فضا ابن فیضی کی مذہبی شاعری: چند زاویے

طارق اسعد تعارف و تبصرہ

کہا جاتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے، سماج ادب سے ہے اور ادب سماج سے، لیکن جب ادب میں مذہب کی شمولیت کی بات آتی ہے تو بہتوں کی تیوریوں پر بل آجاتے ہیں، جبینیں عرق آلود ہو جاتی ہیں اور اجنبیت و حیرت کا اظہار کیا جاتاہے۔ حالانکہ ادب کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے اور ادبی موضوعات کو اس تنگ دائرے میں محدود کرنا سوائے مذہب بیزاری اور لادینی کے کچھ اور نہیں ہے۔ ترقی پسند تحریک کے وجود سے الحاد و دہریت کو جس طرح سے عروج ملا اور جس طرح سے مختلف خوش کن و دلپذیر نعروں کی آڑ میں مذہبی اقدار پر تیشہ زنی کی گئی اس سے نہ صرف مذہبی موضوعات کو خارج از ادب کر دیا گیا بلکہ ادب کی آڑ میں جنسیت اور بسا اوقات فحاشیت کو بھی خوب خوب فروغ ملا۔ نوبت بایں جا رسید کہ اخلاقیات کو بوجھ تصور کیا جانے لگا، مذہب کو افیون کی حیثیت دی گئی، متقی، اولیاء اور بسا اوقات خدا کو بھی طنز و ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔ ”تعمیری ادبی تحریک“ کے مصنف پروفیسر احمد سجاد لکھتے ہیں: ”..غرض سر سید اور حالی و شبلی کے بعد سے اب تک محض ایک صدی کے اندر اندر مغرب سے مرعوبیت کے اس جدید طرز احساس نے خدا پرستی سے الحاد، شک و تذبذب، اور بابر بہ عیش کوش کے تمام مراحل سے اردو ادب کے ایک حصے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس مرعوبانہ اور مقلدانہ طرز احساس نے اردو ادب میں ذیل کی چند بڑی خرابیوں کی وبا عام کرنے میں بڑا مؤثر رول ادا کیا:
(۱) جبریت اور فرار (۲) مایوسی و قنوطیت (۳) مذموم جذبات مثلا نسل پرستی، علاقہ پرستی، غرور، انتقام، وحشت، دہشت اور درندگی (۴) طبقہ واری منافرت (۵) حیوانی جذبات اور بے قید اخلاق (۶) برائیوں کو خوشنما بنانا اور متقیوں کا مذاق اڑانا وغیرہ“ (ص:۱۳-۲۳)
اس مذہب بیزار منظر نامہ پر فضاؔ ابن فیضی کے فکر و فن کا سورج طلوع ہوا اور اس کی ضیا پاش کرنوں نے بہت مختصر مدت میں ادبی دنیا کو منور کر دیا۔ مذہب بیزاری کی اس ادبی فضا میں فضاؔ نے پوری قوت کے ساتھ نقار خانے میں طوطی بجائی، اگر چہ یہ آواز بہتوں کو نامانوس لگی اور کتنوں نے اسے صدا بصحرا سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر شاعر نے یہ عزم کرلیا تھا کہ اس لاہوتی آوازہ کے شور سے ادبی ایوانوں کو ہلا دینا ہے، ناخدائے سخن کی فکر و فہم پر جو پردہ پڑا ہے اسے چاک چاک کرنا ہے اور اردو کے ادبی سیناریو کو اپنے فن کی لطافتوں سے گل و گلزار بنا دینا ہے ؎

کب رک سکا ہے فکر کا سیل رواں فضاؔاک راستہ ہو بند تو سو راستہ کھلے

عمومی طور پر فضا ؔ کی شاعری کو ادبی حلقوں سے خوب خوب داد تحسین ملی، ان کے فکر و فن کی عظمتوں کا اعتراف کیا گیا اور ان کی نکتہ سنجیوں، نادر ترکیبوں اور صوتی آہنگ نے معاصر شاعری کو ایک نیا موڑ دیا، وہیں دوسری طرف اسلامی روایات کی پاسداری اور مذہبی اقدار کی حفاظت نے ان کی شاعری کو دوسرے شعراء سے ممتاز کردیا۔ جس دور میں شعرا اپنے فن کو مغربی ادب اور ترقی پسند تحریک سے کشید کرتے تھے اور معانی کی تفہیم کے لیے تجدد و تصنع کا سہارا لیتے تھے اس دور میں فضاؔ نے روحانیت، ایمان، اخلاق اور عقیدہ جیسے موضوعات مستعار لیے اور دین و مذہب کے سہارے فکر و فن کی آبیاری کی۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے، خوش سلیقگی اور خوش ذوقی کا مظہر ہے اور قدیم موضوعات کو نئے پیرائے میں ڈھالنے کی عمدہ مثال ہے۔
فضاؔ کی شاعری میں مذہبی عناصر کی جو فراوانی ہے وہ دراصل ان کا خاندانی ورثہ اور دینی ماحول ہے، خاندانی ورثہ اس طور پر کہ ان کے جد امجد مولانا ابوالمعالی محمد علی فیضیؔ اپنے عہد کے معروف عالم دین، علم و تحقیق کے ماہر اور شعر و ادب کے دلدادہ تھے نیز اردو، عربی و فارسی تینوں زبانوں میں یکساں مہارت کے ساتھ شعر کہتے تھے۔ خود فضاؔ کو اقرار ہے کہ ”میں نے شاعری کی یہ معنوی وراثت انہی سے پائی ہے“ آپ کے والد مولانا منظور حسن اور خود حضرت فضا ؔ بھی عربی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ علم دین سے خاندانی شغف فضاؔ کے شعور کو مذہبی بنانے میں مہمیز کا کام کر گیا، دوسری طرف شہر مؤ ناتھ بھنجن مختلف تعلیمی اداروں کا مرکز اور ماہر علمائے کرام کا مسکن ہونے کے سبب دینی ماحول کے اعتبار سے بھی ممتاز تھا، چنانچہ ان دونوں عناصر نے فضاؔ کی شاعری میں دین و مذہب کی قندیل کو ہمیشہ روشن رکھا اور ان کی فکر کو اسلامی دھارے سے مربوط کر دیا۔ آپ نے ان موروثی اقدار اور دینی ماحول کو نہ صرف اپنے فکر و فن میں برقرار رکھا بلکہ بڑے سلیقے اور رکھ رکھاؤ سے اسے پیش بھی کیا۔
دین و مذہب سے اس عمیق رشتے نے فضاؔ کی فکر کو ایک نئی جہت عطا کی جس کا اظہار انھوں نے فنی مہارت کے ساتھ بڑی عمدگی سے کیا، الفاظ کا حسن انتخاب، علو فکر، قادرالکلامی، جدت طرازی اور ترکیبوں کی تراوش نے عموما خشک سمجھے جانے والے موضوعات کو آپ نے سحر آگیں اسلوب میں ڈھال کر اس طرح سے پیش کیا ہے کہ قاری مسحور ہو کر رہ جائے، اس کے ساتھ ساتھ انتہائی شستہ اور رواں لہجہ اور جو کبھی ہیجان انگیز اور پر جلال ہوجاتا ہے تو کبھی خنک ہواؤں کی طرح رفتہ رفتہ قاری کے نہاں خانہ دل میں ہولے ہولے دستک دیتا ہے۔ پھر جب یہ معانی الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر نمایاں ہوتے ہیں تو فن کار کی جلوہ گری اور عشوہ طرازی کی شہادت دیتے ہیں اور اسے سند افتخار سے نوازتے ہیں۔ فضاؔ کا مذہبی لہجہ ملاحظہ فرمائیں:

پابندی تقدیر نہیں شیوہ مومن

تدبیر سے اس کی حد تقدیر ملی ہے


ارباب صنم خانہ، بہ حیرت نگراں ہیں

اسلام کو وہ سطوت تعمیر ملی ہے

جدید تہذیب وثقافت، عقل و دانش کے پس پردہ حیوانیت کے کھیل، حرص و ہوس کا بڑھتا گراف، ارباب جبہ و دستار کی زناری، ’محراب و مصلی‘ کی آڑ میں دین کا سودا، دیکھ دیکھ کر فضاؔ کا کرب انتہا کو پہنچ جاتا ہے، ’اشرف المخلوقات‘ کی دعویدار اور مسجود ملائک کی سند یافتہ اس مخلوق انسانی کی بے بصیرتی، کم نگہی اور عیاری نے فضا کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ:

پاش پاش آئنہ طلعت شبنم تو نہیں؟
تھا جو ”مسجود ملائک“ یہ وہ آدم تو نہیں؟
خاک بے نور کا فانوس، یہ سورج کا گہن
رات کی زرد قبا، صبح کی میت کا کفن
عالم بے عمل و حاجی بے مکہ و خیف
فاضل بے کتب و غازی بے نیزہ و سیف

لیکن ایسا نہیں کہ وہ اس تہذیب نو کے محض نوحہ خواں و شکوہ کناں ہی ہیں اور حالات پر ماتم کی ڈفلی بجاتے ہوئے گذر جاتے ہیں بلکہ اس فکری و مادی انحطاط کی چارہ گری بھی کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:

جہاں میں زندگی مستقیم پیدا کر
قرون خیر کی شان قدیم پیدا کر
زمانہ تجھ سے بغاوت کی چال چل نہ سکے
وہ زور دست عصائے کلیم پیدا کر
جہان کفر ہے پھر معجزہ طلب تجھ سے
فلک پہ، پھر کوئی ماہ دونیم پیدا کر

جہاں تک عقل و عقیدہ کی کشمکش کا سوال ہے تو یہ دیکھا گیا ہے کہ تعقل پسندی کے سبب بہتوں نے دین کی ناقابل فہم تعلیمات پر یا تو نقد کیا یا ان کی من مانی عقلی تشریح کی ہے، حالاں کہ یہ سراسر ان کے فہم و نظر کا قصور اور ان کی کوتاہ بینی ہے کہ انھیں عقل و عقیدہ میں تضاد نظر آتا ہے، مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ ”فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا، سائنس ثبوت دے دے مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا، لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے گرچہ ثبوت نہیں دیتا اور ہماری زندگی بسر کرنے کے لیے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔“
اسی مفہوم کو فضاؔ نے کس خوبصورتی سے شعر میں باندھا ہے:

جہاں عاجز رہی دانش عقیدے کام آئے
نہ تھا کچھ سہل لا موجود کو موجود رکھنا

ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری فضاؔ کی شاعری کے اس زاویے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اسلامی شریعت اور کتاب و سنت کی تعلیمات زندگی کے ہر پہلو کو محیط اور انسانی معاشرہ کی ہر دشواری کا حل ہیں، ان کے اندر محدودیت اور یک رخے پن کا جو تاثر دیا جاتا ہے وہ انسانی نظر کا قصور ہے، اسلامی تعلیمات کا نہیں، نبی ﷺ کی تربیت کے بعد صحابہ کرام نے دنیا میں جو کارنامے انجام دیے اور جس طرح ہر میدان میں انسانوں کی قیادت کی وہ ہمارے دعوے کا کھلا ثبوت ہے، اسی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے فضاؔ صاحب کہتے ہیں:

تہذیب اخلاق و تمدن، تعمیر کردار و عمل
تشکیل اسرار و معارف، تکریم ادیان و ملل
”اسوہ حسنہ“ کا ہر پہلو، تعلیم قرآں کا بدل“

شعر و شاعری اور فکر و فن سے فضاؔ کو اس قدر والہانہ لگاؤ ہے کہ ادب ان کے نزدیک انتہائی تقدس کا حامل ہے، وہ تخلیقی ادب کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں، فرماتے ہیں: ”شاعری میرے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور میں اسے اپنے عقیدہ حیات کا ایک مقدس اور لازمی جزو سمجھتا ہوں، ادب کو جمالیاتی ذوق و احساس کی تسکین کا ذریعہ کہا گیا ہے، اس حقیقت کا عرفان انہی مرحلوں میں ہوتا ہے۔“
اور فضا ؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

یہ شاعری جو ہے اک نوع کی عبادت ہے
فضاؔ! اسے کبھی شوق فضول مت کہنا

نعت گوئی ایسا فن ہے جو فکر و فن کی بلندی اور تخلیق کار کی ادبی سلیقہ مندی کے ساتھ ساتھ جذبات و عقیدت اور سرشاری سے عبارت ہے، دربار نبوی میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے وقت شاعر کا ذہن و دماغ احترام و تعظیم اور جاں نثاری کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس فن کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھنا اور نعت گوئی کے شرعی حدود و قیود کی پابندی کرنا بھی شاعر پر واجب ہوتا ہے، نعت گوئی کے عمومی منظر نامے کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں حد درجہ مبالغہ آمیزی، بے اعتدالی و بے احتیاطی اور تفریط کے واضح نشانات نظر آتے ہیں، بقول ابن احمد نقوی: ”ہمارے نعت گویوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ نعت کہنے میں بڑے غیر محتاط ہوتے ہیں اور عام طور پر توحید کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں، احمد بے میم، عرش و کرسی سے جلووں کا نزول، مستوی عرش کا مدینہ میں اتر آنا وغیرہ اور واقعہ معراج کو عاشق و محبوب اور ہجر و وصال کی مروجہ اصطلاحات کے ساتھ بیان کرنا، یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہماری نعتیہ شاعری نے اپنا وقار کھو دیا ہے، توحید پرست طبیعتیں اس بے اعتدالی اور بے احتیاطی سے اتنی بیزار ہوئیں کہ بعض علماء نے نعت گوئی ہی کو غلط قرار دے دیا، اس لیے نہیں کہ یہ علما مدح رسول کے خلاف تھے، بلکہ اس لیے کہ ان شعرا کی بے احتیاطیوں کے سبب، توحید میں شرک کی آمیزش ہونے لگی اور اندیشہ تھا کہ شاعری کے ذوق میں لوگ توحید خالص کے تصور کو بھلا بیٹھیں گے۔“
نعت گوئی میں فضاؔ کے فن پارے ملاحظہ فرمائیں:

کون یہاں تھا رمز شناس کن فیکون
کن فیکوں کے رمز بتانے والا تو
وہ نعت تمام، وہ روحانیت کی جان
قرآن، تجھ کو لاکے دیا جبرئیل نے
پیغام کیا دیا تجھے رب جلیل نے
باران ابر رحمت پیہم، تجھے سلام
اسلام کے پیمبر اعظم، تجھے سلام

مولانا عبدالمعید مدنی فضاؔ کی نعت گوئی کے اوصاف پر بایں الفاظ روشنی ڈالتے ہیں:
”فضاؔ جب نعت کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے وہ جس قدر وصف رسول کی حقیقت پسندانہ نئی جہتیں تلاش کرتے ہیں اسی کے بقدر ان کے اندر گداز کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے، اور یہی گرم نفسی اور تاثیر محبت ان کے فن میں بھی ودیعت ہوتی چلی جاتی ہے۔ فن کا کلائمکس جس قدر چڑھتا جاتا ہے نعت گوئی کا ماحول پاکیزہ تر ہوتا چلا جاتا ہے اور فضا کا وجود روحانیت اور نورانیت میں پگھلتا چلا جاتا ہے۔ اسے فکر و فن کا خلوص کہہ لیجیے، اسلامی التزام یا فطری التزام کہہ لیجیے، اس کے گھٹتے بڑھتے اثرات کہیے جو بربط قلب کے تار کو چھیڑتے ہیں تو اس ساز سے وہ آہنگ نکلتا ہے جس سے پوری کائنات سرشار ہو سکتی ہے، فضاؔ کا ہر شعر دامن دل کو کھینچتا ہے کہ جا ایں است۔“
فضاؔ کا تعلق جس عہد سے ہے وہ حقوق نسواں کی بازیافت، خواتین کی آزادی، عورتوں کے مسائل پر گفتگو، صنف نازک کے دائرہ عمل وغیرہ حوالوں سے معروف ہے، ملک کے ادبی مطلع پر بڑے زور و شور سے خواتین کے حقوق پر بحثیں ہو رہی ہیں، انھیں گھر کی چہار دیواری سے نکال کر مین اسٹریم میں شامل کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، سادگی، عفت و عصمت، حیا و پاکیزگی کو ”روایات کہنہ“ قرار دے کر صنف نازک کو جنوں کی بھیڑ کی نذر کرنے کی پوری تیاری ہے، کہیں آنچل سے پرچم بنانے کی دعوت ہے تو کہیں ”انگارے“ کی تپش سے اس کے نرم و خرام وجود کو خاکستر کرنے کے منصوبے ہیں، ترقی پسندی کے نام پر کہیں جنسی مضامین ہیں تو کہیں ”لحاف“ میں ہوس کاری اور لذت پسندی کے فسانے ہیں۔ حقوق نسواں کی آڑ میں عورتوں کا جس طرح سے استحصال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے فضاؔ اس سے سخت کبیدہ خاطر ہیں۔ ان کی نظر میں یہ سب کے سب پرفریب نعرے اور دل کش ہتھکنڈے ہیں جن کے پس پردہ کچھ اور مقاصد کارفرما ہیں، فضاؔ خواتین کو یہ نصیحت کرتے ہیں:

ہے تری نسوانیت کا بانکپن شرم و حیا
رنگ بن کر وقت کے سیمیں دریچوں پر نہ جھول
مانگتی ہے مغربی تہذیب سے تو روشنی
ظلمت شب سے نہیں ممکن اجالے کا حصول
عشق بے باک اور خود سر، حسن عریانی پسند
اس جنوں کی بھیڑ میں تو اپنے دامن کو ٹٹول

پھر صنف نازک کی شکست و ریخت پر یوں ماتم کرتے ہیں:

تو چراغ خانہ تھی اب رونق محفل ہوئی

دے کے گوہر کر لیے تو نے خزف ریزے قبول

ساتھ ہی خاتون اسلام کو اس کے شاندار ماضی کی دہائی دیتے ہیں:

پھوٹ نکلی، ایڑیوں کی ضرب سے زمزم کی سوت

عرش سے پایا، دعاؤں نے تیری حسن قبول


زینب و مریم، تری آغوش کے اجلے کنول

رابعہ بصری تری تقدیس کے گلشن کا پھول


اس حقیقت سے نہیں شاید ابھی آگاہ تو

تجھ میں کوئی عائشہ ہے اور کوئی زہرا بتول

حقیقت تو یہ ہے کہ فضاؔ نے ایک مذہب بیزار ادبی منظرنامے پر اپنے قلم کی جولانی طبع دکھاتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ جسے ”زر کم عیار“ سمجھا جارہا ہے وہ تو انتہائی کھرا سونا ہے، ادبی دانش کدے میں مذہبی ذوق کو نہ صرف برقرار رکھنا بلکہ جا بجا اس کا اظہار کرنا بھی آپ کے دست ہنر کا کمال ہے، کمال یہ ہے کہ عصری احساسات سے بھرپور واقفیت اور جدیدیت کے تقاضوں سے مکمل آگہی کے ساتھ بھی وہ قدیم موضوعات کو انتہائی عمدگی کے ساتھ برتتے ہیں جس سے ان کا کلام فنی لطافت اور جمالیاتی ذوق کا حسن مظہر بن جاتا ہے۔ قدیم و جدید کے اس حسین امتزاج نے ان کے کلام کو نئے زاویے عطا کیے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر شعرا سے ممتاز بھی کیا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمود عالم عبد اللہ پوری

سبحان اللہ الفاظوں کو جملوں میں پرونے کا ہنر کوئی آپ سے سیکھے صمیم قلب سے میں گویہ ہوں :آپ نے کورونا کے چلتے اس سست اور کاہل طبیعت میں جولانی سمو کر دی مضمون کی نقآشی نے میرے جسم و جاں میں روح پھونک دیا آپ کا یہ مضمون آپ سے رابطہ اور بات چیت کرنے پر کچوکے مار رہا ہے کہ کہ آپ کے طفیل میں رہ کر اردو ادب کی دنیا میں شد بد حاصل کر لوں اللہ تعالٰی آپ کے قلم میں اور طاقت و قوت دے، بیباکیت دے آمین برائے مہربانی آپ مجھے اپنا واٹس… Read more »