بڑے سائز کا ایک جھولا ایسا بھی ہوتا ہے جسے ہمارے یہاں “دھوکری” کہتے ہیں۔ ایسی دھوکریاں لیے پھرنے والے بہت سارے “بابا” دیکھے ہیں ہم نے۔ بڑے بوڑھے ہم بچوں سے کہتے تھے سیوان میں نہ پھرا کرو “دھوکرکاس” پکڑ لے جائے گا۔ دور سے بہت سارے لوگوں پر دھوکرکاس کا گمان ہوا بھی تھا مگر اب سوچو تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ سب منگن بابا ہی تھے، ان میں کوئی دھوکرکاس نہ رہا ہوگا۔
کہیں بھی پل بننا شروع ہوتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے سارے والدین اپنے بچوں کے لیے اچانک فکرمند ہوگئے ہیں۔ اور اگر پل بنتے بنتے یا بننے کے بعد کہیں ٹوٹ جاتا تو ہراس اور بڑھ جاتا۔
دیکھا نہیں کبھی کچھ، سنتے ہی تھے کہ کوئی پل بنا بلی کے مضبوط نہیں بنتا، وہ بھی بچے کی بلی۔ شاید کہیں ہوا ہو کبھی کچھ یا پھر ہیومن ٹریفکنگ کے لیے اندھ وشواس کا فائدہ اٹھایا گیا ہو۔
جھولا اٹھاکر چل دینے کی بات کی ہے بس، کاندھے پر لٹکا ہوا کبھی کوئی جھولا نظر نہیں آیا ابھی تک مگر پھر بھی یہ شخص دھوکرکاس لگتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ وہ دھوکرکاس پل بنوایا کرتا تھا اور یہ راشٹر بنوارہا ہے۔ پل کے لیے بچوں کی بلی کی ضرورت ہوتی تھی اور اب یہاں راشٹر کے لیے پچھڑوں، غریبوں اور بالخصوص مسلمانوں کی بلی چاہیے اسے۔
دھوکرکاس کا اپنا کرم کال ہے، ہمارا اپنا۔ دھوکرکاس ہمیں بوسٹ کرے گا یا ہم برسٹ ہوجائیں گے یہ ہماری اہلیت پر منحصر ہے۔ دھوکرکاس کے انجام کی پیش بینی ہمارا کنسرن بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں جس پروٹوکول کی وراثت ملی ہے اس کی تنفیذ میں آگے رہنے کی اللہ سے توفیق طلب کرنا چاہیے۔ فضل کبیر یہی ہے۔ یہی دونوں جہان میں کامیابی کی بنیاد ہے۔
ورنہ وراثت کی منتقلی بھی اللہ کا ایک قانون ہے۔ ہمارے خزانے کی ملکیت دوسری قوم کو ٹرانسفر بھی ہوسکتی ہے اور ہمارا محل کسی کا مدفن بھی بن سکتا ہے۔
دھوکرکاس کسی دوسرے دیس چلاگیا یا ہم نے ہجرت کرلی یا تربیت کی وہ بنیادیں اکھڑ گئیں یا بچے ہی اب چتر نڈر پیدا ہونے لگے اللہ جانے کیا بات ہے دھوکرکاس نہیں رہا اب۔ عمر ہوتی ہے ہر چیز کی، اس کی بھی تھی!
آپ کے تبصرے