مینٹل ہیلتھ پر الحمدللہ اب اتنی گفتگو ہونے لگی ہے کہ لوگ سوچنے بھی لگے ہیں اور مدد بھی ڈھونڈتے ہیں اس لیے کہ:
مجھے ڈر لگتا یے۔
مجھے شدید گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں۔
میں بہت اداسی اور تھکن میں مبتلا ہوں۔
میرے ساتھ زیادتی ہوئی جس کی وجہ سے میری خود اعتمادی ختم ہوگئی، میری عزت نفس کچلی گئی۔
شاید میں ڈیپریشن میں مبتلا ہوں۔
میرے بدن پر نیل ہیں اور میری روح بدزبانی سے مجروح ہے۔
مگر مجھے لگتا ہے کہ ایک اور حوالے سے آگاہی عام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو بھی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے اگر آپ:
دوسرے کو اذیت پہنچا کر سکون محسوس کرتے ہیں۔
کسی کی تعریف یا خوشی سے دل میں شدید بے آرامی اور نفرت محسوس کرتے ہیں۔
دوسروں کو زبانی، جسمانی یا جذباتی اذیت رسانی کی اکساہٹ محسوس کرتے ہیں۔
خواتین یا معصوم بچوں کو غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔
دوستوں، ازواج، رشتے داروں کو باہم محبت اور خوشی سے ملتا جلتا دیکھنے پر جلتے کڑھتے ہیں۔
اگر آپ کا ذہن منفی اور نقصان پہنچانے والے خیالات سے بھرا رہتا ہے۔
نازیبا فلمیں دیکھنے کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
محسوس کرتے ہیں کہ آپ سے وابستہ اہم لوگوں کو اکثر آپ سے شکایات رہتی ہیں۔ یا وہ آپ سے ڈرے ہوئے رہتے ہیں۔
اکثر شدید غصہ آتا ہے اور چیزوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
آپ کو دوسروں کے درد کا احساس نہیں ہوتا اس لیے وہ بار بار آپ کو احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا دین ہمیں لوگوں کے لیے اچھا سوچنے اور حسن اخلاق کی دعوت بھی دیتا ہے اور اس کی تربیت بھی کرتا ہے۔ اور آپ کو ان تربیتی ذرائع سے خود کو جوڑ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ کوشش کے باجود ان عادات پر قابو نہیں کر پارہے تو ضروری ہے کہ آپ کسی سے مدد کے لیے رجوع کریں۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔
دیکھیے جب کوئی بھنور میں پھنس جائے تو اس کے لیے کسی خارجی سہارے کو تھامنا ضروری بھی ہوتا ہے اور مفید بھی۔
ذاتی تجربات کے حوالے سے
ایک مرتبہ ایک ایسے صاحب نے مدد کے لیے ایک ماہر سائکائٹرسٹ سے رجوع کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں مگر انھیں ان بچوں کے بارے میں نامناسب خیالات آتے ہیں۔ اس لیے وہ مدد چاہتے ہیں۔ اگرچہ موقع پر موجود ڈاکٹر خواتین و حضرات کو غصہ آیا مگر راقم کا یہی خیال تھا کہ ان صاحب کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ مدد کے لیے خود آئے ہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ یا تو اکیلے لڑتے ہیں یا پھر نفسانی خواہشات کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں۔
ایک صاحب نے رجوع کیا کہ وہ اپنی بیوی پر تشدد کرتے ہیں اور بعد کو انھیں افسوس ہوتا ہے اس لیے وہ اس عادت بد سے چھٹکارا پانے کے لیے واقعی مدد چاہتے ہیں۔
بہادر بنیے۔ اپنے اندر ایسی علامات محسوس ہوں جن سے کوشش کے باوجود چھٹکارا ممکن نہ ہوتا ہو تو مدد کے لیے رجوع کیجیے۔ آپ بھی ایک ایسی مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں جہاں سکون دوسروں کو اذیت دے کر نہیں بلکہ حسن عمل سے کشید کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں مجھ سے 70 سے 80 فیصد پاکستانی کسی نہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں کیوں ہم جن حالات میں زندگی بسر کر رہے جن آزمائشوں کا شکار ہیں انزائٹی، ڈپریشن، فسٹریشن غصے یا کسی اور صورت میں اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں خود محسوس بھی کرتے ہیں لیکن کہتے اس لیے ڈرتے ہیں کہ لوگ ہمیں نفسیاتی یا پاگل کہیں گے، بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں جنہیں ایسے مسائل کا سامنا ہے نہ وہ کہہ سکتے نہ میں نشاندہی کرسکتا ۔ ہم سب ہی بزدل ہیں ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے سب سے… Read more »
ماشاءاللہ بہترین تحریر۔ لیکن ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کی مدد کرنے سے زیادہ ایسے لوگوں کا مذاق بنانا پسند کرتا ہے۔ اور ایک ایسی خود اعتمادی میں جیتا ہے جس میں لوگ خود کو کسی معذور کے ساتھ جڑا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے چاہے وہ آپ سے کتنے ہی قریب کیوں نا ہوں۔