بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ بچے امانت ہیں۔ بچے مستقبل کا سہارا ہیں۔ ان کی جسمانی تربیت کے ساتھ روحانی تربیت بھی ضروری ہے۔ بچوں کو دین کی عام فہم باتیں بتاتے رہیں۔ رب سے ان کا تعلق جوڑتے رہیں۔ کبھی درس قرآن کا اہتمام کریں۔ کبھی درس حدیث کا اہتمام کریں۔ کبھی سیرت رسول سے بچوں کے ذہنوں کو معطر کریں۔ بچوں کے سوال کا جواب دیں۔ ان سے بھی جواب طلب کریں۔ نمبر دیں۔ انعامات سے نوازیں۔ ہمت افزائی کریں۔ حوصلہ شکنی نہ کریں۔ ان کو دین سے جوڑیں۔ دین سے ان کو مانوس کریں۔ توحید کی اہمیت بتائیں۔ شرک کی خطرناکی سے آگاہ کریں۔
ایمان کے بارے میں گفتگو کریں۔ نیکیوں کی جانب راغب کریں۔ ان کو بتائیں نیکی سے ایمان بڑھتا ہے۔ برائیوں سے ان کو دور رکھیں۔
برائی سے ایمان گھٹتا ہے۔ ایمان ایک عظیم دولت ہے۔ ایمان کی قدر کریں۔ وہ کام کریں جن سے آپ کا ایمان بڑھتا رہے۔ اس بات پر پختہ یقین بنائیں کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہی ہے۔
بچوں کو توحید کے بارے میں بتائیں۔ اللہ ہی اس کائنات کا اکیلا خالق، رازق، مالک اور مدبر ہے۔ صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ ہر طرح کی عبادت اللہ ہی کے لیے ہے۔ نماز اللہ ہی کے لیے۔ روزہ اللہ ہی کے لیے، حج اللہ ہی کے لیے، قربانی اللہ ہی کے لیے، طواف اللہ ہی کے لیے اور صرف خانہ کعبہ کا، دعا صرف اللہ ہی سے مانگیں۔ وہی حاجت روا ہے۔ وہی مشکل کشا ہے۔ وہی حقیقی مددگار ہے۔ وہی سب کا پالنہار ہے۔ اللہ کے بہترین نام ہیں ان ہی ناموں سے اس کو پکاریں۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ نہ ربوبیت میں، نہ الوہیت میں، نہ اسماء وصفات میں۔
ان کو کفر و شرک سے بچتے رہنے کی تلقین کریں۔ ان کو بتائیں کہ اللہ پاک بہت رحیم و کریم ہیں مگر شرک کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ ان کو بدعات اور دیگر برائیوں سے بھی بچنے کی ہدایت کرتے رہیں۔
ان کو فرشتوں کے بارے میں بتائیں۔ وہ نوری مخلوق ہیں۔ وہ رب کی نافرمانی نہیں کرتے۔ ان کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ چار بڑے فرشتے ہیں: جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل (ملک الموت)۔ فرشتوں کو ان کی اصلی شکل میں انسان نہیں دیکھ سکتا۔ ان کو اللہ نے مختلف طرح کی شکل اختیار کرنے کی طاقت دی ہے۔ ہمارے ساتھ فرشتے ہیں جو ہماری نیکیاں اور برائیاں لکھتے رہتے ہیں۔ ذکر و اذکار کی مجلسوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نمازوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پر فرشتے کھڑے رہتے ہیں اور آنے والے کا نام قلمبند کرتے رہتے ہیں۔ امام کی آمد کے بعد وہ اپنا دفتر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ قبر میں سوال و جواب کے لیے بھی فرشتے مقرر ہیں۔ جہنم پر فرشتے مقرر ہیں۔ جنت پر فرشتے مقرر ہیں۔ بیت معمور میں ستر ہزار فرشتے ہر دن عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے انبیاء و رسل کا سلسلہ دنیا میں جاری رکھا۔ ان کی صحیح تعداد ہمیں معلوم نہیں۔ قرآن نے پچیس انبیاء کرام کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے پانچ اولو العزم رسول ہیں: نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ انبیاء و رسل بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی بھی انسانی ضروریات ہوتی ہیں۔ وہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ان کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں۔ وہ بھی بیمار ہوتے ہیں۔ اور وفات پاتے ہیں۔ ان پر وحی آتی ہے۔ وہ شریف و محترم انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں میں افضل ترین لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا۔ جو کوئی بھی نبوت کا دعوی کرے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا اہم جز ہے۔
اللہ نے انبیاء و رسل کو کتابیں دیں۔ توریت موسی علیہ السلام کو دی۔ زبور داؤد علیہ السلام کو دی۔ انجیل عیسی علیہ السلام کو دی۔ آخری کتاب قرآن مجید آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ قرآن کے علاوہ تمام آسمانی کتابیں بدل دی گئیں۔ ان میں تحریف کردی گئی۔ مگر الحمدللہ قرآن اپنی اصلی شکل میں باقی ہے۔ اور قیامت تک باقی رہے گا۔ جب قرآن باقی نہیں رہے گا تو دنیا بھی باقی نہیں رہے گی۔ قیامت آجائے گی اور دنیا فنا ہوجائے گی۔ قرآن کی تلاوت پر اللہ نے بڑی نیکیاں رکھی ہیں۔ ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ صرف الم پڑھنے پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ ہم اس نیکی سے خود کو کیوں محروم رکھیں۔ قرآن دستور حیات ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ قرآن ابدی کتاب ہے۔ قرآن نبی کی سیرت ہے۔ قرآن میں عقائد کا بیان بھی ہے۔ اقوام ماضی کی داستان بھی ہے۔
قرآن کتاب تلاوت ہے۔ اس کی تلاوت کا حکم رب نے اپنے نبی کو دیا۔ قرآن کی تلاوت ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ ہر سوسائٹی میں ہونی چاہیے۔ ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہونی چاہیے۔ قرآن بینکوں میں بھی پڑھا جائے، پولس اسٹیشنوں میں بھی پڑھا جائے، ائیرپورٹ پر بھی پڑھا جائے، جملہ شعبہائے زندگی میں پڑھا جائے۔ مگر افسوس قرآن جو کتاب حیات ہے، جو روح حیات ہے، جو روح افزا ہے وہ اب صرف مدارس و مساجد کی چہار دیواری میں محصور ہوکر رہ گیا ہے۔ اب ہمارے گھروں میں اگر بآواز بلند قرآن کی تلاوت ہو تو فاتحہ و میت کا خیال دل میں آنے لگتا ہے۔ افسوس دلوں کو زندگی بخشنے والی کتاب کو میت اور فاتحہ سے جوڑ دیا گیا۔
قرآن کتاب ہدایت ہے۔ ضرورت ہے ہم تمام شعبہائے زندگی میں قرآن سے ہدایت حاصل کریں۔ قرآن ہدایت ہے سماجی مسائل کے لیے، عائلی مسائل کے لیے، سیاسی مسائل کے لیے، عالمی مسائل کے لیے۔ قرآن ہدایت ہے نحو و صرف سمجھنے کے لیے، نحو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کی عملی مشق کے لیے بھی قرآن ایک بہترین کتاب ہے۔
قرآن کتاب تدبر ہے۔ کئی آیتوں میں رب کریم نے قرآن میں تدبر کی دعوت دی ہے۔ قرآن میں بہت سے احکام مجمل ہیں جن کی تفصیل حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ قرآن کو حدیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے روح کو جسم سے جدا کردیا جائے یا سر کو تن سے دور کردیا جائے۔ قرآن کے اجمال کی تفصیل حدیث میں ہے۔ قرآن کے ابہام کی توضیح حدیث میں ہے۔ قرآن کے مشکل کی تشریح حدیث میں ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن متن ہے تو حدیث اس کی شرح ہے۔ قرآن کلام رب العالمین ہے۔ جو رحمت للعالمین پر نازل ہوا۔ جس کو لانے والے روح امین ہیں۔
ہم بچوں کو بتائیں یہ دنیا فانی ہے۔ ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی ہے۔ موت کے بعد سے ہی ایک دوسری زندگی کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ قبر یا تو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے یا جہنم کے گڑھوں میں ایک گڑھا ہے۔ ہم قبر کی نعمتوں اور اس کے عذاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ روز قیامت لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ ننگے پاؤں ننگے بدن ہوں گے۔ اللہ تعالی جن کو اجازت دے گا وہ شفاعت کریں گے۔ اللہ رب العزت حساب و کتاب کے لیے تشریف لائیں گے۔ رب کا دیدار ہوگا۔ نامہ اعمال وزن کیے جائیں گے۔ نیک لوگوں کو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا۔ بدکاروں کو بائیں ہاتھ میں پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا۔ ہم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یوم آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ میزان، پل صراط، حوض کوثر، جنت اور جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ آخرت کی وہ زندگی ابدی ہوگی۔ نہ موت آئے گی نہ وفات ہوگی۔
ہم تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ دنیا کا کوئی پتہ رب کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ رب کی اجازت کے بغیر کوئی ذرہ حرکت نہیں کرتا۔ ہر اچھی اور بری چیز رب کے ارادے سے ہی ہوتی ہے۔ تقدیر کے چار مراتب ہیں: علم، کتابت، مشیئت، خلق۔ ہمیں اسباب بھی اختیار کرنا ہے۔ رب کی تقدیر پر بھروسہ بھی کرنا ہے۔ رب کے حکم سے آگ سرد ہوجاتی ہے۔ اسی کے حکم سے پانی میں راستہ بن جاتا ہے۔
بچوں کو سیرت رسول سے آگاہ کریں۔ سیرت کے قصے سنائیں۔ مکی زندگی کی آزمائش ومشکلات بتائیں۔ طائف کا دردناک سفر بتائیں۔ صلح حدیبیہ کی عظیم اور فاتحانہ صلح بتائیں۔ فتح مکہ کا خوشنما منظر بتائیں۔ فاتح ہونے کے باوجود دل شکر سے لبریز ہے۔ امان ہے۔ معافی کا عام اعلان ہے۔ کاش دیگر فاتح قومیں بھی میرے نبی کے نقش قدم پر چلتیں۔
گھروں میں امام بخاری کی الادب المفرد، امام نووی کی ریاض الصالحین، شیخ محمد بن عبد الوہاب کی کتاب التوحید، شاہ اسماعیل شہید کی تقویت الایمان، قاضی سلیمان منصورپوری کی مہر نبوت، نذیر احمد رحمانی املوی کی چمن اسلام، قحطانی کی حصن المسلم پڑھنے کا ماحول بنائیں۔ رب کریم سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ ” جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء یا شیخ محترم
شکریہ
سلامت رہیں
ماشاء اللّٰہ،تبارک اللہ ۔آپ کی تحریر بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق بہترین معلومات کا خزانہ ہے.اللہ مزید توفیق دے.
آمین
جزاکم اللہ خیرا