علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی : حیات اور خدمات

کتاب علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی: اشاریے اور ملاحظات

عامر انصاری تعارف و تبصرہ

کتاب کا نام : علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی : حیات اور خدمات
مؤلف کا نام : محمد ابو القاسم فاروقی
صفحات : 696
اشاعت اول : اپریل 2019م
تعداد : 600
قیمت : 650
ناشر : مرشد پبلیکیشن ، شاہین باغ ، جامعہ نگر ، اوکھلا ، نئی دہلی

ایک زمانہ تھا جماعت اہل حدیث میں اپنے بزرگوں پر لکھنے کا رواج نایاب یا کمیاب تھا ، میاں صاحب پر ان کے شاگرد رشید فضل حسين بہاری کی ایک کتاب الحیاة بعد المماة تھی ، تلامذہ شیخ الکل یا دیگر اکابر علماء اہل حدیث پر مستقل تصنیف بہت کم تھی ۔ اب تو میاں صاحب اور ان کے تلامذہ پر کافی مواد جمع ہوگیا ہے فالحمد للّٰہ علی ذلک ۔
تلامذہ شیخ الکل کو خاص علاقے کے اعتبار سے بھی ترتیب دیا جارہا ہے ۔ مثلا میاں صاحب کے اعظمی تلامذہ ، بستی وگونڈہ کے تلامذہ ، مئوی تلامذہ ۔ تنزیل صدیقی صاحب کا کام (دبستان نذیریہ) تلامذہ شیخ الکل کی ترتیب وتدوین میں سب سے اہم اور نمایاں ہے جس کی ایک جلد زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے ، دوسری جلد زیر طبع ہے ۔ تنزیل صاحب کی یہ کتاب علیمی کی کتاب کی یاد تازہ کرتی جس میں امام احمد کے تلامذہ کو دو جلدوں میں جمع کیا گیا ہے ۔

مرحوم اسحاق بھٹی نے اپنی توجہ سوانح نگاری کی جانب مبذول کی ، اپنے سیال قلم کو علماء کی سیرت وسوانح کے لیے وقف کردیا ، آپ کے فیاض قلم سے :
برصغير ميں اہل حديث كی آمد،برصغير ميں اہل حديث كى اوليات، برصغير کے اہل حديث خدام قرآن، چمنستان حديث، دبستان حديث، قافلہ حديث، كاروان سلف، گلستان حدیث ، استاد گرامی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، قاضی محمد سلیمان منصورپوری : عہد ، خاندان ، اساتذہ ، ہم عصر علماء ۔مولانا احمد دین گکھڑوی ، تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی : حالات ، خدمات ، خاندان ۔روپڑی علماء حدیث وغیرہ جیسی کتابیں لائبریریوں کی زینت بنیں جو آج علماء ، طلباء ، باحثین اور ریسرچ اسکالرز کے لیے مصدر کا کام کرتی ہیں ، بہت سی معلومات بھٹی صاحب نے اپنے حافظے سے رقم کی ہیں ، البتہ برصغیر کے بہت سے موجودین علماء کے بارے میں آپ نے دوسرے لوگوں کی فراہم کردہ معلومات پر اکتفا کیا ہے ۔ جس میں سہو و خطا کے در آنے کا امکان ہے علی کل حال یہ تفصیل طلب موضوع ہے ۔
اسحاق بھٹی کی حیات وخدمات کے لیے ان کی خود نوشت سوانح حیات ” گذر گئی گزران ” ، محمد رمضان یوسف سلفی کی کتاب ” مؤرخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی : حیات وخدمات ” اور جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) ترجمان الحدیث (اپریل تا جون 2016) کے ” اسحاق بھٹی نمبر” کا مطالعہ مفید ہوگا ۔
عبد الرشید عراقی بھی بزرگوں کی حیات وخدمات قلمبند کرنے میں پیچھے نہ رہے۔ ان کے قلم سے :
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات ، بر صغیر پاک و ہند میں علم حدیث ، تذکرة المحمدیین ، تذكرة النبلاء في تراجم العلماء، چالیس علماء اہل حدیث ، تذکرہ محدث العصر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری ، تذکرہ ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری ، تذکرہ حافظ عبد اللہ روپڑی ، مولانا ابوالکلام آزاد، تذکرہ حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ، حیات نذیر (شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی)، غزنوی خاندان ، تذکار نواب صدیق حسن خان ، شیخ الحدیث مولانا محمد یحیی گوندلوی وغیرہ جیسی کتابیں طبع ہوچکی ہیں اور اہل علم سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ عراقی نے “تذکرة المحمديين ” کے مقدمہ میں اپنی 42 کتابوں کا تذکرہ کیا ہے ۔
بھٹی اور عراقی صاحبان کے علاوہ بھی قلم کار اور سوانح نگار ہیں مگر ان دونوں حضرات کی خدمات نمایاں ہیں ۔
چند دنوں کے فاصلے سے میاں صاحب کے دو شاگردوں کے بارے میں کتابیں معرض وجود میں آئیں :
اول : علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی حیات اور خدمات از محمد ابو القاسم فاروقی
دوم : یادگار سلف (سوانح حافظ عبد اللہ غازی پوری) از حافظ شاہد رفیق
اول الذکر کتاب حاصل کرکے پڑھنا شروع کیا ، حاصل مطالعہ / تبصرہ پیش خدمت ہے ۔ البتہ دوسری کتاب ابھی تک نہ ملی ہے ، نہ پڑھی ہے ۔

مشمولات کتاب
کتاب چھ ابواب اور ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے ۔
باب اول میں سوانحی حالات بیان کیے گئے ہیں ۔ جماعتی ، ملی اور سیاسی تنظیموں سے روابط پر بھی گفتگو کی گئی ہے ۔
باب دوم میں علمی اور تصنیفی خدمات بیان کی گئی ہیں ۔ سیف بنارسی کی تصنیفات کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے دور میں چالیس کتابیں ، دوسرے دور میں پانچ کتابیں اور تیسرے دور میں رد قادیانیت پر بارہ ٹریکٹس ہیں ۔ آپ کی کتابوں میں اختصار نمایاں ہے ۔ اسی طرح اخبار اہل حدیث امرتسر میں شائع شدہ آپ کے مضامین کی موضوعاتی فہرست بنائی گئی ہے اور سیف بنارسی کے مضامین کا نامکمل اشاریہ بھی ہے ۔
باب سوم اساتذہ کے ذکر پر مشتمل ہے ۔ اس میں سیف بنارسی کے گیارہ اساتذہ کرام کا تذکرہ ہے ، دس اساتذہ کا تذکرہ اسی باب میں ہے ، گیارہویں استاد سعید بنارسی (سیف بنارسی کے والد محترم) کا تذکرہ باب چہارم میں تفصیل سے ہے ۔
باب چہارم میں خانوادہ سعیدی کے بانی سعید بنارسی (سیف بنارسی کے والد) کا تذکرہ ہے ۔ اس میں محدث سعید بنارسی کے حالات پر مفصل گفتگو ہے ۔ اساتذہ اور دیگر سوانحی حالات اجمالا جبکہ تالیفات پر تفصیلا گفتگو کی گئی ہے ، محدث سعید بنارسی کی کل 44 تالیفات ذکر کی گئی ہیں ۔
باب پنجم میں خانوادہ سعیدی کے دیگر علماء کا تذکرہ ہے ۔ اس میں بارہ علماء کے تراجم – سیف بنارسی کے بھائی ، بھتیجے ، صاحب زادے ، فاروقی صاحب کے والد اور بڑے بھائی – مذکور ہیں ۔ تاہم استاد فاروقی صاحب کے ترجمہ کی کمی محسوس ہوئی ۔
باب ششم میں تلامذہ کا تذکرہ ہے ۔ اس میں انیس تلامذہ کا ذکر خیر ہے ۔ خانوادہ سعیدی سے تعلق رکھنے والے تلامذہ کا تذکرہ باب پنجم میں ہوچکا ہے ۔ تاہم تلامذہ کے باب کو اور وسیع کیا جاسکتا ہے ۔ فاروقی صاحب ص 19 پر لکھتے ہیں ” مدرسہ سعیدیہ کے اندراج رجسٹر کا سراغ مل جاتا تو یہ باب مکمل ہوجاتا ” ۔ اسی طرح ص 584 پر مولانا عبد الحنان صاحب کا یہ بیان ” تقریبا سات سَو طلبا نے آپ کے سامنے شرف تلمذ کیا اور سند اجازہ لی ” تلامذہ سیف بنارسی کے باب میں بہت اہم ہے ۔
تلامذہ سیف بنارسی میں غالبا اب صرف مولانا محمد اعظمی حفظہ اللہ ہی باحیات ہیں ، آپ نے سیف بنارسی سے ان کے آخری ایام میں استفادہ کیا ، آپ بیک واسطہ میاں صاحب کے شاگرد ہیں ، آپ کو میاں صاحب کے چار تلامذہ سے شرف تلمذ رہا ، اس لیے سند حدیث میں اس وقت عالی ہونے کا آپ کو شرف حاصل ہے ۔ حفظہ اللہ ومتعہ بالصحہ والعافیہ ۔
ضمیمہ سعید بنارسی کے اولاد واحفاد کا نقشہ ، سیف بنارسی کی سند ، قلمی تحریر اور خطوط پر مشتمل ہے ۔
مراجع ومصادر میں ان کتابوں کا تذکرہ ہے جن سے فاروقی صاحب نے براہ راست استفادہ کیا ہے ۔ مراجع ومصادر حروف تہجی پر مرتب ہیں ۔ صرف ث اور ض موجود نہیں ہے ۔
اشاریہ اعلام بھی حروف تہجی پر مرتب ہے ۔ جس کو آپ نے بڑی دقت سے ترتیب دیا ہے ، اشاریہ میں اپنے شاگردوں کو بھی نہیں چھوڑا مثلا فواز رحمانی مبارک پوری اور یاسر اسعد مئوی ۔ اردو کتابوں میں اتنا دقیق اشاریہ اعلام بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ اردو کتابوں میں جن اہم چیزوں پر توجہ نہیں دی جاتی ان میں ایک اشاریہ اعلام بھی ہے ۔
استاد محترم فاروقی صاحب کی یہ کتاب صرف ایک عالم کی سوانح ہی نہیں ، بلکہ جماعت کی تاریخ ہے ، دفاع ہے ، دیگر ملی اور سیاسی جماعتوں میں جماعت اہل حدیث کے علماء وزعماء کی شراکت کی مختصر روداد ہے ۔ کاش فاروقی صاحب کے قلم سے ہمیں مختصر تاریخ اہل حدیث یا موسم کی مناسبت سے جمعية العلماء کی تاریخ پڑھنے کو ملتی ۔
کتاب خالص اردو زبان میں ہے ، عربی یا انگریزی الفاظ کا استعمال بہت کم ہے ، جس کے پیچھے آپ کی ادبی شخصیت کارفرما ہے ۔ البتہ کچھ انگریزی الفاظ ہیں مثلاً ” ایجی ٹیشن ” ص 62 پر ۔ کچھ عربی الفاظ ہیں مثلا ” سنین کی ترتیب ” ص 168 پر ۔” حذاقت اور مہارت ” ص 357 پر۔” 9 سال کی عمر میں نزول الماء کی وجہ سے مکفوف البصر ہوگئے ” ص 361 پر۔
تاریخ ذکر کرنے میں عموماً ہجری تاریخ کا اہتمام کیا گیا ہے ، کبھی کبھی ہجری اور عیسوی دونوں تاریخ ذکر کی گئی ہیں ، مگر اولیت ہجری تاریخ کو دی گئی ہے ، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ صرف عیسوی تاریخ مرقوم ہو ، مگر ص 133 پر سیف بنارسی کے آخری ایام کے پس منظر میں شروع میں عیسوی تاریخ ذکر کی گئی اور آخری فقرہ سے ہجری تاریخ ہوگئی جس سے تسلسل کو سمجھنے میں کچھ پریشانی ہوئی۔اسی طرح ص 234 پر ” ذخائر المواریث ” پر تبصرہ اور اس کی اشاعت کے ضمن میں پوری عیسوی تاریخ ذکر کی گئی ہے مگر بیچ میں ایک جگہ ہجری تاریخ 1344 ذکر کی گئی جس سے تسلسل کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے ۔قاضی شیخ محمد مچھلی شہری کے ترجمہ میں شروع سے اخیر تک ہجری تاریخ مرقوم ہے ، مگر ص 329 پر آخری فقرہ میں تین جگہ عیسوی تاریخ درج ہے ۔
فاروقی صاحب کتابوں کے بارے میں بڑی عمدہ معلومات فراہم کرتے ہیں ، سیف بنارسی کی کتابوں کو بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے ، سیف بنارسی کی جو کتابیں دوسروں کی جانب منسوب ہیں ان کی نشاندہی کی ہے ، یا دوسروں کی کتاب جو سیف بنارسی کی جانب منسوب ہے اس سے بھی آگاہ کیا ہے ، کچھ کتابوں کے قلمی نسخہ کے بارے میں گفتگو کی ہے ، کچھ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ اللہ جانے کون مسودہ دبائے بیٹھے ہیں ۔ مثلا ” حصول المرام ” کے بارے میں فرماتے ہیں ” ہنوز زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکا ، اس رسالہ کا مسودہ مولانا مستقیم صاحب سلفی حفظہ اللہ استاد جامعہ سلفیہ بنارس کے پاس موجود تھا ، انھوں نے اشاعت کی غرض سے مولانا عبد الاحد احسن جمیل بنارسی کے حوالہ کردیا ، اللہ کرے وہ شائع کردیں ” ۔(ص 243 مع حاشیہ )
علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے کتب خانہ کے متعلق فرماتے ہیں : ” افسوس کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کا یہ نایاب کتب خانہ گردش زمانہ کی نذر ہو گیا ” ۔ (ص 349 )
بشیر سہسوانی (صاحب صيانة الانسان) کی اسناد کے بارے میں فاروقی صاحب فرماتے ہیں : ” یہ اسناد ڈاکٹر صاحب مرحوم ( ڈاکٹر محمد حنیف نقوی) کے ذخیرہ نوادر میں محفوظ ہیں ، آپ کا ذخیرہ کتب مولانا آزاد لائبریری علی گڈھ میں منتقل ہوچکا ہے ” ۔ (ص 371)
بشیر سہسوانی (صاحب صيانة الانسان) کی ” البرہان المحکم ” کے بارے میں فرماتے ہیں : ” یہ علمی نسخہ ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر محمد حنیف نقوی) کے ذخیرہ کتب میں محفوظ ہے ” ۔( ص 378 حاشیہ )
بشیر سہسوانی (صاحب صيانة الانسان) کی کتاب ” احسن الاقوال ” کے ضمن میں فرماتے ہیں ” اس رسالہ کا خود مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ دار العلوم دیوبند کے کتب خانے میں موجود ہے ” ۔ (ص 380)
شیخ عبد الحق محدث بنارسی کی کتاب ” الدر الفريد في المنع عن التقليد ” کے بارے میں فرماتے ہیں ” آپ کا یہ رسالہ عدم جواز تقلید شخصی پر ہے ، تلاش بسیار کے باوجود رسالہ تو نہیں مل سکا ، البتہ اس کے ایک جواب کا مخطوطہ خدا بخش لائبریری میں ہے ” ۔ (ص 436 )
عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی کی ” الرفع والتكميل في جواب الجرح والتعديل ” کے بارے میں لکھتے ہیں : ” یہ رسالہ بھی 1302 ہجری میں مطبع انوار محمدی لکھنو سے شائع ہوا ، اس کے بعد شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی تحقیق کے ساتھ متعدد بار شائع ہوا ، اصل رسالہ مختصر ہے ، شیخ ابو غدہ کی تعلیقات نے اس کی ضخامت دوگنا سے زیادہ کردی ” ۔( ص 455 کا حاشیہ نمبر 3)
ابو المکارم مئوی کی ” الجواب السديد ” اور ” الرسالة العادلة ” کے بارے میں فرماتے ہیں ” اعلان تو ضرور شائع ہوا تھا ، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کتابیں شائع نہیں ہوسکیں ” ۔ (ص 498 کا حاشیہ)
” انتقاد صحیح ” کے بارے میں فرماتے ہیں ” مولانا املوی کی کتاب ” انتقاد صحیح ” جو مولانا محمد ادریس آزاد املوی کے نام سے مطبوع ہے ، اس کی کتابت مولوی عبد الحمید غازی پوری سے کراچکے تھے ، لیکن طباعت کا انتظام نہیں کراسکے اور کتابت کیا ہوا مسودہ جامعہ سلفیہ کے حوالہ کر دیا ” ۔ (ص 578)
مولانا محمد اسماعیل پریوائی کے کتب خانہ کے بارے میں فرماتے ہیں : ” آپ کے ذخیرہ کتب میں بڑی نادر اور نایاب کتابیں ہیں ، یہ کتب خانہ اب دار الدعوة ، لال گوپال گنج ، ضلع الہ آباد کی لائبریری میں منتقل ہو گیا ہے ” ۔( ص 586)
مولانا محمد حنیف صدیقی (دور صدیقی کے چھوٹے بھائی) کی تصنیفات کے بارے میں فرماتے ہیں : ” آپ کے طالب علمی دور کا کلام آپ کے وارثین کے پاس محفوظ ہے ” ۔ (ص 597)

عمومی باتیں ، اہم معلومات :
صاحب ترجمہ سے مؤلف کی نسبت / خانوادہ سیف بنارسی سے فاروقی صاحب کا تعلق / ننیہالی رشتہ (ص 14 ، 31 ، 155 ، 217 کا حاشیہ ، 532 ، 541 ، 546 ، 553)
سیف بنارسی مخالف کا جواب متانت ، سنجیدگی اور شائستگی سے دیتے تھے ۔(ص 219)
فاروقی صاحب نے مخالف کا ذکر کرتے وقت بھی ادب کا دامن نہیں چھوڑا ہے مثلا ” ان کا ، ان کے ، ان کی ، کرتے ہیں ، کرتے رہے ، بھاگے ، لگاتے رہے۔۔۔۔۔۔ ” جیسی تعبیرات استعمال کی ہیں۔ (دیکھیں ص 181 ، 185 ، 207 ، 230 ، 240 ، 246 ، 446)
البتہ کبھی خلاف معمول بھی ہوگیا ہے مثلاً ص 238 پر ” محمد فاضل نامی ایک جاہل شخص لوگوں کو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے سے روکتا تھا اور کہتا تھا کہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا بدعت ہے ” ۔
مرزا قادیانی کو بھی عموماً ادب والے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ (دیکھیں ص 246 – 252 ، 260 ، 377)
اس کتاب سے قبل سیف بنارسی کی حیات وخدمات کے مراجع (ص 16)
کتاب کی تالیف میں شیخ رفیع مدنی (آسٹریلیا) کی تشجیع وتحریک (ص 16- 17)
مستند حوالے اور معتبر ثبوت كا اہتمام (ص 19)
کتاب مختلف دورانیے میں لکھی گئی (ص 20 ، 295)
اہل علم سے غلطیوں کی نشاندہی کی درخواست (ص 20)
شکر وسپاس تلامذہ کا بھی( ص 20 ، 21)
محمد اعظمی صاحب کے انٹرویو کی جانب اشارہ (ص 117 پر جو کہ ص 40 – 45 پر گذر چکا ہے )
محمد اعظمی صاحب نے اپنے انٹرویو میں ایک اہم بات کا دو مرتبہ تذکرہ کیا ہے ” ہمارے والد مولانا عبد العلی سے بھی آپ کے قریبی تعلقات تھے ” ۔( ص 42 تیسری سطر ، ص 43 نیچے سے پانچویں سطر )
آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں کانگریسی اور لیگی چپقلش (ص 75 – 77)
شیخ رفیع مدنی صاحب کے پاس سیف بنارسی کے خطوط موجود ہیں (ص 76)
سیف بنارسی کانگریسی اور ابراہیم سیالکوٹی لیگی تھے (ص 76 ، 107)
جمعیت پر ایک معتدل تبصرہ (ص 80)
ندوہ کے بارے میں فاروقی صاحب کی اہم عبارت (ص 90)
( حفیظ اللہ بندوی کا تذکرہ نہیں ہے، جبکہ بندوی صاحب کا ترجمہ نزہہ میں ص 1217 پر ہے۔ع ا)
کانگریس کے بارے میں سیف بنارسی کا ایک بیان( ص 105)
غائبانہ نماز جنازہ( ص 136 ، 140)
جماعت کا ترجمان اخبار اہل حدیث امرتسر بھی نہیں تھا( ص 137)
چشمکیں( ص 147 پر نیچے سے تیسری سطر)
تقویة الايمان کا عام فہم اور اس کی سادہ بیانی( ص 162)
سیف بنارسی کے کچھ جوابات سرمایہ کی قلت کی بنا پر دیر سے طبع ہوئے ۔( ص 175)
سیف بنارسی عمر کریم پٹنوی کے جوابات لکھتے تھے محدث عظیم آبادی آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ، ” الامر المبرم لابطال الکلام المحکم ” لکھنے پر آپ نے دو کتابیں انعام دینے کا وعدہ کیا تھا ، ” النهاية لابن الاثير ” اور ” تهذيب التهذيب ” ۔ مگر کتاب منظر عام پر آنے سے قبل محدث عظیم آبادی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔( ص 179)
امام بخاری پر جرح کرنے والوں میں عمر کریم پٹنوی ، اخبار اہل فقہ امرتسر جو 1913 میں بند ہوگیا تو سراج الاخبار جہلم نے اس کی جگہ لی ۔( ص 192)
سیف بنارسی کی ایک عبارت ” آپ حضرات اپنی کتابیں مصنفین علماء اہل حدیث کی خدمت میں بھیجتے ہی نہیں اور گھر میں بیٹھے ڈینگ ہانکا کرتے ہیں “( ص 193)
حل مشکلات بخاری کی تین جلدیں ہی مطبوع ہیں ، محدث بنارسی چوتھی جلد کا بیشتر حصہ لکھ چکے تھے ، پانچویں جلد بھی آپ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ تیسری جلد کے بعد کا مسودہ کہاں گیا معلوم نہیں ؟ ضائع ہوگیا ؟ یا کوئی صاحب دبائے بیٹھے ہیں ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔( ص 193 – 195)
فائدہ 1 – ایسا ہی کچھ بلکہ اس سے بھی سنگین حادثہ رئیس الاحرار ندوی صاحب کی کتاب تاریخ یہود کے ساتھ ہوا ، جس کو آپ نے اپنے استاد حضرت مولانا علی میاں ندوی کے ایماء سے لکھنا شروع کیا تھا ، چار جلد آپ لکھ چکے تھے کہ مسودہ چوری ہوگیا ۔ آہ ان مصنفین کے دلوں پر اس وقت کیا بیتی ہوگی ۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔
فائدہ 2 – سیف بنارسی کی دو کتابوں کو میں نے اپنے مضمون ” كتب لم يكملها اصحابها ” میں شامل کرلیا ہے :
1 – حل مشكلات بخاري
2 – شرح الكافية
استاد فاروقی صاحب سے خصوصا او دیگر اہل علم سے عموماً گذارش ہے کہ دوسری اور کتابیں جو نامکمل ہیں ان سے آگاہ کریں گے ، ممنون ہوں گا ۔
مولانا مسلم بہاری کی ایک نظم سیف بنارسی نے اپنی کتاب ذكر اهل الذكر کے آخر میں ذکر کی ہے ۔( ص 198)
سیف بنارسی نے حدیث ام زرع کی تشریح افسانوی انداز میں کی ہے (ص 199)
قصے کی حقیقت کیا ہے یہ محققین کا موضوع ہے (ص 200)
” الجرح على ابي حنيفة ” سیف بنارسی کی ہی تصنیف ہے جسے آپ نے اپنے تخلص سعد بنارسی کے نام سے شائع کیا( ص 200)
سیف بنارسی نے سلف صالحین کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو نہیں بخشا خواہ وہ مقلد ہوں یا اہل حدیث( ص 213)
بیہقی (384 – 458 ہجری) چوتھی صدی ہجری میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے اور کئی سو کتابوں کے مصنف تھے (ص 229 )
(البتہ چوتھی صدی ہجری كى بجا ئے پانچویں صدی انسب ہے۔ع ا)
مختصر شعب الایمان کے کئی اردو تراجم بھی ہوچکے ہیں( ص 229)
تذکیر و تانیث اور مبتدا خبر کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا( ص 232)
سیف بنارسی نے ابراہیم سیالکوٹی کی کتاب ” سیرت المصطفیٰ ” کا تعاقب ” شيمة الوفا ” کے نام سے لکھا ، سیالکوٹی صاحب نے اس کا بھی جواب لکھا ، کہیں کہیں سیالکوٹی صاحب سے متانت وسنجیدگی کا دامن چھوٹ گیا (ص 293 – 294)
استاد فاروقی صاحب نے اخبار اہل حدیث امرتسر میں موجود سیف بنارسی کے مضامین کا اشاریہ بنایا ہے ، مگر یہ اشاریہ ناقص اور صرف چند جلدوں کا ہے ۔( ص 295 )
(کاش کوئی یہ اشاریہ مکمل کرتا۔ع ا)
سنت تحنیک( ص 335 ، 338)
سیف بنارسی نے حسین یمانی کی تاریخ وفات نکالی جو اخبار اہل حدیث امرتسر میں شائع ہوئی ۔ (ص 360)
میاں صاحب نے اپنا عمامہ حافظ عبد المنان وزیر آبادی کو عطا فرمایا جو آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے کفن میں استعمال کیا گیا ۔( ص 374)
بشیر سہسوانی کی صيانة الانسان کے بارے میں ایک رائے اور فاروقى صاحب کی انکساری (ص 375 کا حاشیہ
بشیر سہسوانی (صاحب صيانة الانسان) نے زیارت قبر رسول کے موضوع پر چار کتابیں لکھیں( ص 373 – 374)
نظریاتی اختلاف کے باوجود بشیر سہسوانی اور عبد الحی فرنگی محلی میں دوستانہ مراسم (ص 380)
بیہقی زماں (ص 410 دوسری لائن ، اور ص 523 )
اہل حدیث اور فروعی مسائل سے متعلق فاروقی صاحب کا ایک اہم اقتباس / کلام (ص 424)
مناظروں کا دور ایک حد تک ختم ہوچکاہے (ص 425)
میاں صاحب کے سالے عبد الرب دہلوی حنفی عالم اور اچھے واعظ تھے ، انھوں نے گلزار آسیہ لکھی جس کے جواب میں سعید بنارسی نے ” هداية القلوب القاسية في رد گلزار آسيه ” لکھی ۔ (ص 430 – 431)
فاخر زائر الہ آبادی کا مدح اتباع سنت اور ذم رائے وتقلید پر ایک دیوان ہے( ص 436)
رد تقلید پر سب سے پہلے شاہ ولی اللہ نے لکھا( ص 436)
محمد سعید اسلمی مدراسی مترجم عربی تحفہ اثنا عشریہ (ص 437)
تقلید رد تقلید پر پہلا تقریری مباحثہ (ص 437)
عبد الحق دہلوی نے ” كلام سليم لدفع بهتان عظيم ” لکھی جس میں اہل حدیث پر لگائے جانے والے بیجا الزامات کا جواب ہے ۔( ص 443)
وصی احمد سورتی (صاحب جامع الشواہد) کی سوانح (ص 446 کا حاشیہ)
عمارة المساجد بھدم اساس جامع الشواہد پر فاروقی صاحب نے بہت اچھی معلومات جمع کی ہیں( ص 436 وبعدہ)
عبد الحی لکھنوی نے جب میزان الاعتدال چھاپی تو امام ابوحنیفہ کا ترجمہ متن سے حاشیہ پر کردیا۔( ص 454)
عبد الاحد الہ آبادی نے عم پارہ کی تفسیر منقوط ” فیض غیب ” کے نام سے لکھی۔( ص 464 کا حاشیہ )
علقمہ بن وائل کے بارے میں سعيد بنارسى کی محدثانہ تدقیق قابل دید ہے۔( ص 470 و 474)
” البرہان الجلی ” کی خصوصیات کے اخیر میں فاروقی صاحب فرماتے ہیں ” یہ جامع کتاب اگر عربی زبان میں ہوتی تو اب تک اس کے کئی ایڈیشن نکل گئے ہوتے “۔( ص 479)
سعید بنارسی کو مخالفین نے عدالت میں لہو لہان کردیا۔( ص 482)
سعید بنارسی صاحب نے نور محمد صاحب کے رسالہ ” تحقیق الحق ” کا (جو کہ عربی زبان میں تھا) اردو ترجمہ کیا ہے۔( ص 489)
وصی احمد سورتی محشی معانی الآثار للطحاوی نے باب قراءة بسم الله میں ” لا يجهران بسم الله الرحمن الرحيم ” کے ساتھ ” لا بالتعوذ ولا بآمین ” کا اضافہ کردیا ۔( ص 495 – 496)
سعید بنارسی نے رشید احمد گنگوہی کی بڑی مدح کی ہے۔( ص 497 ، 504 ، 506)
مدرسہ رحمانیہ بنارس کا پرانا نام ” مصباح الھدی ” تھا ، حاجی عبد الرحمن کی نسبت سے سیف بنارسی کے برادر خورد قاری احمد سعید بنارسی نے اس کا نام رحمانیہ رکھا ۔( ص 530)
فاروقی صاحب کا مدرسہ سعیدیہ میں طلب علم( ص 542)
جماعت اسلامی کے بارے میں شیخ الحدیث صاحب مرعاة کا موقف( ص 568)
اہل حدیث علماء جو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔( ص 568)
علامہ نذیر احمد رحمانی املوی جماعت اسلامی کے حامی تھے؟ (ص 568)
مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کے بارے میں اچھی معلومات (ص 567 – 571)
مولانا محمد اسماعیل پریوائی تبلیغ کے لیے جاتے تو اپنے ساتھ باورچی بھی لے جاتے۔( ص 586)
مولانا عبد المبین منظر سمراوی مدرسہ کے احاطہ میں مدفون ہوئے۔( ص 594)
مولانا عبد الشکور دور صدیقی بیت ناری جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔( ص 596)
مولانا عبد الجلیل سامرودی نے ترجمہ ثنائی کے رد میں ایک رسالہ لکھا جس کا جواب مفتی فیض الرحمن مئوی نے ” الجواب السدید ” کے نام سے لکھا اس جواب کو مولانا داؤد راز نے شائع کیا ۔( ص 600)
مدرسہ اصلاح سرائے میر سے سیف بنارسی کا تعلق( ص 602)
حکیم عبید اللہ رائے بریلوی بیس سال تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے۔( ص 603)
علی احمد بنارسی کی ایک کتاب ” امارت و صحابیت بجواب خلافت وملوکیت ” ہے ۔ (ص 619)

کتاب کی مشکل تعبیر / ثقیل تعبیر / اچھی تعبیر :

گوشہ خمول میں مدفون (ص 91)
اسارت( ص 106)
جماعت کے قائد اعظم حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری پاکستان جاچکے تھے۔( ص 137)
بخیہ ادھیڑ دیا۔( ص 169 و 179 و 278)
عش عش کر اٹھے۔( ص 169)
عیاری اور چالاکی کا بھانڈا پھوڑ کر( ص 170)
یہاں بطور نمونہ ایک مطابقت مسطور ہے جو مولانا کی ذہانت اور طباعی کا بین ثبوت ہے۔( ص 178)
ان کی چیرہ دستیوں کی داستان ہے۔( ص 180)
عمر کریم کے اعتراضات پرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔( ص 187)
عمر کریم کے پوچ اعتراضات کا معقول ، مکمل اور مسکت جواب دیا۔( ص 190)
حین حیات (ص 203 ، 509)
اس میں وہابی لوگ تقریر کریں گے ہمارا مذہب نشٹ ہوجائے گا ۔( ص 208)
مولوی فاخر الہ آبادی نے آخری پرچہ میں یہ مصرعہ لکھ کر بھیجا ” جواب جاہلاں باشد خموشی ” مولانا نے لکھ کر پرچہ واپس کردیا ” یہی کہہ کر کروگے عیب پوشی ” (ص 210)
پندرہویں شعبان کو گورستان جانے کا استدلال درست نہیں ہے۔( ص 215)
ان تمام واہی اعتراضات وخرافات کا دندان شکن جواب دیا۔( ص 224)
مولانا نے مفتی صاحب کے فتویٰ کا تار و پود بکھیر دیا۔( ص 231)
اس نے تقلید کی محفلوں میں کھلبلی مچادی۔( ص 239)
مولانا مئوی (حبیب الرحمن اعظمی) کی تحقیقات کو تار عنکبوت بنادیا۔( ص 240)
ان کے من میں جو آیا اناپ شناپ الزام لگاتے رہے۔( ص 240)
مرزائیوں کے بارے میں لکھتے ہیں ” اسلام دشمنی میں یہ لوگ صیہونیوں اور رافضیوں سے چار ہاتھ آگے ہیں بعض غیر ممالک میں ان کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں”۔( ص 248)
جو آپ اپنی مثال تھا۔( ص 251)
الدجال لا ثاني (ص 253)
مرزائیت کے جرثوموں نے پاؤں پسارنے کی کوشش کی۔( ص 254)
جس کی روح رواں مفتی محمد ابراہیم بنارسی تھے۔( ص 255)
مولانا سیف بنارسی کا رہوار قلم حرکت میں آیا۔( ص 255)
حدیث کی جو بچکانی تاویل کی ہے۔( ص 258)
ان کے اتہامات کو ہباء منثورا کردیا ۔(ص 267)
اعلی پایہ کے نثار ، شاعر( ص 383)
عرصہ دراز تک گمنامی کی دبیز تہیں پڑی رہیں۔( ص 383)
مولانا کا قلم شمسیر براں بن گیا۔( ص 415)
ان کی شہرت برادران دین کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی۔( ص 419 )
لٹھ لے کر اہل حدیثوں کے پیچھے دوڑ پڑے۔( ص 424)

ضاد کی ادائیگی کا مسئلہ (ص 425)
رسالہ بازی کا سلسلہ کافی دنوں تک چلا۔( ص 433)
معیار الحق کے سامنے کسی کا چراغ نہ جل سکا۔( ص 439)
تقلید وجمود کی دیواریں تڑخنے لگیں۔( ص 443)
دستخط اور مواہیر لگوائے۔( ص 446)
نئے نئے دریچے وا ہوئے۔( ص 488)
اجمیری صاحب کا جواب یوں ہی سا تھا۔( ص 508)
فاروقی صاحب کا عمدہ تبصرہ وتجزیہ(ص 96)
ص 213 پر الزہر الباسم کی اہمیت پر تبصرہ

فاروقی صاحب نے بہت سی معلومات کی تصحیح وتنبیہ بھی کی ہے دیکھیں ص 32 ، 45 ، 96 – 97 ، 180 ، 226 مع حاشیہ ، ص 240 کا حاشیہ ، ص 328 ، ص 330 کا حاشیہ ، ص 335 ، ص 369 حاشیہ ، ص 374 کا حاشیہ ، ص 403 کا حاشیہ ، ص 404 – 405 ، ص 450 ، ص 529 کا حاشیہ ، ص 575
جملہ معترضہ میں بھی اہم معلومات دیتے ہیں۔ص 248 – 249 پر حسین بٹالوی صاحب کے مرزا سے مناظرہ کی بابت لکھتے ہیں ” مولانا بٹالوی نے……مرزا کو گھیرا ، بارہ دن تک ان سے تحریری مناظرہ ہوا ، مرزا نے بارہویں دن کسی طرح جان چھڑا کر راہ فرار اختیار کی ، مناظروں کی تاریخ میں یہ ایک طویل مناظرہ ہے ، جو مباحثہ لدھیانہ کے نام مشہور ہے ” ۔
ص 249 پر حسین بٹالوی کے اخبار اشاعت السنہ کے بارے میں بین القوسین میں لکھتے ہیں ” اہل حدیثوں کا پہلا اخبار سن اجراء 1877 ” ۔

عمدہ تشبیہات:
سیف بنارسی کی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں : ” حقیقت میں بنارس کے اہل حدیثوں کے لیے آپ وہی درجہ رکھتی تھیں جو آزادی کے سپوتوں کے لیے مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں رکھتی تھیں ” ۔ (ص 31)
جمعیت العلماء کی تاسیس کے پس منظر میں فاروقی صاحب نے فاتح قادیان علامہ امرتسری کا ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں علامہ امرتسری لکھتے ہیں : ” اسلامیہ اسکول کی ایک کوٹھری میں ان دونوں صاحبوں (مولانا کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب) کے قیام کا انتظام کیا گیا ، ان کے ساتھ تیسرا میں (علامہ امرتسری) داعی ہوتا ، یہ کوٹھری کیا تھی گویا غار ثور کا نمونہ تھی۔۔۔۔” ۔( ص 95)

گذارشات:
(۱)جمعیة العلماء كی تاسیس کو سو سال ہونے جارہے ہیں استاد محترم جمعیة پر ذرا تفصیل سے لکھ دیں کرم ہوگا ۔
(۲)استاد محترم فاروقی صاحب سیف بنارسی کے والد کی حیات وخدمات پر مشتمل سیف بنارسی کی کتاب ” تذكرة السعيد ” بھی منظر عام پر لاتے یا اس کی تحریک چلاتے تو بہتر ہوتا ۔
(۳)اہم مطبوعات مطبع سعید المطابع بنارس میں کل 155 کتابیں ذکر کی گئی ہیں ، مطبوعات سن طباعت کی ترتیب سے ذکر کرنا مناسب ہوتا ، سعید بنارسی اور سیف بنارسی کی تالیفات کے ضمن میں دیگر علماء کی تالیفات بھی در آئی ہیں ، بہتر ہوتا کہ دیگر علماء کی تالیفات علیحدہ ذکر کی جاتیں ، سیف بنارسی اور ان کے والد کی کتابوں میں ان کا تذکرہ نہ ہوتا ۔ (ص 122 – 129)
چونکہ استاد محترم نے کتاب مختلف دورانیے میں لکھی ہے (ص 20 نیچے سے دوسری لائن) لہذا اس جیسی چیز کوئی معیوب بھی نہیں ۔
(۴)خانوادہ سعیدی کے دیگر علماء کے ضمن میں مؤلفِ کتاب فاروقی صاحب کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے۔ (ص 580 کے بعد)

ملاحظات :
فاروقی صاحب نے جمعية العلماء کو اسعد مدنی کے دور تک لاکر چھوڑ دیا ہے ، چند سطروں کا اضافہ ناگزیر تھا خصوصاً جب یہ جمعية چچا او ربھتیجا میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اس کا بھی ذکر کر دیتے تاکہ سند رہتی ۔ (ص 91 – 103)
باب اول کی ذیلی ہیڈنگ ” جماعتی ، ملی اور سیاسی تنظیموں سے روابط ” کا سلسلہ ” اہل حدیث لیگ ” پر ختم ہو جاتا ہے ، ” کتب خانہ سعیدیہ ” سے باب اول کے اخیر تک کوئی دوسری ذیلی ہیڈنگ ہونی چاہیے ، یا ” جماعتی۔۔۔روابط ” کو باب اول کے اخیر میں ہونا چاہیے ۔
بھرا پڑا خاندان ہے ص 131 و 132، مگر ص 132 پر ڑ کی جگہ ر ہوگیا ہے جو پروف ریڈنگ کی غلطی لگتی ہے ۔ (ص 548 پر بھی ہے ” بھرا پڑا کنبہ چھوڑا) (ص 561 پر ” بھرے پرے خاندان”) ( ص 580 پر بھرا پرا خاندان ہے) یعنی کہیں ر ہے اور کہیں ڑ ہے۔
عبد الدیان کی تاریخ وفات درج نہیں ہے۔( ص 132)
زمرمہ سرائی ص 137 ، غالبا زمزمہ صحیح ہو یعنی دونوں جگہ ز
حاشیہ میں شخصیات کے تراجم حوالہ کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں البتہ ص 173 پر قاضی طلاء خاں پشاوری کے ترجمہ کا حوالہ نہیں ذکر کیا گیا ۔ اور ص 218 پر حبیب الرحمن بدایونی کا ۔
ص 188 پر سورہ مائدہ کی آیت میں واو اور لام کے بیچ میں ي چھوٹ گیا ہے ، يويلتى كى جگہ يولتى ہوگیا ہے ۔
ص 191 پر پانچویں سطر میں استيأسوا اور افتعلوا كا بھی عربی رسم الخط میں ہونا بہتر ہے جیسا کہ اسی فقرہ میں کئی کلمات عربی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں ۔
ص 196 پر نیچے سے چوتھی لائن میں ” الاختصاص ” ہمزہ کو فتحہ (زبر) صحیح نہیں ہے ۔ اسی صفحہ پر حاشیہ کی تیسری لائن میں حدیث میں ” سموا ” سے قبل ہمزہ زائد ہے ۔
ص 204 پر حاشیہ میں ” بدایوں علماء کے ہم مسلک تھے ” ایسا لگتا ہے کچھ چھوٹ گیا ہے ۔
ص 205 پر دوسری لائن میں عبد الحمید بنارسی کے رسالہ کا نام ” کشف السر المكنون في علم كان ومايكون ” یہاں علم کے بعد ” ما ” چھوٹ گیا ہے ۔
ص 208 پر ” مولوی فاخر نے شعر وشاعری اور مفقی ومسجع جملوں سے آراستہ خطوط بھیجے ” ۔ مفقی میں نقطوں کی تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے ، جو پروف ریڈنگ کی غلطی ہے ۔ (البتہ ص 435 پر صحیح ہے)
مولوی فاخر الہ آبادی نے آخری پرچہ میں یہ مصرعہ لکھ کر بھیجا ” جواب جاہلاں باشد خموشی ” مولانا نے لکھ کر پرچہ واپس کردیا ” یہی کہہ کر کروگے عیب پوشی۔( ص 210)
سیف بنارسی کے جملہ کے اخیر میں علامت التنصیص نہیں ہے ۔
ص 239 کے حاشیہ میں قاری طیب اور حبیب الرحمن اعظمی صاحبان کی تاریخ ولادت میں کہیں سہو ہوا ہے ، کیونکہ دونوں کی ہجری تاریخ ولادت 1315 مرقوم ہے ، مگر عیسوی تاریخ اول الذکر کی 1897 اور مؤخر الذکر کی 1901 درج ہے ۔
ص 246 پر پانچویں سطر میں ” جس نے اپنے سامراجیہ کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے۔۔۔۔ ” غالبا سامراجیت صحیح ہے ۔ (استاد فاروقی صاحب کا یہی جملہ مجھے سب سے طویل محسوس ہوا)
ص 255 پر ” ان میں ٹریکٹ نمبر 12 ، 11 ، 10 ایک ہی میں ہے ” ۔ نمبر کی ترتیب داہنے سے بہتر ہوتی ۔
ص 261 پر الملل والنحل 177 / 1 ہے ۔ نمبر الٹ گیا ہے ۔ کمپیوٹر / کتابت کی غلطی لگ رہی ہے ۔ صحيح 1 / 177 ہے۔
ص 264 پر سورہ انبیاء کی آیت کے ترجمہ کی تیسری لائن میں ” جو کھاتا نہ ہو ” ۔ کھاتا بیچ میں فاصلہ ہوگیا ہے ۔ نیز اخیر کی دو لائن بھی ترجمہ کی طرح تحریر ہوگئی ہیں ۔
ص 265 پر حیات مسیح کے قائلین میں ائمہ ثلاثہ کو ذکر کیا گیا ہے ، امام ابوحنیفہ کو کیوں نہیں؟
ص 295 کی پہلی لائن میں ” نے ” کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
اخبار اہل حدیث امرتسر کے مضامین کے اشاریہ میں کچھ سال کے مضامین دوسرے سال میں ذکر ہوئے ہیں ۔ (ص 296 – 321)
ص 311 پر نیچے سے چھٹی لائن میں ” مضمون ” کا نام واضح نہیں ہے ، کچھ حذف واضافہ لگ رہا ہے ۔
ص 315 پر حاشیہ میں ہے ” جلد نمبر 18 ، 19 جو مولانا کی ملکیت تھی وہ دستیاب نہیں ہوسکی ” ۔ حالانکہ اس سے قبل جلد نمبر 14 ، 16 کا بھی تذکرہ نہیں ہے ، ان کے بارے میں بھی کچھ اشارہ کرنا چاہیے تھا ۔
ص 333 پر تیسری لائن میں ” شرح مایة عامل ” ہے ۔ ص 361 پر ” شرح مأة عامل ” ہے ۔ مائة ہونا چاہیے جيسا ص 392 پر ہے (مائة)
ص 342 پر نیچے سے دوسری لائن میں ” حکیم رحمت اللہ ” سے قبل فاصلہ زیادہ ہے ۔
ص 347 پر علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے وہ اساتذہ جن سے آپ نے سفر حج میں استفادہ کیا ان میں سے دو کی (نمبر 8 و 9) تاریخ وفات درج نہیں ہے ۔
ص 348 پر علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے پانچ تلامذہ کی تاریخ وفات درج نہیں ہے ۔
ص 349 پر ” ان اہم کتابوں میں سے چند یہ ہیں : 1 ۔ ” ۔ یہ نمبر1 لائق حذف ہے ۔
ص 350 پر شمس الحق عظیم آبادی کی تالیف نمبر 4 ” اعلام اهل العصر …” اعلام کے ہمزہ پر فتحہ (زبر) نہیں کسرہ (زیر) ہونا چاہیے ۔
ص 358 پر شیخ حسین یمانی کے تین شاگردوں (نمبر 9 – 11) کی تاریخ وفات درج نہیں ہے ۔
حافظ عبد المنان وزیر آبادی کے نمبر دس سے اخیر تک کے تلامذہ کا سن وفات درج نہیں ہے۔( ص 365 – 366)
” یہ علمی نسخہ ڈاکٹر صاحب کے کے ذخیرہ کتب میں محفوظ ہے ” ۔ ص 378 حاشیہ ۔ (کے مکرر ہے)
اساتذہ کے ترجمہ میں ہر استاد کے ترجمہ کے اخیر میں ” مراجع ” ذکر کیے گئے ہیں ، مگر بشیر سہسوانی (صاحب صيانة الانسان) کے ترجمہ کے اخیر میں ” مراجع ” نہیں ہے ۔( ص 382 )
(شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ فاروقی صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر محمد حنیف نقوی کا مقالہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ دیکھیں ص 368)
جونہ گڑھ ص 386 کا حاشیہ (الف – جونا – ہونا چاہیے جیسا کہ ص 411 کے آخری سطر میں ہے)
” اور پندر روز یہاں ٹھہرا ” ص 391 کی آخری سطر (ہ چھوٹ گیا ہے ، پندرہ ہونا چاہیے)
ص 407 پر عبید اللہ پائلی صاحب کی چوتھی اور پانچویں کتاب پر بھی نمبرنگ ہونی چاہیے ۔
ص 449 پر ” اس سے اپنی بریت و بیزاری ظاہر کریں ” ۔ شاید ” براءت ” صحیح ہو ۔
ص 449 کے حاشیہ نمبر ایک میں ” جامع الفواد ” ہے ، جبکہ صحیح ” الفوائد ” ہے ۔
ص 451 پہلی لائن میں ” اس کا تیسرا ایڈیشن۔۔۔ ” کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے بارے میں کچھ اطلاع نہیں دی گئی ۔
ص 456 پر نیچے سے ساتویں لائن میں ” السيادة الكبائر ” ہے ، جس میں ي زائد ہے ، السادة ہونا چاہیے ۔
ص 479 پر نکات نمبر چار کی تیسری سطر میں ” لمحدثین ” ہے ، لام زائد ہے ۔
ص 490 پر ” تحقیق القرأة ” ہے ، ہمزہ ، الف کے بعد ہونا چاہیے (القراءة) ۔
ص 494 پر حاشیہ میں نیچے سے پانچویں لائن میں ، اور ص 495 پر پانچویں لائن میں ، اور 651 پر مراجع ومصادر میں ” حبل المتين ” ہے ، حبل پر بھی الف لام ہونا چاہیے ، جیسا کہ ص 493 ، 494 پر ہے ۔
ص 497 پر نیچے سے پانچویں لائن میں ص 11 ، 10 ہے ، نمبر الٹ گیا ہے ۔
ص 500 پر چوتھی لائن میں ” سفيان ابن عيينة ” ہے ، الف زائد ہے ، بغیر الف کے صحیح ہے ۔ (جیسا کہ ص 498 پر نیچے سے تیسری لائن میں ہے)
ص 503 پر حاشیہ کی دوسری لائن میں ” السيف الملول ” میم کے بعد سین چھوٹ گیا ہے ، ” المسلول ” ہونا چاہیے ۔ ( البتہ مراجع ومصادر ص 652 میں نام صحیح ہے )
ص 505 پر نیچے سے تیسری لائن میں ” أقامة الجمعة ” الف پر فتحہ ہے ، صحیح کسرہ ہے ۔
ص 510 ساتویں لائن میں ” گذشتہ صفحات ” میں وصل ہوگیا ہے ۔ فصل ہونا چاہیے ۔
سعید بنارسی کے تلامذہ میں کچھ کی تاریخ وفات درج نہیں ہے ۔( ص 516 – 517)
ص 552 پر ” اللهم أغفر له وأرحمه ” الف پر ہمزہ زائد ہے۔
ص 554 پر حاشیہ نمبر دو میں ” تاریخ اہل حدیث اور سیاست ” ہے ، ” تاریخ ” زائد ہے ۔
سیف بنارسی کے تلامذہ میں صرف تین ہی شاگردوں کے مراجع مستقلا مذکور ہیں :
(۱)مولانا عبد المبین منظر سمراوی۔ ص 594
(۲)مولانا مختار احمد ندوی۔ ص 616
(۳)مولانا عبد اللہ سعیدی۔ ص 618

ص 645 پر تذکرہ مشائخ بنارس کے مؤلف کا نام ” عبد الاسلام ” مرقوم ہے جبکہ صحیح نام ” عبد السلام ” ہے ۔
ص 686 پر اشاریہ اعلام میں عبد المعید بنارسی كا تذکرہ ص 343 پر بھی ہے ، جو اشاریہ میں چھوٹ گیا ہے ۔
ص 691 پر اشاریہ اعلام میں دوسرے کالم میں پہلا نام ” محمد بن عبد ال ” ہو گیا ہے ، صحیح ” عبد العلی ” ہے ۔
ص 694 پر اشاریہ اعلام میں ” مودودی رحمہ اللہ ” ہے ، ایسا صرف مودودی صاحب کے ساتھ ہی کیا گیا ہے؟
ص 696 پر (آخری صفحہ) اشاریہ اعلام میں ” یاسر اسعد ” کا تذکرہ صفحہ 611 پر نہیں بلکہ 610 پر ہے ۔

رب کریم ناشر موصوف کو بزرگوں کی وراثت عام کرنے کی توفیق بخشے کہ وہ علماء سلف کی خدمت کرتے رہیں ، ان کے کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں ۔ اخیر میں یہ شعر مرشد کی نذر کرنا بجا ہوگا :

ترى الرجل النحيف فتزدريه
وفي أثوابه أسد مزيرُ

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
مبارک حسین

استاذ محترم كتاب مذكور میں اپنا ترجمہ وتذکرہ ضرور شامل فرمائیں.