ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی

ادب بنیادی طور پر عربی لفظ ہے جو تین حروف کا مرکب ایک کلمہ ہے، جس کا بنیادی معنی جمع کرنا یا جمع ہونا ہے، اسی سے عربی میں چنے ہوئے دسترخوان کے لئے ”مأدبۃ“ کا لفظ مستعمل ہے اس لئے کہ اس پر انواع واقسام کے پکوان یکجاہوتے ہیں یا لوگ کھانے کے لئے اس پر اکٹھا ہوتے ہیں، اسی سے زبان وبیان کا ادب بھی مشتق ہے جس میں ایک شاعر یا کاتب اپنے مقصود کو بیان کرنے کے لئے اپنے کلام کو ان تمام خوبیوں سے مزین کرتا ہے جو اس کومؤثر بنا سکیں یا ادب سے بھرپور کلام سبھی کے نزدیک پسندیدہ ہوتا ہے، اصطلاحی معنی سے دراصل یہی اس کی مناسبت ہے کہ ادب دراصل اخلاقی کمالات کے کسی کے اندر اکٹھا ہونے اور یکجاہونے کا نام ہے۔
انسان کے اندر جو ادب مطلوب ہے اس کا مفہوم کیا ہے یا بالفاظ دیگر ادب کی اصطلاحی تعریف کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

(الأخذ بمکارم الأخلاق)

ترجمہ: ادب اخلاق کریمانہ کو اپنانے کا نام ہے (فتح الباری: 400/10) مزید ایک اور تعریف یہ بھی بیان کی ہے:

(استعمال ما یحمد قولا وفعلا)

ترجمہ: قول وفعل میں مستحسن طرزاور طریقہ کو اپنانا ہی ادب ہے۔(فتح الباری، کتاب الأدب:400/10)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ادب کی تعریف یوں بیان کی ہے:

(فالأدب اجتماع خصال الخیر في العبد)

ترجمہ: ادب نام ہے خیر کی تمام باتوں کا کسی بندے کے اندر یکجا ہونا (مدارج السالکین 355/2)
جرجانی نے ادب کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو زبان وبیان کے ادب کے ساتھ ساتھ معاملات کے ادب پر بھی صادق آتی ہے، لکھتے ہیں:

(الأدب عبارۃ عن معرفۃ ما یحترز بہ عن جمیع أنواع الخطأ)

ترجمہ: ادب نام ہے ان اصولوں کے جان لینے کا جن کی مدد سے ہر طرح کی غلطی سے بچا جاسکتا ہے (التعریفات للجرجانی: 15)
ان تمام تعریفات کے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی کل زندگی حرکت وعمل سے عبارت ہے، اور اس حرکت وعمل کا اصل محرک انسان کے اندر کی شہوات اور خواہشات ہیں، انسان کے اندراللہ تعالی نے متعدد اور متنوع خواہشات رکھ چھوڑی ہیں، ان خواہشات کی تکمیل کے جو مہذب طریقے اور صحیح راستے اللہ تعالی نے فطرت میں ودیعت کئے ہیں یا شریعت میں بیان کئے ہیں ان کی پاسداری ہی دراصل ادب ہے، انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں جن فطری اور شرعی حدود کا پابند بنایا گیا ہے انہی اصولوں کے تابع اپنی حرکات وسکنات کو رکھے تو اس کاسلوک مہذب ہوتا ہے، وہ ہر طرح کی خواہشات رکھنے اور ان کو پورا کرنے کے باوجود خواہشات رکھنے والے دیگر جانداروں یا جانوروں سے ممتاز ہوتا ہے ؎
ادب ہی سے انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے
انسان کے اسی مہذب سلوک سے اقدار (values) وجود میں آتے ہیں اور انہی قدروں پر تہذیب کی بنیاد قائم ہوتی اور ایک مستحکم کلچر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر قومیں اپنے عروج وزوال کی داستان لکھتی ہیں۔
دین اسلام جو کہ ایک مکمل دین ہے، جس میں اللہ تعالی نے پچھلی شریعتوں کا خلاصہ اور رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کی رہنمائی اور تربیت کا سامان مہیا کردیا ہے اس اسلامی شریعت میں بھی ادب کو بنیادی عنصر کی حیثیث حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إنمابعثت لأتمم صالح الأخلاق)

ترحمہ: مجھے تواچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے (الأدب المفرد: 273) اور فرمایا:

(أکمل المؤمنین إیمانا أحسنہم خلقا)

ترجمہ: سب سے کامل ایمان والا وہی ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو(ترمذی: 1162)
ان دونوں حدیثوں میں ادب ہی کی بات کی گئی ہے، ایک میں ادب کو بعثت نبی ﷺ کے بنیادی مقاصد میں شامل کیا گیا ہے اوردوسری حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ ایمان کا کمال بھی ادب کے کمال پر موقوف ہے، ادب ابتداء میں بھی ہے اور ادب انتہاء میں بھی، حضرت أبوذر غفاری نے بعثت نبوی کے فوری بعد اپنے بھائی أنیس کو نئے نبی کی دعوت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لئے بھیجا، واپس لوٹ کر أنیس نے نبی أمیﷺ کی دعوت کا تعارف ان الفاظ میں فرمایا:

(رأیتہ يأمر بمکارم الأخلاق)

ترجمہ: میں نے دیکھا کہ آپ حسن اخلاق کے داعی ہیں (بخاری: 3861:47:5)

ادب کی مذکورہ بالاوضاحت اور مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کی روشنی میں اسلام کی نظر میں ادب کے دائرہ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ انسان کے جملہ معاملات ادب کے دائرے میں آتے ہیں، ایک انسان کا اپنے خالق کے ساتھ معاملہ، اپنے نبی کے ساتھ معاملہ، اپنے نفس کے ساتھ معاملہ، دیگر انسانوں کے ساتھ معاملہ بلکہ اس کائنات کی دیگر تمام مخلوقات میں سے جن کے ساتھ بھی انسان کامعاملہ ہو وہ ادب کے دائرے میں آتا ہے، مذکورہ تمام طرح کے معاملات میں فطری وشرعی اصولوں کی پابندی ایک فطری وشرعی مطالبہ ہے۔ اور جن اصولوں کو ادب کہا جاتا ہے وہ ساری انسانی زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں، ادب کے ان اصولوں کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے حیاء، امانتداری، عدل وانصاف، فرق مراتب کا لحاظ، خیرخواہی، معاملات میں وقت اور مقام کے تقاضوں کی سمجھ، نرم خوئی، زہد اور زبان کی حفاظت اور اسکا صحیح استعمال جیسی کئی ایک صفات ہیں جو ان میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں مگر ان بنیادوں سے آگے حسن اخلاق کی وہ تمام باتیں جو کتابوں سے لیکر سوانحی خاکوں تک بکھری پڑی ہیں سب ادب کا لازمی جزء ہیں۔
ایک انسان کی زندگی میں ادب کی کیا اہمیت ہے؟
ایک انسان کو ادب کی کس قدر ضرورت ہے؟
شریعت اسلامیہ میں ادب کا مقام کیا ہے؟
باادب ہونے کے فائدے کیا ہیں؟
اور بے ادب ہونے کے مادی ومعنوی اوردنیوی واخروی نقصانات کیاہیں؟
ان سب سوالات کے جواب شرعی دلائل اور تاریخی شواہد کی روشنی میں دینا بہت طول طویل موضوع ہے، جو کہ اس چھوٹے سے مضمون میں ہمارا مقصود نہیں ہے، سرِدست یہ دوچار حوالے دیکھ لیں:
اللہ تعالی نے حکم دیا:

(یا أیھا الذین آمنوا قوا أنفسکم وأھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ)

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔ (سورۃ التحریم: 6)
آیت کے مذکورہ بالاترجمہ سے حکم بالکل واضح سمجھ میں آتا ہے مگر اس آگ سے بچنے بچانے کا طریقہ کیا ہوگا اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ نوٹ کریں کہ ابن عباس رضي اللہ عنہما وغیرہ نے جب اس کی تفسیر فرمائی اور اس کاراستہ بتلایا تو کہا:

(أدبوھم وعلموھم)

یعنی اپنے اہل وعیال کو ادب سکھاؤ اور انہیں علم دو۔(مدارج السالکین 355:2)
اگر احادیث کے ذخیرہ میں تلاش کرنا چاہیں توادب کی بعض بنیادوں کا تذکرہ کرنے والی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامع حدیث کافی ہے:

(الھدي الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسۃ وعشرین جزء من النبوۃ)

ترجمہ: صحیح چال چلن، اچھا رکھ رکھاؤ اور میانہ روی، یہ ساری باتیں نبوت کا پچیسواں حصہ ہیں۔ (مسند أحمد عن ابن عباس:2698)
اوراگر سلف کے اقوال دیکھنا چاہیں تو بطور نمونہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:

(کاد الأدب أن یکون ثلثي الدین )

ترجمہ: ادب تو جیسے دین کے دو ثلث حصہ کا نام ہے۔ (صفۃالصفوۃ: 330:2)
ادب کے انسانی سماج پر اثرات کے سلسلہ میں بزرگوں کا کہا بھی زبان زدِ خاص وعام ہے ؎
باادب بانصیب بے ادب بے نصیب…
انسانی زندگی پر ادب کے اثرات بہت ہی گہرے او رانتہائی حیرت انگیز ہوتے ہیں، ادب انسان کو معاملات کی کس بلندی پر لے جاتا ہے اور انسان کس قدر مہذب ہوجاتا ہے اور انسانی طرز تعامل میں کیسا انقلاب برپا ہوجاتا ہے ذرا درج ذیل واقعات سے اندازہ لگائیں:
نبی ﷺ کی شخصیت ہر مسلمان کے نزدیک محترم ہے اور احترام کے مظاہر صحابہ کی عملی زندگی میں بے شمار ہیں مگر ایک مثال دیکھیں جو احترام کے ساتھ ساتھ اظہارِ ادب کا شاہکار بھی ہے، کسی نے حضرت عباس سے پوچھا کہ کون بڑے ہیں؟ آپ یا رسول اللہ ﷺ؟؟ جواب دیا: وہ مجھ سے بڑے ہیں حالانکہ میں ان سے قبل پیدا ہوا۔ (مستدرک حاکم: 5398:362:3 – ومصنف ابن أبی شیبۃ:33921:18:7)
زوجین کے مابین مخصوص مسائل سے متعلق کسی تیسر ے سے گفتگو کرنا شرعا ممنوع بھی ہے، اخلاقا ناپسندیدہ بھی ہے اور شریف و باحیاء لوگوں کے لئے ایک مشکل مسألہ بھی، مگر جب بات کئے بنا بات نہ بنے تو طریقہ کیا ہونا چاہئے، دیکھئے ادب ایک خاتون کو کیا سلیقہ سکھلاتا ہے اور حیاء کی پاسداری کا کیسا نمونہ وجود میں آتا ہے، ایک خاتون عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اس نے اپنے شوہر کی لاپروائی اور حق زوجیت کو ادا کرنے کے سلسلے میں کوتاہی کی شکایت کچھ اسطرح کی کہ اے أمیرالمؤمنین!میرے شوہر بہت روزہ رکھنے والے اور تہجدگزار ہیں، رات رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں اور دن میں ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو کہا: تو کیا میں تیرے شوہر کو نماز روزے سے روک دوں؟ عورت واپس لوٹ گئی، ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا، ایک دن کعب بن سور مجلس میں موجود تھے انہوں نے اس عورت کی بات سمجھ لی اور کہا: امیر المؤمنین یہ شوہر کی تعریف نہیں کررہی ہے، حق زوجیت نہ ملنے کی شکایت کررہی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق: 12587)

دوسروں کوشرمندگی سے بچانا اخلاق وادب کا کمال ہے، ذرا اس واقعہ کو دیکھیں کہ ادب ایک انسان کو کس قدر بلند کردار بنا دیتا ہے، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک خاتون قاضی کے پاس اپنی کوئی شکایت لے کر پہونچی، شکایت سنانے کے لئے جونہی اس نے سیڑھیوں پر قدم رکھے بے اختیار آواز کے ساتھ ہوا خارج ہوگئی، پہلے تو عورت پریشان ہوئی پھر کسی طرح خود کو سنبھالا اور اپنی سہیلی کے ساتھ قاضی کے قریب پہونچی اور جھینپے سے لہجے میں اپنی شکایت سنانے لگی، قاضی نے عورت کو شرمندگی سے بچانے کا طریقہ یہ سوچاکہ خود کو بہرا ظاہر کردے اور کہا: ذرا بلند آواز سے بولو مجھے سنائی نہیں دے رہا! عورت نے مزید بلند آواز میں بات رکھی تو قاضی نے کہا ذرا اور آواز بلند کرو کہ میں بہت اونچا سنتا ہوں، عورت نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اپنی سہیلی سے کہنے لگی، چلو اچھاہوا کہ قاضی بہرا ہے ورنہ کتنی شرمندگی اٹھانی پڑتی! اور پھر اس عورت نے اور بلند آواز میں اپنی بات رکھی اور واپس لوٹ گئی، اس طرح قاضی نے وقتی طور پر بہرا بن کر ایک عورت کو بھری مجلس میں شرمندہ ہونے سے بچالیا، ادب ایک انسان کو کس قدر بلندکردار بنا دیتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
ایک واقعہ عصر حاضر کابھی دیکھ لیں:
دکتور عبدالرزاق البدر بن عبدالمحسن العباد البدر عصر حاضر کا ایک بڑا نام ہے، محدث مدینہ شیخ عباد کے خلف رشید ہیں، مدینہ یونیورسٹی کے سینئر اسکالر ہیں، مسجد نبوی کے مدرس ہیں، بین الأقوامی شہرت کے حامل عالم دین ہیں، ان کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ انڈویشیا میں دورہ علمیہ میں جب لکچر دینے جاتے ہیں تو ان کی مجلس میں شریک ہونے والے طلبہ و طالبات اور عوام الناس کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق سوا لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے (خیال رہے یہ کوئی کانفرنس نہیں بلکہ شیخ کا خصوصی درس ہے)، ان سب باتوں سے بڑھ کر شیخ کی شناخت ایک انتہائی مؤدب شخص اور بحیثیت استاذ ایک کامیاب مربی کی ہے، ادب انسان کے اندر کیسا کمال پیدا کرتا ہے ذرا اندازہ لگائیں: 1427 ھ کے رمضان کا واقعہ ہے، ایک دن شیخ مدینہ یونیورسٹی میں کليۃ الحدیث میں پڑھانے کے لئے داخل ہوئے، یونیورسٹی میں ماہ رمضان میں بھی ابتدائی دوعشروں تک اکثر تعلیم جاری رہتی تھی، حسب معمول شیخ نے طلبہ کی حاضری لگانی شروع کی، ایک ایک کا نام لیتے جارہے تھے، سریلنکا کا ایک طالب علم تھا جس کا نام محمد صیام تھا، اتفاق سے وہ طالب علم اس دن غائب تھا، شیخ نے اس کا نام لیا اور اسے غائب پایا، شیخ کی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات نکلے (محمد صیام، صام فنام) یعنی محمد صیام نے روزہ رکھا اور سوگیا۔ شیخ نے اتنا کہا اور آگے بڑھ گئے طلبہ نے بھی اس کا کچھ نوٹس نہیں لیا تھوڑی دیر بعد شیخ کو اچانک احساس ہوا کہ طالب علم کی غیر موجودگی میں اور خاص طور پر روزہ کے حوالے سے یہ نامناسب تبصرہ تھا – حالانکہ بظاہر کوئی بڑی بات نہ تھی مگر شیخ نے استغفار پڑھنا شروع کردیا، نہ صرف یہ بلکہ دوسرے دن طالب علم حاضر ہوا اور حسب معمول حاضری لگاتے ہوئے اس طالب علم کے نام تک پہونچے تو رک گئے اس طالب علم کوسارا ماجرا سنایا اور سب طلبہ کے سامنے اس طالب علم سے معافی مانگی، اور بار بار اس سے پوچھتے رہے: کیاتم نے معاف کیا؟ کیاتم نے مجھے معاف کردیا؟ یہاں تک کہ طالب علم کو زور دے کر کہنا پڑا کہ شیخ میں نے آپ کو معاف کردیا تب جاکر درس کی ابتداء کی، بات یہیں تک ختم نہ ہوئی، ایک ہفتہ گزر جانے کے بعدایک دن شیخ کلاس روم میں داخل ہوئے تو کتابوں کا ایک مجموعہ ساتھ میں تھا، حسب معمول درس دیا اور جب درس سے فارغ ہوگئے تو اس طالب علم کو بلایا اور یہ کتابیں اس کے حوالے کیں اور کہا: میں نے تمہارے متعلق جو بات کہہ دی تھی اس کے بدلے میں یہ دے رہا ہوں، امید کرتاہوں تم مجھے معاف کردوگے! کردار کی یہ کیسی بلندی ہے اور ادب کا یہ کون سا مقام ہے، ایک طرف شخصیت کا یہ قد اور دوسری طرف انکے کردار کی یہ عظمت! اللہ اللہ ادب بھی کیا چیز ہے اور بندے کو کس قدر نکھار دیتی ہے، سنوار دیتی ہے؟
ہماری اس تحریر کا بنیادی مقصد دراصل یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ادب کا مقام اور مرتبہ اور اس کے اثرات کو واضح کیا جائے، ادب انسان کی بنیادی ضرورت ہے، انسانی سماج کے مختلف طبقات اور مختلف میدان کے لوگ یکساں طور پر اس کے محتاج ہیں، کوئی بھی انسان چاہے کسی بھی میدان سے تعلق رکھتا ہو ادب کے بغیر صحیح بنیادوں پر اپنے معاملات قائم نہیں کرسکتا، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(من تھاون بالأدب عوقب بحرمان السنن، ومن تھاون بالسنن عوقب بحرمان الفرائض ومن تھاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفۃ)

ترجمہ: جو ادب کے باب میں سستی کرے وہ سنتوں سے محروم کردیا جاتا ہے، اور جو سنتوں کے باب میں سستی کرے وہ فرائض سے محروم کردیا جاتا ہے، اور جو فرائض کے باب میں سستی کر ے وہ علم و معرفت کی چاشنی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ (شعب الإیمان للبیہقی: 3017:559:4)
مذکورہ بالا اثر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ زندگی کے ہر معاملہ کی بنیاد ادب اور حسن اخلاق پررکھی جانی چاہئے: بقول اقبال ؎
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
مسند أحمد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی سند ضعیف ہے، لہذا سکی نسبت حتمی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی جاسکتی مگر زندگی کے ایک اصول اور تاریخ کی ایک گواہی کے طور پر بھی یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

(مانحل والد لولدہ نحلۃ خیرا من أدب حسن)

ترجمہ: کسی بھی باپ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم سے بہتر کوئی تحفہ اپنی اولاد کو نہیں دیا (مسند أحمد: 15403:128:24)۔
یہ ایک بنیادی بات ہے کہ آدمی چاہے استاذ ہو کہ والد یا کوئی سرپرست اگر اپنی تربیت کی بنیادادب پر نہ رکھے تو اپنے مشن میں بری طرح ناکام ہوگا، آج ہماری تربیت کی کوششیں ثمرآور نہیں ہورہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تربیت کو بھی دیگر فنون کی طرح محض ایک تعلیمی مشغلہ سمجھ لیا ہے جبکہ اصل تربیت ادب کے سکھلانے اور اس کے اپنانے میں ہے۔
بالخصوص طلب علم کا میدان آج سب سے زیادہ اس ناحیے سے توجہ کا طلبگار ہے۔
آج کے ہمارے مدارس اسلامیہ کے فارغین علم کا جس قدر حصہ لیکر اداروں سے فارغ ہورہے ہیں وہ بہت کافی ہے، خود ان کی اپنی ذات اور سماج کے لئے یہ مقدار غیر معمولی ہے مگر اثرات وثمرات:

(کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمآن ماء حتی إذا جاء ہ لم یجدہ شیئا)

ترجمہ: اس چمکتی ریت کی طرح جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اسکے پاس پہونچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا (سورۃ النور: 39)کی عملی تصویر ہیں یا بقول حیدر علی آتش ؎
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہء خوں نہ نکلا
اس کی بنیادی وجوہات کیا کیا ہیں یہ اہل نظر طے کرتے رہیں مگر ایک چیزجو ہماری محدود سمجھ میں آتی ہے وہ بقول عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ:

(نحن إلی قلیل من الأدب أحوج منا إلی کثیرمن العلم)

ہم بہت زیادہ علم کے مقابلے ادب کے تھوڑے حصہ کے زیادہ محتاج ہیں (مدارج السالکین: 556:2)
علم انبیاء کی وراثت ہے، اسے ہر ایرے غیرے کو نہیں دیا جاسکتا، نبی ﷺ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا:

(و واضع العلم عند غیر أھلہ کمقلد الخنازیر الجوھر واللؤلؤ والذھب)

ترجمہ: نا اہلوں کو علم دینے والے کی مثال اس انسان جیسی ہے جو خنزیر کے گلے میں سونا، لؤلؤ اور جواہرات پہنائے۔ (ابن ماجہ وحسنہ الألباني في تخریج المشکاۃ: 218:76:1)
لہذا ایک استاذ اور ایک معلم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علم دینے سے قبل یا علم دین کے ساتھ ساتھ اپنے شاگرد کو علم لینے کے قابل بھی بنائے، بالکل اس کسان کی طرح جو بیج بونے سے پہلے زمین کو ہموار کرتا ہے، اس کی صفائی کرتا ہے، اس میں کھاد دیتا ہے، اسے کاشت کے قابل بنا تا ہے اور پھر بویائی اور سینچائی کا کام شروع کرتا ہے اور پھر بھی اچھی فصل کی بس وہ امید کرتا ہے، انسانوں کی کاشت دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے یہ کام انبیاء کرام سے لیا اور اب انبیاء کے بعد علماء واساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے، مدارس کوئی فیکٹری نہیں کہ بنے بنائے سانچے میں ایک طرف سے خام مال داخل کردیں تو دوسری طرف سے بنی بنائی مصنوعات ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں، انسان گری دنیا کا سب سے مشکل کام ہے اور اگر انسان گروں کی انسان گری (ایک عام انسان کو عالم بنانے) کی بات ہو تو یہ کس قدر حساس اور غیر معمولی فریضہ ہے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اگر اس عظیم فریضہ کو ایک اصولی اور منہجی طریقہ پر انجام نہ دیا جائے تو پھر مطلوبہ نتائج کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟

سلف صالحین کے منہج کا ایک بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ ادب سے ابتداء کرتے وہ علم سے قبل ادب سیکھاکرتے تھے، سلف کے بے شمار آثار ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کہا ہے:

(کان الرجل إذا أراد أن یکتب الحدیث تأدب وتعبد قبل ذلک بعشرین سنۃ)

ترجمہ:آدمی جب احادیث کے لکھنے کا (طلب علم کی راہ میں چلنے کا) ارادہ کرتاتو اس سے قبل بیس سال تک ادب سیکھتا اور عبادتوں میں لگا رہتا (حليۃ الأولیاء لأبی نعیم: 361:6)
ابن سیرین رحمہ اللہ نے تابعین کا طرز عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

(کانوا یتعلمون الہدي کما یتعلمون العلم)

ترجمہ: وہ تابعین جس طرح علم سیکھا کرتے تھے بالکل اسی طرح ادب بھی سیکھا کرتے تھے (الجامع لأخلاق الراوی للخطیب البغدادی: 79:1)
امام مالک بن أنس نے ایک قریشی نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

(یا ابن أخی تعلم الأدب قبل أن تتعلم العلم)

ترجمہ: اے بھتیجے! جس طرح علم سیکھتے تو ہو اسی طرح ادب بھی سیکھا کرو (حليۃ الأولیاء لأبی نعیم: 330:6)
ابن وہب نے لکھا ہے:

(ماتعلمنا من أدب مالک أکثر مما تعلمنا من علمہ)

ترجمہ: امام مالک سے ہم نے جو ادب سیکھا ہے ہو وہ اس علم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو ہم نے ان سے لیا ہے (سیر أعلام النبلاء: 113:8)
اسماعیل بن علیہ نے فرمایا ہے:

(کان یجتمع فی مجلس أحمد نحو خمسۃ آلاف أو یزیدون، نحو خمسماءۃ یکتبون والباقون یتعلمون منہ حسن الأدب والسمت)

ترجمہ: امام أحمد کی مجلس میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار یا اس سے زیادہ ہوتی تھی جن میں سے تقریبا پانچ سو لوگ وہ ہوتے جو آپ سے حدیث کا علم لے رہے ہوتے باقی سارے امام احمد کے ادب اور اور ان کے اخلاق کے خوشہ چیں ہوتے (سیر أعلام النبلاء: 316:11)
اہل علم نے سلف صالحین کے منہج کے اس اصول ہی کے پیش نظر کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں جو اس مقصد کی تکمیل میں کسی قدرمعاون ہیں، ارباب علم ودانش اور اداروں کے ذمہ دار حضرات اپنے اداروں کے نصاب میں ان کتابوں کے لئے یا ان کی روشنی میں ترتیب دئے گئے نصاب کے لئے گنجائش پیدا کریں تو صورت حال قدرے بہتر ہوسکتی ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے کہ قرآن وحدیث یا فقہ وفتاوی کی تعلیم دیدی جائے اورسمجھ لیا جائے کہ تربیت ہوجائے گی، تربیت تعلیم کے علاوہ ایک اورمستقل ذمہ داری ہے جو ایک استاذ مسلسل اپنی توجہ سے ادب کے راستے سے انجام دے سکتا ہے، ذیل کی یہ چندکتابیں اس سلسلے کی کئی کتابوں میں سے اہم ہیں:

۱) الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی (463 ھ)
۲) تذکرۃ السامع والمتکلم في آداب العالم والمتعلم لبدر الدین بن جماعۃ (733 ھ)
۳) معالم فی طریق طلب العلم لعبدالعزیز السدحان.(معاصر)

ان کے علاوہ بالعموم علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی تصنیفات اورآداب سے متعلق تربیتی دروس کے لئے شیخ عبدالرزاق البدر حفظہ اللہ کے مختلف دروس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
سلف کے آثار اور اقوال بے شمار ہیں جو علم سے قبل اور علم کے ساتھ ادب کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، آپ ذرا غور سے دیکھیں تو ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن بچوں کو علم کے میدان کا شہسوار بنانا ہوتا سلف صالحین ان بچوں کی کچی عمر یا بچپن اور لڑکپن ہی میں ان کو اہل علم کی مجلسوں میں باقاعدہ بھیجنا شروع کردیا کرتے تھے تاکہ وہ علم سے پہلے اہل علم کے رنگ میں رنگ جائیں، امام مالک کی والدہ کا یہ معمول تھا کہ وہ بچپن میں امام مالک کو باقاعدہ تیار کرتیں، اپنے ہاتھوں عمامہ باندھتیں اور پھر ربیعۃ الرأيکی مجلس میں شریک کروایا کرتیں اور کہتیں:

(اذھب إلی ربیعۃ فتعلم من أدبہ قبل علمہ)

ترجمہ: ربیعہ کے پاس جاؤ اور ان کے علم سے پہلے ان کا ادب سیکھو۔(الانتقاء لابن عبدالبر)
علم وہی علم نافع ہوتا ہے جس کی بنیاد ادب پر رکھی گئی ہو، ادب ہی دراصل علم کی برکت ہے، علم وہی مبارک ہوتا ہے جس کی بنیاد ادب پر رکھی جاتی ہے، علم صلاحیت پیدا کرسکتا ہے مگر اس علم کے بہتر استعمال کا سلیقہ دینے والی چیز صالحیت ہے جو ادب سے پیدا ہوتی ہے، أبوزکریا یحیی بن محمد العنبری فرماتے ہیں:

(علم بلا أدب کنار بلا حطب، وأدب بلا علم کروح بلاجسم)

ترجمہ: علم بغیر ادب کے ویسے ہی ہے جیسے آگ بغیر جلنے والی لکڑی کے (یعنی زیادہ دیرتک جل نہیں سکتی) اور ادب بغیر علم کے ویسے ہی ہے جیسے روح بغیر جسم کے (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع: 12:80:1)
آج کا ہمارا المیہ صلاحیتوں کی کمی کا نہیں ہے، صلاحیتوں کے سمندر میں بے شمار او ربڑے ڈیل ڈول والی کشتیاں ہیں کہ تا حد نظر پھیلی نظر آتی ہیں مگر ان میں ایسی کشتی جس کے ملاح یا ناخدا کے ہاتھ میں صالحیت کی پتوار ہوخال خال ہی ملتے ہیں، ہمیں تلاش ہے ایسی کشتی اور ایسے ناخداکی جس کی تربیت ادب کے اعلی معیار پر ہوئی ہو جسے دیکھ کر کہا جاسکے ؎
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نورات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے
مجلس عام ہو کہ خاص اور بات عوام کی ہو کہ خواص کی سب جگہ اور سب پروہی علم حکومت کرتا ہے جو باادب ہوعبداللہ بن مبارک کہا کرتے تھے:

(إذا وصف لي رجل لہ علم الأولین والآخرین لا أتأسف علی فوت لقاۂ وإذا سمعت رجلا لہ أدب النفس أتمنی لقاۂ وأتأسف علی فوتہ)

اگر میرے سامنے کسی ایسے شخص کا تذکرہ ہوتا جس نے اولین وآخرین کے علم کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے تو مجھے اس سے ملاقات نہ کرنے کا افسوس نہ ہوتا، اس کے برخلاف میں کسی ایسے انسان کے بارے میں سنتا ہوں جس کے اندر ادب ہے تو میں اس سے ملاقات کی تمنا کرتا ہوں اور اور اگر اس کا موقعہ نہ ملے تو کف افسوس ملتا رہتا ہوں (الآداب الشرعيۃ لابن مفلح: 552:3) یہی عبداللہ بن مبارک ہیں جن کے متعدد اقوال خود اس مضمون میں گڑرے، پیکر علم وادب ایسے کہ حافظ ابن حجر نے ان کے تعارف میں لکھا:

(جمعت فیہ خصال الخیر)

ترجمہ: ان کے اندر تمام طرح کی خوبیاں اکٹھا ہوگئی تھیں (تقریب التھذیب)
علامہ ابن قیم نے ادب کی یہی تعریف بیان کی تھی، یہی عبداللہ بن مبارک ہیں کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کا دور ہے، ملک شام کے شہر رقہ کامنظر ہے کہ ہارون رشید شہر میں تشریف لاتا ہے مگر عوام وخواص سبھی کے سبھی عبداللہ بن مبارک کی مجلس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، بھیڑ اتنی کہ چپلیں ٹوٹ جاتی ہیں اور چلنے والوں کی کثرت سے راستے پر مستقل گرد اڑتی نظر آتی ہے، ہارون رشید کی ایک لونڈی بالاخانہ سے جھانک کر دیکھتی ہے اور اس کی وجہ دریافت کرتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ خراسان سے ایک عالم آئے ہوئے ہیں لوگ ان کو دیکھنے اور ملنے کے لئے ٹوٹ پڑے ہیں، تب وہ لونڈی کہتی ہے: قسم اللہ کی بادشاہت تو یہ ہے، بادشاہت ہارون کی نہیں جو اتنے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو بغیر مددگاروں اور پولیس کے نہ کرپائے۔ سبحان اللہ! کوئی عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے اس شہرت اور نیک نامی کا راز پوچھے تو زبان حال سے وہ جواب دیں گے:

(طلبت الأدب ثلاثین سنۃ وطلبت العلم عشرین سنۃ وکانوا یطلبون الأدب قبل العلم)

میں نے تیس سال تک ادب سیکھا پھر بیس سال تک علم سیکھا، اہل علم کا طریقہ ہی یہی تھا کہ وہ علم سے پہلے ادب سیکھا کرتے تھے(غايۃ النہايۃ فی طبقات القراء لابن الجزری: 446:1)
رب ذوالجلال علم کی دولت اور ادب کے قرینے دونوں سے ہمارے عمل کو مزین فرمائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000