عفت و عصمت کی ملکہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

عبداللہ صلاح الدین سلفیؔ تاریخ و سیرت

شرف صحابیت وہ عظیم اعزازہے جس کی بناپرنبی رحمتﷺکے دیدوملاقات کا شرف حاصل کرنے والے اہل ایمان کو اللہ کی رضا ورضوان کا مژدۂ جانفزا سنایاگیا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہ و ہ غنچہ ہیں جسے نبی اکرم ﷺنے اپنی باعمل تربیت سے سیراب کیا ہے،
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ایسی مقدس ومحترم جماعت کا نام ہے جو اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وہ واسطہ اور ذریعہ ہیں، جس کے بغیر نہ قرآن پاک ہاتھ آسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا بیان، جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں ان نفوس قدسیہ سے اظہارمحبت واحترام اہل السنۃ والجماعۃکے بنیادی عقائدمیں شامل ہے۔چنانچہ علامہ طحاوی حنفی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں:

“وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رسول اللہﷺ، ولا نُفْرِطُ في حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُم. ولا نَتَبَرَّأُ من أَحَدٍ منهم، وَنَبْغَضُ مَن يَبْغَضُهُم وَبِغَيْرِ الخيرِ يَذْكُرُهُم، ولا نَذْكُرُهُم إِلاَّ بِخَيْرٍ. وَحُبُّهُم دِينٌ وإيمانٌ وَإِحْسَانٌ، وَبُغْضُهُم كُفْرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْيَانٌ

ہم تمام اصحاب رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں ، نہ ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں سے کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ جو ان سے بغض رکھے یا ان کا تذکرہ خیر کے ساتھ نہ کرے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں ۔ ہم تمام صحابہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ ہی کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام سے محبت ہمارا دین ہمارا ایمان اور احسان (ایمان کا کمال)ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے ۔(شرح العقيدة الطحاوية:689/2)
رسول اللہﷺکی رفاقت وصحبت کوئی معمولی بات نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے، شیخ سعدی رحمہ اللہ نے رفاقت ومعیت اور صحبت وہم نشینی کے اثر کوبڑے خوبصورت اندازمیں بیان کیاہے۔
گِل خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دست محبوبے بدستم
بدوگفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ ازبوئے دل آویزِ تو مستم
بگفتا من گِل ناچیز بودم
ولیکن مدتے باگُل نشستم
جمالِ ہم نشیں درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

ترجمہ:ایک دن ایک خوشبو دارمٹی ایک دوست کے بدست میرے ہاتھ میں آئی میں نے اس سے پوچھاکہ تومشک ہے یاعنبر؟میں تیری دل آویز خوشبو سے مست ہواجاتاہوں۔مٹی نے کہا: میں تھی تو ناچیز مٹی لیکن ایک مدت تک پھولوں کے ساتھ رہتی رہی ہوں، اس ہم نشینی اور رفاقت نے یہ اثرکیاہے ورنہ میں وہی معمولی مٹی ہوں
خصوصاازواج مطہرات کو اللہ تعالیٰ نے شرف صحابیت کے ساتھ نبیﷺکی زوجہ محترمہ ہونے کابھی شرف عنایت کیاہے، اس طرح انہیں اہل بیت سے ہونے کاشرف عظیم بھی حاصل ہے، آل بیت رسول ﷺ سے محبت بھی دین و ایمان ہے .

امام شافعی فرما تے ہیں :

يا آل بيت رسول الله حبكـم
فرض من الله في القرآن أنزله
يكفيكم من عظيم الفخر أنكـم
من لم يصل عليكم لا صلاة له

اے آل بیت رسول اللہ ! آپ سے محبت ایک ایسا فریضہ ہے جو اللہ نے قرآن میں نازل فرمایا ہے۔ آپ کے فخر کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو نماز میں آپ لوگوں پر درود نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے ۔
الغرض ازواج مطہرات کے نصیبے کاکیا کہنا! جن کورسول اکرمﷺکی نظرکیمیااثراور رفاقت وصحبت نے ایسا پارس بنادیا کہ جسے چھو گیا وہ بھی ہیرابن گیا۔
ویسے توتمام ازواج مطہرات فضل وشرف کے اعلی وارفع مقام پر فائز ہیں کیونکہ انہوں نے خانۂ نبوت میں زندگی بسرکی، اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کا قابل فخر اعزاز اور ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، مگر ان سب میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی محبوب ترین زوجہ، آفتاب نبوت کی ایک روشن کرن، خزینۂ رسالت کاانمول ہیرا، جگر گوشۂ ثانی اثنین رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات کے مابین ایک بلنداور قابل رشک مقام کی حامل تھیں اور فقاہت، ثقاہت، امانت ودیانت اور صداقت وعدالت کے ساتھ ہی عفت وعصمت اور شرم و حیا کی ملکہ تھیں۔
لیکن افسوس صد افسوس!!!
دشمنانِ دین نے سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی ہدف تنقید بنایا، انہیں بدنام کرنے اور ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے اختیار کیے، تاکہ امت اور اس کے نبی کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑ جائے، اور یونہی بلا کسی کدوکاوش کے اسلام کا دینی سرمایہ خود بخود زمیں بوس ہوجاے، آنحضرت ﷺ سے بغض وعناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشنمان دین نے صحابہ کرام کو ہی ہدف تنقید بنایا، چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے علامہ دینوری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کچھ زندیق جمع ہوے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کے نبی کو برا بھلا کہا جائے مگر ان کے بڑے نے کہا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمھیں قتل کردیا جایے گا پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ نبی کے صحابہ کو برا کہو اور ان کی برائیاں بیان کرو، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب کسی پڑوسی کوتکلیف دینا مقصود ہو تو اس کے کتے کو مارو۔انہی لوگوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب صحابہ جہنمی ہیں اور یہ بھی کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نبی ہیں، جبریل علیہ السلام سے وحی پہونچانے میں غلطی ہو گئ.(مفتاح الجنة،ص :127) معاذاللہ۔
اس سے بغض صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ دشمنان صحابہ روافض کی طرح بعض تشیع زدہ افراد، رفض کے ڈسے ہوئے نفوس اور شہرت کے بھوکے بندے اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زبان طعن و تشنیع دراز کر رہے اور ان نفوس قدسیہ کو اپنے سب وشتم کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہ نام نہاد سنی افراد بھی روافض کی مانند گھٹیا اور بے بنیاد شبہات کے تانے بانے بنتے ہیں۔ کبھی ان کے نشانے پر سیدنا معاویہ ہوتے ہیں، کبھی ابو ہریرہ، کبھی ابو موسی اشعری، کبھی عمرو بن العاص، کبھی بسر بن ارطاۃ، کبھی ولید بن عقبہ۔۔۔۔کبھی کوئی تو کبھی کوئی_ رضی اللہ عنہم اجمعین_ اور کبھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کی نفرتوں کا مرکز ہوتی ہیں، ایسے افراد کبھی کسی انجینئر کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں، کبھی کسی سید زادے کی صورت میں اور کبھی کسی رضوی کے روپ میں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی تنقید و تجریح کا نشانہ بنانے کا اصل مقصد اسلام اور مصادر اسلام کو مجروح و مشکوک کرنا اور اس کی بنیادوں میں ہی سوراخ کرنا ہے، جیساکہ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :

“إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله ﷺ فاعلم أنه زنديق، وذلك أن الرسول ﷺ عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنة أصحاب رسول الله ﷺ وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة”۔

جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی تنقیص کررہا ہے،تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ برحق ہیں، قرآن برحق ہے (اور جو دین آپ ﷺ لائے ہیں وہ دین برحق ہے) اور قرآن و سنت ہم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پہنچائی ہیں (لہذا صحابہ کرام ہمارے لیے رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں) اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کرکے کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا یہ لوگ خود لائق جرح ہیں اور یہ لوگ زندیق ہیں۔ ( الكفاية للخطيب البغدادي، ص:49)
ان روافض اور رافضیت زدہ افراد کی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر طعن و تشنیع کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے دین کا بیشتر حصہ سیکھا اور اللہ نے آپ کی عمر میں برکت دی کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک لوگوں کو مسلسل دین حنیف کی تعلیمات سے آراستہ کرتی رہیں اور لوگوں نے آپ سے بکثرت دین سیکھا اور خوب فائدہ اٹھایا۔
عفیفۂ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ کی سیرت کو داغدار کرنے کی تازہ ترین کوشش میں ایک رافضی نے آپ کے اوپر ایک فلم بناکر سورج پر تھوکنے کی جسارت کی ہے۔اس فلم کے بارے میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مردود نے بطور خاص سیدہ کی حیا و پاکدامنی اور عفت و عصمت پر کیچڑ اچھالنے کی ناروا کوشش کی ہے، اس رافضی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے یہ فلم حدیثوں کی روشنی میں بنائی ہے۔
اس ضمن میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اسلام دشمن اور اہل باطل جن دلائل سے استدلال اور استشہاد کرتے ہیں وہ تین حالتوں سے خارج نہیں ہوتے ہیں:
(1) یا تو صحیح نصوص کی تحریف کرتے ہوئے ان کو ایسے معنی پہنانے کی کوشش کر تے ہیں جس کی ان نصوص میں کسی طرح گنجائش ہی نہیں ہوتی-
(2) یا پھر نصوص کا آدھا ادھورا حصہ پیش کرکے اپنے مطلب کا استدلال بلکہ استغلال کرتے اور من پسند مفہوم کشید کرتے ہیں-
(3) یا پھر وہ ضعیف اور موضوع احادیث ہوتی ہیں جو سرے سے استدلال کے لائق ہی نہیں ہوتیں۔
آئیے پہلے ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و حیا سے متعلق بعض صحیح احادیث ذکر کرتے ہیں پھر بعض وہ احادیث پیش کریں گے جن کے آدھے ادھورے حصے ذکر کرکے سیدہ کی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پھر ہم حدیث کو اس کے پورے سیاق و سباق کے ساتھ ذکر کرکے مسئلے کے صحیح رخ کو آپ کے سامنے پیش کریں گے، تاکہ صرف اعتقاد یا خوش عقیدگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم و بصیرت کی بنیاد پر آپ صحیح اور غلط اور سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر سکیں:
(1) ابن جریج نے بیان کیا کہ انہیں عطاء نے خبر دی کہ جب ابن ہشام (جب وہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے مکہ کا حاکم تھا) نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کردیا تو اس سے انہوں نے کہا کہ تم کس دلیل پر عورتوں کو اس سے منع کر رہے ہو ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ کی پاک بیویوں نے مردوں کے ساتھ طواف کیا تھا۔ ابن جریج نے پوچھا یہ پردہ (کی آیت نازل ہونے) کے بعد کا واقعہ ہے یا اس سے پہلے کا ؟ انہوں نے کہا میری عمر کی قسم ! میں نے انہیں پردہ (کی آیت نازل ہونے) کے بعد دیکھا۔ اس پر ابن جریج نے پوچھا کہ پھر مرد عورت مل جل جاتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اختلاط نہیں ہوتا تھا:

كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَطُوفُ حَجْرَةً مِنَ الرِّجَالِ لَا تُخَالِطُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتِ امْرَأَةٌ:‏‏‏‏ انْطَلِقِي نَسْتَلِمْ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ انْطَلِقِي عَنْكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبَتْ، كُنَّ يَخْرُجْنَ مُتَنَكِّرَاتٍ بِاللَّيْلِ فَيَطُفْنَ مَعَ الرِّجَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُنَّ كُنَّ إِذَا دَخَلْنَ البيت قُمْنَ حَتَّى يَدْخُلْنَ وَأُخْرِجَ الرِّجَالُ،

عائشہ (رض) مردوں سے الگ رہ کر ایک الگ کونے میں طواف کرتی تھیں، ان کے ساتھ مل کر نہیں کرتی تھیں۔ ایک عورت (وقرہ نامی) نے ان سے کہا : ام المؤمنین ! چلئے (حجر اسود کو) بوسہ دیں۔ تو آپ نے انکار کردیا اور کہا تو جا چوم، میں نہیں چومتی اور ازواج مطہرات رات میں پردہ کر کے نکلتی تھیں کہ پہچانی نہ جاتیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں۔ البتہ عورتیں جب کعبہ کے اندر جانا چاہتیں تو اندر جانے سے پہلے باہر کھڑی ہوجاتیں اور مرد باہر آجاتے (تو وہ اندر جاتیں) (البخاری؛الحج،طواف النساء مع الرجال:1618)

(2) عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ .

ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ (رض) سے مروی ہے،انہوں نے کہا : تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے (یہ بات کہتے) شرما رہی ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔
(الترمذی:19، قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء :42)

(3)عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ عَمُّكِ، ‏‏‏‏‏‏فَأْذَنِي لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ ضُرِبَ عَلَيْنَا الْحِجَابُ.

ترجمہ: عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میرے رضاعی چچا( افلح) آئے اور میرے پاس اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن میں نے کہا کہ جب تک میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں، اجازت نہیں دے سکتی۔ پھر آپ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں، انہیں اندر بلا لو۔ میں نے اس پر کہا کہ یا رسول اللہ ! عورت نے مجھے دودھ پلایا تھا کوئی مرد نے تھوڑا ہی پلایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہیں تو وہ تمہارے(رضاعی) چچا ہی اس لیے وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں، یہ واقعہ ہمارے لیے پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔
(البخاري:5239)

(4) عَنْ عَائشة قالت: كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي، فَأَضَعُ ثَوْبِي، وَأَقُولُ : إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ – فَوَاللَّهِ – مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي ؛ حَيَاءً مِنْ عُمَرَ۔
(مسند الامام احمد:25660،
حكم الحديث: أثر إسناده صحيح على شرط الشيخين)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں: میں اپنے اس گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں اللہ کے رسول ﷺ اور میرے ابّو مدفون تھے ، تو میں اپنے کپڑے اتار دیا کرتی اور سوچتی تھی کہ میرے شوہر اور ابو ہی تو (دفن) ہیں،پھر جب ان کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دفن کیا گیاتو_ اللہ کی قسم_ عمر رضی اللہ عنہ سے شرم و حیا کی وجہ سے میں اس گھر میں اپنے کپڑے اچھی طرح درست کرکے ہی داخل ہوئی۔
قارئین کرام! ان احادیث پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کس قدر شرم و حیا والی اور باعفت و پاکدامن خاتون تھیں، آپ کی حیا کا عالم یہ تھا کہ حج کی بھیڑ بھاڑ میں بھی آپ اپنی حیا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی تھیں اور نہ ہی حجر اسود کو چھونے اور بوسہ دینے کے چکر میں آپ مردوں سے خلط ملط ہوتی تھیں۔ آپ اس قدر شرمیلی تھیں کہ تعلیم و تدریس کے دوران بھی مردوں کو استنجا وغیرہ کی تعلیم دینے سے حیا کرتی اور جھجھکتی تھیں، آپ کی عفت و پاکدامنی کا یہ عالم تھا کہ اپنے رضاعی چچا کو بھی اللہ کے رسولﷺ کی اجازت کے بغیر ملاقات کی اجازت نہ دی، حالانکہ رضاعی چچا محرم ہوتا ہے، آپ شرم و حیا کے اس اعلیٰ مقام پر فائز تھیں کہ فوت شدگان سے بھی پردے کا اہتمام کرتی تھیں۔ سچ فرمایا سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے:

حَصانٌ رَزانٌ ما تُزنُّ بِريبَةٍ
وَتُصبِحُ غَرثى مِن لُحومِ الغَوافِلِ

مُهَذَّبَةٌ قَد طَيَّبَ اللَهُ خَيمَها
وَطَهَّرَها مِن كُلِّ سوء وَباطِلِ

ترجمہ:آپ پاک دامن باوقار ہیں،انہیں شک وشبہ سے متہم نہیں کیاجاتا،وہ ہر صبح بھوکی ہوکر بھولی بھالی عورتوں کاگوشت نہیں کھاتیں،تہذیب یافتہ ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت کو پاکیزہ بنایا اور ہر برائی اور باطل سے پاک کردیا ہے

اب ہم آپ کے سامنے ايسی دو حدیثیں پیش کرنے جارہے ہیں جن کے ادھورے حصے سے روافض نے استدلال بلکہ استغلال کرتے ہوئے سیدہ کی سیرت پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے:

(1) عن أَبی عَبْدِ اللَّهِ سَالِمٌ سَبَلَانُ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَعْجِبُ بِأَمَانَتِهِ وَتَسْتَأْجِرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَتْنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَتَمَضْمَضَتْ وَاسْتَنْثَرَتْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَغَسَلَتْ وَجْهَهَا ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَتْ يَدَهَا الْيُمْنَى ثَلَاثًا وَالْيُسْرَى ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَوَضَعَتْ يَدَهَا فِي مُقَدَّمِ رَأْسِهَا ثُمَّ مَسَحَتْ رَأْسَهَا مَسْحَةً وَاحِدَةً إِلَى مُؤَخِّرِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمَرَّتْ يَديْهَا بِأُذُنَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّتْ عَلَى الْخَدَّيْنِ۔

ترجمہ: ابوعبداللہ سالم سبلان کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی امانت داری سے بہت خوش تھیں، اور ان سے اجرت پر کام لیتی تھیں، پس آپ رضی اللہ عنہا نے مجھے دکھایا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے ؟ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے تین بار کلی کی، اور ناک جھاڑی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر تین بار اپنا دایاں ہاتھ دھویا، اور تین بار بایاں، پھر اپنا ہاتھ اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھا، اور اپنے سر کا اس کے پچھلے حصہ تک ایک بار مسح کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں پر پھیرا، پھر دونوں رخساروں پر
(صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 100)
اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ دیکھو عائشہ (رضی اللہ عنہا۔) اس قدر بے شرم تھیں (نعوذباللہ)کہ مردوں سے پردہ ہی نہیں کرتی تھیں اور ان کے سامنے سر وغیرہ کھولے رکھتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
یہ ان کا خبث باطن اور صحابہ کرام سے عداوت ودشمنی بلکہ صحیح لفظوں میں اسلام دشمنی ہے جو کبھی کبھی نکل کر باہر آ جاتی ہے، ورنہ اسی حدیث کے اگلے حصے میں ان کے الزام کا جواب موجود ہے، آئیے اسے بھی پڑھ لیجیے!

قَالَ سَالِمٌ:‏‏‏‏ كُنْتُ آتِيهَا مُكَاتَبًا مَا تَخْتَفِي مِنِّي فَتَجْلِسُ بَيْنَ يَدَيَّ وَتَتَحَدَّثُ مَعِي حَتَّى جِئْتُهَا ذَاتَ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ادْعِي لِي بِالْبَرَكَةِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَمَا ذَاكَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَعْتَقَنِي اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْخَتِ الْحِجَابَ دُونِي فَلَمْ أَرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ.

ترجمہ: سالم کہتے ہیں : میں بطور مکاتب (غلام) کے ان کے پاس آتا تھا اور آپ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں، میرے سامنے بیٹھتیں اور مجھ سے گفتگو کرتی تھیں، یہاں تک کہ ایک دن میں ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا : ام المؤمنین ! میرے لیے برکت کی دعا کر دیجیے، وہ بولیں : کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : اللہ نے مجھے آزادی دے دی ہے، انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں برکت سے نوازے، اور پھر آپ نے میرے سامنے پردہ لٹکا دیا، اس دن کے بعد سے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔

(قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 100)

معلوم ہوا کہ سالم سبلان رحمہ اللہ کے غلام ہونے کی وجہ سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے پردہ نہیں کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب وہ آزاد ہوگیے تو سیدہ ان سے پردہ کرنے لگیں اور پھر کبھی سالم آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھ نہ سکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غلام اپنی سیدہ کو دیکھ سکتا ہے جس طرح لونڈی کو اس کا آقا دیکھ سکتا ہے؟
آئیے یہ حدیث پڑھتے ہیں:

عن سليمان بن يسار،قال: استأذَنتُ على عائشةَ، فقالت: مَن هذا؟ فقلتُ: سُلَيمانُ، قالت: كم بقِيَ عليكَ من مُكاتَبَتِكَ، قال: قلتُ: عشْرُ أواقٍ، قالت: ادخُلْ، فإنَّكَ عبدٌ ما بقِيَ عليكَ دِرهَمٌ.
(السنن الكبرى للبيهقي،كتاب النكاح، باب ما جاء في إبداء زينتها لما ملكت يمينها. الإرواء:128/6، صحيح)

حضرت سلیمان بن یسار رحمۃ اللّٰہ علیہ سے مروی ہے،کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اجازت مانگی، تو آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے عرض کیا: سلیمان، آپ نے پوچھا: تم پر تمہاری مکاتبت کے کتنے درہم باقی بچے ہیں؟ میں نے عرض کیا: دس اوقیہ،آب نے فرمایا: آجاؤ، جب تک تم پر ایک بھی درہم باقی ہے تم غلام ہی ہو۔
معلوم ہوا کہ غلام سے شرعی نقطۂ نظر سے پردہ کا حکم ہی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی رافضی کہے کہ یہ بھی تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہی عمل ہے، آئیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عمل اور پیارے رسول ﷺ کا فرمان بھی پڑھ لیتے ہیں:

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ:‏‏‏‏ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى فَاطِمَةَ بِعَبْدٍ كَانَ قَدْ وَهَبَهُ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَعَلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ثَوْبٌ إِذَا قَنَّعَتْ بِهِ رَأْسَهَا لَمْ يَبْلُغْ رِجْلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا غَطَّتْ بِهِ رِجْلَيْهَا لَمْ يَبْلُغْ رَأْسَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَلْقَى قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكِ بَأْسٌ إِنَّمَا هُوَ أَبُوكِ وَغُلَامُكِ.(أبو داود:4106،صححه الألباني)

ترجمہ: انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فاطمہ (رض) کے پاس ایک غلام لے کر آئے جس کو آپ نے انہیں ہبہ کیا تھا، اس وقت فاطمہ (رض) ایک ایسا کپڑا پہنے تھیں کہ جب اس سے سر ڈھانکتیں تو پاؤں کھل جاتا اور جب پاؤں ڈھانکتیں تو سر کھل جاتا، فاطمہ (رض) جس صورت حال سے دو چار تھیں اسے نبی اکرم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : تم پر کوئی مضائقہ نہیں، یہاں صرف تمہارے والد ہیں یا تمہارا غلام ہے ۔

اس حدیث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غلام کے سامنے اس کی سیدہ اپنے سر یا پیر کو کھول سکتی ہے،بلکہ امام ابو داود نے اس پر عنوان ہی قائم کیا ہے:

“بَابٌ : فِي الْعَبْدِ يَنْظُرُ إِلَى شَعْرِ مَوْلَاتِه”

یعنی جو غلام اپنی مالکہ کے بال دیکھے اس کا کیا حکم ہے؟

(2) عن أَبی سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلَتْ وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا ۔

ترجمہ:ابوسلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ میں (ابوسلمہ) اور عائشہ (رض) کے بھائی عائشہ (رض) کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم ﷺ کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ (نوٹ : صاع کے اندر 2.488 کلو گرام ہوتا ہے۔ )
(صحیح البخاری:251)

یہ وہ دوسری حدیث ہےجسے ذکر کرکے سیدہ پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ اس قدر بے شرم و بے حیا تھیں (نعوذباللہ) کہ مردوں کے سامنے غسل بھی کرلیا کرتی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا تصور بھی محال ہے، معاملہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کے رضاعی بھائی (جیسا کہ صحیح مسلم:320 میں اس کی صراحت موجود ہے) عبداللہ بن یزیداور رضاعی بھانجے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے آپ سے رسول اللہ ﷺکا طریقۂ غسل جاننے اور سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر سیدہ نےپردے کی آڑ سے انہیں غسل کرکے بتلایا کہ اللہ کے رسول ﷺ غسل کرتے ہوئے اپنے سر سے آغاز کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہا نے غسل کرتے ہوئے ان دونوں کو سر دھلنے کا طریقہ دکھلایا اور باقی بدن مستور تھا اور اپنا سر اس لیے دکھایا کیونکہ یہ دونوں آپ کے لئے محرم تھے جبکہ غسل آپ نے پردے کی اوٹ ہی میں فرمایا جیسا کہ اسی حدیث کی آخر میں مذکور ہے ، لیکن روافض عداوت صحابہ میں اور اپنی خباثت کی وجہ سے اس حصے کو کبھی ذکر نہیں کرتے

… وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ، ‏

ترجمہ: …اور اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔
(صحیح البخاری:251)

ذى احترام قارئین! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم ﷺ کی صحبت و تربیت میں اپنی حیات مبارکہ کے شب وروز گزارے ہیں، اس لیے آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت و کردار پر انگلی اٹھانا در اصل اللہ کے رسول ﷺ کی صحبت و تربیت پر انگلی اٹھانا ہے اور ایسا کرنے والا در حقیقت قرآن مجید کا انکار کر نے والا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“ٱلۡخَبِیثَـٰتُ لِلۡخَبِیثِینَ وَٱلۡخَبِیثُونَ لِلۡخَبِیثَـٰتِۖ وَٱلطَّیِّبَـٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَٱلطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَـٰتِۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا یَقُولُونَۖ لَهُم مَّغۡفِرَةࣱ وَرِزۡقࣱ كَرِیمࣱ”
[سورة النور :26]

خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ،ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت والی روزی

اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث (گندے) مردوں کا نباہ خبیث عورتوں سے اور پاکیزہ مردوں کا نباہ پاکیزہ عورتوں ہی سے ہوسکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مرد خود تو بڑا پاکیزہ ہو مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نباہ کرتا چلا جائے۔
مقصود عائشہ (رض) ہی کی پاکیزگی کا بیان ہے کہ ان میں خباثت کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم (ﷺ) جو ازل سے ابد تک پاکیزہ ہستیوں کے سردار تھے، ان کے ساتھ نہایت محبت و اطمینان سے برسوں نباہ کرتے چلے جاتے ؟
اس آیت میں ام المومنین عائشہ (رض) کی واشگاف الفاظ میں برأت اور پاکیزگی کا اعلان ہے۔

قارئین! سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیارے رسول ﷺ کو سب بیویوں سے زیادہ محبوب تھیں (صحیح البخاری 3662، صحیح مسلم:2384) آپﷺہمیشہ ان کوشاداں وفرحاں اور مسرور رکھنا چاہتے تھے،ایک بار پیارے رسول اللہﷺ نے اپنے کندھے کی اوٹ سے حبشیوں کا جنگی کھیل دکھایا (صحیح البخاری:950،صحیح مسلم:892) آپﷺ کھانے پینے کے برتنوں میں وہی جگہ تلاش کرتے جہاں ہماری امی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنادہن مبارک لگاتیں ( صحیح مسلم:300) غرض یہ کہ زندگی کے تمام معمولات میں سیدہ کے ساتھ پیارے رسولﷺ کی اتھاہ محبت دیکھی جاسکتی ہے۔نبی کریمﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی محبت کودل میں بسائے رکھا،چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں اپنی تمام بیویوں سے مشورہ کرکے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کواپنا مستقر بنالیا اور آپﷺ نے اپنی آخری سانس سیدہ کی مبارک گود میں لی (صحیح البخاری:449، صحیح مسلم:2443) اور انہی کے گھر میں آپﷺکودفن کیاگیا(سیرت عائشہ للندوی،ص:108)۔

بلاشبہ کتاب اللہ اور دواوین سنت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل وشمائل، مناقب ومحامد اور ان کی تعظیم وتکریم کے دلائل سے معمور نظر آتے ہیں جن میں سے بعض میں دیگر ازواج مطہرات آپ کے ساتھ شریک ہیں ۔جبکہ بے شمار فضائل میں وہ اکیلی اور تنہا ہیں، تاہم صرف سیدہ کے فضائل ومناقب کے دلائل اتنی کثرت اور تواتر سے وارد ہوئے ہیں کہ جن کے احاطے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں سیدہ کی براء ت میں متعدد آیات نازل ہوئیں (سورۃ النور:10-26)
احادیث صحیحہ میں وارد سیدہ عائشہ کے بے شمار فضائل ومناقب میں سے یہ بھی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺکے ذریعہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوسلام بھیجا، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺنے فرمایا:

”یاعائش،ھذاجبریل یقرئک السلام“ (صحیح البخاری:3768، صحیح مسلم:2447)

اے عائشہ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو تمہیں سلام کہتے ہیں۔
نبی کریمﷺکو تمام لوگوں سے زیادہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا محبوب تھیں،سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب نبیﷺ سے پوچھا:کہ آپ کوسب سے زیادہ کس سے محبت ہے توآپﷺ نے فرمایا: ”عائشۃ” عائشہ سے،(کہتے ہیں) میں نے عرض کیا:مردوں میں سے؟آپﷺ نے فرمایا:”أبوھا” اس کے باپ سے(صحیح البخاری:4358، صحیح مسلم:2384)۔

معزز قارئین! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازیبا کلمات کہنا،آپ رضی اللہ عنہا کے خلاف زبان طعن دراز کرنا اور ایسا کوئی بھی عمل کرنا جو ان کی شان عالی کے لیے مناسب نہ ہو در حقیقت پیارے رسولﷺ کو ایذا پہنچانا، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا،آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو متہم کرنا اور آپ ﷺ کی شخصیت کو مخدوش بنانا ہے۔ چنانچہ عروہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ ﷺ کو تحفے بھیجنے میں عائشہ (رض) کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میری تمام سوکنیں ام سلمہ (رض) کے پاس گئیں اور ان سے کہا : اللہ کی قسم لوگ جان بوجھ کر اپنے تحفے اس دن بھیجتے ہیں جس دن عائشہ (رض) کی باری ہوتی ہے، ہم بھی عائشہ (رض) کی طرح اپنے لیے فائدہ چاہتی ہیں، اس لیے تم نبی کریم ﷺ سے کہو کہ آپ لوگوں کو فرما دیں کہ میں جس بھی بیوی کے پاس رہوں جس کی بھی باری ہو اسی گھر میں تحفے بھیج دیا کرو۔ ام سلمہ (رض) نے یہ بات آپ ﷺ کے سامنے بیان کی، آپ نے کچھ بھی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے دوبارہ عرض کیا جب بھی جواب نہ دیا، پھر تیسری بار عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:‏‏‏‏

“يَا أُمَّ سَلَمَةَ لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا”.

اے ام سلمہ ! عائشہ کے بارے میں مجھ کو نہ ستاؤ۔ اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں (جو میں اوڑھتا ہوں سوتے وقت) مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہاں (عائشہ کا مقام یہ ہے) ان کے لحاف میں وحی نازل ہوتی ہے۔(صحیح البخاری:3775)

قارئین! آپ نے غور کیا؟! اگر کوئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معمولی سی تکلیف پہنچائے تو رسول اللہ ﷺ کو کس قدر ایذا اور تکلیف پہنچتی تھی۔ صحیح البخاری کی ایک دوسری حدیث (2581) میں ہے کہ اس پر ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

” أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ”

اے اللہ کے رسول! آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر (رض) کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چناچہ انہوں نے بھی آپ ﷺ سے بات چیت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

“يَا بُنَيَّةُ، أَلَا تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ ؟

“میری بیٹی ! کیا تم اسے پسند نہیں کرتی جسے میں پسند کرتا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکارکردیا۔

معلوم ہوا کہ امت کے ہر فرد کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرنا ضروری ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی ان سے محبت کرتی تھیں اور پیارے رسولﷺ بھی، لہذا رسول اللہ ﷺ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی محبت کا دم بھرنے والوں کو بھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دل وجان سے محبت کرنا ،ان کا احترام کرنا اور ان کی سیرت و کردار کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔ واللہ ولی التوفیق۔

آپ کے تبصرے

3000