صحابہ ہمارا عقیدہ

کاشف شکیل عقائد

انبیاء کرام کے بعد سب سے برگزیدہ جماعت صحابہ کی جماعت ہے۔ یہ اپنے اقوال و اعمال سے دین کو ہم تک پہنچانے والے ہیں یہ اللہ کا انتخاب اور آفتاب رسالت کی کرنیں ہیں۔ جو چیز جنت میں جانے کے بعد سب سے بڑے انعام کے طور پر اہل جنت کو ملے گی وہ اللہ نے صحابہ کو دنیا ہی میں عطا فرما دی۔ قرآن میں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کہہ کر ہر صحابی سے اپنی رضامندی کا اعلان کر دیا۔ صحابہ کرام راہ خدا کے سپاہی اور مصطفی کے فدائی تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار قریش کے ایلچی عروہ بن مسعود ثقفی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کے تعلق خاطر کا منظر دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھا کہ اے میری قوم کے لوگو! میں نے ایران روم جیسی عظیم سلطنتوں کے فرمانرواؤں کو دیکھا حبشہ کے بادشاہ سے ملاقات کی لیکن بخدا قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم و توقیر نہیں کرتے جتنی محمد کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ کھنکار بھی تھوکتے ہیں تو کسی نہ کسی کے ہاتھ پر پڑتا ہے اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو صحابہ اس کی بجاآوری کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ وضو کے پانی کے لیے لیے لڑ پڑیں گے۔ جب وہ بولتے ہیں تو صحابہ یوں گوش بر آواز ہو جاتے ہیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ وہ کبھی بھی اپنے آواز اپنے پیغمبر کی آواز سے بلند نہیں کرتے اور فرط تعظیم کے سبب آپ کو بھرپور نظر سے نہیں دیکھتے۔
صحابہ عظمتوں کا عنوان اور احترام کا موضوع ہیں۔ ہر دھوپ چھاؤں میں انہوں نے نبی کا ساتھ دیا۔ مکہ میں کفار کا مشق ستم بنے، گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی، غزوات میں جاں فروشی کے ساتھ لڑے ہر مصیبت برداشت کی مگر پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی بلکہ ایمان میں اضافہ ہی ہوا:

فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (3:146 آل عمران)

یعنی جو مصبتیں ان پر راہِ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور اللہ استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے.
صحابہ کرام کی قربانیوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ رسول اللہ کے لئے جانثاری کا ایک باب ہے، کبھی بلال کے پسینہ سے تر ہونے والی مکہ کی گرم ریت نظر آتی ہے تو کبھی سیدنا ابو سلمہ کا گھربار، بیوی، لخت جگر اور ساری آسائشیں چھوڑ کر عازم مدینۃ الرسول ہونا۔ ہر طرف ایک داستان ہے خلوص و وفا کی، ایثار و قربانی کی، بے لوثی و سرفروشی کی۔
صحابہ تو صحابہ صحابیات نے فدائیت کا جو نمونہ پیش کیا تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جب جنگ احد میں یہ افواہ پھیلی کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے تو مدینہ کی عورتیں گھبراہٹ کے عالم میں گھروں سے نکل کر رستے پر کھڑی ہوگئی اور بےتابی سے ادھر ادھر دیکھتیں کہ کوئی اس طرف سے آتا دکھائی دے اور اس سے رسول اللہ کے احوال دریافت کریں۔ ایک انصاریہ کو ایک شخص احد سے واپس آتا دکھائی دیا تو اس نے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا، اس نے اس عورت کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ جنگ میں تمھارا باپ شہید ہوگیا ہے۔صحابیہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ کے بارے میں نہیں بلکہ رسول اللہ کے بارے میں بتاؤ۔ رسول اللہ کیسے ہیں؟ اس آدمی نے کہا کہ اس غزوے میں تمہارا بھائی بھی مارا گیا۔ صحابیہ نے تڑپ کر کہا کہ مجھے میرے بھائی کے بارے میں بتانے سے پہلے رسول اللہ کے حال کی خبر دو۔ اس آدمی نے کہا کہ رزم حق و باطل میں تمہارا سہاگ بھی اجڑ چکا۔ عورت نے کہا کہ صبر کا امتحان مت لو، بس مجھے میرے محبوب حقیقی، میرے پیغمبر کی خیریت سے آگاہ کرو، مجھے اللہ کے فرستادے کی عافیت مطلوب ہے۔ اس کے بعد جب اس نے رسول اکرم کو صحیح سلامت واپس ہوتے دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا اور بے اختیار کہہ اٹھی “کل مصیبۃ بعدک جلل یا رسول اللہ” اے اللہ کے رسول اگر آپ سلامت ہیں تو دنیا بھر کی ساری مصیبتیں ہیچ ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ جن سے عرش والا راضی ہوا ان سے کچھ نام نہاد مسلمان نالاں ہیں۔ جن کو اللہ نے معافی کا پروانہ دیا روافض ان کا گریبان چاک کرنے پر آمادہ ہیں۔ جن کے دلوں کو اللہ نے جھانک کر دیکھا اور ان کے گزشتہ اور آئندہ کے سارے گناہوں کی معافی دے دی یہ نیم رافضی ان کو خاطی اور باغی قرار دے رہے ہیں۔ جن سے اللہ نے بھلائی (جنت) کا وعدہ کیا ہے یہ بے ضمیر لوگ ان کے بارے میں برا سوچتے ہیں۔ جنہوں نے اپنا لہو نچوڑ کر شجر اسلام کو سیراب کیا وہ رافضیوں اور نیم رافضیوں کے لیے ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ شاتمین صحابہ کا نوٹس لیا جائے اور ان کے اعتراضات کا عقل و شرع سے جواب دیا جائے اور مقام صحابہ کو واضح کیا جائے۔
اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000