کمال کا ایک شہر…

ام ہشام سماجیات

اللہ کی بنائی ہوئی زمین واقعی گول ہے۔ وقت، ماحول، حالات، حوادث سب کچھ گردش کرتے رہتے ہیں اور زندگی میں ان تمام چیزوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے روبرو ہونا پڑجاتا‌ ہے۔ بڑا ہی منحوس وقت تھا (اس وقت صرف میری نظر میں) جب ایتھلیٹ بننے کے خواب دیکھنے والی لڑکی کو اس کے والد نے “سیرت النبی” کا مقابلہ جیت جانے پر اسکول سے خارجہ سرٹیفیکٹ لے کر ایک دینی مدرسے میں داخل کردیا تھا۔
ایک آج کا دن ہے جب سوچتی ہوں تو اس سر زمین کے لیے دل محبت سے بھر سا جاتا ہے۔ یہ وہ زمین ہے جس نے مجھے قوت گویائی دی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی۔ کمزور اور ناتواں سے ذہن کو کتابوں سے محبت کرنے کی صلاحیت دی۔ اللہ کا فضل ہوا اور اللہ نے مجھے اپنے دین کی فیلڈ میں اپنا ایتھلیٹ چن لیا اور اپنے دین کا فہم عطا کیا۔ زندگی میں قرآن کی پہلی آیت کی تفسیر یہیں سیکھی۔ احادیث مبارکہ کی بابرکت عبارتیں یہیں پر ازبر کیں۔ ایسا نہیں کہ یہ ایک مثالی شہر ہے بلکہ کمیاں اور خوبیاں دونوں ہیں یہاں۔ لیکن ٹھہرئیے! میں یہاں برائیوں کی نشان دہی نہیں کررہی، اس کام کے لیے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
کمال کا شہر… کم وبیش ایک ملین مسلمان یہاں بستے ہیں۔ میڈیا کے مطابق اس گنجان آبادی والے شہر میں رہائش اختیار کرنا جان جوکھم میں ڈالنا ہے، جہاں بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا بحران ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم۔ یہاں چاروں میں شدید گھوٹالے ہیں۔ روٹی اور تعلیم خالص مل نہیں سکتی ہاں غیر قانونی مکان ضرور “برائے نام” حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر شہروں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ممبرا بھی گذشتہ بیس سالوں سے ترقی پذیر ہے۔ کئی ترقیاں ہوئی ہیں لیکن شاید اسے اب کوئی میڈیا کور نہیں کرے گا۔ کیمرے پر غیر قانونی عمارتوں کا ہجوم، گندگی کے ڈھیر، ٹریفک، بجلی اور پانی جیسے مسائل دکھائے جاتے ہیں لیکن شاذ و نادر ہی کوئی حوصلہ افزا بات یہاں کے تعلق سے سننے کو مل جائے۔ جب کہ یہ محض اعتراف کی بات ہے، کچھوے کی چال ہی سہی ممبرا اب بڑی حد تک اپنے آپ کو بدل چکا ہے۔ ایک علاقہ جسے “بلیک لسٹڈ” کیا جاچکا ہو وہاں ترقی کے امکانات یوں بھی افواہوں کے بازار میں گم ہوجایا کرتے ہیں۔ مگر اس شہر کا جذبہ قابل تعریف و تقلید ہے یہ رکا نہیں تھکا نہیں، چلتا رہا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ آج ایک انسانی آبادی کی تمام سہولیات یہاں وجود میں آچکی ہیں۔ آج بہت سے معیاری بینک یہاں کھل چکے ہیں جو اپنے آپ میں اشارہ ہیں کہ عوامی ضروریات کے تحت ہی سہی سرمایہ کاری چلنے پر مجبور ہے۔

مسلم آبادی پر مشتمل یہ علاقہ ہمیشہ آنکھوں کا شہتیر بنارہا جسے سیاست بازوں نے برسوں سے نکال نکال کر پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک سب سے بڑی وجہ رہی ممبرا کی ترقی میں سست روی کی۔ تعصب بھی ایک وائرس ہے اور اہل ممبرا اسی وائرس کا شکار ہیں۔ یہ وائرس گاہے بگاہے اس شہر کے حوصلے پست کرنے کو شہر بھر میں پھیلائے جاتے ہیں تاکہ محنت کی چکی چلانے والے ہاتھ مایوس ہوجائیں اور فکری انقلاب لانے والا نوجوان ذہن قنوطیت کا شکار ہوجائے۔ یہ تعصب بارہا اہل ممبرا کے ساتھ برتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ممبرا سے تعلیم یافتہ افراد کو نوکریاں نہ ملنا حتی کہ خلیجی ریاستوں میں نوکری کی درخواست پر ممبرا کے کاغذات دیکھ کر معذرت کرلینا جیسے مسائل کا سامنا نوجوانوں کو ہے۔
پہاڑوں کے بیچ رہنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ ہل اسٹیشن پر رہتے ہیں۔ ہم بھی مسکراکر اس لگژری تعریف کا جواب دیا کرتے ہیں کہ واقعی یہ ہل اسٹیشن ہی ہے۔ خطیر آبادی نے گرچہ یہاں کی آب و ہوا پر اثر ضرور ڈالا ہے لیکن اب بھی اس ہوا میں وہی خنکی موجود ہے جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ پہاڑوں سے گھری یہ زمین اور اس کے وہ پرنالے جو موسم برسات میں ایک زمانے سے قدرت سے محبت کرنے والوں کی توجہ کھنیچ کر رکھتے ہیں، ایک سوال یہ کھڑا کرتے ہیں کہ ممبرا جیسا “واٹر فال” اگر کسی اور علاقے میں ہوتا تو شاید اسے اب تک سیاحت کے لیے وقف کردیا جاتا۔ سیاحوں سے اس کی اچھی خاصی فیس وصول کی جاتی جس سے اس علاقے کی معیشت مضبوط ہوتی۔
بڑا المیہ ہے کہ ایک “علم دوست” شہر کئی ایک پہلوؤں سے ہمیشہ نظرانداز ہوتا رہا ہے جن میں بر سر تذکرہ ہے تعلیم کا معیار۔ ہر دس قدم پر موجود غیر معیاری اسکولوں کی بہتات نے تعلیم وترقی کا بڑا نقصان کیا ہے پھر بھی اس کے دامن میں کئی مدارس ہیں اور کئی معیاری اسکول بھی۔ یہاں اردو کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے گاہے بگاہے اردو مشاعروں کےساتھ، ادبی نشستیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ بین المدارس خطابتی و صحافتی مسابقے، طلباء کے لیے ایک صحت مند ماحول فراہم کرتے ہیں جس سے وہ خود کو صیقل کرتے رہتے ہیں۔ زندہ قومیں کتاب دوستی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کتابوں کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے لیے ہمہ وقت اقدامات کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے کتاب کلچر آخری سانسیں لیتا محسوس ہوتا ہے، لائبریریاں کتابوں کا مدفن بن چکی ہیں اور اکثر ویران دکھائی دیتی ہیں تو ان حالات میں اہل ممبرا کا اردو کتاب میلے کا انعقاد کروانا ایک زندہ قوم کی نشانی ہے۔ملک بھر سے ٨٢ ناشرین آج سے شروع ہونے والے پانچ روزہ میلہ میں اپنی کتابیں لے کر حاضر ہوں گے۔
ممبرا‌ میں ایک طمانیت اور سکون سا ملتا ہے جب ایک ساتھ کئی مسجدوں سے حی علی الصلوة کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ ہم نے جہاں سے ہجرت کی وہ ہر اعتبار سے ایک ترقی یافتہ علاقہ تھا لیکن جو سکون اللہ کے نام لیواؤں اور کلمہ گو مسلمانوں کے درمیان ہے شاید وہ کسی اور جگہ نہیں۔
جب اپنا جسم زخموں اور پھپھولوں سے بھر چکا ہو تب بھی ہم اپنے اعضاء کاٹ کر نہیں پھینکتے بلکہ ان زخموں کا علاج بڑے ہی صبر و تحمل کے ساتھ کرتے ہیں اور صحت یابی کی امید کرتے ہیں۔ ممبرا کے ان گنت مسائل کو میں اپنے زخم شمار کرتی ہوں جو ان شاءاللہ وقت کے ساتھ بھرتے جائیں گے۔ اور اس کام میں ان شاءاللہ نسل نو آگے آگے ہوگی۔ بجلی، پانی، سڑکیں، تعلیم گاہیں، نوکریاں جیسے مسائل اس نسل نو کے عزائم اور منصوبہ بندی ہی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔

6
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

بہت ہی عمدہ مضمون
سبحان اللہ
اسلوب کی کشش اور مواد کی حسن ترتیب نے دل جیت لیا۔
بارک اللہ فیک
اس سے پہلے والا دو ہزار انیس کا آخری مضمون بھی بہت دلچسپ ہے۔

ایک لائن پڑھنے کے بعد پڑھتا ہی چلا گیا۔
مضامین کا مجموعہ جلد شائع کریں۔

عامر انصاری

ماشاءاللہ
شہر کے تعلق سے اچھی معلومات ہیں

سرفراز فیضی

اچھا لکھا

ام ھشام

جزاکم اللہ خیرا

Rizwan choudhary

ہمیشہ کی طرح لاجواب..

سعد

جناب ارأف محترمہ. آپ کی تحریر نے تو قاری کو تقریباً ٹھہرا  ہی دیا. ہم پڑھ تو اس لئے رہے تھے کہ پنگھٹ پہ  پانی بھرنے کا اور  تیرتے ہوئے لفظوں کو مع معنی کہ آنکھوں میں بسا لینے کا ہمیں خاصہ خبط ہے. مگر حالات نے اب کہ وہ مکر پھیلایا ہے کہ سیکھے ہوئے لفظ اور  یادوں کی سراب میں پگھلتےپانی شاید آنکھوں سے بہہ پڑیں،  یعنی ملک سے شہر نکل جائے اور شہر سے ہم. اس کے باوجود کہیں کسی گوشے میں، فرد کی یاد کے کسی کونے سے شہر انہیں جزئیوں سے نکل کر پھر سے… Read more »