ہر پانچ منٹ میں ایک بلاتکار

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

یہ نام نہاد مہذب سماج جہاں ایک طرف اپنی مرضی سے خواتین کو گھروں سے باہر نکالنا چاہتا ہے تاکہ بلا روک ٹوک ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کر سکے، ایک کھلونا بنا کر اسے اپنے قریب رکھنا چاہتا ہے اور جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو پھر اسے بے یارو مدگار چھوڑ دیا جاتا ہے بالآخر وہ خاتون در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
یہی وہ سماج ہے جو بچیوں کو دنیا میں آنے ہی نہیں دینا چاہتا بلکہ انھیں ماں کے کوکھ میں ہی مار دیا جاتا ہے۔
افسوس ہوتا ہے کہ یہی واویلا مچانے والے جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ عورتوں کو برابری کا حق دیا جائے انھیں بھی آزادی حاصل ہو، وہ اپنے من سے جو چاہیں کر سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن یہی ان سے ان کے جینے کا حق تک چھین لیتے ہیں۔ افسوس ہے ایسے ظالموں پر جو بیٹی کی پیدائش کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں، جو ان ماؤں کو جن کے یہاں بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں عار دلاتے ہیں انھیں بے عزت کرتے ہیں حالانکہ یہ اللہ کے قبضہ قدرت میں اور اس کی منشا پر منحصر ہوتا ہے عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا۔
ایسے ہی لوگوں کے متعلق کسی عربی شاعرہ نے کہا تھا کہ:

مال لأبي حمزة لا يأتينا
ينام في البيت الذي يلينا
غضبان ألا نلد البنينا
تالله ما ذاك في أيدينا
نحن كالأرض لزارعينا
ننبت ما قد زرعوه فينا

ابو حمزہ کو کیا ہوگیا کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتے، حالانکہ وہ پاس والے گھر میں سوتے ہیں،
وہ غصہ ہیں اس بات پر کہ ہم کیوں نہیں بیٹے پیدا کرتے،
قسم ہے اللہ کی یہ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے،
ہم اس زمین کے مانند ہیں جو زمین کھیتی کے لیے ہوتی ہے اور ہم وہی اگاتے ہیں جس کی کاشت کی جاتی ہے۔

اس طرح کے ذہنی بیمار لوگ کبھی تو غور کرلیں کہ وہی بچی بڑی ہو کر افزائش نسل کا سبب بنتی ہے کسی کی ماں ہوتی ہے تو کسی کی بیوی، کسی کی بیٹی ہوتی ہے تو کسی کی بہو، الغرض انسانیت کا پورا سسٹم مرد و زن کے ملاپ پر منحصر ہے لیکن ان مفاد پرستوں کو ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔

مذہب اسلام تو عورت کو دنیا کا بہترین اور سب سے قیمتی سرمایہ قرار دیتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ” (رواه مسلم، (1467)

حالانکہ اگر آج بچیوں کو ماں کی کوکھ میں مارنے کی شرح دیکھی جائے تو مسلم سماج پیچھے نہیں ہے، یہ کافی افسوس ناک امر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم سماج معاشرے کو اس بدترین حالات سے نکالتا جبکہ ایسا نہیں ہو رہا ہے الا ما شاء اللہ۔
اپنے ملک میں ہر سال ایک سو چھپن لاکھ (156Lakhs) اسقاط حمل ہوتے ہیں اور اس میں ایک بڑی تعداد بچیوں کی ہوتی ہے۔
انڈین منسٹر فار ویمن اینڈ چائلڈ “محترمہ مینکا گاندھی” اپنے ایک پریس کانفرنس منعقدہ 17 ستمبر 2014 نیو دہلی میں سرکاری رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:
“ہر دن انڈیا میں ماں کی کوکھ میں 2 ہزار لڑکیاں قتل کی جاتی ہیں”۔
(یہ نیوز Time.com انگلش نیوز پورٹل پر رشی اینگر کے آرٹکل میں موجود ہے جو کہ 22 اپریل 2015 میں لکھا گیا ہے)
ہر دن…. اللہ اکبر…..ہر دن دو ہزار بچیاں مار دی جا رہی ہیں…
یہ ملک معصوم بچیوں کے متعلق کتنے خطرناک صورتحال سے دوچار ہے، اور ہماری عوام اور اس کی سوچ بیٹیوں کے متعلق بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
ہم جب ملک کے حالات پر غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ عجیب و غریب حالات ملک میں بچیوں کے متعلق ہیں، اگر بچیاں پھلتی پھولتی ہیں تو پھر یہی سماج کے بدکار و بد کردار لوگ ان بچیوں سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر یہ ملک کبھی کٹھوا کی لاڈلی کے لیے روتا اور بلکتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی انناؤ کی بیٹی پر کیے گئے مظالم پر کف افسوس ملتا ہے اور ملک کے نیتا اپنی غنڈہ گردی سے متاثرہ لڑکی کو یا تو مار ڈالتے ہیں یا زندہ جلا دیتے ہیں اور اگر کسی بیٹی نے جسارت کرلی کہ ایسے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو ایسی بچیوں کو اور ان کے گھر والوں کی زندگیاں تباہ کر دی جاتی ہیں، (Save the Daughter, Educate the Daughter) بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا حکومت نعرہ بھی دیتی ہے لیکن انہی کے قریبی اس طرح کے جرائم کا ارتکاب دھڑلے سے کرتے ہیں، لیکن ان پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔
ایک خبر ابھی چند دنوں پہلے دیکھنے اور سننے کو ملی کہ ایک تین سالہ معصوم بچی اپنی والدہ کے ساتھ اسٹیشن پر لیٹی ہوئی تھی دو ظالم آئے اور اس معصوم کو گود میں اٹھا کر لے گئے، اس کی عصمت تار تار کی اور پھر قتل کردیا۔
کیا حالت بنا رکھی ہے قانون کے ٹھیکیداروں نے کہ ایک سے ایک بھیانک خبریں سننے کو آئے دن ملتی رہتی ہیں،
جو بچیاں ماں کی کوکھ سے بچ کر دنیا میں آنکھیں کھول تو لیتی ہیں لیکن یہ بربر سماج انھیں دوسرے طریقوں سے پریشان کرکے ان کی عصمتوں کو تار تار کرتا ہے اور ان کی زندگی کو تاریکی میں ڈال دیتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اس بار عصمت دری کے مدعے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے اور فی الفور ملک کی تمام صوبائی عدالتوں کو حکم صادر کیا کہ وہ جلد از جلد رپورٹ جمع کریں کہ کتنے زنا بالجبر کے واقعات ان صوبوں میں پیش آئے ہیںم
ان تمام رپورٹوں کے مطابق:
1 جنوری 2019 سے 30 جون 2019 تک یعنی کہ چھ مہینے کے اندر ملک میں 24 ہزار 212 بلاتکار ہوئے ہیں، یعنی ایک مہینے میں 4000 بلاتکار، یعنی ایک دن میں 130 بلاتکار یعنی کہ ہر پانچ منٹ میں ایک بلاتکار کے واقعات اپنے ملک میں ہو رہے ہیں۔
(این ڈی ٹی رویش کمار پرائم ٹائم 15 جولائی 2019)
اسلام کی تعلیمات اگر دنیائے انسانیت اپنا لے تو پھر بچیوں کا احترام اور ان کی عزت و عصمت محفوظ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے ایک یا دو بیٹی کی پرورش اور تربیت صحیح سے کر دی وہ جنت میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگا۔(أخرجه مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الإحسان إلى البنات، برقم (2631)
ایک اور حدیث میں ہے کہ بچیوں کی پرورش اور تربیت اگر اچھے سے کی گئی تو وہ جہنم سے بچاؤ کا سبب بنیں گی۔ (بخاري)
اسی طرح قرآن ان لوگوں کو تنبیہ کرتا ہو جو اپنی بچیوں کو مار ڈالتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنے خطرناک انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا:

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر:8،9)

ترجمہ: جب درگور کی گئی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کے سبب وہ قتل کی گئیں ہیں؟
در اصل قاتل کی سرزنش کی جائے گی کیونکہ مجرم تو وہی ہے نہ کہ درگور کی گئی بچیاں۔ تو وہ تمام مجرمین رب کے سامنے کیا جواب دیں گے، اس لیے ہم کو چاہیے کہ سماج کو اس سمت میں بیدار کریں اور اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ اس صورتحال سے سماج کو بچایا جا سکے۔
“ستیہ میو جیتے” نامی عامر خان کے ایک شو میں ایک خاتون نے اپنے متعلق بتایا کہ میری 6 بچیوں کو لگاتار سسرال والے پیٹ ہی میں مروا دیے بالآخر اس خاتون کو جب حمل ٹہرا تو سسرال سے بھاگ گئیں اور ساتویں بار بھی لڑکی پیدا ہوئی، وہ مظلوم عورت سسرال والوں کو سبق سکھانے کے لیے قانونی کاروائی کر رہی ہے، یہ ہیں زمینی حقائق ملک کے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ سماج میں خواتین کی عزت و ناموس محفوظ رہے تو اسلامی تعلیمات پر پہلے خود عمل کریں۔ پھر اپنے غیر مسلم بھائیوں کو اس دین کی دعوت دیں، اس کی تعلیمات کے آگاہ کریں۔ بالعموم لوگوں کو بچیوں کے حقوق اور اولاد کے متعلق ان کی جوابدہی کا احساس دلایا جائے تاکہ اس طرح کے جرائم پر قدغن لگ سکے اور ایک بہتر سماج تیار ہو سکے۔

آپ کے تبصرے

3000