(قومی نگرانی کمیشن (سنٹرل وجیلینس کمیشن) مرکزی حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے ادراے کی طرف سے بیدرای مہم پروگرام کا ہفتہ چل رہا ہے جس میں ملک کی عوام سے امن و امان بحال رکھنے اور شانتی و سدبھاؤ کا ماحول بنانے و رشوت لینے دینے اور دیگر غیر قانونی کام سے پرہیز کرنے پر عہد لیا جاتا ہے تاکہ ملک کی عوام غیر آئینی و غیر اخلاقی کام انجام نہ دیں اور عوام بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک زندہ دل شہری بن سکیں- بروز منگل ٢٩ اکتوبر ٢٠١٩ کو ہمارے انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل ہیریٹیج حیدرآباد میں ایک تقریری پروگرام منعقد ہوا جس کا موضوع تھا “Gratification” اردو میں جسے اطمینان کہتے ہیں اور ہندی میں جسے संतुष्टि کہتے ہیں اگر آسان انگلش زبان میں سمجھنا ہو تو اسے Satisfaction بھی کہا جا سکتا ہے، موضوع تھا کہ یا تو آپ Delay Gratification یعنی تاخیر والا اطمینان یا Instant Gratification یعنی فی الفور اطمینان پر مختصر تقریر پیش کریں، میں نے Delay Gratification یعنی تاخیر والے اطمینان کو منتخب کیا، حذف و اضافے کے ساتھ وہ تقریر مضمون کی شکل میں آپ معزز قارئین کی خدمت میں حاضر ہے، پروگرام کے اخیر میں ہمارے صدر و حکم صاحبان میں سے دو نے Delay Gratification یعنی تاخیر والے اطمینان پر اظہار خیال کیا و تائید فرمائی-)
معزز قارئین! اگر شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ اسلام میں Delay Gratification کی اہمیت بہت زیادہ ہے بلکہ فی الفور نتائج و فوائد سے عام طور پر روکا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ عنکبوت آیت نمبر ٦٤ میں ارشاد فرمایا:
“وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ إِلاَّ لَھْوٌ وَّلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ م لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ”
(العنکبوت:64)
”اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے، البتہ سچی زندگی تو آخرت کا گھر ہے، اگر یہ جانتے ہوتے۔”
آج ہماری زندگی عام طور پر ایسے رہتی ہے کہ جو بھی چیز ہو وہ فی الفور ہو، ہم دنیا ہی میں اصل اطمینان و سکون ڈھونڈتے ہیں حالانکہ یہ دنیا الٹیمیٹ سکون و اطمینان کی جگہ نہیں بلکہ سکون و اطمینان کی جگہ آخرت ہے اگر کوئی مومن یہ سوچے کہ وہ دنیا میں ہی پائیدار سکون پا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے-
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ “میں نے نہیں دیکھا کہ جہنم جیسی چیز سے اس کا بھاگنے والا سو گیا ہو، اور نہ ہی میں نے جنت جیسی کوئی چیز دیکھی کہ اس کا طلب گار چین سے سو رہا ہو (عن ابی ھریرۃ، اخرجہ الترمذی 2484 الألبانی: السلسلۃ الصحیحۃ 953)
ہم صبح آفس جاتے وقت الارم سیٹ کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں جب گھنٹی بجتی ہے تو ہم مزید پانچ منٹ کا اسنوز لگاتے ہیں تاکہ گھنٹی پانچ منٹ تاخیر سے بجے یہ وہ پانچ منٹ ہیں جو فی الفور سکون ہم کو دیتے ہیں اور ہم سوجاتے ہیں لیکن اس کا اثر ہماری زندگی پر کیا پڑتا ہے کہ ہم آفس لیٹ پہنچتے ہیں اپنے مشرف کے ڈانٹ پھٹکار سنتے ہیں اساتذہ کے پھٹکار پڑتے ہیں اور کبھی کبھی تو پوری ایک دن کی سیلیری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن اگر وہیں اس پانچ منٹ کے سکون و اطمینان کو قربان کر دیتے تو ایک ایسا سکون میسر ہوتا جو بعد میں آپ کو خوش گوار لمحات مہیا کراتا اس لئے چھوٹے چھوٹے اطمینان و سکون کو قربان کرکے بڑا بدلہ اور مضبوط سکون کو حاصل کیا جا سکتا ہے-
ہم دیکھتے ہیں کہ آج یا آج سے پہلے جتنے لوگوں نے بڑا مقام دنیا میں حاصل کیا وہ تاریخ کے اوراق کے زینت بنے اور باقی دنیا والوں کے لئے مشعل راہ بنے انہوں نے بھٹی میں اپنے آپ کو تپایا تب جاکر کندن بن کر نکلے، ہم بھی اگر ایسی بڑی کامیابی چاہتے ہیں تو ہم کو بھی فی الفور اطمینان کو تیاگ کر مسلسل محنت و جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، استاد اپنے طلباء سے کہتا ہے کہ اگر ہمارے کلاس میں بیٹھو گے تو ایک تحفہ تمہیں دیا جائے گا اگر چاہتے ہو تو ابھی لے سکتے ہو لیکن اگر ایک گھنٹے یہاں رکتے ہو تو دو تحفے تمہیں دیئے جائیں گے، اب اگر وہ طالب علم ایک تحفے پر اطمینان کا اظہار کر لیتا تو ڈبل تحفے سے محروم ہو جاتا، لیکن اگر ایک طالب علم اس ایک تحفے پر مطمئن نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنے استاد کو مزید ایک گھنٹے دیئے تاکہ وہ ڈبل تحفے لے کر جائے تو فی الفور اطمینان سے مزید کامیابی سے انسان محروم ہوجاتا ہے جبکہ تھوڑا برداشت کرنے سے زیادہ فائدہ و اطمینان مل سکتا ہے مزید وہ بچہ اساتذہ کی نظر میں ایک تیز ذھین اور ہوشیار طالب علم بن کر ابھرتا ہے جس پر اساتذہ جم کر محنت کرتے ہیں اور اس سے کچھ خاص لگاؤ بن جاتا ہے.
انسان اپنی صحت کو بہتر کرنا چاہتا ہے تو وہ ڈائیٹنگ شروع کرتا ہے جس سے وہ سوچتا ہے کہ اس کی صحت اچھی ہوجائے اور اس کی خوراک ایک روٹین کے حساب سے سیٹ ہوجائے، ایسا شخص فی الفور اطمینان کو قربان کرتا ہے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے ورنہ ناکام کیونکہ اس کے سامنے وہ تمام لذیذ غذائیں موجود ہیں جس سے اطمینان فی الفور مل جائے گی لیکن اس کا نقصان کافی خطرناک ہوگا جو بیماریوں اور کمزوریوں کی شکل میں نمودار ہوں گی. فی الفور اطمینان سے کافی زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے-
> اگر کسی شخص نے فی الفور کسی پر اطمینان کر کے اپنی تجارت شروع کی تو اس سے تجارت میں گھاٹے کا اندیشہ ہے اور آج ہمارے زمانے میں اس کے شکار کافی اچھے اچھے لوگ ہوجاتے ہیں بہت جلدی اطمینان کے چکر میں اپنے قیمتی متاع کو ضائع کر دیتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد مل سکتی ہیں، لوگ چند اشخاص اور شہرت یافتہ لوگوں کے جھانسے میں آکر بڑا نقصان اپنے آپ کو پہنچا دیتے ہیں-
> کسی بھی انسان پر فی الفور اطمینان سے دھوکا کھانے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور ایک انسان کو کبھی بھی کسی کے ظاہری وضع قطع کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ صبر اور برداشت کرکے جانچ پڑتال اچھے طریقے سے کرنی چاہئے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی کسی کے وضع قطع سے دھوکا مت کھانا بلکہ اچھے طریقے دیکھ بھال کرکے جانچ لینے کے بعد ہی کسی پر اطمینان کرنا چاہئے.
> فی الفور اطمینان کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر سماج میں اتھل پتھل پائی جاتی ہے بے چینی و بے اطمینانی لوگوں میں عام ہے اور اسی وجہ سے خودکشی کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے- لوگوں کا دباؤ، سماج کا دباؤ، والدین کا دباؤ، بچوں کا دباؤ، بیوی کا دباؤ، عشق و عاشقی وغیرہ وغیرہ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو فی الفور سکون و اطمینان کا مطالبہ کرتی ہیں اور بالآخر انسان خودکشی میں ہی سکون ڈھونڈھتا ہے اور پھر نہ گھر کا نہ گھاٹ کا سماج سے اگر اس ذھنی دباؤ کو ختم کرنا ہے تو برداشت اور صبر کو عام کرنا ہوگا تاکہ انسان جلد باز نہیں بلکہ کامیاب انسان بن سکے.
> فی الفور والا اطمینان انسان کو رشوت کے لین دین پر مجبور کرتا ہے رشوت کے ذریعہ وہ سکون چاہتا اس کے اندر صبر کا مادہ نہیں پایا جاتا جس سے سماج کے اندر انارکی پھیلنے کا بڑا اندیشہ ہوتا ہے، آج ہم سماج میں پاتے ہیں کہ یہ چیز بالکل عام طور پر انجام دیا جا رہا ہے- مرکزی بیداری مہم کا مقصد بھی یہی ہے کہ ملک کی عوام اس طرح کے غیر اخلاقی و غیر سماجی کاموں سے بچ سکے تاکہ ایک شفاف سماج تیار ہو، اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اہل لوگ اپنے مقام کو نہیں حاصل کر پاتے اور نا اہل لوگ رشوت کے لین دین سے مقام ہا جاتے ہیں جس سے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑجاتی ہے اور ایسے لوگ قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے ہیں.
انسان کو صبر سے کام لینا چاہئے اور صبر بھی ایک عظیم نعمت ہے اگر آپ کے پاس صبر ہے تو آپ جلد بازی سے بچیں گے اور بڑے بڑے مقاصد تک آسانی سے پہنچ پائیں گے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کی تعریف اللہ تعالی نے قرآن میں کس قدر فرمائی ہے اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿٤٣ الشورى﴾
کہ جو شخص صبر کرلے اور معاف کردے یقینا یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے-
ایک موقع پر اللہ تعالی نے انبیاء جیسا صبر کرنے کی تلقین کی، فرمایا اپنے نبی مکرم سے اور حکم عام ہے تمام امتیوں کے لئے بھی کہ:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ ﴿٣٥ الأحقاف﴾
تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لئے جلدی نہ کرو، اس آیت میں صبر کا حکم اور جلد بازی سے منع فرمایا گیا ہے، صبر ایک عظیم نعمت ہے جس کو پانے کے لئے اللہ تبارک و تعالی سے دعائیں مانگنی چاہئے، اور جب صبر ہوگا تو ہم فی الفور سکون کی قربانی دے کر بڑے سے بڑا مقصد حاصل کر سکتے ہیں، ایک طالب علم ایک کامیاب انسان بن سکتا ہے اگر وہ صبر سے کام لے اور اپنے جلدی اطمینان کی خواہش کو قربان کر دے-
ایک مسلمان آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے اگر وہ دنیاوی حالات کا مقابلہ کرکے صبر سے کام لے تاکہ اسے اخروی سکون جو نہ ختم ہونے والی کامیابی ہے اسے پا سکے، ایک انسان ایک کامیاب لیڈر بن سکتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو برداشت کرنا سیکھ جائے، اس لئے ہم کو جلد بازی نہیں بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ بڑے مقاصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے، اللہ تعالی ہم سب کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے، صبر و شکر والی زندگی عطا فرمائے…. آمین
آپ کے تبصرے