باسمہ تعالی
تمام تعریفیں وحدہ لا شریک کے لیے ہیں جس کے ہونے کے یقین نے مخلوقات کو جینے کی امید بخشی ہے۔ تمام باتیں اسی خالق کی باتوں سے نکلتی ہیں اور تمام باتوں میں اسی کا نام گونجتا ہے۔ اسی کے نام کے لیے ایک قوم جیتی ہے، اسی کے نام کے لیےق ایک قوم مرتی ہے۔ اسی کے نام پہ اصلاحات ہوتی ہیں اور اسی کے نام پہ تباہ کاریاں ہوتی ہیں۔ اسی کے نام پہ دیر و حرم کے ڈنکے بجتے ہیں اور اسی کے نام پہ عوام کو تہ تیغ کیا جاتا ہے۔ اسی نے عقل و خرد کے فیکٹریاں برپا کی ہیں اور اسی نے جذبات و آرزووں کی پرورش کے لیے ایک قوم کو رکھ چھوڑا ہے۔ اسی نے مظلوموں میں نجات دہندہ پیدا کرنا ہے، اسی نے نجات دہندہ کے اشارے پہ جبابرہ کی پیشانیوں کو مستضعفین کے قدموں پہ رگڑنا ہے۔ کوئی بعید بات نہیں کہ کل آسمان سے خون کی بارش ہو اور فرعون اور اس کا جتھہ ٹھہاکا مار مار کر ہنسنا شروع کردے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل زہریلی تہذیب کی کھیتی ہمارے اور آپ کے گھر، کھلیان، کنبے، لاڈلے، بچیاں، بچے، ہماری بیٹیاں، ہماری عورتوں اور ہماری وراثتوں کو کس بھاؤ میں خریدیں اور بیچیں۔ بھیڑیوں کے اس دور میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو دیکھ کر صرف وہی مسکرانے سے باز رہے گا جس کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسی حالت میں کیا بکریوں اور بھیڑ کی نفسیات والے بھیڑیے کی سفاکیت کو سمجھ سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ کسی نے کہا:
I laugh at silence of the sheep, waiting for its turn”
(میں بھیڑ کو دیکھ کر ہنستا ہوں کی کہ وہ ذبح ہونے کی باری کا انتظار کرتا ہے) مگر جب دور بھیڑیوں کا ہو، جب بھیڑیے زیادہ ہوجائیں تو یقینا آپ کہہ سکتے ہیں کہ:
I laugh at howling wolves running to cities…..perhaps ….to be hunted by an identified object called death.”
بھیڑیا ہونا کوئی بری بات نہیں کہ انسان کے اندر ایک بھیڑیا ہمیشہ، ہر دم پیدا ہوتا ہے اور جیتا جاگتا ہے۔ بھیڑیوں کی معنوی شکلیں جنگلوں میں نہیں انسانوں کے جسموں میں بستی ہیں۔ بھیڑیا ہونا اچھا ہے کہ بہیمیت سے انسان بڑی قریب کی نسبت رکھتا ہے مگر بہیمیت اندروں میں زندہ رہے اور باہر آکر تباہ کاریاں نہ مچائے اس کے لیے خدائی احکامات اور الہیاتی تاملات میں غور کرتے ہوئے معاشرے کے دنیوی اور اخروی اقتصاد پہ ایک ساتھ توجہ کرنی پڑتی ہے، تبھی ایک مہذب اور مکرم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اندروں کے بھیڑیے کو مارنے کے لیے ضمیر جیسے قاتل سے تعلق رکھنا ۔۔۔۔خواہ اجرت پہ یا جذباتیوں سے ادھار لے کر ۔۔۔ ہر شخص کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے۔
بھیڑیے اور جدید دور:
جدید دور جتنا پیارا، معصوم اور بھولا بھالا بتایا جاتا ہے اتنا ہے نہیں۔ جدید دور میں جہاں سے روشنی آتی ہے وہاں سے لے کر روشنی کی آخری لکیر تک ہر قدم اسے بھیڑیوں سے سامنا کرنا پڑا ہے خواہ فرانس ہو، امریکا ہو، روس ہو یا جرمنی یا پھر امّاں برطانیہ۔ ہر دم ان ممالک میں اندرون کے بھیڑیے سے جنگ جاری رکھی گئی اور مرتے مٹتے اس آسیب سے خود کو بھرپور انداز میں بچا بھی لیا گیا۔ مگر وہ بھیڑیے کہاں گئے؟ وہ کس زمین دوز دنیا میں جا چھپے؟ اندرون کی روشنی سے بھاگتے ہوئے بھیڑیوں نے ان تمام مقامات میں پناہ گاہیں تیار کرلیں جہاں تہذیبیں ماضی سے لبالب اپنی یادوں کی دنیا میں گم تھیں۔ مغربی سوچ اور اس کے تسلط کو بھیانک حادثہ تصور کرتے ہوئے دوسری تہذیبیں اپنی ٹوٹ پھوٹ سے ابھرنے کی کوشش کرتی رہیں تھیں۔ مغربی سوچ خود تو اس قابل ہوگئی کہ ضمیر، حق کے معنوں اور وجود سے متعلق تفہیمات کو سمجھ سکے اور اپنے خدائے بر تر و بالا کو ڈھونڈنے کی معرفتوں کو سلام کرے مگر کیا مشرق ان بھیڑیوں سے نابلد تھا جو اس کی تہذیبوں میں چھپ کر اپنی بہیمیت سے دنیا پر اجارہ داری حاصل کرنا چاہتے تھے؟ کیا جدید دور کے اندروں سے بھاگے ہوئے بھیڑئے اب ہماری تہذیبوں میں گھس گئے ہیں اور ایک جارحانہ اور ہولناک ماحول کو ایجاد کرنے کی خاطر تگ و دو میں مصروف ہیں؟
مغربی سوچ اور تجربوں کا سب سے بہترین تحفہ اس کا قانونی تصور ہے جو دنیا بھر کے ممالک میں نافذ ہے۔ اسی کا احسان ہے کہ سیکولر آئین ہمیں ملا اور ہم نے معاشرے کے تمام پیمانوں کو نئے انداز میں ترتیب دینے کی کوشش کی۔ اسی قانونی تصور نے social justice کو مختلف پیرایے میں ہم تک پہنچایا۔ ہم نے یونیورسٹیز، پبلک انسٹیوشنز اور جدید تعلیم کے ذریعے ایک قوم کی تربیت کی اور اندرون کے بھیڑیے سے خود کو محفوظ رکھا۔ مگر یہ کون ہیں جو مذہب اور تہذیب کے نام پہ جدید معاشروں اور شہروں میں گھس پڑے ہیں؟ یہ کون ہیں جو ہمارے بچوں کے نرخروں کو اپنے منہ میں دبوچے شہروں میں گھوم رہے ہیں؟ کیا یہ بھیڑیے ہیں؟ کیا ان بھیڑیوں سے نپٹنے والا کوئی نہیں؟
ان بھیڑیوں سے نپٹنے کے لیے انسان کی شکل میں انسان اپنی غاروں سے کب نکلیں گے؟
بھیڑیا کی نظریں تاریخ پہ:
بڑے علمی طبقوں میں یہ بات عام ہے کہ تاریخ کو استعمال کرنے والا موقع شناس اور تخریبی تو ہوتا ہے جب کہ تاریخ کو سمجھ کے جینے والا ہمیشہ عوام کا آدمی اور تعمیری مزاج والا شخص ہوتا ہے۔ ایک ذی شان اور عالی مرتبے والے شخص سے کیا امید کی جاتی ہے؟ یقینا اس سے یہی امید کی جائے گی کہ وہ اپنے ملنے جلنے والے انسانوں سے جب بات کرے تو اس چیز کی چھاپ چھوڑ دے جس کے لیے وہ مشہور ہے خواہ اعلی اخلاق ہو، غیرت کے مظاہرے ہوں یا سخاوت کے پیمانے۔ معاشرے کو کیف، سرور اور امن کے ماحول میں مبتلا کرنے والے کے ارادے ہمیشہ تعمیری ہوتے ہیں۔ وہ جب تاریخ کو پڑھتے ہیں تو اس سے حاصل سبق کو ہمیشہ معاشرہ سازی میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک شیر کے بچے کا خواب یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہوکر بڑا شیر بنے اور ان تمام روایتوں کو کام میں لائے جو اس سے پہلے شیر کی نسلوں نے کیا یعنی بہیمیت کو باقی رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ اور ان اصولوں پہ چلتا رہے جس کے بارے میں خدا ان کی جانب الہام کرتا رہتا ہے۔ ایک بھیڑیا بھی غالبا یہی کرے گا یعنی اپنی درندگی باقی رکھنے کے لیے وہ فطری اصول سے سرتابی نہیں کرے گا۔ اب خدائے تعالی بھیڑیے کو انسانی تاریخ سمجھنے کی سوجھ بوجھ دے دیں تو وہ تاریخ کو کس طرح سمجھے گا؟ یقینا وہ تاریخ کو ان تمام عوامل کو زندہ کرنے کے لیے سمجھے گا جس کی بنیاد پہ درندگی اور بہیمیت کا بول بالا ہو۔ مذہب اور تہذیب دونوں اس کے لیے آلہ کار ہوں گے۔ وہ چاہے گا کہ تاریخ زندہ کرنے کا کھیل کھیلتا رہے اور اس کی بہیمیت پہ مبنی طاقت کے مظاہرے میں اضافہ ہوتا رہے۔ تاریخ زندہ کرنے کے عمل میں تہذیب اور مذہب دونوں کے کسی نہ کسی طور کے بھیڑیوں کی ضرورت تو پڑتی ہے مگر تاریخ کو آگے بڑھانے کے لیے، تاریخ مزید کہی جانے کے لیے انسان کی ضرورت پڑتی ہے (جس سے یہ بھیڑیا شاید ناواقف ہوتا ہے)۔ بھیڑیوں کا قتل عام دراصل انسانیت کی حفاظت کے لیے، انسانی کرامت کو باقی رکھنے لیے انتہائی ضروری اور لازمی ہے۔ بھیڑیے روشنی کی چکاچوند جھیل نہیں سکتے خواہ اندرون کی ہو یا شہر کی۔ بھیڑیا تاریخ زندہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے مگر تاریخ لکھنے اور کہنے کا کام صرف انسان کرتا ہے۔
آپ کے تبصرے