مخلوط تعلیم کی مختصر تاریخ اور اس کے نتائج

عبدالوحید عبدالقادر سلفی سماجیات

موجز تاريخ التعليم المختلط ونتائجه

مقالہ نگار: الشيخ محمد ضياء الرحمن الأعظمي

ترجمانی: ابو عفاف عبدالوحید سلفی


نوٹ: زیر نظر مضمون جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے مؤقر رسالہ مجلۃ الجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ کے شمارہ نمبر ۲ /۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔ شیخ محمد ضیاء الرحمن الأعظمی(رحمہ اللہ) عالَمِ بحث و تحقیق کے امام ہیں، ان کا یہ علمی شاہکار مرد و زن کی مخلوط تعلیم یا Co-Education کی تاریخ، اسباب و عوامل اور اس کے بھیانک نتائج سے پردہ اٹھاتا ہے، نیز معاشرے پر اس کے اخلاقی اور خاندانی اثرات کی سنگینی کو مغربی مفکرین اور ادباء کے اقوال و تحقیقات کی روشنی میں اجاگر کرتا ہے۔ مضمون کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر قارئین کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔


میدان تعلیم میں اختلاط مرد و زن مغربی تہذیب و تمدن کے ثمرات میں سے ہے، حالانکہ مغربی اقوام کے ماضی کی تاریخوں کا مطالعہ کرنے والا مخلوط تعلیم کا نام و نشان تک نہیں پاتا۔ یونانی تہذیب جو کسی زمانے میں ترقی اور تمدن کے اعلیٰ مدارج پر قائم تھی ان کے یہاں بھی مرد و زن کی تعلیم کا علاحدہ انتظام ہوا کرتا تھا۔ اور رومن تہذیب جو حُرّیت کی علمبردار اور اظہار رائے کی آزادی میں اس کا کوئی مثیل نہ تھا، اس کے یہاں بھی مخلوط تعلیم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، اور ہمارے سامنے چینی تہذیب و تمدن کی واضح مثال بھی موجود ہے جس نے تعلیم کے تمام اعلی شعبوں میں زمانہ قدیم سے اب تک کافی ترقی کی ہے پھر بھی ان کے یہاں تعلیم میں اختلاطِ مرد و زن کا وہ تصور نہیں جو مغربی تہذیب کے علمبرداروں کے یہاں نظر آتا ہے اور جن کے نقش قدم پر کئی اسلامی ممالک بھی چل پڑے ہیں۔
دنیا میں امریکہ پہلا ملک ہے جس نے اس نظام تعلیم کو اپنایا۔ انگریزی کا لفظ(co-education) یعنی(مخلوط تعلیم) سب سے پہلے 1774ء میں استعمال ہوا۔ ایک طویل مدت تک امریکہ کے علاوہ کسی ملک نے اس نظام تعلیم کو نہ اپنایا۔ یوروپی ممالک میں بھی اس طرز تعلیم کی شروعات آج سے تقریبا 70 سال قبل ہوئی، پھر رفتہ رفتہ دیگر ممالک نے بھی اپنے یہاں اس کی شروعات کی۔

مخلوط تعلیم کے انتشار کے اسباب:
صنعتی انقلاب:
یوروپی ممالک میں صنعتی انقلاب کے بعد عورت کسبِ معاش کے لیے گھر سے نکلنے پر مجبور ہوگئی، بھاری مقدار میں اشیاء کی پروڈکشن کے لیے عمّال کا ڈیمانڈ بڑھ گیا، تو عورتیں بھی بہت سے فیلڈ میں مردوں سے مقابلہ آرائی کرنے لگیں، وقت گزرنے کے ساتھ خواتین کو احساس ہوا کہ وہ مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اس لیے کہ ان کے درمیان تعلیم و مہارت کا فقدان ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے اس نے میدان تعلیم کا رخ کیا۔ جب اس تعلیم کا مقصد اساسی یہ تھا کہ خواتین کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مردوں کے شانہ شانہ تمام مجالات میں کام کرسکیں تو انھیں مدارس و مراکز تعلیم میں مردوں کے ساتھ بیٹھنے اور لیکچر سننے میں کوئی حرج محسوس نہ ہوا، کیوں کہ گھر سے باہر دونوں کے لیے میدان عمل ایک ہی طرح کی تعلیم و تدریب کا متقاضی تھا۔

معاشی و اقتصادی چیلنجز:
جب شرح خواندگی میں اضافہ ہوا اور علم حاصل کرنے والوں کی کثرت ہوگئی تو مغربی ممالک کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ کھڑا ہوگیا کہ مرد و زن جب اتنی بڑی تعداد میں تعلیم گاہوں کا رخ کرنے لگے ہیں تو دونوں جنسوں کے لیے علاحدہ مدارس و مراکز کا انتظام کرنا اقتصادی ناحیے سے کافی دشوار کام تھا، تو حکومتوں کو مخلوط تعلیم میں اس کا حل نظر آیا تاکہ وہ بھاری بھرکم مصروفات سے بچ سکیں۔ چنانچہ اس طرز تعلیم کو حکومتی سطح پر آگے بڑھایا گیا اور اس وقت کے حالات و ظروف کے مطابق حکومتوں کو اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی، اور مغربی تہذیب کے صنعتی انقلاب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد بھی ملی، اس طرح نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ ایک دوسرے کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ اس طرح کے مدارس کھلنے کے بعد بھی مالدار اور اعلی طبقات نے اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کے لیے نہ بھیجا بلکہ وہ ایسے پرائیویٹ اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنا پسند کرتے تھے جہاں مخلوط تعلیم نہ ہو، جیسا کہ Encyclopedia of Social Science میں اس تعلق سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ”معاشرے کا اشرافیہ طبقہ اس طرح کی مخلوط تعلیم کو پسند کرتا تھا اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس طرح کے مدارس میں تعلیم دلاتا تھا“۔
ایک فرانسیسی مصنف میئر اپنی کتاب (ارتفاع التعلیم فی القرن العشرین) میں رقم طراز ہے: ”کہ اکثر لوگ اس جدید نظام تعلیم کو ناپسند کرتے ہیں جس میں مرد و زن کے درمیان کوئی تفریق نہیں اور جس کے سبب فسق و فجور میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے“۔ اور ہمارے سامنے ملک روس کی واضح مثال بھی موجود ہے کہ اس نے کمیونسٹ/اشتراکی انقلاب 1920- 1943ء کے بعد مخلوط طرزِ تعلیم کو اپنایا، مگر رُبع صدی گزرتے گزرتے اس نے اس نظام تعلیم کو منسوخ کر دیا اور قریب تھا کہ یورپی ممالک بھی 1943ء میں اس نظام تعلیم کو منسوخ کر دیتے کیوں کہ اختلاط مرد و زن کے سبب فواحش و منکرات بالکل عام ہوچکے تھے۔

مخلوط تعلیم کے نتائج:
اس طرز تعلیم کے سبب معاشرے میں فسق و فجور عام ہوگیا؛ کیونکہ اس کی وجہ سے مرد و زن کے آپسی ملاقات اور مشاہدات کا دروازہ کھل گیا، اور یہیں سے فواحش و منکرات کو پنپنے کا موقع ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ حصول تعلیم کے دوران انسان اپنی عمر کے ایسے مرحلے میں ہوتا ہے جب اسے اپنی زندگی کے رخ اور ہدف کو متعین کرنا ہوتا ہے، اور خیر و شر کے راستوں کی تمییز سیکھتا ہے اور عام طور پر یہ دیکھا گیا کہ طلبہ اس مرحلے میں اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہیں، تو اس تعلیم کے نتیجے میں ایک ایسی جدید نسل تیار ہوئی جس کی نظر میں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور اس فکر کو پروان چڑھانے میں اس معاشرے کا بھی ہاتھ رہا جو اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوکر زندگی گزاررہا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ بیہودہ فلمیں، فحش لٹریچر، نائٹ کلب، رقص گاہیں، مے خانے اور منکرات کے اڈے کلچر و ثقافت کے نام سے معاشرے کو اخلاقی پستی کی طرف ڈھکیلتے رہے۔
میرے بھائیو! اب ہم یہاں بعض ان حقائق سے پردہ اٹھانا چاہیں گے جو خود مغربی ادباء ومصنفین نے بیان کیے ہیں:
ڈاکٹر ہوبارٹ ہرس کوز کہتے ہیں: ”وہ طالبات جو شادی سے پہلے زنا کی شکار ہوجاتی ہیں ان کا تناسب اب 80٪ تک پہنچ چکا ہے“۔
وینسٹائن کہتا ہے: ”مخلوط مدارس میں زانیہ لڑکیوں کا تناسب جاہل لڑکیوں سے کہیں زیادہ ہے“۔ یہی شخص ورجینیا کے ایک اسکول کے سلسلے میں اپنے ایک سروے میں کہتا ہے: ”زانیہ طالبات کا تناسب یہاں 75٪ سے 80٪ تک پہنچ چکا ہے“۔
میشیگن یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے: ”ہماری یونیورسٹی میں پاکدامن طالبات کا تناسب 20٪ سے زیادہ نہیں“۔
سراکوز یونیورسٹی کے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ چھ ہزار لڑکیوں میں سے چار سو لڑکیاں زنا کی وجہ سے حاملہ ہیں۔ اور ایک مخلوط تعلیمی ادارے کے سروے میں یہ چوکانے والی تحقیق سامنے آئی کہ صرف 20٪ لڑکیاں ہی شادی بیاہ کے معروف دینی طریقوں سے رشتہ ازدواج قائم کرنا چاہتی ہیں، جبکہ 20٪ لڑکیاں زنا کا شکار ہوکر اس سے پیدا ہونے والے بچوں کو اپنانا چاہتی ہیں اور 60٪ لڑکیوں کا خیال یہ ہے کہ انھیں زناکاری میں کوئی حرج نہیں اور منع حمل کے تمام وسائل بھی استعمال میں لاتی ہیں۔
اس طرح کے تکلیف دہ نتائج کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسی یونیورسٹیوں میں لڑکیاں منکرات و فواحش سے باز نہیں آتیں بلکہ بعض تو شرم و حیا اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے ہر سال ”عید الزنا“ مناتی پھرتی ہیں۔ نعوذ باللہ
ڈاکٹر مارگریٹ میڈ کہتی ہیں: ”کالجز اور یونیورسٹیوں کو پاکدامن طالبات کا قلعہ سمجھا جاتا تھا مگر اب فواحش و منکرات اور عاشقوں کی تلاش و جستجو کے اڈے بن چکے ہیں“۔
میرے عزیزو! ہم اصحاب عقل و فکر سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یوروپین اور امریکن یونیورسٹیوں کے مخلوط نظام تعلیم کے بھیانک نتائج پر غور کریں اور ہوش کے ناخن لیں کہ بعض ممالک اس طرح کے مخلوط نظام تعلیم سے اب چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن بہت دیر ہوچکی ہے اور سیلاب حد سے گزر چکا ہے۔
اسی لیے میں قوم کے اہل بصیرت اور زندہ ضمیر اور خیرخواہوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس طرح کے بھیانک نتائج پر غور کریں اور مرد و زن کی مخلوط تعلیم سے پرہیز کریں۔
امید کہ لوگ اس پر غور کریں گے اور اپنی امت کو فواحش و منکرات کے مراکز سے محفوظ رکھیں گے۔ عقلمند تو وہی ہے جو اپنے سابقین کی حالات سے عبرت حاصل کرے نہ کہ اپنے آپ کو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا سامان بنائے۔

آپ کے تبصرے

3000