احتجاجی مظاہرے جو تحریک بن گئے: 1

ایم اے فاروقی سیاسیات

* یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۱۹۱۹ء میں ہندوستان میں انگریزوں نے رولٹ ایکٹ نافذ کیا، جس کا مقصد ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو کچلنا تھا، ٹھیک سو سال کے بعد ۲۰۱۹ ء میں بر سر اقتدار پارٹی بی جے پی نےسی اے اے یعنی شہریت ترمیمی بل پاس کیا، جس کے بارے میں سیاست کے ماہرین اور سیکولر دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے اور ہندوستانی عوام کو نئی نئی مشکلات میں ڈالنے کا آغاز ہے۔
* بدنام زمانہ سیاہ قانون رولٹ ایکٹ بنانے والے اور درندگی اور بربریت کا ننگا ناچ ناچنے والے مٹی میں مل چکے ہیں، وہ قوم جو طاقت کے نشہ میں چور ہوکر جبر و تعدی کا طوفان اٹھائے ہوئے تھی، اسے بوریا بستر اٹھا کر راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔
* یہ رولٹ ایکٹ کیا تھا، حقوق اور انصاف کی جنگ لڑنے والوں کو رولٹ ایکٹ کی کہانی ضرور جاننا چاہیے، تاکہ عزائم اور حوصلے جواں رہیں، یہ رولٹ ایکٹ تھا جس کی تباہیوں نے ہمارے اسلاف کے اندر قومی شعور پیدا کیا، حصول آزادی کی تڑپ پیدا کی، آزادی کے لیے لڑنے اور قربانیاں دینے کا جذبہ پیدا کیا، بندوقوں، سنگینوں اور آتشیں ہتھیاروں کے سامنے نہتے سینہ سپر ہوگئے، یہ رولٹ ایکٹ تھا، جس نے آج سے ایک صدی قبل کشمیر سے کنیا کماری تک غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی قوت پیدا کی، مزاحمت کی وہ چنگاری جو ۱۸۵۷ کے بعد سینوں میں دفن ہوچکی تھی، شعلۂ جوالہ بننے کے لیے بے تاب ہوگئی، اس کالے قانون نے ہندو مسلمان کی دوریوں کا خاتمہ کردیا اور وہ باہم شیر و شکر ہوگئے۔
* ۲۱ مارچ ۱۹۱۹ کو امبیریل لیجسلیٹیو ( شاہی مقننہ) نے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت پورے ملک میں کسی بھی شخص کو بغیر ثبوت، بغیر عدالتی کارروائی اور مقدمہ کے انگریزی سرکار گرفتار کرکے جیل میں ٹھونس سکتی تھی، یہ قانون در اصل مجاہدین آزادی کو کچلنے اور تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اس قانون نے پولیس کو لا محدود اختیارات دے دیے کہ وہ سیاسی رہنماؤں سے جس طرح چاہیں نپٹیں، یہ قانون رولٹ کمیٹی کی سفارش پر بنایا گیا تھا، کمیٹی کے سربراہ کا نام سر سڈنی رولٹ تھا اور اسی کے نام پر یہ قانون رولٹ ایکٹ مشہور ہوا۔
اس قانون کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ۱۸۵۷ کے بعد پہلی بار ہندوستانی عوام بے بسی اور بے چارگی کے خول سے باہر نکل آئی، حوادث کا ایسا طوفان اٹھا کہ ملک کے ہر شہر، ہر قریہ اور گاؤں میں تلاطم پیدا ہوگیا، ملکی سیاست نے کروٹ بدل لی، یہ قانون ایک ایسے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس نے برٹش حکومت کی چولیں ہلادیں، جس نے پولیس کی بے رحم لاٹھیوں کا خوف اور فوج کی گولیوں کا ڈر دلوں سے نکال دیا، ہندوستانی عوام جن کا تاب و تواں رخصت ہوچکا تھا، انگریزوں کے کسی بھی حکم کے خلاف لب ہلانے کی جرأت نہ تھی، ان کا غم و غصہ لاوے کی طرح ابل پڑا، یہ ہندوستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ گاندھی جی چار سال قبل ہی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آچُکے تھے، وہ ۱۹۱۷ میں چمپارن اور ۱۹۱۸ میں کیرالہ میں کسانوں کے مسئلہ کو لے کر کامیاب مظاہرے کرچکے تھے۔ انھوں نے انگریزوں کے اس قانون کو ماننے سے انکار کردیا، مولانا آزاد پہلے ہی الہلال، البلاغ اور اپنی شعلہ بار تقریروں کے ذریعہ ہندوستانی سیاست میں نئی زندگی اور نئی روح پھونک چکے تھے، جس کی پاداش میں انھیں رانچی میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
گاندھی جی نے اپنی تحریک کا آغاز بمبئی سے کیا انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے رضاکاروں سے کہا کہ وہ گاؤں دیہاتوں میں پھیل جائیں کیونکہ ہندوستان کی روح وہیں بستی ہے، صبح چھ بجے اسنان کرکے بمبئی چوپاٹی پر ایک مندر کے سامنے بیٹھ گئے، لوگ آتے گئے اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں سے زیادہ مجمع ہوگیا۔ انھوں نے ہندوستانیوں سےحلف لیا کہ” وہ قسم کھائیں، خدا کو حاضر و ناظر جان کر ہم ہندو مسلمان عہد کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی والدین کی اولاد کی طرح پیش آئیں گے، یہ کہ ہمارے بیچ کوئی فرق نہیں ہے یہ کہ کسی ایک کا دکھ درد سب کا دکھ درد ہوگا اور اسے دور کرنے میں سب مدد کریں گے، ہم ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی جذبات کا احترام کریں گے، اور مذہبی اعمال پورا کرنے میں کسی کی مخالفت نہیں کریں گے، ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ تشدد کرنے سے سدا دور رہیں گے۔”
اس کے بعد مظاہروں اور احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، ہندو مسلمان سب متحد ہوچکے تھے، ہرجگہ ہڑتالیں، دھرنے اور جلسے ہونے لگے اس وقت برٹش حکومت کے خلاف نعروں سے فضا گونج رہی تھی، آلات حرب و ضرب سے لیس دولت انگلشیہ کے کارندے، پولیس اور فوج نہتے عوام پر ٹوٹ پڑی، لاٹھی چارج اور گولیوں کی بوچھار ان کے حوصلے کو پست نہ کرسکی، انگریزوں نے قوم کے بڑے رہنماؤں کو آہنی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا، پنجاب میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کو گرفتار کیا تو پنجاب امنڈ پڑا، احتجاج کے لیے لوگ جلیانوالہ باغ امرتسر میں جمع ہوئے، انگریزی فوج کے کمانڈر جنرل ڈائر کے حکم سے بے گناہ لوگوں پر گولیوں کی برسات کردی گئی، ڈائر اپنے وقت کا سب سے بڑا ظالم اور جابر شخص تھا، یہ ہندوستانیوں کو کتے بلی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا، پورے پنجاب میں آزادی کے متوالوں کے لیے عذاب تھا، ان کو اذیت دینے کے لیے خفیہ عقوبت خانے بنا رکھے تھے، ۱۹۲۷ میں یہ شخص و اصل جہنم ہوا، اسے کبھی اپنے سیاہ اعمال پر پچھتاوا نہیں ہوا۔
جلیانوالہ باغ کا سانحہ ۱۳/ اپریل ۱۹۱۹ کو پیش آیا، اس قتل عام میں چار سو کے قریب لوگ مارے گئے جن میں بوڑھے بچے جوان اور عورتیں شامل تھیں، کیا اس ظلم و ستم سے گھبرا کر لوگ گھروں میں دبک گئے، نہیں ہرگز نہیں، اس کے برعکس اس نے آگ میں گھی چھڑکنے کا کام کیا، آزادی کے لیے مسلم علما نے دسمبر ۱۹۱۹ میں جمعیت العلما قائم کی جس نے کلکتہ کے اسٹیج سے عدم موالات کی تحریک چلائی۔ اسی درمیان ترکی خلیفہ سلطان عبد الحمید کی معزولی پر ہندوستانی مسلمانوں نے پر زور احتجاج کیا اور تحریک خلافت کی گونج ہر گلی کوچے میں سنائی دینے لگی، گاندھی جی نے کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ ان تحریکوں کی پرزور حمایت کی اور پرامن عدم تعاون کی تحریک چلائی۔ انگریزی حکومت اور ان سے متعلقہ تعلیمی اور حکومتی اداروں کا بائکاٹ کیا، بغیر کسی تشدد کے مظاہرے، مقاطعے اور احتجاج شباب پر تھے، یہ پہلا موقع تھا جب یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا اپنے تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے۔
رولٹ ایکٹ کے رد عمل میں رونما والے مظاہروں، احتجاج اور بائیکاٹ کو ہم تحریک عدم تعاون یعنی سول ڈس اوبیڈینس موومنٹ کے نام سے جانتے ہیں، یہ تحریک دو سال سے زیادہ مدت تک جاری رہی، چورا چوری گورکھپور میں ایک پرتشدد واقعہ پیش آگیا، پولیس نے مظاہرین پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائیں، عوام مشتعل ہوگئے اور ایک پولیس تھانہ کو جلادیا، جس میں چوبیس سپاہی کام آگئے، گاندھی جی کو سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے تحریک واپس لے لی۔
انگریزوں نے رولٹ ایکٹ کو منسوخ کرنے سے انکار کردیا، لیکن یہی ایکٹ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا، ان کے ظلم و ستم اور درندگی نے ہندوستانی عوام کے دلوں سے ڈر، خوف اور دہشت کو نوچ کر پھینک دیا، تحریک عدم موالات نے انگریزوں کو احساس دلادیا کہ اب وہ زیادہ عرصہ تک یہاں اپنی حکمرانی برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں، گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے کو دنیا بھر میں شہرت ملی اسی نظریے کے بل بوتے انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے کامیاب تحریک چلائی۔
آزادی سے قبل دو اور بڑے احتجاج ہوئے جن کا ہندوستان کی آزادی میں بہت اہم کردار رہا ہے، رولٹ ایکٹ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ ہر دس سال پر آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا، رولٹ کی وجہ سے ہندوستان میں برٹش حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑگئی، جلد بازی میں انھوں نے آٹھ سال بعد ہی کمیشن بنا ڈالا، اس کا خاص مقصد ہندوستان میں آئینی اصلاحات کا جائزہ لینا اور ایسے قانون بنانا تھا جس سے حکومت کی گرفت مضبوط ہوسکے، اس کمیشن میں حکومت نے کسی ہندوستانی کوشامل نہیں کیا تھا۔ کمیشن کا سربراہ سر جان سائمن تھا ۱۹۲۸ میں یہ ہندوستان آیا، جس شہر میں یہ گیا، عوام نے اس کا استقبال کالے جھنڈوں اور “ سائمن گو بیک“ کے نعروں سے کیا، احتجاج بڑھتا گیا، مظاہرے پھیلتے گئے، انگریزی حکومت نے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا، لاہور میں سائمن کی آمد ہوئی، مشہور قائد آزادی لالہ لاجپت رائے نےایک پرامن جلوس کی قیادت کی، پولیس نے لاٹھی چارج کیا، لالہ جی کو اس قدر مارا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے، یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا، حکومت کی بربریت نے عوام میں آزادی کی لو اور تیز کردی، آل انڈیا پارٹیز کی ایک متحدہ کانفرنس ہوئی، جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک ایسا آئینی ڈھانچہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو تمام پارٹیوں یا کم از کم کانفرنس کے ممبران کے لیے قابل قبول ہو، جلد ہی اسے شائع کیا گیا جو نہرو رپورٹ کے نام سے معروف ہے۔ انگریزوں نے اس کے بعد مذاکرے کے لیے کئی گول میز کانفرنسیں لندن میں کیں، گول میز مذاکرے کے تین ادوار ہوئے پہلا ۱۹۳۰ میں جس میں مسلم لیگ کے قائدین شامل ہوئے دوسرے مذاکرے ۱۹۳۲ میں گاندھی جی شامل ہوئے تیسرے میں کانگریس اور مسلم لیگ میں سے کسی نہ شرکت نہیں کی مجموعی طور پر لندن میں منعقدہ یہ مذاکرے ناکام ہوئے، ۱۹۳۵ میں برطانوی ہند کے لیے ایک قانون پاس ہوا جسے انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کہا جاتا ہے، جس کے تحت۱۹۳۷ میں انتخابات ہوئے۔ سات صوبوں میں کانگریس اور چار صوبے میں مسلم لیگ کامیاب ہوئی، وزارت کانگریس کی بنی۔
۱۹۳۹ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی برطانوی حکومت نے ہندوستانی رہنماؤں کے مشورے کے بغیر ہندوستانی افواج کو جنگ کے شعلوں میں جھونک دیا، احتجاجا کانگریس نے وزارت تحلیل کردی، کانگریس کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ آزادی کی بنیاد پر یہ جنگ لڑ رہا ہے تو اسے پہلے ہندوستان کو آزاد کرنا چاہیے، یاد رہے دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو برطانیہ پولینڈ کی حمایت میں یہ کہہ کر جنگ میں کود پڑا کہ وہ دنیا میں قوموں کی آزادی کا حامی ہے اور اس آزادی کے لیے لڑنا اس کا قومی فریضہ ہے، بدلے ہوئے حالات میں برطانیہ کا لب و لہجہ بھی بدل گیا، ماضی میں ہندوستانیوں کے کسی بھی مطالبہ کے سامنے نہ جھکنے والی طاقت کے سر بدل گئے، اس نے لالچ دی کہ آپ جنگ میں ہماری حمایت کریں، جنگ کے بعد ہم ۱۹۳۵ انڈیا ایکٹ میں ہندوستانیوں کی مرضی کے مطابق ترمیم کریں گے، گاندھی جی نے جواب میں کہا: ” ہندوستانی کو روٹی چاہیے برطانیہ اسے پتھر دے رہا ہے”۔ برطانیہ اور ہندوستانی سیاست دانوں میں یہ تعطل ۱۹۴۲ تک برقرار رہا، جسے دور کرنے کے لیے برطانیہ نے اسٹیفورڈ کرپس کو دلی بھیجا انھوں نے ہندوستانی قائدین سے جنگ میں حمایت مانگی اس کے بدلے میں وعدہ کیا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد وہ کانسٹیوٹ اسمبلی، خود مختار حکومت مہیا کرائیں گے، سابق کی طرح یہ بھی پر فریب وعدہ تھا، گاندھی جی نے کہا یہ وعدے ایسے ہی ہیں جیسے کسی شخص کو گزری ہوئی تاریخ کا چیک دے دیا جائے، چنانچہ کرپس مشن بھی ناکام ہوگیا، اب کرو یا مرو کی منزل آچکی تھی، ۹/ اگست ۱۹۴۲ کو گاندھی جی
نے بمبئی سے “انگریزو بھارت چھوڑو” ( کوئٹ انڈیا) کی تحریک کا آغاز کیا، دولت انگلشیہ نے کانگریس کے تمام بڑے لیڈروں کو گرفتار کرلیا ان اسیران میں گاندھی جی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سید محمود جیسے قد آور رہنما بھی تھے، سارے بڑے رہبران قوم آہنی سلاخوں کے پیچھے تھے لیکن تحریک نے اپنی ڈگر پکڑلی تھی، بغیر قائد کے یہ آگے بڑھتی رہی، آزادی کے لیے لوگوں کے جوش و خروش کو انگریزی سرکار ہرطرح کی طاقت استعمال کرنے کے باوجود نہ دباسکی، ایک لاکھ لوگوں کو مارپیٹ کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، سینکڑوں آدمیوں سے ان کی زندگیاں چھین لی گئیں۔
مسلم لیگ اس تحریک سے علاحدہ رہی، وہ انگریزوں کی سر پرستی میں ایک الگ ملک کی خواہاں تھی، اس نے بنگال اور سندھ میں ہندو مہا سبھا کی حمایت سے حکومت سازی کرلی بنگال میں شیاما پرشاد مکھرجی ان کے حمایتی تھے، بمبئی میں گرو گولوالکر انگریزوں کا سپورٹ کررہے تھے، ان کے اس اقدام کی ممبئی سرکار نے کھلے دل سے تعریف کی۔
بالآخر ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا ملک آزاد تو ہوگیا، لیکن کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ آزادی کی اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی کہ ملک دو حصوں میں بٹ جائے گا، خوشیاں بھی ملیں تو لہو لہان تھیں، منافرت کا ایسا سیلاب امنڈ پڑا کہ سب کچھ بہا لے گیا۔

احتجاجی مظاہرے جو تحریک بن گئے: 2

آپ کے تبصرے

3000