سن دو ہزار ایک کی بات ہے۔ ایک مشہور مدرسے کے ترجمان اردو مجلے میں میری ایک نظم شائع ہوئی۔ بڑی حوصلہ افزائی ہوئی۔ بیک کور کے اندرونی صفحے پر رنگین روشنائی میں چھپی تھی۔ اوپر ایک کونے میں قلمی نام (شمس نذیری) کے ساتھ پورا پتہ لکھا ہوا تھا۔ نذیری والد صاحب کے نام کی طرف نسبت تھی اور دادا کے ذکر کی گنجائش پتے میں نکال لی تھی (بشیر منزل) اور پھر اس کے بعد گاؤں کا مکمل پتہ۔
یہ اچیومنٹ اس وقت میرے لیے بڑی بات تھی۔بہت مشکل بھی پیش آئی تھی۔ پانچ سو کی صورت میں جو جیب خرچ بڑے شدید انتظار کے بعد موصول ہوتا تھا اس میں سے آدھا تو ادھار چکانے میں چلا جاتا تھا۔ باقی جو روپئے بچتے تھے انہی میں سے مکتبہ فہیم یا مکتبہ نعیمیہ سے کتابیں خریدنا، جامعہ عالیہ کے دروازے کے پاس جو مٹھائی کی دکان ہوا کرتی تھی اس سے لگی ہوئی اسٹیشنری کی دکان سے ہر مہینے ایوان اردو اور امنگ لینا، بسااوقات ناشتے میں دو یا تین پوڑیاں کھانا، حسب توفیق عموماً عصر بعد کھیدوپورہ جاکر بُنیا چکھنا، عشاء بعد مرزا ہادی پورہ چوک پر کھڑچولین پینا اور پھر ڈاک ٹکٹ اور لفافے جو اسٹاک میں رکھنے پڑتے تھے وہ الگ۔ اتنے بہت سارے اخراجات کے بعد وہ ڈھائی سو روپئے جو سو عدد لیٹر ہیڈ چھپوانے میں خرچ ہوگئے تھے ان کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نظمیں اور مضامین جو ہم اخباروں اور رسالوں میں بھیجتے تھے نہ ان کی کبھی رسید ملتی تھی اور نہ یہ پتہ چلتا تھا کہ ایڈیٹر صاحب نے انھیں قابل اشاعت سمجھا ہے یا پھاڑ کر پھینک چکے ہیں۔ ہر نیا شمارہ دیکھ دیکھ کر جب تھک جاتے تھے اور انتظار کمزور پڑنے لگتا تھا تو عجیب عجیب خیالات آتے تھے۔ انہی خیالات میں وہ ترکیب بھی تھی جس کا نتیجہ لیٹر ہیڈ کی شکل میں سامنے آیا تھا جس پر ڈھائی سو روپئے کی خطیر رقم خرچ کی جاچکی تھی۔
جب وہ نظم شائع ہوئی تو ایسا لگا جیسے پورے ڈھائی سو ایک ساتھ وصول ہوگئے۔ ایک اور لیٹر ہیڈ نکالا اور فوراً دوسری نظم لکھ کر شکریے کے ساتھ بھیج دیا۔ سترہ سال بیت چکے ہیں وہ نظم اب تک شائع نہیں ہوئی۔
انتظار کرتے رہے اور سوچتے رہے شاید کچھ وقفے کے بعد ہماری دوسری نظم کا بھی نمبر آئے کیونکہ اور بھی تو شاعر ہیں ۔
مگر ایک دن وہ انتظار بھی ختم ہوگیا۔ فضیلت ثانی کے ایک طالب علم اورپرائیویٹ حائطیہ ’’غازی‘‘ کے ایڈیٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے خوش تھے۔ چھٹی میں گھر گئے ہوئے تھے تو وہ مذکورہ مجلہ کے ایڈیٹر سے ملے تھے۔ ان کے رسالے میں میری چھپی ہوئی نظم دیکھ کر انھوں نے بتادیا تھا کہ ’’ارے! یہ لڑکا تو ہمارے عالیہ میں عالمیت آخر کا طالب علم ہے‘‘۔
اس طرح لیٹر ہیڈ والی ترکیب وہاں دوبارہ کام ہی نہ آئی۔ ہماری طالب علمی کا بھید کھل چکا تھا۔
’’مضمون نگار کا عمر دراز ہونا شرط نہیں ہے‘‘ فری لانسر کے اکثر شماروں میں چھپنے والا یہ صرف ایک جملہ نہیں ہے پوری کہانی ہے اس رویے کی جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
اب رسالے کا ایڈیٹر واٹس اپ اور فیس بک پر گردش کرنے والی تحریروں سے ہی اپنا کام چلاتا ہے۔ رسالہ جب تک چھپ کر آتا ہے تب تک اکثر قارئین وہ تحریر موبائل فون پر پڑھ چکے ہوتے ہیں۔
ڈیڑھ دہے میں دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ مارچ سن دوہزار نو میں فری لانسر کا اجرا ہوا تھا۔ تب اتنا بدلاؤ نہیں آیا تھا۔ انٹرنیٹ آفسوں میں چلتا تھا۔ ڈونگل پر ٹوجی مہنگا تو تھا ہی، تکلیف دہ بھی بہت تھا۔ بڑی خراب اسپیڈ تھی۔ گیارہ دسمبر دو ہزار آٹھ کو تھری جی آیا جس کو ہندوستان بھر میں پھیلنے میں تقریباً اکیس مہینے لگ گئے۔ ستمبر دو ہزار دس میں تمام پرائیویٹ آپریٹرس کوتھری جی ملا۔ تب فون بھی مہنگے تھے اور انٹرنیٹ بھی۔ اس وقت قلم کار رسالوں اور پبلشروں کا محتاج تھا کیونکہ پرنٹنگ مہنگی تھی۔
اب انڈرائڈ اور جیو انقلاب آچکا ہے۔
آج کا قلم کار اب اپنا ہر کام فیس بک پر کرتا ہے۔ وہیں لکھتا پڑھتا ہے۔ رہتا بھی وہیں ہے۔ دن رات جب چاہتا ہے ایک بٹن دباتا ہے اورآن لائن دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ آف لائن دنیا میں دقتیں بھی تو بہت ہیں۔ شام کے مشرقی غوطہ میں قتل عام ہورہا ہے۔ ایسے مواقع پر پہلے قنوت نازلہ پڑھنے میں کتنا کھڑا رہنا پڑتا تھا، اب وہ مشکل بھی آسان ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر تیر تلوار لفظوں سے دشمن پر وار کرو، لائک ملیں، کمنٹ آئیں، شیئر ہو تو کتنا سکون ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مسلمانوں کی فوج نے دشمن کو مار بھگایا ہو۔ آف لائن زندگی کے بڑے بڑے مسائل اب حل ہوگئے ہیں۔ اب تو احتجاج بھی بڑی آسانی سے ہوجاتا ہے ۔ وہی بٹن دباؤ اور شانتی سے لکھ دو۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔
ایک طرف جہاں قلم کار کو اتنی سہولتیں میسر ہوئی ہیں کاغذ پر چھپنے والے رسالوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ بڑے بڑے پرچے بند ہورہے ہیں۔ جو جاری ہیں ان کی حیثیت اب آرکائیوز سے زیادہ نہیں ہے۔ جو تحریریں سوشل میڈیا پر کاپی پیسٹ اور فارورڈ ہو ہو کر پرانی ہوجاتی ہیں انہی میں سے کچھ منتخب کرکے ایڈیٹر اپنے رسالے میں سجا دیتا ہے۔ یعنی رسالے اب ڈاکومنٹنگ کا کام کررہے ہیں۔ تحریروں کو دستاویزی حیثیت دے رہے ہیں۔
فری لانسر نے ایک وقفہ لیا اتنی دیر میں پرنٹ میڈیا کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ قلم کار جو اپنا مضمون لکھ کر ایڈیٹر کو دے دیا کرتا تھا اور پرچے کی چھپائی تک مطمئن رہتا تھا اب اس سے ایک منٹ بھی صبر نہیں ہوتا۔ ادھر لکھا ادھر فیس بک اور واٹس اپ پر چھاپ دیا۔
اشاعت کی تمام تر آسانیوں اور قلم کار کے حق میں ہونے والی ساری تبدیلیوں کے باوجود معیار کا مسئلہ بدستور باقی ہے۔
ہمارا خیال ہے ہر میگزین کو اب ویب پورٹل بن جانا چاہیے۔ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں (البتہ دستاویزیں اب بھی چھپنی چاہئیں)
لیجیے فری لانسر کا ویب پورٹل حاضر ہے۔ اس سنشودھن کے ساتھ کچھ اور اپڈیٹس بھی زیرعمل ہیں جو ان شااللہ اپنے وقت پر آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔
بہت عمدہ تحریر
اللہ آپ کے اس قدم کو مبارک بناے
آپ کی کہانی فری لانسر کے آنلائن کسی تار سے الجھ گئی اور بڑی آسانی سے مدغم بھی ہوگئی۔ اس کہانی کو ذرا وستار سے لکھیں کہ کچھ پرتیں اور کھلیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو اور اس مجلے کی وقعت کا اندازہ بھی ہو سکے جس نے صرف کسی کے یہ کہہ دینے سے کہ شاعر ابھی طالبعلم یعنی نابالغ ہے، اسکی تخلیق زندہ در گور کر دیا!!
ماشاءاللہ ۔۔
ساری تبدیلیوں کے باوجود معیار کا مسئلہ بدستور باقی رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
ما شاء اللہ.. پورٹل دیکھ کے خوشی ہوئی اور پڑھ کے مزید اضافہ ہوا.. اللہ یہ سلسلہ بدستور جاری رکھے.. اللہ آپ سب کے کوششوں کو بے حد کامیاب کرے اور آجر دے..
ماشاءاللہ بہت اچھا اور مستحسن قدم ہے. اللہ برادرم ابوالمیزان اور ابن کلیم صاحبان کو جزائے خیر دے. اور حسنات کو قبول فرمائے. آمین
بہترین۔ قابل ستائش اقدام
ماشاءالله تبارك الله
بہت بہت شکریہ اللہ جزائے دے
اس پورٹیل کا حصہ کیسے بنا جاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی تحریر لکھنی ہو تو کیا طریقہ ہے
اپنی ایک خوبصورت تصویر, ایک تازہ تحریر اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں: thefreelancermumbai@gmail.com
نوٹ: تعارفی خاکہ کچھ ایسا ہو:
نام:
قلمی نام:
پیدائش (تاریخ و مقام):
تعلیم:
مصروفیات:
معروف قلمی خدمات (مقالات و کتب):
پسندیدہ قلم کار:
پسندیدہ کتابیں:
رہائش:
رابطہ:
ابو المیزان صاحب اپنا بھی تعارف کرادیں تو مہربانی ہوگی، آپ کے تعارف کے خانے میں کچھ لکھا نہیں ہے۔
الحمدللہ اچھا لگا بہترین معلومات کا خزانہ ہے اللہ تعالیٰ مزید بہتر بناۓ آمین