وہابی، اہل حدیث اور سلفی یوں سمجھیں کہ ایک ہی سکے کے ایک ہی رخ ہیں، ایک ہی شاخِ گلاب میں تین کھلے ہوئے پھول۔ ہندوستان پر جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو یہ مٹھی بھر وہابی انگریزوں کے اس قدر خلاف ہوئے کہ وہابی (باغی) کہلائے۔ وہابی کا مطلب “انگریز دشمن” سمجھا جانے لگا۔ انگریزوں کو جہاں کہیں کوئی اٹنگا پاجامہ اور لمبی داڑھی والا مسلمان نظر آتا وہ انھیں باغی قرار دے کر جیل میں ڈال دیتے۔ یہی وہابی جب ذرا تنظیمی شعور سے آشنا ہوئے تو اہلِ حدیث کہلائے چونکہ سلف صالحین میں سے یہ کسی ایک خاص کے مقلد نہیں بلکہ اپنی نسبت سب سے جوڑ کر رکھتے ہیں، جملہ اسلاف ان کے یہاں واجب التعظیم ہیں، اسی مناسبت سے سلفی کہلائے گئے۔ ان کا عقیدہ خالص، پیور اور ایک دم اصلی بلکہ یوں کہہ لیں شدھ دیسی گھی یے، اس میں کسی قسم کے ڈالڈے یا چربی کی ذرہ برابر ملاوٹ نہیں اور ان کے یہاں کاکٹیل عقیدہ چلتا بھی نہیں ہے۔ چلتا وہ ہے جو یا تو قرآن میں ہے یا رسول کے فرمان میں ہے وہی ان کے یہاں اتھینٹک ہے۔ عملی اصول ان کا یہ ہے کہ! نو تقلید، ونلی اتباع اور وہ بھی اتباعِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ اجمعین، ان کے یہاں پیری، مریدی، فقیری، نقشبندی و علی ھذا القیاس یعنی بندی کے جتنے بھی سلسلے ہیں سب بند ہیں۔ شر کے ہر اس دروازے کو انھوں نے بند کر رکھا ہے جہاں سے شرک اور بدعت کی بد بو آئے۔ تعویذ گنڈے کے یہ سخت خلاف ہیں، اس لیے ان کے یہاں بد عقیدگی بھی کم پائی جاتی ہے۔ ان کے بیشتر عالم آپ کو توند مند نہیں ملیں گے اس کی وجہ بھی شاید یہی ہو کہ ان کے یہاں شکم سے زیادہ عقیدے کی درستگی پر دھیان دیا جاتا ہے۔ یہ جھاڑ پھونک پر یقین نہیں رکھتے اس لیے ان کے یہاں بابے بھی بہت کم ملیں گے۔ ہوسکتا ہے ایک اہلِ حدیث، وہابی سلفی بہت ہی بدکردار اور بدچلن ہو لیکن وہ بدعقیدہ بھی یہ ناممکن ہے اور اگر ہے تو وہ سلفی وہابی اور اہلِ حدیث نہیں۔
لیکن …؟
یہاں میں اہلِ حدیثوں سے مخاطب ہوں اور سنو سلفیو…!
یہ جھاڑ پھونک کے دھندے کب سے تمھارے یہاں جائز ہوگئے، کب سے شرعی رقیہ کے نام پر کچھ شکم پرست ٹھگ، ڈھونگی فریبی اہل حدیث ٹیگ کے ساتھ بازار میں دندنانے لگے اور افسوس کہ تم خاموش ہو۔ جب میں کسی اہلِ حدیث عالم، حافظ کو اس طرح کی دکانداری کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے سخت کوفت ہوتی ہے کہ یہ تو مخالفین میں سے تھے کب سے شکم کے لیے یہ ڈفلی اٹھا لی۔ شنید ہے ممبئی کے کسی اہل حدیث مسجد میں ان باباؤں کی باقاعدہ اجتماعی محفل منعقد کی گئی اور اس میں خوب دھمال ہوئے۔ کئی ڈھونگیوں کو تو میں جانتا ہوں جو باقاعدہ اپنی تشہیر الراقی فلاں فلاں کے نام سے کر تے ہیں اور انھیں کوئی شرم بھی نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ سلفی معاشرہ دھیرے دھیرے اس طرح کے رویوں کو قبول بھی کرتا جارہا ہے۔ حد ہوتی یار، یہ سب اگر تمھیں قبول ہے تو بتاؤ تمھارے پاس اوریجنل اسلام کے نام پر بچا کیا ہے یہی نا کہ اب تمھاری مدرسہ فیکٹریاں جھاڑ پھونک کے نام پر بازار میں نئے نئے کرتب باز اتاریں، پھر کس منہ سے تم دوسروں کی مخالفت کروگے۔ مزے کی ایک بات بھی بتا دوں یہ بابے، یہ ڈھونگی، یہ چھلاوے، یہ فریب پسند کسی معمولی پیسے پر کام نہیں کرتے بلکہ پریشان حال کلائنٹ سے ہفتہ وصولی کی طرح ایک بھاری بھرکم فیس وصولتے ہیں چاہے آپ کا کام بنے یا نہ بنے۔ اگر ان ڈھونگیوں کو ان کا کوئی ارادت مند کسی اور شہر میں جھاڑ پھونک کے لیے لے کر جانا چاہے جہاں ٹرین اور ہوائی جہاز دونوں کی سویدھا ہوں تو یہ فریبی ٹرین سے نہیں جاسکتے، بڑے غرور سے فرمائیں گے! اگر ہم ٹرین سے گئے تو وقت کے زیاں میں ہمارے کئی کلائنٹ چھوٹ جائیں گے، جس سے ہمارا کافی نقصان ہوگا۔ کسی غریب بیچارے میں اتنا دم نہیں کہ وہ ان سے ایک دٓم کروالے۔ ایک بار ایک بے رحم ڈاکٹر، رحم کھاسکتا ہے، لیکن! ان جلادوں کے ہاتھ میں ہمیشہ دعا کی ننگی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔
برکت کی بات بھی لکھ دوں۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے یہ دھندا شروع ہوا اور کچھ مہینوں بعد ان ڈھونگیوں کے پاس فلیٹ، گاڑی بنگلہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔
سلفیو…!
اپنے افراد کو بابا بننے سے روکو اور ہوسکے تو انھیں معاشرہ سوسائٹی اور ملک کے لیے کچھ مفید بناؤ۔ سلفیوں کی کچھ ادائیں مجھے بہت پیاری لگتی ہیں جن پر میں مرتا ہوں لیکن یہ ادا مجھے قطعی نہیں بھائی اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے غیرت مند سلفی بھائیوں کو بھی نہیں بھائے گی اور اللہ کرے نہ بھائے…!
درست ۔اجتماعی شب بیداری سے اجتماعی جھانڈ پھونک تک
طبیعت جھکجھورنے والی تحریر کاش ارباب حل و عقد اس طرف دھیان دیتے
بکر سے اب سلفیوں کے یہاں بھی جنگل راج ہے جھگڑیوں کے ممیاہٹ پر کان دھرنے کی کسے فرصت ہے
قلم ایسہی پہٹ کے چلاؤ شیخ اللہ آپکو خوش رکھے
کوئی جاوید سلفی ہی ایسی دھلائی کر سکتا ہے
اچھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے آپ نے
ضرورت ہے کہ اس جانب دھیان دیا جائے تاکہ بد عقیدگی پر قدغن لگے۔
بہت اچھی تحریر جاوید بھائ ۔ آپ نے تلخ حقیقت بیان کیا ۔
یہ بیماروں کو لوٹنے والی بیماری بے دریغ بڑھتی جارہی ہے بہر حال اس مرض کا علاج ہونا لازمی ہے ورنہ اسکا فتنہ روز افزوں ہوتا جائیگا اور اس کا روک تھام مشکل ہوجائے گا.
و جزاکم اللہ خیرا على هذا التذكير.
اچھی کلاس لی جاوید بھائی!
اللہ خوب خوب برکت دے.
جزاک اللہ احسن الجزاء
الراقی حافظ مولانا فلاں اور فلاں ایسے کی کارڈ باقاعدہ ایڈریس موبائل نمبر کے ساتھ بارہا گروپوں میں موصول ہوے ہیں جن سے اس بات کی مکمل غمازى ہو رہی تھی کہ نام نہاد سلفیوں کی ایک تعداد اس میں ملوث ہے
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں “علماء سوء” “علماء دینار و درھم” و”علماء دنیا پرست” جیسے القاب استعمال کیے جاتے ہیں
ایسے نام لیوا سلفیوں کے مافی الضمیر وما فی البطن پر ہاتھ صاف کرنا ازحد ضروری ہے