سعودی عرب بدل رہا ہے

ابوالمیزان منظرنما

ہندوستان بھی تو بدل رہا ہے۔ جس سوچ کو آج سے ترانوے سال پہلے ایک نام دے کر زمین پر اتارا گیا تھا اس نے سارے ملک کو رنگ دیا ہے۔ یہ وہ رنگ نہیں ہے جس کو تحریک آزادی کے سپاہیوں نے اپنے خون سے گاڑھا کیا تھا۔ بلکہ یہ ان گنے چنے لوگوں کی چترائی کا رنگ ہے جنھوں نے ہوا کا رخ بھانپ لیا تھا اور اسی راستے پر چل پڑے تھے جو سب سے اونچے پہاڑ کو جاتا تھا۔ موسم بدلتا ہی ہے، کئی گرمیاں گزر گئیں وہ پہاڑ چڑھنے میں۔ ایک سخت گرمی کے بعد جب موسم بدلا تو وہ رنگ جھرنوں کے ساتھ ہندوستان کی ہر ندی میں اتر آیا۔ اب نقشہ دیکھیے تو جہاں تک نظر جائے کمل ہی کمل کھلا ہوا ہے۔
سعودی عرب بھی بدل رہا ہے۔ آج ہی کے دن یعنی 23 ستمبر 1932 کو سعودی عرب بنا تھا۔ اس سال 2019 میں سعودی اپنا نواسیواں قومی دن منارہا ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم جس عمر میں ہیں سعودی عرب کی ستر فیصد آبادی کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہے۔ سعودی عرب میں بدلاؤ کی یہ جو روشن لکیریں ہیں وہ دو ہزار پانچ سے ہی کھینچی جارہی تھیں۔
جو ہندوستان آج ہم دیکھ رہے ہیں سن دو ہزار دو میں ہی اس میں رنگ بھرنے کی شروعات ہوچکی تھی۔ تیرہ سال کی کڑی محنت کے بعد ہندوستان پر کمل کا رنگ اترا ہے۔ اچانک کچھ نہیں ہوتا۔ صدی لگ جاتی ہے بدلنے میں۔ سوچ کو آکار لینے میں اور پھر زمین پر چلنے پھرنے میں۔
محنت کسی کی بھی ہو رنگ لاتی ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ تبدیلی جیسی بھی ہو ری ایکشن دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ردعمل میں جشن ہوتا ہے اور دوسرے میں ماتم۔ یہی دنیا کا مزاج ہے اور یہی زمانے کا مقدر۔ خیر و شر کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی۔ خیر کے راستے پر ہر قدم منزل ہے اور شر کی راہ میں ہر لمحہ خسارہ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ہندوستان دونوں کے بدلاؤ پر ہمارا ردعمل ایک جیسا ہے، دکھ کا۔ حالانکہ ان دونوں کا ایک نقطہ نظر اطمینان یا کم از کم زیادہ تکلیف کا نہیں ہے۔
اس شمارے میں کل تین ہی اردو مضامین ہیں۔ ایک لکھوایا گیا ہے، دو مل گئے ہیں۔ سعد صاحب کا مضمون پڑھیے تو ایسا لگے گا جیسے آبادی کے سب سے شریف آدمی کو اتنے کوسنوں کا سامنا ہے کہ اسے سکھ سے جینے نہیں دیا جارہا ہے۔ مزید دو مضامین تو اس بدلاؤ کو ایسے دکھاتے ہیں جیسے پریشان حال بندے کی بٹیا کمانے نکل گئی ہو۔ سچ ایک ہی ہے۔ حقیقت کو دیکھنے کے زاویے میں فرق ہے بس۔
ہندوستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی سب دکھی نہیں ہیں۔ مولانا محمود مدنی صاحب کے تیور دیکھ لیجیے۔ کتنے ایسے ہیں جو کمل رنگ میں رنگنے کو بے تاب ہیں۔ ہر مسلمان اذان ہونے پر مسجد نہیں جاتا۔ ہر عبد اللہ کے مدنظر آخرت نہیں ہے۔ ہر عبدالرحمن کی شکل مسلمانوں جیسی نہیں ہے۔ شکل صورت لباس نام جیسے بھی ہوں، دل بدلتا رہتا ہے۔ سعودی عرب اور ہندوستان سے زیادہ تیزی سے بدلتا ہے۔ ایسے گھر کم ہیں جس میں رہنے والے تمام لوگوں کا ایمان ایک جیسا ہو۔ یہی معاملہ دنیا کے ہر گاؤں، ہر شہر اور ہر ملک کا بھی ہے۔ دکھ کی بات یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ سعودی عرب میں ایسی عورتیں بھی پائی جاتی ہیں جو آج کل وہاں کے شاپنگ مال میں ویسٹرن آوٹ فٹ میں گھوم رہی ہیں۔ فکر کی بات صرف اتنی سی ہے کہ خادم حرمین شریفین کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ سعودی عرب دبئی جیسا ہوجائے تو بہت لوگوں کو خوشی ہوگی، مگر ہمیں دکھ ہوگا۔

 

10
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
10 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

کوسنوں کا سامنا waah.

رشید ودود

یار ابوالمیزان! بس یہی بتا دو کہ لکھنا کہاں سے سیکھا؟ اے ہائے! میرا بس چلے تو ہر فقرے کے بند ایسے کھولوں جیسے بٹن کھولا جاتا ہے، ظاہر جتنا خوبصورت ہے، باطن اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، بخدا پڑھے جا رہا ہوں، سر دھنے جا رہا ہوں

حافظ خلیل سنابلی

“سعودی عرب دبئی جیسا ہو جائے تو بہت لوگوں کو خوشی ہوگی لیکن ہمیں دکھ ہوگا”.
واقعی. 💐 اللہ مملکت توحید کی حفاظت فرمائے.

وسيم المحمدي

بہت خوبصورت،
اور بہت ہی شاندار،
ایسی جامع اور محرر و لا جواب تحریریں بہت کم پڑھنے ملتی ہیں!

نصیرالحق

بالکل ماڈرن اور لیٹیسٹ
جدید ترین ایڈیٹوریل اسٹائل
بہت خووب
دوسرے اردو ایڈیٹرس کے لیے شاہکااار

عبدالقدیر

مختصر سے مضمون میں ڈھیر ساری باتیں بیان کر جانے کا ہنر کسی کسی کے حصے میں آتا ہے. واقعی کمال کا لکھا.

عبدالکریم سلفی علیگ

بہترین لاجواب…. اللہ سلامت رکھے

امتیاز احمد عزیز احمد رحمانی

الحمدللہ بہت خوب اللہ.حالات حاضرہ کی بہترین روداد.آخری جملہ بڑا پیارا،خاتمہ بالخیر

ریاض الدین شاہد

مختصر مگر جامع اس تحریر کا ہر لفظ معانی و مفاہیم کے اعتبار سے ہر ہے۔
اللہ بہتر بدلہ آمین۔

اقبال الہندی

۔