پیارے پیرینٹس آداب!

خان اختر جاوید تعلیم و تربیت

ہمارے یہاں آج کل دیوالی اور ششماہی کی چھٹیاں چل رہی ہیں، بچے فری ہیں تو مختلف ٹپس باز بھی فری ہوکر بچوں اور والدین کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ کچھ ٹوٹکے ملاحظہ فرمائیں:
“چھٹیاں کیسے گزاریں”۔
“خدارا ان چھٹیوں کو بے کار اور کھیل کود میں ضائع نہ ہونےدیں”۔
“چھٹیوں میں یہ کریں، وہ کریں”۔
ویسے اسکول والے بھی کچھ کم ستم ظریف نہیں۔ کل ایک رشتہ دار کے یہاں ان کے بچے کا “دیوالی ہوم ورک” چیک کر رہا تھا- میں ششدر رہ گیا کہ کس کس کے ظرف اور جہالت پر ماتم کیا جائے، ٹیچر، مینجمنٹ یا سادہ لوح والدین کے۔ ایک بچے کو صرف انگلش کی سترہ پوئم لکھنی ہے اور ہارڈ ورک اور دیگر اصنافِ ستم تو ابھی باقی ہیں میاں- غالب ستم نصیب بھی کیا کہہ گیا ہے:
“حیراں ہوں دل کو رؤوں کہ پیٹوں کو جگر کو میں”
تو یار ستم بار ایکسپرٹو…! بچے بچے ہیں انہیں بچہ ہی رہنے دیں، حمال مت بنائیں، شاید انہیں جاہل ایکسپرٹوں کی دین ہے کہ بچے دین و دنیا دونوں سے دور ہورہے ہیں۔ یہ بچوں کو تعلیمی بھٹوں کا گدھا مزدور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان پر لاد دیا جائے سب سہہ لیں گے، سب اٹھا لیں گے۔ شاید انہیں اپنی ان زیادتیوں کی خبرنہیں۔ اللہ کے کرم سے یہ تو ہمارے ایکسپرٹ ہیں ان کی اپنی مرضی، یہ اس کے مولی، جو چاہیں سو کریں- ہم ان کا کل بھی نہیں کچھ بگاڑ سکے تھے اور آج بھی نہیں کچھ بگاڑ پائیں گے- مستقبل، کل، کو اس ‘ کل’ پر اٹھا رکھتے ہیں جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ “کل کس نے دیکھا ہے”۔
یہاں میرا تخاطب اس بھیڑ جماعت سے ہے جس کا میں خود ایک حصہ ہوں، جسے والدین اور پیرنٹس کہتے ہیں۔ تو پیارے پیرنٹسو…!
اولاد ہی ایک نعمت ہے جس کے بارے میں ہم اور آپ یہ سوچتے ہیں یہ مجھ سے زیادہ حسین ہو، مجھ سے زیادہ ذہین ہو اور مجھ سے زیادہ آگے جائے- یہ ان ڈگر پر بھی چلے جن ڈگر کے نام سے بھی آپ کے پاؤں تھر تھراتے ہیں- اولاد ہی وہ نعمت ہے جس کے بارے میں انسان اپنے سے زیادہ بہتر سوچتا اور زیادہ سے زیادہ بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے، دنیا میں اور کسی کے بارے میں انسان نہ اتنا بے غرض سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اتنا بے لوث جی سکتا ہے، اس لیے اپنے بچوں کے جتنے شبھ چنتک ہم اور آپ ہوسکتے ہیں یہ بازاری ایکسپرٹ بابے نہیں۔ میرا مفت میں مشورہ کہ ان چھٹیوں میں جہاں تک ہوسکے بچوں کو ان باباؤں کے مشوروں سے بچا لیں یہ بچوں پر احسان ہوگا۔ چھٹیوں میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، انہیں گھریلوں کاموں میں دلچسپی لینا سکھائیں، انہیں بتائیں کہ بیٹا ماں باپ کے کاموں میں ہاتھ بٹانا بھی نیکی ہے۔ بچوں کو ان چھٹیوں میں رشتہ داروں کے گھر لے جائیں اور انہیں صلہ رحمی کے آداب سکھائیں۔ کیا یہ ہمارے لیے افسوسناک بات نہیں ہے کہ ہمارے بچے چودہ پندرہ سال کے ہوجاتے ہیں اور انہیں گھریلوں کاموں کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ ہمارے بچے ماں کی عظمت پر مضمون رٹ کر انعامی مقابلے میں تقریر کرکے اول آتے ہیں اور گھر میں بیمار ماں، بچے کے اول آنے کی خوشی میں بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہے، اس کے کپڑے دھلتی ہے، یہاں تک کہ اس کے جوتے بھی صاف کرکے پہناتی ہے۔ بچوں کو بتائیں کہ صرف ہر وش اور ہرخواہش کے پورے ہونے کا نام جیون نہیں بلکہ جیونی یہ ہے کہ لوگوں کے جذبات کا احترام کیا جائے۔ جب آپ بچے کو کہیں گھمانے لے جائیں، اگر اسے چاکلیٹ دلاتے ہیں تو ایک چاکلیٹ اسے یہ کہہ کر دلائیں کہ بیٹا یہ چاکلیٹ تمہارے بیسٹ فرینڈ کے لیے ہے۔ راستے میں کہیں کوئی ایسی چیز پڑی ہو جو گزرنے والوں کے لیے باعثِ آزار بن سکتی ہو تو بچوں سے خود کہیں: بیٹا! اسے ہٹا کر سائڈ میں رکھ دیں اس سے کسی کو تکلیف پہونچ سکتی ہے۔
بچوں کی زبان پر دھیان دیں کہ وہ کس قسم کے جملے بولتے ہیں، کہیں ان جملوں میں آوارگی کی جھلک تو نہیں، اگر ہے تو بڑے پیار سے سمجھائیں کہ بیٹا ایسا نہیں ایسا بولتے ہیں۔ بچوں کے کھیل کود اور فٹنیس پر دھیان دیں انہیں سمجھائیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ جب بچہ اپنی فٹنس پر دھیان دے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ نشے کی طرف مائل نہیں ہوگا۔بچوں کو رسول اللہ کی سیرت پڑھنے پر راغب کریں آپ کی اخلاقی باتوں کو یاد کرائیں تاکہ کہیں بری سیچویشن میں بچہ اسے اپنے لیے مشعلِ راہ بنا سکے۔ کٹر مسلکی بحثوں سے بچوں کو دور رکھیں اور بچے میں اتنی اورنیس لائیں کہ وہ بڑا ہوکر سچائی قبول کرنے میں کوئی تامل نہ کرے۔ بچوں میں تقلیدی نہیں تحقیقی ذہن بیدار کریں تاکہ اس کی جستجو مزید سے مزید تر ہو۔ بچوں کو بتائیں کہ بیٹا! ‘تقلید، مذھب، زندگی اور مستقبل’ کسی کے بھی ٹھیک نہیں۔ بچوں کے لیے کسی کی مثال مت دیں کیونکہ جس کی مثال دی جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہوتا ہے بلکہ یوں سمجھائیں گاندھی، آزاد ایک ہی پیدا ہوئے تھے اور ایک ہی رہیں گے تمہیں ان سے ہٹ کر اپنی ڈگر بنانی ہوگی۔ ہمارے بچوں کا ذہن آئیڈیل اور مثالوں سے خراب کیا جا رہا ہے اور کم تر ذہن کے استاتذہ یہ کام بڑی چابک دستی سے کرتے ہیں۔
بچوں کو بتائیں کہ بیٹا تم خود ایک مثال ہو، کیا تمہارے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں کہ خدا نے تمہیں تمام انسانوں سے مختلف بنایا ہے، تم تم ہو! تمہیں اپنے اس “تم” کو برقرار رکھنا ہے۔ بچوں کے لیے سب سے زیادہ گھاتک خود اسکول اور ماحول ہیں۔ ہم ان سے بچوں کو ونچت تو نہیں رکھ سکتے لیکن ہمیں اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ اس کے برے اثرات بچوں پر کم سے کم مرتب ہوں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عدنان احمد آزاد

بہت ہی عمدہ تحریر جاوید سر

ام ھشام

You spoke my heart