اخبارات اور رسالوں کا اجرا علم و عمل، عدل و انصاف، جرات و بہادری، صدق و صفا، ذہنی و علمی حریت اور آزادئ قلم و قرطاس کا متقاضی عمل ہے لیکن مذکورہ خوبیوں اور صفات سے معمور اس نہایت اہم شعبے میں اب جاہل، اکھڑ، منافق، متشدد، جانبدار، خائن، تنخواہ چور، مسلک پسند اور قوم کے غم میں ہلکان قوم فروشوں کی ایک بڑی تعداد فعال و متحرک ہے۔ فی الوقت اردو اخبارات اور رسائل جس بے چارگی، حقائق سے دور اور غیر زمینی مسائل کے ساتھ نکل رہے ہیں وہ نہ صرف افسوس ناک بلکہ ہمارے پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کے ذوق و صلاحیت پر سوالیہ نشان کھینچتے ہیں۔ اردو اخبارات میں نہ رپورٹنگ ہے، نہ تجزیاتی کالم نہ پولیٹیکل مضامین اور نہ ہی پڑھنے کے قابل کوئی ادارتی آرٹیکل۔
اس وقت ممبئی میں تقریبا سات یا آٹھ اردو روزنامے باقاعدہ نکل رہے ہیں اور ان تمام اخباروں کی مجموعی صورت حال جاں سوز ہے۔ سہارا پچھلے کئی سالوں سے بے سہارا ہے، دو اخبارات چچا اور بھتیجے کے وراثتی اختلاف میں دم توڑ رہے ہیں، ایک نہایت قدیم اخبار کا اداریہ اب آپریٹرز لکھ رہے ہیں، باقی کچھ اخبارات سکرات کے عالم میں ہیں کب جاں سے چلے جائیں کچھ بھروسہ نہیں۔ کام کرنے والے ملازمین کو پانچ پانچ مہینوں کی تنخواہ کی جگہ دھمکیاں اور گالیاں ملتی ہیں۔ باقی ایک مبینہ نمائندہ اخبار قوم اور سماج میں انقلاب برپا کرنے کی ذمہ داری کا دعویدار ہے لیکن وہاں موجود اکثر صحافی بشمول ایڈیٹر مسلکی بدہضمی کے شکار ہیں، گلف خصوصا سعودیہ عربیہ کے خلاف کوئی بھی خبر ان کے لیے تسکینِ قلب و نظر کے سامان سے کم نہیں اور بغیر تحقیق کے غیر ذمہ دارانہ طور پر بے بنیاد اور جھوٹی خبروں کو اخبار میں شامل کرنا اپنا ایمانی اور اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اردو اخبارات سے منسلک صحافیوں کی مجموعی حالت ہمیشہ دگرگوں رہی ہے، جب اردو کی فضا پاک و صاف تھی تب بھی اور جب گرد آلود ہے تب بھی۔
اردو اخبارات کے ذمہ داروں اور آنروں نے ملازمین کی زندگی کو اخباری بنا رکھا ہے جس کی انتہا ردی کی ٹوکری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اردو اخبارات میں کام کرنے والے ملازمین میں پروفیشنل صحافیوں کی تعداد کم شاعروں اور ادیبوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے تاہم اس وقت ملازمت کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا اردو زبان و ادب سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ملک کے اکثر ماہنامہ رسائل و مجلات مسلکی حصار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں، ان رسالوں اور مجلات کے نمائندوں کو خالص مسلکی پروموشن اور مسلکی زمین پختہ کرنے کے بجائے دیگر موضوعات پر بھی قلم فرمائی کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک خالص مسلکی رسائل و مجلات ہونے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ ان کو خالص سیاسی کردیا جائے۔
عام طور پر میں نے اردو صحافیوں کو دیکھا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ صحافیانہ احساس کے ساتھ زیست کرتے ہیں جس سے نہ صرف خود تصادم احساس کے شکار ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی بلکہ سر درد کا ذریعہ بنتے ہیں۔
بہت زیادہ ناراض لگ رہے ہو
ویسے حقیقت کو آشکارہ کیا ہے سلمان آپ نے
بہت خوب
لکھتے رہیں
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ