ہندوستان بدل چکا ہے

ابوالمیزان منظرنما

جن‌ گھروں کو لوٹنا ہے ان پر نشان لگایا جاچکا ہے۔ ڈاکو اب کسی بھی وقت اپنا کام کرسکتے ہیں۔

ایسے حالات میں کس ردعمل کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ مثالیں سامنے نہ ہوں تو تاریخ میں موجود ہیں۔

کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جس میں ہر محاذ پر کام آنے والی صلاحیتیں نہ ہوں، البتہ اکثریت کو قیادت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پانی بنا کہیں زندگی نہیں ہے، مگر پانی بھی کبھی کبھی مرجاتا ہے تو نئے زخم کی حاجت ہوتی ہے، کہیں کہیں رک جاتا ہے تو دشا دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہر ردعمل کا ایک موقع ہوتا ہے، ہر سچویشن کی ایک ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ دروازے پر ہڈی کے انتظار میں کھڑا‌ ہوا کتا اگر گھر میں گھس آئے تو انسان اپنے ہاتھوں اور پیروں کو لاٹھی بنالیتا ہے۔ دانت صرف شوربے دار ہڈیوں سے گوشت کھینچنے کے لیے نہیں بنے ہیں، دست درازی کرنے والے کی نسوں کو چیر کر لال رنگ کا پانی بھی نکال دیتے ہیں۔

گھر یا زمین سگا بھائی بھی غصب کرلے تو اس پر کوئی بات چیت، کوئی درخواست، کوئی حوالہ، کوئی تعلق کام نہیں کرتا۔ جتنی قوت سے وہ غصب کرتا ہے اس سے زیادہ طاقت سے واپس لینا پڑتا ہے۔

جیسے ہر غذا کی ایک تاثیر ہوتی ہے اسی طرح ہر مٹی کی ایک تقدیر بھی ہوتی ہے۔ آلو سے کبھی ہڈی نہیں نکلتی، ٹماٹر میں کہیں کانٹے نہیں ملتے۔ کاشت کاری لائق مٹی میں اینٹ مل سکتی ہے پتھر نہیں ملتے۔ ریگستانوں میں پکنے والے، جنگلوں میں اگنے والے اور پہاڑوں میں برسنے والے انسانوں اور ہموار زمینوں میں پلنے والے انسانوں کی سوچ، سمجھ، ہمت اور طاقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بیل کے پیچھے چلنے والے کو گھوڑے کی لگام پکڑادوگے تو وہ چابک کا استعمال کہیں اور کرلے گا۔

قیادت اور کرسی کو مکس نہ کرو، جس کی نظر بلند ہو وہ قائد ہے۔ کرسی والا تو واچ مین بھی ہوسکتا ہے۔
قیادت اور علم کو بھی مکس نہ کرو، جس کی زبان میں جادو ہو وہ قائد ہے۔ علم والا تو بداخلاق بھی ہوسکتا ہے۔
قیادت اور اثر و رسوخ کو بھی مکس نہ کرو، جس کے دل میں درد ہو وہ قائد ہے۔ اثر ورسوخ والا اپنی مصلحتوں کا غلام بھی ہوسکتا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی تاثیر دیکھتے ہوئے یہ بھی تو سوچو وہ پودے کس نے لگائے تھے، انھیں پانی دینے والے کون تھے؟

مولانا محمود الحسن، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد، عبد المجید خواجہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین

یہ نام سن کر بہت سارے پڑھے سنے ہوئے منظر یاد آرہے ہوں گے۔ بہت سارے الفاظ ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہوں گے۔ مارچ، مورچہ، آندولن، تحریک، لاٹھی چارج، گولیاں، قید و بند، زنداں، پھانسی، کالاپانی…

یہ جو ستر سال آزادی سے گزرے ہیں اس سے پہلے صرف راتیں ہی نہیں دن بھی بہت کالے کالے ہوا کرتے تھے۔ تب تو ایک راستہ پاکستان کی طرف جاتا بھی تھا، آج سارے راستے قبرستان جاتے ہیں۔ ڈیٹینشن کیمپ زندہ لاشوں کا قبرستان ہی ہوتا ہے۔

آزادی کا سبق بہت پڑھ چکے، اب امتحان دو!

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ام ھشام

شاندار

ام ھشام

جب مسجدیں محفوظ نہ رہی ہوں، مصلوں پر مصلین کے خون کے چھینٹے سجے ہوئے ہوں ، تعلیم گاہیں مقتل بن چکی ہوں لائبریری کے درو دیوار ہائی جیک ہوچکے ہوں جن میں گولہ باری داغی جارہی ہو اپنا مستقبل تلاشنے آئے بھانت بھانت کے بچے خود بھارتیوں کا مستقبل بچانے نکل پڑے ہوں اور نہتے اپنے جسم پر لاٹھیاں کھارہے ہوں تب ایسے حالات ہمیں کسی اور بڑے طوفان کا پتہ دیتے ہیں وقت آگیا ہے کہ سبھی ذی شعور ، صاحب صلاحیت وصاحب زبان و قلم آگے آجائیں سر جوڑ کر حکمت عملی سے بربریت کے اس پنجہ… Read more »

Khan jalaluddin

اے کاش کہ کرسی نشین واچ مین کا ہی کردار ادا کرلے جائیں۔تو بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔
قائدین کو نیند سے اٹھائیں نہ جاگیں تو “باعزت طریقے” سے جگائیں۔
لیکن اب انھیں مزید نہ سونے دیں۔