مرے شعور کی تعمیر سے پریشاں ہیں
غریب ذہن کی زنجیر سے پریشاں ہیں
سویرے جب ملے تو خواب سے پریشاں تھے
ہوئی ہے شام تو تعبیر سے پریشاں ہیں
تمہیں جو دیکھ لیں تو ہوش ہی نہ کھوبیٹھیں
یہ لوگ جو تری تصویر سے پریشاں ہیں
ہمارے عہد کے اربابِ دانش و بینش
خود اپنے ہاتھ کی تحریر سے پریشاں ہیں
خطا معاف !مگر سچ یہی ہے شیخ کہ ہم
حضورِ والا کی تقریر سے پریشاں ہیں
کھلا یہ راز کہ تدبیر ہی رہی کوتاہ
سمجھتے ہم رہے تقدیر سے پریشاں ہیں
ہماری قوم میں بھکتی کی جڑ ہے اندر تک
تمام لوگ ہی تاثیر سے پریشاں ہیں
تمام اپنی ہی خصلت کے لوگ ہیں ساگر
تمام لوگ ہی تاخیر سے پریشاں ہیں
بہت خوب اشعار۔۔ واہ!
ماشاء اللہ کیا کلام ہے, انمول تخلیق