ہم نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ اسلام ہی ایک آتھینٹک دین ہے جو االلہ کے یہاں قابل قبول ہے۔ دل نے کہا کہ پھر یہ مسالک کیا ہیں؟ دماغ نے جواب دیا کہ یہ جبری پتھکر ناکہ ہیں، سبھی مسلکی دھرم گرو اپنی ایک الگ شاہراہ بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس شاہراہ پر وہی چل اور دوڑ سکتا ہے جو اس مسلک کا فالوور ہو۔ سب کے ٹول ٹیکس بھی مختلف ہیں جو بھی اس شاہراہ سے گزرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ اپنی پچھلی شاہراہ چھوڑ کر اس پر چلے، سب کے الگ اصول ہیں۔
سب کے خیال میں انہی کی شاہراہ روشن اور سیدھی ہے اور بقیہ تاریک سے تاریک تر۔ سب اپنی بدگمانیوں پر خوش گمان ہیں۔ مسلکی ناکوں پر ٹول وصولنے والوں کی تراش خراش بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ مثلا ہم ہندوستان کی بات کریں تو سب سے پہلی بات حنفیت سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی بھارت میں سب سے زیادہ ہیں اور مسلمانوں کے یہاں بہت سے فرسود مسائل جن کی آج کے دور میں کوئی ویلو نہیں، حنفیت ہی کے رہینِ منت ہیں جیسے طلاق ولاق، حلالہ ولالہ وغیرہ۔ ویسے حنفیت میں کتنی پگڈنڈیاں ہیں مجھے نہیں معلوم لیکن ان کے یہاں ون سائڈ ڈبل روڈ ہے ایک بریلوی بیچ میں منافرت کی چوڑی پٹی پھر دیوبندی، دونوں کا تعلق حنفیت سے ہے اور دونوں کی منزل ایک ہی ہے لیکن اس شاہراہ پر چلنے والی گاڑیاں ہمیشہ ایک دوسرے ٹکراتی رہتی ہیں۔ ایک دوجے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں کے چالک کا ایک دوسرے پر الزام ہے کہ دونوں گمراہ اور بدعتی ہیں، برگزیدگی کا ٹھیکہ صرف انہی کے پاس ہے۔ جبکہ ان کے چالکوں اور سواریوں میں معمولی فکری اختلاف کے ساتھ ساری سرگرمیاں ایک جیسی ہیں جیسے داڑھی کی تراش، ٹوپی کی اٹھان اور کرتے کی کلّیاں، عقیدے کا پھکڑپن۔ بس ایک دوسرے سے ذرا مخلتف ہیں۔
شیعہ حضرات کی شاہراہ دیکھنے میں بھی گھٹ ڈامر اور اس پر سے گزرنے والے وضع قطع سے بھی ڈارک ڈامر۔ جماعت اسلامی کی شاہراہ پر ہمیشہ ایک نعرے کے ساتھ ٹرافک جام کہ “خلافتِ الہیہ کا ہو قیام”. اس شاہراہ پر چلنے والے ہمیشہ غلط وقت پر صحیح نعرہ لگاتے ہیں اور صحیح وقت پر غلط نعرہ، جب انھیں ہوش میں رہنا چاہیے تو مذہبی نشے میں ٹن رہتے ہیں اورحالتِ ٹن میں ہوش کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کا پروپیگنڈہ اتنا تیز تر کہ ہر صاحبِ بصارت چکت رہ جائے، تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
کسی نے جماعت اسلامی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مسلم لیگ کا اردو ترجمہ ہے، خیر یہ ان کی اپنی موج ہے اور یہ اس موج کے مولی۔ ہم کون ہوتے ہیں انھیں کچھ روکنے اور ٹوکنے والے جو چاہیں سو یہ کریں ان کی اپنی جو شاہراہ ہے۔
ایک اور شارٹ کٹ شاہراہ ہے جسے دنیا سلفی، وہابی اور اہل حدیث کے نام سے جانتی ہے اس پتھ کے راہ رو ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کہ ہم نہ کسی کی تقلید کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہتے ہیں ہم خالص کتاب و سنت کو لے کر چلنے والے لوگ ہیں۔ جس کو کتاب و سنت سے غرض ہو وہ ہماری راہ کا راہی بنے۔ ان کے اس دعوے میں عملا کتنی صداقت ہے یہ جانیں ان کا کام جانے۔ یہ ان کے اپنے طنطنے ہیں۔ ویسے اس ہائی وے پر چلنے والے دیگر مسلک والوں کے بالمقابل ہندوستان میں کم ہیں۔ لیکن ملکی تاریخ میں یہ ایک روشن باب رکھتے ہیں۔ آزادی میں انگریزوں کے سامنے ڈٹ گئے تو ڈٹ گئے، سارے ستم گوارا کیے لیکن یہی کہتے رہے “لے کر رہیں گے آزادی۔۔” یقین نہ آئے تو کالا پانی وہ ساری حقیقیں بیان کر دے گا وہ بتائے گا کہ علماءِ صادق پور کے بیشتر جیالوں سے یہ زندان آباد رہا، اردو کی پہلی آپ بیتی لکھنے والے جعفر علی تھانیسری اور ان کے ساتھی مولانا یحییٰ علی نے زندگی کے قیمتی ایام اسی عالمِ صعوبت میں گزارے تھے۔ ہندوستان کی بیشتر احیائی تحریکیں، وہابی تحریک کے بعد وجود میں آئیں، اردو میں مسجع اور مقفع عبارتوں کے چلن کو سب سے پہلے وہابیوں نے بدعت قرار دیا اور اس کی جگہ پر عوامی زبان کو رواج دیا، برادران وطن سے ان کے مراسم اتنے گہرے تھے کہ فارسی وہابی لٹریچر کا اردو ترجمہ پنڈت بینی نرائن جہاں جیسے لوگ کیا کرتے ہیں۔ یہیں سے مومن خاں مومن اٹھے، سرسید اٹھے، حالی اٹھے، مولانا آزاد اٹھے، سیف الدین کچلو اٹھے، ظفر علی خان اٹھے، کتنے نام گنواؤں اور کتنے چھوڑوں بے شمار نام اس وقت ذہن کے پردے پر ابھر رہے ہیں، میں بھی وغیرہ وغیرہ لکھ کر بس کرتا ہوں۔ ان کے یہاں پیر پرستی، اولیاء پرستی اور دیگر پرستی سب ممنوع ہیں۔ ان کی باتیں کبھی دل کو چھوتی ہیں اور کبھی کچھ کھڑوس مزاج لوگوں کے کھڑوس رویے سے دماغ بدظن ہو جاتا ہے۔
ان کے تفکرات عصری رویوں سے میل بھی خوب کھاتے ہیں۔ ان کے علماء کے بیانات عام طور پر سادہ اور قرآن وسنت کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ سلسلۂ کرامتیہ کا گزر ان کے یہاں بہت کم ہے، ان کے بزرگان بھی عام طور پر سادہ مٹی کے بنے ہوئے ملیں گے، ان سے گناہ اور ثواب دونوں کا صدور ہوتا رہتا تھا۔ ان کے یہاں کوئی ایسا مرحوم بزرگ نہیں ملے گا جو آسمان میں اڑے، پانی پر بنا کشتی کے چلتا رہے اور اس کی پنڈلی تک نہ بھیگے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں ان کے بزرگان خوش اخلاق اور سادہ وضع کے ہوتے تھے، تام جھام سے دور، نمائشی زندگی سے بیزار، لیکن اب ان وہابیوں کے یہاں بھی ایک بڑی خرابی در آئی ہے کہ جب سے ان کے یہاں مدنی اور جالیاتی مہدیوں کا ظہور ہوا تب سے یہ وہ ہوگئے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا، مدنی حضرات عام طور پر لال اوڑھنی اوڑھتے ہیں۔ مدنی اور جالیاتی نہ ناتھ دیکھتے ہیں نہ پگہی اور سرپٹ ہینگاں پر چڑھ جاتے ہیں، اب چاہے منھ پُھٹے یا گوڑ ٹوٹے، ان سے کوئی مطلب نہیں، ان کو بس اپنی دکانداری سے مطلب ہے اللہ کرے ان کی دکان چلتی رہے۔
قارئین با تمیکن! یہ ہیں ہندوستان میں پائے جانے والے مخلتف مسلکی پتھ، اب پتہ نہیں ان میں سے کون سا پتھ دین ہے اور کون سا مسلک؟ ہمارے لیے تو فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ کون روشن شاہراہ ہے اور کون تاریک سے تاریک تر، اگر آپ فیصلہ کر سکتے ہوں تو ہمیں ضرور مطلع کریں!
اہل قرآن بھی ان ہی میں سے اٹھے اور جماعت السلمہن غربا اہل حدیث ۔۔ان پر کوئ مضمون درکار ہے
اہل قران جماعت المسلمہن اور غرباء کو کیوں بھول گئے ۔مضمون نگار نے حنفی مسلک کے تحت دو گروہ بتلائ پر سلفیوں کے فرقوں کو بھول گئے ۔نا انصافی ہئ ایسے مضامین بغیر ایڈیٹر کے نوٹ کے اپ لوڈ نہ کریں یہی فرق ہے پورٹل اور کاغذ کا ۔۔۔
ایک توں بندے دا پتر رہ گیا ایں باقی سارے ایویں نیں۔ جہالت بھری تحریر صرف بھڑاس اور دل کا غبار