تک ناپنے کے لیے اپنی حس کا استعمال کرتا ہے جس کا اعلی درجہ تمیز ہے۔ حس کے استعمال تک کا معاملہ تو تمام جاندار کے ساتھ بھی ہے مگر درجہ تمیز صرف انسان کے ساتھ خاص ہے۔ (درجہ تمیز جانوروں میں ان کی وجودی ضرورتوں تک ہی محدود ہے)
انسان کے اندر حسِ تمیز وہ شئی ہے جو معاشرے کو بنانے اور تہذیب و تمدن کی تخلیق میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ تمیز بھی ایک فطری چیز ہے جو تمام انسانوں کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ مگر شرح تمیز و امتیاز معاشرے کے اندر اولو الالباب، اولی النھی، مفکرین، مدبرین اور معلمین اپنی اپنی تہذیبی تصور کے مطابق ترتیب دیتے ہیں۔
پرانے سوچنے والوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ وقت نامی چیز گویا ایک نہر ہے جس میں وجود، وجود کا احساس، شعور، یاد داشتیں، زندگیاں، فطرت میں اتھل پتھل کے واقعات کے انداز کا ایک جانب بھاگتے رہنا ہے۔ وقت نامی اس نہر میں بسا اوقات یکبارگی کوئی حادثہ ہوتا ہے اور بلبلے، گیس کے ساتھ ساتھ ایسے جھاڑ جھنکاڑ پیدا ہو جاتے ہیں جو نہر کے بہاؤ پہ خاطر خواہ انداز میں اثر ڈالنے لگتے ہیں۔ فاسد جیسا لفظ اس پوری کاروائی کو انسان کی شرح امتیاز کو مد نظر رکھ کر ایک وجہ اور مقصد دیتا ہے یعنی انسان اس لفظ کی معرفت سے فساد کی ماہیت کو متعین کرتا ہے اور تمام اشیاء اور نہر کے اندر واقع ہونے والے اشیاء فاسدہ کا تدارک کر نہر کے کاروبار کو جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک ہوشمند اور تمام قرینوں سے واقف شخص کو یہ بات کبھی گوارا نہیں ہوگی کہ وقت نامی نہر میں برپا فساد پھیلتا جائے اور مزید مہلک گیسیں، بلبلے اور جھاڑ جھنکاڑ پیدا ہوں۔ یہ وقت کی واقعاتی تشریح ہے جس کا تعلق انسانوں کی پیچیدہ تہذیب اور ان تہذیبوں میں پھوٹتے ہوئے وقت کے پیمانے سے کسی نہ کسی طور سے تو ہے ہی۔
وقت کی تہذیبی تشریح (یا تہذیب کے نکتہ نظر سے) کرنے کے لیے ہم تاریخ نام کا آلہ ایجاد کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی خاص وقت میں انسان اور وقت کا کیا رشتہ ہے۔ انسان اور وقت کی معاشرتی تفہیمات کیا ہیں۔ انسان وقت، معاشرہ اور اس معاشرے کے عملی نتائج، اچھے اور برے عمل کے درمیان کیا معاملہ ہے؟ اس ضمن میں سوشیالوجی کے باوا آدم ابن خلدون نے بہت سے پیرائے بیان کیے ہیں جن میں امتوں کا زوال، عروج، جغرافیایی قدریت، بود و باش کے طریقے اور زندگی جینے اور ترقی حاصل کرتے جانے کے دوسرے رہنما اصولوں پہ روشنی ڈالی ہے۔ آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہو گی کہ تاریخ دراصل اس آدمی کی کہانی ہے جو اسے کہتا ہے۔ ایک تاریخ کہنے والا انسان وہ آدمی ہوتا ہے جو پورے کے پورے معاشرے کو ایک نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دیکھنے کے نقطہ نظر کی بنیاد پہ چیزیں الگ الگ نکھر کر آتیں ہیں۔ ابن خلدون کے علاوہ بھی علم عمرانیات کے مسلم عرب اور مسلم فارسی ماہرین نے ایک پورے نظام کو ہمارے لیے پیش کیا ہے۔ انتہائی حیرت یہ جان کر ہوتی ہے کہ مشرق میں عہد وسطی کے زمانے سے لے کر مغرب میں وکٹورین عہد تک ایک خاص معنی والے لفظ کو برابر استعمال کیا جاتا رہا اور اس کے ذریعے سے عظیم شخصیات، عام لوگ اور بدترین لوگوں کے درمیان امتیازات کی تشریح کی جاتی رہی۔ یہ لفظ کمینہ، ضغین، لئیم، منافق، لو بریڈ، ill cultivated, ill-bred , uncultured, موقع پرست، چالاک، شاطر، مکار، عیار، دھوکے باز، دوغلہ، حرامی، موقع باز، موقع شناس، سبک حرکات، سبک وضع، سفلہ مزاج، باسٹرڈ جیسے معنوں کے ساتھ نہ جانے کس کس انداز اور قرینے کے ساتھ ابھرتے اور عوام کی زبان کا ذائقہ ہی نہیں بلکہ ایک خاصے تہذیبی حکم اور معاشرتی خیر و شر کے تصور کی پرداخت بھی کرتے۔
ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ دنیا میں عقل والوں کا سب زیادہ کلاسیکی کنبہ یہ رائے دیتا ہے کہ دنیا چلانے کے عمل میں ایک ایسا نظام بھی عمل میں آئے گا جس میں دجل اور جھوٹی دعوے داری کا دور دورہ ہوگا۔ ہاں آپ نے صحیح پہچانا یہ بات جمہوریت کے بارے میں ہی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ قدیم یونانی سوچنے والوں کی یہ رائے تھی کہ اس نظام میں اگر اسلامی اصطلاح کی زبان میں بھی بولیں تو ضُلال کی چاندی ہوگی۔ خیال رہے کہ ہمیں جمہوری مزاج سے دقت نہیں ہے ہاں جمہوری نظام میں بدنظمی پیدا کرنے والوں کا جتھہ پورے آب و تاب سے متحرک رہے گا جس کی تفہیم کے لیے یہ تحریر روشنی ڈالنے کی ناکام جسارت کرتی ہے۔
سالوں سال غور کرنے کے بعد اور مختلف میدان کے علماء اور عوام کی رائے کا ادراک کرنے کے بعد یہ بات کھل کر آئی کہ جمہوری نظام کی نقاشی کوئی اعلی درجے کے علم والے تو نہیں کرتے بلکہ باتوں کو اچک لینے والے صحافی نما لوگ یا صحافت کی سیج پہ دھڑ دھسا کے بیٹھ جانے والے لوگ ہی کرتے ہیں۔ جمہوری نظام میں جمہوریت کی امکانیت کو ایک سمت میں لے جانے والے صحافی اوراس کا سیاست دانوں کا گروہ ہی ہوتا ہے جو خبروں کی تسکری پریشر گروپ کی ضرورت کے مطابق کرتا ہے۔ اس سے قطع نظر جمہوریت میں بھی اعلی درجہ کے علم والے وہی کام کیا کرتے ہیں جو صدیوں سے علم والے کرتے آئے ہیں یعنی تعبیر اور تفہیم کا کام، نظریوں اور تصورات کی ترتیب و تحریر کا کام۔ اسے عمل میں لانے والا نظام اسے عمل میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ کے علوم تعبیر و تفہیم کرنے والوں کے علم کی برابری کسی طور سے بھی نہیں کر سکتے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں ایم بی اے کا درجہ آفاقی اہمیت کے لحاظ سے ماسڑز ان فلاسفی، علوم دینیہ میں ماجستر یا علم الحدیث میں تخصص کے برابر تو کسی طور سے نہیں بلکہ آپ دونوں کے تقابل میں ایم بی اے کو حقیر مانیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
اوپر جو الفاظ ہم ذکر کر آئے ہیں وہ اور ان سے متعلق تمام قیاس آرائیاں جمہوریت میں ناپید نظر آنے لگی ہیں۔ یعنی جمہوریت کے پہلے کے دور میں ذلیل، کمتر سوچ والے مفاد پرستوں کی جو معرفت تھی اس دور کے نظام اور علم والوں کو حاصل تھی وہ معرفت آج ناپید سی کیوں محسوس ہونے لگی ہے ہمیں نہیں معلوم۔ “اشراف پاؤں پڑے کمینہ سر چڑھے” اس محاورے کو اگر آپ کسی خاص عصبی سیاق کے ساتھ نہ لیں تو ایک طرف تو اشراف اور شریف کا کردار ہے تو دوسری جانب رذیل کا کردار ہے۔ اب اس رذیل کو ہندوستانی سیاق دینا چاہیں تو لامحالہ آپ کو آزادی سے قبل والی مخصوص قومیت والے دور میں جانا پڑے گا (جو کہ قومیت کی جدید تشکیل کا دور ہے)۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ اوپر بیان کیے گئے الفاظ کے سیاق صرف ایک لفظ غدار میں مدغم ہوجاتے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ آپ غدار کہہ دیں اور اوپر ذکر کیے گئے سارے الفاظ بیان کر دیں، موخر الذکر لفظ سب پہ بھاری ہوگا۔ ہاں غدار اس قدر حساس لفظ ہے جو مومن کے ایمان پہ ہی نہیں بلکہ ایک اوباش قسم کے شخص پہ بھی تیزابی اثر ڈال دے گا۔ غدار ایسا سخت لفظ ہے جو وفاداری کی نقیض کرتا ہے اور سئی الصفت والی نفس پروری کی تائید۔ بد عہدی، غداری، بے وفائی، ایمان پہ حملے، عزت و ناموس والوں کی عزت اچھالنے کی عادت قبیحہ جیسے الفاظ اور جملے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جمہوری نظام میں جسے ہم غدار کہتے ہیں اس کے اندر ان تمام خاصوں کو بھی مانتے ہیں جو پہلے صرف ایک مزعومہ رذیل خاندان میں پائی جاتی تھی۔ قابل ذکر جو بات ہے وہ یہ کہ پہلے کے معاشرے کے تصور کے مطابق اب ہم حکم نہیں لگا سکتے اس لیے کہ علی العموم ہمارا تمام نظام جمہوری یا جمہوریت متاثر ہوچکا ہے۔ اب قانونی سیڑھی سے ایک قدم آگے کامن سینسکل درجے پہ ہی اوپر ذکر کیے گئے خاص الفاظ کا استعمال کسی شخص کے لیے کرنا ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ یعنی جمہوری اقدار میں حقوق کا فلسفیانہ زور فرد و قانون کی تشکیل میں اتنا زیادہ ہے کہ پہلے والوں کی تمیز اور شرح تمیز بالکل بدلنے لگی ہے۔ یہی جمہوری اقدار ہیں جن کی بنا پر ہم آج ہندوستان میں ہی ہندو عقیدے کے مطابق ان کی نچلی ذات والوں کو ان کے عقیدے کے باوجود چمار، یا سور چرواہا نہیں کہہ سکتے۔ یہ سب جمہوری اقدار کے عملی اقدامات کی وجہ سے ہوا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح اسلام کی اولین شکل و عمل کے نتیجے میں معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی ناانصافیاں کنارے لگ گئیں تھیں۔
ایسے میں کتاب و سنت کے رکھوالے کیا کر سکتے ہیں؟ کتاب و سنت کے رکھ والوں کو وہی کرنا ہے جو وہ ہمیشہ سے کرتے آئیں ہیں۔ ایم بی اے جیسے علوم کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھ کر انھیں دعوت دین و عمل کو ایم بی اے کے سانچے میں ڈھالنے یا مارکیٹ کی ڈمانڈ دیکھ کر اس کے مطابق ڈھالنے کے بجائے یا اطروحے اور اسائمنٹ کے طرز پر دینی سوچ کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کے بجائے انھیں ان علوم میں اپنی سوچ کو سرایت کرنا ہے جو صرف سوچنے اور دنیا کو سوچنے کے لیے برانگیختہ کرنے لیے وقف ہیں۔
اچھا، آپ اس تحریر کو ایک گفتگو مانیں کہ ہمیں گفتگو کرنے کی خاصی ضرورت بھی ہے۔ ہماری معرفت کے مطابق جھوٹے علم والوں کا ایک طومار برپا ہو چکا ہے تو وہ ہے، ہوگا۔ ہم نے اپنی صالح سوچ کے ساتھ کس کا سامنا کیا ہے۔ اس ضمن میں چنندہ نصوص پہ خاصہ زور لگانے والوں کی صفوں میں یہ بات عام ہے کہ اسلام سادہ ہے، دعوت اسلامی سادہ لفظوں میں دی جاتی ہے، اور یہ بیان اس قدر ظالم ثابت ہونے لگا ہے ہم اپنے آپ کو دنیا۔مخالف، علم۔مخالف کی راہوں پہ لگانے لگے ہیں۔ بیان تو بالکل سچا ہے کہ اسلام سادہ ہے مگر سچی چیزوں کی ترسیل ہر زاویہ اور ہر خلا میں ہونی چاہیے جسے پر کرنے کے لیے ہمیں جانیں لگانی ہیں۔ اچھا ذرا گہرائی سے دیکھیں، کیا اسلامی دور ابتدا سے سترہویں صدی تک تمام کا تمام سادگی کا دور تھا، علم و عمل کی گوناگوں راہیں کس نے کھولیں؟ کیا سب منہج سلف سے ہٹے ہوئے تھے؟ نہیں۔
اسلامی ادوار اور اس میں پیدا شدہ علوم و فنون کی ترقی میں ایک تصور حق، ایک تصور کمیونٹی، ایک تصور سلف بھی مبتلا رہا جسے اپنانے والوں نے فطرت سے دوستی کی تھی، وقت اور حالات کے مزاج سے برابر نزاع میں رہتے مگر اس کے سامنے گٹھنے نہ ٹیکتے۔ کیا علماء حق آج موجود ہیں؟ اگر موجود ہیں تو یہ کیسے علماء حق ہیں جو بہت سے نظام کے ساتھ ایک ساتھ ہیں؟ جو نہ کبھی جیل جاتے ہیں؟ نہ کبھی شدائد جھیلتے ہیں؟ نہ کبھی صدیوں کو لمحوں میں بیان کرتے ہیں اور نہ کبھی لمحوں میں صدیاں نچوڑتے ہیں؟
ایسے میں اگر کوئی شخص وفا کا ذکر آج بھی کرتا ہے تو اس کے منہ تک کو نوچنے کے لیے مستبدین کیوں دیوانے ہیں؟ کسی نے وقت کو وقت کے باہر اور اندر دونوں طور سے محسوس کیا ہے تو اس کی محسوسات سے ہم بات کیوں نہ کریں گے؟ کسی نے تاریخ کو پیا ہے تو اس کے گلے تک سے علم کو ہم کیوں کھرچ دیں؟ کسی نے جدید جمہوریت کے اقدار، اسلامی اقدار اور دار المختلط کے اقدار کو خوب سمجھا ہے تو اس سے ہم فیض کیوں نہیں اٹھاتے؟ کسی کو شر اور خیر کی تمیز ہے تو اسے ہم بنا تمیز والا ثابت کرنے کے لیے کیوں دوہرے ہوئے جاتے ہیں؟ کوئی تقوی کی وجہ سے صاف شفاف ہے اور خشیت الہی کی وجہ سے اندر سے پاش پاش ہے تو اسے ہم سر پر کیوں نہیں بٹھاتے؟
کسی کو معاشرت کی بیع و شرع کرنے والوں کا علم ہے تو اس کی جان کے در پئے ہم کیوں ہیں؟ کسی صاحب حریمِ محبت کو قوم کے استخواں فروشوں کی اچھی خاصی پہچان ہے تو اس کی معرفت کی زنجیر سے دوسرے علماء حق کیوں نہیں بندھ جاتے؟ اور کسی نے پچھلی نصف صدی کے سلف کے تصور اور دینی سوچ کے اقتصاد، معاشرت، سیاست اور حسیت کو جستہ جستہ اور لمحہ لمحہ دل میں انڈیل لیا ہے تو__ جاو اپنی اپنی سرکاروں سے پوچھو کہ ____ ہم اسے نصف صدی کا بیٹا کہنے میں کیوں رد و قدح کرتے ہیں؟
ایک سچے ذہن، دماغ، سوچ اور ارادے والے کو موضوع بحث بنانا بہت مشکل ہے بالخصوص اس کے لئے جو سچ اور حق گوئی کی جنگ میں انگلی کٹا کر شہید ہونے کا قائل نہیں ہے. مضمون میں ابھرتے ہوئے عالم وہ شخص ہیں جنہوں نے حق کی تفہیم کے لئے خاص وقت اور زمانے کو پی لیا . تلخ تجربات اور مشاہدات اسکے پسندیدہ مشروبات ہیں اور دعوت و اصلاح اور ان سے متعلق سلف کی تصور کی آبیاری ان کے احساس و شعور میں داخل ہے. مضمون میں ابھرتی شخصیت مولانا عبد المعید ہیں جو اپنی شہہ رگ… Read more »