بابری مسجد رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ۔چند قابل غور پہلو

ثناء اللہ صادق تیمی سیاسیات

سب سے پہلے تو ملک کے باشندگان کو بطور عام اور مسلمانوں کو بطور خاص سلام پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے آنے کے بعد جس ہوش مندی ، سمجھداری اور ضبط و تحمل کا رویہ اپنایا وہ نہ صرف یہ کہ قابل تعریف ہے بلکہ ایک بڑی اچھی مثال ہے اور ان شاءاللہ آئندہ اس کے اچھے نتائج ضرور رونما ہوں گے ۔ اس کے لیے دونوں مذہبی گروہ کے قائدین کو بھی مبارکباد دینا چاہیے کہ انہوں نے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی اور اس سلسلے میں اچھی پیش رفت سے کام لیا ۔
بابری مسجد رام جنم بھومی کا معاملہ نیا نہيں تھا ۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ نے تین فریقوں کے بيچ زمین بانٹ دی تھی جسے لگ بھگ تمام فریقوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ سپریم کورٹ نے مانا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ منطق کے مطابق نہیں تھا ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا کہ مسجد کی زمین پر مسلم فریق اپنا مالکانہ حق ثابت نہ کرسکے ، یہ بھی کہا گیا کہ مسجد خالی زمین پر نہیں بنی تھی بلکہ اس نیچے کچھ تھا جو اسلامی نہیں تھا البتہ اس کے ثبوت بھی نہیں ہیں کہ مندر کوتوڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ ساتھ ہی یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ مسلمانوں نے مسجد کو چھوڑا نہیں بلکہ مسجد میں عبادت ہوتی رہی ۔ان باتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا کہ ہندوؤں کے بیچ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ایودھیا رام جنم بھومی ہے اور ہم سرے سے عقیدے کو خارج بھی نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں اس کا بھی اعتبار کرنا ہوگا ۔یوں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ متنازع زمین ( جہاں پہلے بابری مسجد تھی اور جسے شرپسندوں نے ڈھادیا تھا ) پر رام مندر بنے ، تین مہینے کے اندر مرکزی حکومت ایک ٹرسٹ بنائے اور یہ کام اس کے ذمے کرے اور جب تک یہ زمین اس کی تحویل میں رہے اور مسلم فریق کو پانچ ایکڑ زمین کسی مناسب جگہ پر ایودھیا میں مسجد بنانے کے لیے دی جائے ۔
ہم بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بنچ نے فیصلہ سنایا ہے اور متفقہ فیصلہ سنایا ہے لیکن مہذب اور قانونی دائرے میں چند باتیں قابل غور ضرور ہیں ۔
1 ۔ سوال یہ ہے کہ ہندوفریق کیا یہ ثابت کرسکتا ہے کہ ایودھیاکی وہی زمین رام جنم بھومی ہے ؟ کیا مالکانہ حقوق مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ثابت کیے جاسکتے ہیں ؟
2 ۔ ایک اہم سوال ہے جس کی طرف بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب نے اشارہ کیا کہ کیا بابری مسجد اگر شہید نہ کی گئی ہوتی تب بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ یہی آتا ؟
3 ۔ اگر ہندو فریق کے آستھا کا اعتبار کرکے انہيں زمین دی جاسکتی ہے تو مسلم فریق کے آستھا کا اعتبار کیوں نہیں ؟ جب کہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسجد تو تھی جسے ڈھایا گيا ، عدالت عظمی یہ مانتی ہے کہ یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی تو پھر مندر بنانے کے لیے زمین دینے کا حکم کیوں ؟
4 ۔ اگر مسلم فریق مالکانہ حق ثابت کرنے سے قاصر ہیں تو کیا ہندو فریق مالکانہ حق ثابت کرپارہے ہیں ؟ اگر نہيں تو ایک کو نوازنا اور دوسرے کو محروم کرنے کی بنیاد کیا ہے ؟ اگر آستھا ہی ہے تو ایک کا آستھا معتبر اور دوسرے کا نامعتبر کیوں ؟
5 ۔ مسلم فریق کو پانچ ایکڑ زمین الگ ایودھیا ہی میں مسجد کی تعمیر کے لیے کس بنیاد پر دی جارہی ہے ؟ اس کی کوئی قانونی اور عدالتی وجہ ؟
یہ وہ پہلو ہیں جن پر بہرحال غور کرنے کی ضرور ت ہے ۔ اگر ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی فریق کو یہ لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ اطمینان بخش فیصلہ نہیں ہے ، اس میں تضادات ہیں اور اس سلسلے میں نظر ثانی کےلیے درخواست دینی چاہیے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ضرو رکیا جانا چاہیے اور غالبا انہیں وجوہات کو پیش نظر رکھ کر سنی وقف بورڈ نے ریویو کے لیے درخواست دینے کی بات کہی ہے۔
فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں کا رویہ ماشاءاللہ بہت ہی مہذب اور حکیمانہ رہا اور اس کے لیے انہیں مبارکباد دینی چاہیے البتہ کچھ لوگوں نے جس طرح اپنوں پر الزامات کی بارش شروع کردی یا غیر عدالتی کوششوں کو یاد کرکے منہ چڑھانا شروع کردیا وہ سب اچھی بات نہیں ۔عدالتی کاروائی ہی دانشمندانہ رویہ تھا اور پوری ملت نے اس کو سپورٹ کیا تھا اور اب جب فیصلہ آیا اور ایک بار پھر سے قیادت کسی نتیجے تک پہنچتی ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے ۔ فیصلے کا حق میں آنا یقینا خوش آئند ہوتا لیکن یہ تو کم نہیں کہ ہم نے اپنے حصے کی پوری کوشش کی ۔
سپریم کورٹ یقینا اعلا ہے لیکن غلطی یا چوک اس سے بھی ہوسکتی ہے اور نظر ثانی کا ایک راستہ کھلا ہوا ہے تو اسے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے البتہ اس موقع سے اگر کوئی بھی کسی بھی قسم کی بھڑکاؤ باتیں کرتا ہے یا ہمیں غیر ضرور ی طور پر اکسانے کی غلطی کرتا ہے تو ہمیں بہت سمجھداری سے ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔ یا درہے کہ اب بھی اور آئندہ بھی ہمارے لیے قانونی راستہ ہی بہتر راستہ ہوگا ۔ البتہ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس طرح دن بہ دن عدالتوں میں ہماری نمائندگی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے وہ نیک فال نہیں اور ہمیں اس سلسلے میں بہت منظم کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ تنظیموں نے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کی ہے ، ہمیں ایسی تنظیموں کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانی چاہیے ۔
رہے نام اللہ کا ۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد ابراہیم انصاری

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.ہم آپ کے مشورے کی تائید کرتے ہیں. جزاک اللہ خیرا کثیرا

Jawaid

Dekhiye jiski government hai or jiske paas power hai duniya usi ki hai
Rahi baat samjhaute or samajhdari ki to theek hai saheeh ya galat faisla wo supreme
court hi jaane
Chalo saber ke elawaa koyi chaara nahi hai bharat me shanti se jeetne ka