دلی میں بی جے پی تو ہار گئی لیکن کیا ہندوتوا بھی ہار گیا؟

ریاض الدین مبارک سیاسیات

یہ بات عیاں ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اروند کیجریوال کی قیادت میں دلی الیکشن کو بھاری اکثریت سے جیت کر بی جے پی کے غرور کو محض آتھ سیٹوں میں سمیٹ کر قابل عبرت بنادیا۔ اس عظیم الشان فتح پر واقعی وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دلی والوں کو بھی پوری آشا ہے کہ حسب وعدہ وہ پوری امانت داری کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہیں گے!

یوں تو وکاس اور ڈیویلوپمنٹ کا نعرہ ہندوستانی سیاست میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن اس سلوگن کے پیچھے چھپی نفرت اور مکمل فساد کا فاسد مادہ نکال کر پیش کرنا ضرور نیا ہے۔ کیجریوال نے وہی کیا ہے۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ایک ہندو اور راشٹر بھکت ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے ڈیویلوپمنٹ ایجنڈے کو نئی شکل عطا کی ہے۔ پچھلے ٹرم میں اسی عام آدمی پارٹی نے اپنے اعلان کردہ منشور کے مطابق کتنے ترقیاتی کام کئے اور کتنا بڑھا چڑھا کر اس کا پرچار کیا، اس کا جائزہ ایک الگ موضوع ہے سر دست اس الیکشن کے نتائج کے پس پردہ جو عوامل کار فرما رہے ان پر غور کرتے ہیں۔
ہندوستانی ووٹر ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ انہیں کسی ایک کسوٹی پر پرکھا جا سکے! یہاں ہر چناؤ نئے رنگ وروپ کا ہوتا ہے اور فتح نصیب پارٹی ووٹروں کے حسب منشا اپنا لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ تجزیہ نگار کا اپنا الگ زاویہ نگاہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ کچھ ظاہر اور کچھ مخفی عوامل تلاش کرکے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ یہاں لوک سبھا سے اسمبلی انتخابات تک کے محدود سفر میں لوگوں کی ترجیحات بدل جایا کرتی ہیں! یہی دلی جہاں تقریبا نو ماہ قبل لوک سبھا الیکشن میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو دھول چاٹنی پڑی تھی اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت سے سرفراز ہوئی اور کل جسے عوام نے کلی طور پر مسترد کردیا تھا آج اسے سینے سے لگایا ہے اور دوسری پارٹیوں کو دھول چٹائی ہے!
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر لوک سبھا میں شرمناک ہزیمت اور اسمبلی میں قابل فخر جیت کے پیچھے کون سے اسباب کار فرما رہے؟
ایک طرف کیجریوال اینڈ کمپنی کے مطابق یہ الیکشن کام کی بنیاد پر لڑا اور جیتا گیا ہے۔ بات اگر کام کی ہی تھی تو اسی پارٹی کے آٹھ ہارنے والے امیدواروں کو چھوڑئے خود ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو اپنے ہی حلقے سے جیتنے میں کیوں ناکوں چنے چبانے پڑے؟ آخری راؤنڈ کی گنتی تک پوری پارٹی کی سانس جہاں تھی وہیں رک سی کیوں گئی تھی؟ دوسری طرف تجزیہ نگاروں کی جانب سے ایک عام بات یہ کہی جا رہی ہے کہ اس الیکشن میں نفرت اور فرقہ واریت کی سیاست کو مات دی گئی ہے! پولارائزیشن بری طرح ناکام رہا، تو پھر جہاں کانگریس کو حسب سابق زیرو مگر بی جے پی کی پانچ ایکسٹرا سیٹیں کیوں کر آئیں؟ اسی طرح بی جے پے کا ووٹ پرسینٹ 38.52% کیسے آیا؟ اسی طرح کچھ اور بھی وجوہ بتائے جا رہے ہیں جو غلط بالکل نہیں ہیں!

ان سب کے باوجود اس ہار جیت میں دو سب سے اہم اور نمایاں عناصر تھے:
‏۱- Freebies یعنی مفت کی چیزیں
۲- ہندو آئیڈیولوجی
ہندوستان میں سب جانتے ہیں ووٹروں کی اکثریت مڈل کلاس یا مزدور طبقہ ہی ہے جس کے لئے بجلی، پانی، صحت اور تعلیم یا پھر ٹرانسپورٹ جیسی ضروریات کی مفت فراہمی حرز جان ہے۔ اب اگر کوئی پارٹی اس طرح کا وعدہ کرے اور اس پر بہت حد تک عمل بھی کرے تو اس کے حق میں ووٹ پڑنا طبعی ہے۔
دوسرا فیکٹر جس نے اپنا بڑا رول ادا کیا وہ ہے کیجریوال کا کھلے عام ہندو آئیڈیولوجی کو سراہنا اور بغیر شور مچائے اسے عملی طور پر ثابت کرنا۔ بی جے پی کے پاس اگر اپنے ‘رام’ کا ٹیگ تھا تو کیجریوال کے پاس رام جی کے سب سے معتمد لیفٹینینٹ ‘ہنومان’ تھے۔ بی جے پی نے دھارا 370 منسوخ کیا تو کیجریوال نے فورا اس کی تائید کی۔ اجودھیا میں بابری مسجد کو کالعدم قرار دے کر رام مندر تعمیر کا فیصلہ آیا، کیجریوال نے کھل کر مبارکباد پیش کی۔ نریندر مودی یا ان کی پالیسیوں کی کسی موڑ پر صراحت کے ساتھ مخالفت سے گریز کا راستہ اپنایا۔
حالیہ شہریت ترمیمی ایکٹ CAA یا NRC کے خلاف کیجریوال نے آج تک کوئی رسمی بیان نہیں دیا، ہاں کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے گھما پھرا کر کچھ کہہ دیا وہ الگ بات ہے۔ اسی سلسلے میں ایک انٹرویو کے دوران کیجریوال نے صاف صاف کہا تھا کہ شاہین باغ کا احتجاج بالکل غلط ہے، اس دھرنے کی وجہ سے ایمبولینس اور اسکول بسوں کو دقّت پیش آرہی ہے اس لئے اس دھرنے کو فورا ختم کرانا چاہئیے! مزید کہا کہ اگر دلی پولیس ان کے زیرنگیں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں راستہ صاف کرا دیتے۔ حالانکہ کیجریوال کو اسی طرح کے پروٹیسٹ اور دھرنوں نے ہی جنم دیا تھا۔ کرپشن کے خلاف انا ہزارے کا احتجاج سب جانتے ہیں۔ کرن بیدی، کومار وشواس اور بابا رام دیو جیسے کٹر ہندوؤں کے ساتھ انہوں نے دلی میں اتنے پروٹیسٹ کئے کہ پوری دلی میں انارکی کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، ایمبولینس اور اسکول بسوں کے علاوہ عام نقل وحرکت اس وقت ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم چیز جو بطور خاص حالیہ دلی کے اسمبلی الیکشن میں نظر آئی وہ تھی کیجریوال کا کسی مسلم حلقۂ انتخابات میں شریک نہ ہونا۔ ظاہر ہے کیجریوال کے سوا مسلمان اور کاے ووٹ دیتا چنانچہ اس بار سبھی مسلم حلقوں سے عام آدمی پارٹی کے پانچوں امیدوار منتخب ہوئے لیکن کیجریوال نے ان کے کسی انتخابی مہم کی ریلیوں میں جانے سے مکمل احتراز کیا تاکہ ہندو ووٹ اثرانداز نہ ہوسکے۔
کل گیارہ فروری کو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد اروند کیجریوال نے پارٹی ہیڈ کوارٹر کی چھت پر اپنے کارکنوں کو مبارکباد دی، دل کھول کر ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں خوش کرنے کے لئے کہا: آج لارڈ ہنومان کا دن ہے جنہوں نے دلی والوں پر خاص عنایت کی ہے! ہماری التجا ہے کہ ہنومان جی ہمیں سیدھی راہ دکھاتے رہیں تاکہ اگلے پانچ برسوں تک ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں۔ کیجریوال نے اس عظیم فتح کے موقعے پر اپنی حب الوطنی کا اظہار ان لفظوں میں بھی کیا: یہ جیت صرف دلی کی نہیں ‘بھارت ماتا’ کی جیت ہے۔
ہنومان اور بھارت ماتا کا ریفرینس اپنی اہمیت کے اعتبار سے معنی خیز بھی ہے اور قابل توجہ بھی! عام آدمی پارٹی کی حریف بی جے پی نے اب تک عوامی پیغام میں ہندوتوا اور نیشنلزم کی سماگری کا ہی تڑکا لگایا ہے لہذا کیجریوال نے بھی انہیں اجزائے ترکیبی کو چنا مگر اس کی حکایت بدل دی۔ کیجریوال نے ٹی وی سیٹ پر بیٹھ کر ہنومان چالیسا کا وظیفہ پڑھا اور ہندوؤں کو باور کرایا کہ وہ بھی دیوتا بھکت ہے، اب وہ پرانا انارکسٹ نہیں رہا بلکہ سچا دیش پریمی ہندو ہے جسے ہنومان جی کے مندر جانے میں کوئی عار نہیں! مختصر یہ کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو اسی کے منتر سے مارا تاہم بی جے پی کی مانند ہندوازم کا لبادہ اوڑھ کر نفرت کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کانگریس کی طرح ہندوازم اپناتے ہوئے عذر خواہی کی اور جا و بے جا شرمندگی کا اظہار کیا۔
عین ممکن ہے دلی سے باہر نکل کر دوسرے صوبوں میں بلکہ ملکی سطح پر جانے کے لئے کیجریوال کا یہ نیا طریق کار اور نئی اسٹریٹیجی ہو۔ یہ تجربہ دلی میں تو خوب کارگر رہا اور کہا جا سکتا ہے کہ گجرات ماڈل کی طرح دلی ماڈل ابھر رہا ہے!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Irshad Rasheed

آپ کی بات بالکل درست ہے اور میرے خیال سے آر ایس ایس کی سوچ کامیاب ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کو سیاست کے حاشیہ پر کردیا جائے.

دہلی انتخاب میں مسلمانوں کے پاس کیجریوال کو چننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن تھا بھی نہیں.

سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلمان بادشاہ گر کے بجائے سیاسی جماعتوں کے لئے اچھوت بن گیا ہے، اور یہ اچھی علامت نہیں ہے.

اللہ المستعان