2019 کا آخری مضمون

ام ہشام سماجیات

ہم سبھی نے اپنے اپنے زعم کے مطابق اپنے لیے نیکیوں کے دائرے کھینچ رکھے ہیں۔ جس کی پیمائش کبھی اس کے متعین نصف قطر سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ اور جن کاموں کو ہم نے اپنے لیے نیکیاں سمجھ رکھا ہے ہم صرف وہی کام کرتے ہیں۔

ایک مسلمان کی سبھی اچھائیاں، اس کی رحم دلی، خدا ترسی، سخاوت صرف اس کے اہل و عیال اور رشتے داروں تک ہی اگر محدود رہ جائیں تو پھر یہ کیسی نیکی؟

ایمان محض خود کو اور اپنے قریبی لوگوں کو نیک بنالینے کا نام نہیں ہے۔ ایمان محض ایمانیات پر یقین رکھنے کا نام نہیں ہے۔ ایمان تو تب مکمل ہوگا جب ہمارے معاملات اور ہماری معاشرت اس سانچے میں ڈھلے گی جسے نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے تیار کیا اور سب سے پہلے خود اس سانچہ میں ڈھل کر دکھایا ۔ آپ ﷺسراپا خیر ہی خیر تھے اپنوں کے لیے غیروں کے لیے بھی۔
مسافروں کا اور مہمانوں کا خاص خیال رکھنے والے تھے۔
اپنوں کے لیے فیاض ہونا اور دوسروں کے لیے سرد مہری اختیار کرلینا یہ کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال تو تب ہے جب انسان کی ساری خوبیاں دوسرے لوگوں پر بھی اثر انداز ہوں اور انجانے اور اجبنی بھی اس سے فیضیاب ہوں۔

ہر دور میں ایسے لوگ ضرور پائے جاتے ہیں جن میں نبوی اخلاق و کردار کی جھلک ہوتی ہے۔ جن کا زاویہ نظر عام لوگوں کی سطح سے کہیں اونچا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو نفع اور نقصان کی حیثیت سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے رب کی رضا کے ترازو میں تول کر اپنا حصہ لگالیتے ہیں۔ گرچہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہیں، لیکن ناپید نہیں ہوتے۔
اچھے مسلمان کی پہچان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اور مہمان نوازی دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ اسے دین اور ایمان کا حصہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
کوسہ ممبرا ایک ایسی جگہ ہے جہاں بیک وقت سارا شہر اذان کی روح پرور صداوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہاں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں نے عملی طور پر کچھ ایسا کر دکھایا جس میں
ضیافت، رحم دلی، یکجہتی کی اعلی ترین مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
ممبرا کے پر امن احتجاجی مظاہرہ کی طرح اہل ممبرا ہر رفاہی کام میں پیش پیش ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد اسٹیڈیم میں امسال مہاراشٹر کے لیے آرمی اکیڈمک بھرتیاں لی گئیں۔ مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے کئی نوجوان طلباء اپنے داخلہ کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے۔ روزانہ کم و بیش پانچ سو سے چھ سو طلباء کو بیک وقت اسٹیڈیم کے اندر داخل کیا جاتا اور پھر ان کا اہلیتی ٹیسٹ لے کر انھیں منتخب کیا جاتا۔
کہنا مقصود یہ ہے کہ ممبئی سے باہر کے طلباء یہاں آ تو گئے تھے لیکن ان کے قیام و طعام کا مسئلہ ایک بڑی مشکل کے روپ میں کھڑا تھا۔ جس کے لیے آرمی اکیڈمی کی طرف سے کوئی سہولت نہ تھی طلباء کو اپنے طور پر ہی یہ انتظام کرنا تھا۔
علاقائی لوگوں کو چونکہ پہلے پہل کچھ علم نہ تھا اس لیے لاعلمی میں وہ بھی طلباء کی مدد سے قاصر رہے۔ لیکن جوں ہی دو چار دن میں طلباء کی بے بسی اور لاچاری سے علاقائی لوگوں کو واقفیت ملی انھوں نے انفرادی اور اجتماعی تعاون کی حتی المقدور کوشش کی۔

یہاں ان سبھی انسان دوست لوگوں کے نام کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن ان سبھی جذبوں کو سلام۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے ان کے لیے اجر کی امید کرتے ہوئے میں ان چند افراد کا نام یہاں ضرور لینا چاہوں گی جو اس کار خیر میں نہ صرف اجتماعی مدد کے محرّک بنے بلکہ قدم بہ قدم، بہ نفس نفیس خود اپنی خدمات پیش کیں۔

مہاراشٹرا کے دیہی علاقوں سے جو طلباء آئے ہوئے تھے ان کے چہرے ان کی ناداری اور خستہ حالی کی عکاسی کررہے تھے۔ اسی خاطر وہ اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی تلاش میں یہاں آئے ہوئے تھے۔

روزانہ ہزار طلباء کے کھانے پینے کا انتظام کافی دشوار گذار عمل تھا لیکن پھر ایسے میں اسی ممبرا کی زمین پر مسلمانوں کی ایک جماعت حرکت میں آئی اور فوجی داخلے کے امیدوار طلباء کے لیے انھوں نے کئی انتظامات اپنے ذاتی خرچ پر کروائے اور یوں وطن کے مہمان طلباء کی مشکلات کا حل بن گئے۔

طلبہ کے ایڈمیشن سینٹر ابوالکلام آزاداسٹیڈیم کے سامنے ہی ایک رہائشی کمپلیکس گریس اسکوائر (Grace Square) ہے۔ طلباء کی راحت سامانی کا یہ انتظام قابل تعریف ہے کہ گریس اسکوائر فیز ٹو کے سوسائٹی ممبرز کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے ان طلباء کو ناشتہ، کھانا، پانی اور بیت الخلاء جیسی اہم ضرورتوں کے لیے انھوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ یومیہ ہزاروں لیٹر پانی بلڈنگ سیکیوریٹی گارڈز اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر مہمان طلبا تک پہنچاتے رہے۔
سیکیوریٹی انتظامات کی وجہ سے گرچہ انھیں کمپلیکس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا لیکن بلڈنگ کے داخلی دروازے پر ان کے لیے ہر ممکن مدد کی کوشش گئی۔
سردی کی ایک سخت رات کو سوسائٹی کے مرد، بچے اور عورتوں نے ساری رات ان طلباء کے لیے چائے اور کافی کا انتظام کیا۔
یہ منظر بڑا ہی خوش کن اور جذبات کو بیدار کرنے والا تھا کہ وطن کے مہمانوں کی ضیافت کے لیے ہر کوئی آگے آگے تھا۔ بچے بھی بڑی خوشی خوشی ہر کام کررہے تھے مانو عید سا سماں تھا۔

جناب پرویز صاحب، بدرالدین چودھری، انصاری زبیر، سفیان خان، فضیل خان اور ان کے دیگر مصاحب ماشاءاللہ کافی متحرک رہے اور ان شاءاللہ آنے والے سال میں ان کے عزائم ان آرمی طلباء کے تعلق سے کافی بلند اور پختہ ہیں۔ سوسائٹی (فیز ٹو) نے آنے والے سال میں ان کے لیے مزید بہترین انتظام کا تہیہ کیا ہے اللہ انھیں کامیاب کرے۔
عوام کے اس مثالی تعاون کے ساتھ ساتھ اہل علم کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ محض لوگوں کو پند و نصائح نہ کرتے ہوئے اسی گریس اسکوائر کی مسجد کے خطیب محترم مفتی یوسف صاحب(بانی العلم اکیڈمی)، امام مسجد حافظ مختار صاحب اور ان کے نوجوان رفقاء نے فیلڈ ورک کرتے ہوئے جو عدیم النظیر خدمات اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر انجام دی ہیں وہ اہل ممبرا اور اہل ممبرا کی میزبان شخصیت میں چار چاند لگانے کو کافی ہیں۔ طلباء کو روازنہ ان کے داخلے کے لازمی کاغذات کی زیراکس کاپی درکار ہوا کرتی تھی جس کے لیے زیراکس مشینیں بٹھائی گئیں۔
17 دسمبر سے لے کر داخلے کے آخری دن 23 دسمبر تک تمام طلباء کے لیے مفت زیراکس کا اہتمام کیا گیا۔ مفت فون چارجنگ کی سہولت فراہم کی اور اس کے ساتھ روزانہ 500 سے چھ سو لیٹر پینے کا پانی فراہم کرتے رہے۔
اللہ ان سبھی کی خدمات کو قبول فرمالے۔ اور برادران وطن کے دلوں میں ہماری عظمت، محبت اور صداقت کو جاگزیں کردے۔

آج جب ملک کا گوشہ گوشہ سسک رہا ہے، ظالموں کے پنجہ بربریت نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کو دبوچ کر اس کی جمہوریت پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ ان حالات میں جب ہر دوسرا ہندوستانی اپنے وجود اور دو گز زمین پر استحقاق اور اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے زہریلے اور سیاسی اجگروں سے خود کو نگلوانے پر مجبور ہے، انسانی مکھوٹوں میں موجود فاشسٹ بھیڑیے ہندوستانی عوام کو سالم نگل لینا چاہتے ہیں ہر کوئی من مرضی کا حصہ چبا جانا چاہتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے شر پسندوں کا ایک ہی انجام ہے وہ ہے خاتمہ۔۔۔۔ان کا اور ان کی دسیسہ کاریوں کا۔ آج نہیں تو کل ان کا وِناش ہونا طے ہے۔
ہندوستانی عوام کو خوف و ہراس میں رکھنے والے یہ کریہہ القلب کیا جانیں؟ مذہب کے نام پر اپنے سیاسی چولہے بھڑکانے والے ہماری ایکتا کی مٹھاس کو کیا سمجھیں؟؟؟ ہماری خوشی اور غم کی کیفیات کو وہ تعصب پرست اپنی عینک سے کیسے دیکھ سکیں گے؟ جب کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ

اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں در آتی ہے

ہندوستان کی تمام رعنائیاں اسی گنگا جمنی تہذیب سے ہیں، اسی بھائی چارے سے، اسی قومی یکجہتی سے ہیں جسے کوئی وقتی فرعون ذبح نہیں کرسکتا۔ اہل وطن بخوبی سمجھتے ہیں کہ مسلمان کیا ہیں؟ ہماری محبتیں، خلوص، ہماری فیاضیاں ان سبھی کے گواہ ہم خود ہیں سرکار یا گودی میڈیا نہیں۔

یقیں ہے مجھ کو بازی جیتنے کا، فتح میری ہے
میں گلدستے بناتا ہوں، وہ شمشیریں بناتے ہیں

ہماری محبتوں پر تم نے مسجدیں ڈھائیں، گندی سیاست کا ننگا ناچ کیا۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کے شکم چیر کر ان کی اولاد کو اپنے نوک خنجر پر اچھالا۔ ہماری مسجدوں کی حرمت پامال کی۔ داڑھی ٹوپی والے کرتوں میں ملبوس مردوں اور بزرگوں کو نذر آتش کیا، اپنی جیلوں کو ہمارے جوانوں سے پاٹ دیا۔ ہماری معیشت کو تم نے جلاکر خاک میں ملانے کی بارہا کوشش کی ہے۔
یہ بابری کی جھلک ہے، یہ گودھرا کی جھلک ہے یہ جامعہ ملیہ اور یوپی کے نہتے طلباء اور عوام کی ہے جن پر تمھارے غنڈوں نے شب خون مارا۔ تم نے اقتدار میں آتے ہی اپنے سادھووں اور سوامیوں کو باعزت بری کروادیا۔ ملک کی سب بڑی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو ہی ملزمین کے باعزت بری کرانے پر مامور کرادیا۔ اب بھی تم یہی سب کررہے ہو لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ ہم سبھی سمجھ چکے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کی اندھی دیوی کن پر مہربان اور کن لوگوں کو تہ تیغ کردینا چاہتی ہے۔

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاید
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

اسی لیے آج ہم نے پھر سے اپنی بکھری ہوئی انگلیاں ملا لی ہیں تاکہ اپنی ہتھیلیاں مضبوط کرسکیں اور پھر سے کوئی”انگولی مال” یا “کیسری آدم خور” ہماری انگلیاں نہ کاٹ لے جائے یا ہمارے ہاتھوں کو کمزور نہ کرسکے۔ کے آر نارائنن کی “انڈتوا ” کی تعبیر آج بھی تمھاری “ہندتوا” پر بھاری ہے۔

ہم سب آج بھی اسی ہندوستان کا حصہ ہیں جہاں بابری دھماکوں میں ہم نے ہر اس ہندو کی حفاظت کی جو ہمارا پڑوسی تھا جو بے قصور تھا جو ہمارا حصہ تھا اور ہندو بھائی ہماری حفاظت کے لیے فرقہ پرستوں کے آگے ڈھال بنے ہوئے تھے۔
مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے جب آدھی آدھی رات کو ایک بے ہنگم سا شور اٹھتا اور لوگ سراسیمہ ہونے کی بجائے گھروں سے لاٹھی ڈنڈے سریے لے کر نکل پڑتے کہ اگر کسی نے محلے میں داخل ہوکر کسی قسم کا فساد پیدا کیا تو اس کی خیر نہیں۔
لوگ الاؤ جلا جلا کر اپنے علاقوں کی پہرے داری کرتے رہے، ان میں ہندو بھی تھے۔ کچھ ہندو بزرگ بڑی شفقت سے خواتین اور بچوں سے کہتے تھے بچو!!! گھبرانا نہیں جو آئے گا پہلے ہم سے نپٹے گا پھر تم تک پہنچے گا۔ دروازے اندر سے بند کرو اور بچوں کو لے کر سو جاؤ۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں تمھاری رکشا کے لیے۔

ایک پڑوسی اصلا بنیا تھے بابری کے دنگوں میں انھوں نے اپنا سارا گودام خالی کردیا اور محلے والوں کو راشن تقسیم کردیا کہ جانے کتنے دنوں تک فساد کا زور رہے۔

میں نے ایسا ہندوستان دیکھا ہے بلکہ ہم سب نے ایسا ہی ہندوستان دیکھا ہے۔ جانے یہ ستّہ کے تین منحوس بندر آنے والے دنوں میں ہندوستان کو کیا دکھلانا چاہتےہیں؟
ہم سب ایک ساتھ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں بن دھوئیں والی رسوئی کا سنہرا سپنہ دکھاکر آپ نے ہمارے توے پر پڑی ہوئی روٹی بھی غائب کردی ہے اور آج ہمیں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
“بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” کی آڑ میں تم نے اپنے نر بھکشی نیتاوں کو چھوڑ رکھا ہے کہ پہلے ان سے بیٹی بچاکر دکھاؤ پھر بچ گئی تو اسے پڑھا بھی لینا۔

آرمی ایڈمیشن کے طلباء یہاں سے گھر لوٹتے ہوئے بڑے مسرور و مشکور تھے۔ مسلمانوں سے گھری آبادی میں طلباء نہایت اطمینان اور سکون سے اپنے داخلے کی کاروائیاں کرتے رہے۔
سی اے اے اور این آر سی مخالف ماحول میں بھی مسلمانوں نے جس محبت و احترام اور قومی یکجہتی کا پیغام دیا ہے اسے کوئی کیسری سمجھے نہ سمجھے آرمی کے وہ ہزاروں طلباء مسلمانوں کے اس ہمدردانہ سلوک کے کے معترف ضرور ہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے اپنے شہر جاکر اپنی میڈیا میں یہاں کے مسلمانوں کی خیر سگالی، فیاضی اور سخاوت کے قصے بیان کیے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
عامر انصاری

بہت خوب

بہترین مضمون

ممبرا اور اہل ممبرا کی اچھی تصویر آپ نے پیش کی ہے ۔

سلامت رہیں ۔

ام ھشام

جزاکم اللہ خیرا
ضرورت تھی وقت رہتے اس ایک بڑے رفاہی کام پر نظر ڈالی جاتی اور اسے عوام الناس میں ہائی لائٹ کیا جاتا۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ،کہیں سے کوئی حرکت نہیں دکھائی تب مجھےاپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا سہارا لینا پڑا ۔

Salma Ayesha

Jazakallha khairn kasira allha aap ko har Kam asan Kare aap our aap ki team KU bohot sukriya

ام ھشام

جزاکم اللہ خیرا