صبر و عزیمت کے انمٹ نقوش

ام ہشام تاریخ و سیرت

اس مرد آہن پر آزمائشوں کا سلسلہ ابھی تھما ہی کہاں تھا کہ پھر سے ایک نئی آزمائش آکر گویا اسے پرکھنا چاہتی تھی۔ اس کے رب کا حکم تھا کہ ابراھیم!! (علیہ السلام) بیوی اور بیٹے کو فلاں مقام پر چھوڑ آؤ۔ مرد آہن نے رب کے حکم کو سنا اور “سمعنا و اطعنا” کی تفسیر ہوگیا۔ دراصل جن کے دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں، جو اپنی ذات کو مکمل طور پر رب کے حوالے کرنے والے ہوتے ہیں، اس طرح کہ وہ لیل و نہار اللہ کی رضا کے حصول کے لیے زاہدانہ مشقت برداشت کرتے ہیں، اس کی رضاجوئی کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں، پھر اس کی راہ میں مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانے میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں بالخصوص اس معاملے میں بھی جو معاملہ ان کی طاقت سے حقیقتا باہر ہوتا ہے۔ دراصل یہی اہل استقامت ہوتے ہیں جو اپنے تمام معاملات کو استقامت کے ساتھ اللہ کے سپرد کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور پھر اللہ بھی انھیں بدلے میں ایسے انعام و کرام سے نوازتا ہے کہ انسانی عقل اس کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتی خواہش تو دور کی بات ہے۔

اس روز آسمان اپنی عظمت کے باوجود بہت عاجز نظر آرہا تھا اور یہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہوچلی تھی، وہ ننھی سی جان کو گود میں لیے اپنے شوہر کے ہمراہ سر جھکائے چل پڑی تھی گویا کہہ رہی ہو “میرے سرتاج میری زندگی کا ہر لمحہ ہر پل آپ کی خوشنودی اور رضا جوئی پر قربان ہے‌۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں!!! کہ آپ ہمیں کیسے اور کس جگہ لے جانے والے ہیں، آپ جہاں چاہیں گے میں آنکھیں بند کرکے وہاں چل پڑوں گی” یوں بھی ایک باوفا عورت کی پوری زندگی اس کے شوہر کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔
ادھر مرد آہن بھی تیز قدموں سے ان دونوں کو منزل تک پہنچانے کو کوشاں تھا۔ اور بیوی کے دل میں اس بات کا اطمینان تھا کہ شاید گذشتہ ایام کی طرح وہ پھر اپنے شہر سے کسی دوسرے شہر ہجرت کررہے ہیں۔
حال یہ تھا کہ شوہر کے کندھے اس حکم کے بوجھ سے جھکے جارہے تھے جو الہامی تھا، آسمانی تھا، کوئی عام انسان ہرگز اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ ہر کسی کو ایسے عظیم الشان حوصلے اور جذبات کی سوغات نہیں ملتی۔ صدیوں بعد زمین اپنے سینے سے ایسی خاک اگلتی ہے جس سے اللہ رب العزت ایسی عظیم الشان ہستیاں تعمیر کرتا ہے۔
محبوب کی محبت، محب سے اپنے ہونے کا یقین چاہ رہی تھی، خود کے لیے کوئی قربانی چاہتی تھی۔ ادھر وہ مرد آہن بھی جلد سے جلد بیوی اور بچے کو اللہ کی بتائی ہوئی جگہ تک پہنچادینا چاہتے تھے۔
چشم فلک بڑی حیرانی سے ننھے سے کارواں کو تک رہا تھا، ان کی قسمت پر رشک کررہا تھا کہ مبارک ہو!!! تمھارے عزم و حوصلہ کا پہاڑ ہمارے قد و قامت سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے۔ تمھارے صبر و استقلال کی داستانیں آسمان میں فرشتے رب کے سامنے گنگناتے پھررہے ہیں۔ ان نفوس قدسیہ پر سلامتی کے کلمات بھیج رہے ہیں جن میں سے ایک کو رب کریم نے اپنا خلیل چن لیا، دوسرا جسے ابھی “ذبیح اللہ” کا لقب پانا ہے کہ جس کی نسل سے نبی آخرالزماں وجود میں آئیں گے۔ تیسرا بظاہر تو کمزور ہے لیکن اندر سے اتنی پائیدار شخصیت کی مالک کہ پہلے بھی بڑے سے بڑے حادثات کبھی اس کے ایمان و توکل کو متزلزل نہیں کرسکے۔
زوجہ ابراھیم علیہ السلام (ھاجرہ رضی اللہ عنھا) ایک ایسی عظیم خاتون، جو ایک نبی کی معیت میں ہیں تو دوسرا نبی (اسمعیل علیہ السلام) اس کے آنچل میں لپٹا ہوا ہے جسے وہ سینہ سے لگائے ہوئی تھیں اور آگے چل کر اسی بچے کی نسل نبی آخر الزماں کو وجود میں لانے والی تھی۔
سبحان اللہ! قدم در قدم فضیلتیں اور برکتیں ان کی منتظر تھیں، اس نیک عورت کے لیے وہ دن ہمیشہ کے لیے ماتھے کا جھومر بننے والا تھا، اس سفر میں اسے پیش آنے والی تمام تکلیفیں، تھکاوٹ کے بدلے رہتی دنیا تک اللہ رب العزت کا اپنے لاکھوں دیوانوں (حجاج کرام) کو ایک عورت کے قدموں کے نشاں پر دوڑنے کو حج کا لازمی رکن بنا کر لوگوں کے لیے نقش قدم بنادینا، “یہ سب قدرت کے ان عظیم رازوں میں سے ایک تھا جو ابھی اس ننھے سے کارواں پر نہیں کھلا تھا” اور پھر اس کارواں پر ابھی تو اللہ کی ذات پاک کی وہ حکمتیں روشن ہونا تھیں جو اس نبوی گھرانے کو ان کی آئندہ زندگی کے مقاصد، اس کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھ لینے کا وقت دینا چاہتی تھی۔
بالآخر یہ کارواں چلتا ہوا اپنی منزل کو پہنچا- “اسی جگہ”!!!!!!!! جہاں جانے کا اشارہ ان کے رب نے ان کو دیا تھا۔ جگہ بھی کیسی تھی جہاں نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، دور دور تک بس ریت کے تودے، حد نگاہ تک ایک ریتیلا سمندر جسے دیکھ کر ہی تنہا انسان کے حوصلے پست ہوجائیں اور آگے بڑھنے کی بجائے وہ شکستہ پا ہوجائے۔ اس “رب حکیم و علیم” کے علاوہ کسے یہ خبر تھی کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب یہ بے آب و گیاہ زمین ساری دنیا کے لیے مرکز توحید ہوگی۔ یہ ویرانہ جسے دیکھ کر لوگوں کے دل ہیبت سے بھر جاتے ہیں، یہی ہیبت زدہ زمین اسی نبوی گھرانے کی آمد سے تبرک و تقدس کے ساتھ لوگوں کے سجدوں سے معمور ہوگی۔

کارواں بالآخر اپنی منزل کو پہنچا۔ ابراھیم (علیہ السلام) نے بیوی اور بچے کو ایک درخت تلے چھوڑا اور اپنے قدم واپسی کو موڑ لیے۔ ھاجرہ بڑی بیقراری اور اضطراب کے ساتھ ان کی جانب لپکیں پیچھے پیچھے چل پڑیں اور سوال کرتی رہیں کہ اس ویرانہ میں ہمیں کس کے بھروسہ چھوڑے جاتے ہو!!!!!
شوہر نے سر کو جھکایا اور آگے چلنے لگے بڑے ہی اضطراب کے ساتھ پوچھنے لگیں کہ کچھ کہیے تو اس زمین میں کس کے بھروسے چھوڑے جارہے ہو یہاں نہ ہی ہمارا کوئی انیس ہے نا جلیس۔
پھر خود ہی پوچھا: کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟
تو ابراھیم (علیہ السلام ) نے جواب دیا!! ہاں .. یہ سنتے ہی بیوی کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ طمانیت کے ساتھ شوہر سے کہا پھر آپ جائیے اگر یہ آپ کے اس رب کا حکم ہے تو پھر آپ بے فکر ہوکر جائیے۔ دراصل اس نیک عورت کے دل میں “لن یضیعنا” کی مشعل روشن ہوچکی تھی اور اس نیک بخت نے اپنے شوہر کو بھی یہی کلمات بطور تحفہ عنایت کرتے ہوئے واپس بھیج دیا۔
ھاجرہ (رضی اللہ عنہ ) اس تھیلی سے کھجور اور پانی استعمال کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہوگیا۔ بچہ شیر خوار تھا ماں کے سینے سے لگ کر اپنی بھوک مٹا رہا تھا، توشہ ختم ہونے سے ماں کے سینے میں موجود بچے کی غذا بھی کم ہوتے ہوتے ایک دم ختم ہوگئی۔ ماں نے یہاں وہاں پانی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن کہیں کچھ نہ دکھتا تھا۔ پیاس سے حلق میں کانٹے سے اگ آئے تھے۔ جسم نڈھال ہوا جارہا تھا، اس پر یہ کہ بچہ بھی بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ ایک ماں کے لیے بڑا ہی صبر آزما مرحلہ تھا۔ ماں سب کچھ برداشت کرلیتی ہے خود پر آئی ہوئی بڑی بڑی مصیبت اور تکلیفیں اسے اولاد کی تکلیف کے آگے ہلکی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اولاد کی بھوک اس کے حوصلوں کو کمزور کردیتی ہے جسے مٹانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی برعکس تھا، شکوہ شکایت کی بجائے جوں جوں بچے کے رونے میں اضافہ ہورہا تھا، ھاجرہ (رضی اللہ عنھا) کی دعا و مناجات کی صدائیں زور پکڑتی جارہی تھیں۔ ایک لمحے کو بھی انھیں یہ خیال نہیں گزرا کہ میں یونہی بیٹھی رہوں اور جس رب نے اس کے شوہر کو اپنا خلیل مان لیا ہے وہ ہر صورت میری مدد کرے گا تو میں کیوں پریشان ہوتی ہوں۔
خود کو حالات کے دھارے پر نہ چھوڑتے ہوئے، وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور وادی کے نشیب میں دوڑتی ہوئیں صفا کی پہاڑی پر پانی تلاشنے لگیں۔ پھر کچھ دیر بعد تنہا بچہ کا خیال بے چین کردیتا تو پھر وہاں سے بھاگتی ہوئی بچے کی سلامتی دیکھنے نیچے اتر آتیں۔ بچہ کی شدت پیاس دوبارہ پانی کی تلاش پر ابھارتی وہ اس بار دوسری جانب کی مروہ نامی پہاڑی کا قصد کرتی ہیں اس پر چڑھتی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ رب سے دعا و مناجات کرتی ہیں، مدد کی امید لگاتی ہیں بچے کا خیال آتے ہی پھر بچے کی جانب دوڑتی ہوئی آتی ہیں۔
ایک پھیرے پر دوسرا پھیرا سخت سے سخت ترین ہوتا چلا جارہا تھا، کیونکہ جس پانی کے لیے یہ سعی مسلسل جاری تھی اس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔
اس بھاگ دوڑ میں انھوں نے جب اپنے سات چکر مکمل کرلیے اس وقت وہ مروہ پر تھیں، کہیں سے ایک آواز سنائی دی۔ پہلے انھیں خیال آیا کہ شاید صحرا کے سراب کی طرح یہ آواز بھی کوئی دھوکہ ہی ہے پھر سے وہی صدا سنائی دی، آواز پر کان لگا کر سنا تو کہہ اٹھیں “اے اللہ کے بندے! اگر تو ہماری مدد کرسکتا ہے تو ضرور کر”
پھر انھوں نے حضرت جبرئیل کو اسمعیل کی جگہ پر کھڑا دیکھا۔ پہاڑی سے نیچے اتر کر بچے کے پاس آئیں۔ زمزم وجود میں آچکا تھا وہ خوشی سے نہال ہوکر پانی کے گرد بندھ بنانے لگیں۔ اب اس نیک بخت بیوی کی آزمائش کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور رب کے انعام و اکرام کا سلسلہ شروع ہوا۔ آگے کے حالات کو ہزاروں بار کاغذ پر منتقل کیا جاچکا ہے۔ مگر اہل اسلام کی تشنگی ہنوز برقرار ہے …..!!!!!!!
سچ ہے کہ جب تک انسان نے خود کو رب ذوالجلال کے حوالے کیا ہے قدرت نے اسے کبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ آزمائش کی بھٹی میں وہی محبوب رشتے پکائے جاتے ہیں جن کے بغیر انسان کا جینا محال ہوجائے۔
عام حالات میں ایک شوہر اگر بیوی کو ایسے لق و دق صحرا میں چھوڑ جاتا تو شاید بیوی اسے ہرگز نہ جانے دیتی یا مایوسی کی لپیٹ میں آکر اپنی جان دے دیتی۔ اس ناتواں سی عورت نے اپنے خالق و مالک پر جس درجہ توکل اور اعتماد کا ثبوت دیا وہ تاقیامت دنیا کی تمام خواتین کے لیے نقش قدم اور ایک زندہ مثال ہے۔
اتنے کٹھن حالات میں بھی ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے مشکل سے باہر نکلنے کے اسباب صرف اولو العزم لوگ ہی تلاش کرسکتے ہیں۔
وہ تو حضرت ھاجرہ کا رب کی ذات پر یقین کامل تھا جو انھیں ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ کے لیے توانائی اور ہمت فراہم کرتا رہا۔
ان واقعات میں ہمارے لیے “زندگی” ہے “جان” ہے۔
“ایثار و قربانی اور رب ذوالجلال کی ذات پر مکمل بھروسہ یہی ہماری”دنیاوی زندگی” کا اصل معیار ہیں”-
تو آئیے اس معیار پر کھرا اترنے کی کوشش کریں!

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بہت خوبصورت مضمون، انداز دل کو لگنے والا…

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

ماشاء اللہ!انوکھا اسلوب تحریر، اچھوتا طرز تفہیم، اللہ تعالٰی مزید قلمی طاقت پیدا کرے، نیز اسی طرح استمرار کے ساتھ کتاب وسنت پر مبنی دینی واسلامی اور اصلاحی نگارشات ومضامین لکھنے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے- آمین یارب العالمین

Habibullah Khan

ماشاء اللہ۔