غلطیاں محبت چاہتی ہیں

ام ہشام سماجیات

ہم مہذب معاشرے کے افراد، ہم نے ترقی کرتے کرتے آج   دنیا کی سبھی قدریں سیکھ لی ہیں لیکن نہیں سیکھا تو محبت کرنا، کسی بگڑے ہوئے، بھٹکے ہوئے کو سہارا دے کر اسے سیدھے راستے تک پہنچانے کا حوصلہ ہم میں نہیں آیا۔
ہم سمجھتے ہیں صرف ہاتھ اور ڈنڈے سے مارا جاتا ہے لیکن ہم غلط ہیں۔ لفظوں میں بھی دھار ہوتی ہے، رویوں میں بھی کٹار ہوتی ہے اور بسا اوقات دیکھنے والے کی نظروں میں بھی حقارت کی زہر بھری دھتکار ہوتی ہے۔ لفظوں، رویوں اور نظروں کی جو مار ہوتی ہے وہ کہیں کاری ہوتی ہے۔
اور ایسی مار ہم ہر روز دیتے ہیں اپنوں کو، غیروں کو اپنے ماتحتوں کو کمزوروں کو، خود کو بے قصور ثابت نہ کرپانے والے بے زبانوں کو، اپنے عذر بیان نہ کرپانے والوں کو ہم  روز ہی ایسی ضرب لگاتے ہیں۔
یہ ہماری دنیا ہے، اس میں کون کرتا ہے مجرموں سے محبت؟ کون کرتا ہے غلطیاں کرنے والوں سے محبت؟
شاید کوئی بھی نہیں! نہ والدین نہ اساتذہ نہ دوست احباب نہ سماج نہ معاشرہ۔ آج کوئی محبت سے کسی کی اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہر کوئی بس غلطی کرنے والے کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑتا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ معمولی معمولی سی غلطیاں کرنے والے کو ڈرنے سہمنے والے کو مزید ڈرا دھمکا کر ڈھیٹ، خود سر اور پکا مجرم بنادیا جاتا ہے۔
معاشرے کی بے حسی کی انتہا ہے کہ یہاں ایک نفسیاتی مریض، ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریض کی تکالیف کو  بھی سمجھنے کی بجائے اسے ایمان سے خالی بتایا جاتا ہے۔ اس کے سامنے نصیحتوں کے انبار لگادیے جاتے ہیں کہ وہ بھری دنیا میں خود کو تنہا اور ناکارہ سمجھنے لگے اور بالآخر اسے اپنے سامنے خود سوزی کے علاوہ کوئی اور راستہ سجھائی نہ دے۔
ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ  آج ہم اصلاح ذات سے لے کر اصلاح معاشرہ تک کسی سمت کوئی کوشش نہیں کرنا چاہتے، ذرا سی بھی نہیں۔ بس یہاں ہر کسی کو ایک شریف سلجھا ہوا مہذب سا سیکھا سکھایا ہوا “رشد یافتہ فرد” چاہیے۔
اندازہ کیجیے بستر پر روزانہ پیشاب کرنے والا اٹھارہ سالہ ایک نوجوان شرمندگی اور ذلت کے کتنے خانوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ لڑکے کی والدہ سوشل میڈیا پر علاج ومعالجہ کے ایک گروپ میں اپنا مسئلہ اٹھاتی ہیں تو ان دیکھے لوگوں کی طرف سے ایسے ایسے تبصرے ملتے ہیں جو اس پریشان ماں اور بیٹے کو مزید پریشان کردیتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
(میرا بیٹا بستر پر پیشاب کرنے کا عادی ہے، میں بہت مشکل میں ہوں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں؟
اچھا!
آپ کے بچے کی عمر کیا ہے؟
جی! اٹھارہ سال
کیا! آپ کو سننے میں شاید غلطی ہوئی میں نے پیشاب کرنے والے بچے کی عمر پوچھی ہے
جی! اسی کی عمر 18 سال ہے۔
محترمہ پھر تو آپ کے بیٹے کو ڈاکٹر کی نہیں ڈنڈے، چپل اور جھاڑو کی زیادہ ضرورت ہے اور اگر پھر بھی نہ سدھرے تو اسے الٹا لٹکادیا کریں)
ختم شد…
اب آگے افسوس اور افسوس کے سوا میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔
بہر حال یہ تو محض ایک چھوٹی سی کلپ ہے اس اپاہج، گونگے، بہرے معاشرے کی جس کی تمام انسانی حِسیں ناکارہ اور مفلوج ہوچکی ہیں۔ تعجب اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس لنگ کے شکار دونوں طرح کے لوگ ہیں، سماج کے سو کالڈ سوِلائیزڈ ممبران بھی اور تعلیم و تربیت سے عاری عام سطحی ذہن کے دوسرے انسان بھی۔

یہ مہذّب انسانوں کا  وہ معاشرہ ہے جہاں آپ کی پریشانی دوسروں کے لیے تفریح کا سامان بن جاتی ہے، یہ وہ دنیا ہے جہاں رنج و غم مل کر آپس میں بانٹا نہیں جاتا بلکہ دنیا بھر میں بانٹ دیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس درد کے پیچھے کے تماشے سے محظوظ ہوسکیں۔
اور پھر جب کوئی بڑی گھٹنا گھٹتی ہے اور انسانی آبادی کو کوئی انسان نما بھیڑیا اپنی بربریت کا شکار بناتا ہے تو پھر ہمارا ازلی واویلا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر وہی معاشرتی کمیوں کا رونا، محبت اور بھائی چارگی کے فقدان کی داستانیں، مذہبی اور اخلاقی زوال کی دُہائیاں، زمانے کو منہ بھر بھر کر گالیاں۔ کبھی اِس کا تو کبھی اُس کا نام لے لے کر اسی طرح ہم اپنے غیر ذمہ دارانہ اقوال و افعال کو، اپنی کج ادائیوں کو جسٹفائی کرنے اور دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گویا ہم اپنے افعال واقوال میں فرشتہ ہیں اور ہمارے علاوہ سارے لوگ کسی دوسرے سیارے سے آکر ہمارا دنیاوی نظام چلارہے ہیں اور ہم اس کے ذمہ دار ہیں ہی نہیں۔ آج صرف چیخ پکار کرکے ہر کوئی اپنا اپنا فرسٹریشن دوسروں پر نکالنے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ہم  بحیثیت انسان یہ سمجھنے کی زحمت کیوں نہیں کرپارہے کہ جن لوگوں کو ہم صبح شام کوسنے دیتے ہیں، جن کے سر الزامات تھوپ کر ہم خود کو مقدس ہستی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں جنھیں معمولی معمولی باتوں پر ہم سزا دینے کو بیتاب رہتے ہیں ہمارے درمیان یہ مجرمین کوئی ماورائی مخلوق تو نہیں جو آسمان سے ہم پر عذاب کی شکل میں مسلط کردیے گئے ہیں اور جن کی وجہ سے انسانی آبادی خوف وہراس کی زندگی گزار رہی ہے۔
بلکہ سمجھ کر برتنے والی بات ہے کہ یہ لوگ ہمارا ہی ایک انَش ہیں اور ہماری طرح  آدم کی ہی اولاد ہیں۔ ان کے سینے میں بھی ایک عدد دل ہے جو دھڑکتا بھی ہے اس دل کو بھی اللہ نے جذبات کی سوغات عطا کر رکھی ہے  جس کے اندر غم و خوشی جیسی کیفیات بھی ہیں۔
لہذا قصوروار انسان کو بھی  انسان سمجھیں اور انسان سمجھ کر اس کے ساتھ انسانوں سا سلوک کریں۔
فرعون جیسے سرکش انسان کے لیے بھی”قولًا لیِّنًا” نرم بولی بولنے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی حتی المقدرو کوشش کرتے رہیں۔ شفقت و محبت اور نرم خوئی کے ذریعے اس کے لیے ہمیشہ  معاشرے میں اچھے فرد کی شکل میں واپسی کی گنجائش بنائے رکھیں۔ جیسا کہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

انصر اخاک ظالما او مظلوما (رواہ البخاری:2443)

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم

ظالم کی مدد کو اللہ کے نبی نے اس طرح بیان کیا کہ  ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا، اس کی اصلاح کرنا اسے سمجھانا بُجھانا ایک طرح سے پورے سماج کی مدد کرنا ہے اور معاشرے کو اس انسان کے شر سے چھٹکارا دلانا ہے اور اس سے بھی پہلے اس انسان کی مدد کرنا ہے جو شر اور خیر کی تمیز کھوچکا ہوتا ہے اس کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بننا ہے۔

مومن کی عظیم ترین خوبیوں میں رواداری، رحمت، آسانی اور معافی کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ایک اچھا انسان، سچا مومن لوگوں سے پیار کرتا اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، وہ لوگوں سے ہمدردی و الفت کا رویہ رکھتا ہے اور لوگ اس سے الفت سے پیش آتے ہیں کیونکہ  اس کی نرمی، آسانی اور رواداری کے اثرات سیدھے سماج پر پڑتے ہیں۔
انسان کا اپنے سماج کے لیے کار آمد ہونا ہی اس کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ ان خوبیوں کا سب سے بڑا فائدہ خود اس انسان کو ہی ہوتا ہے۔
مسند احمد کی ایک صحیح حدیث میں مروی ہے:

((المؤمن يألف، ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف))

مومن انسیت والا ہوتا ہے، اس شخص میں کوئی خیر نہیں جسے نہ کسی سے انسیت ہو اور نہ ہی لوگوں کو  اس سے انسیت ہو۔
جبکہ اس کے برعکس سخت رو، تشدد پسند، شقی القلب اور سنگدل انسان نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔
اس بات کو اللہ تعالیٰ اس طرح بیان کرتا ہے:
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔ (آل عمران)
یعنی رسول رحمت کی نرمی کے سبب کفار و مشرکین اسلام سے ناگواری کے باوجود بھی کئی ایک معاملات میں اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ رکھتے اپنے داخلی اور خارجی امور میں اللہ کے نبی کی رائے کو مقدم رکھتے۔

لہذا انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کے اندر سے رحم رخصت ہوجائے۔ اور آج ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ جب بات چل رہی قصورواروں کی، غلطیاں کرنے والوں کی تو اس ناحیے سے بھی سوچ لیا جائے کہ  جب یہ قصوروار ہمارے ساتھ ساتھ سماج میں پھلتے پھولتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج اچھے اور یہ برے ہیں؟
پھر کیوں آج ہمارا شمار ذی وقار اور معزز ترین لوگوں میں ہورہا ہے اور ان کا فضول ترین اور ہدف سے بھٹکے ہوئے لوگوں میں؟ کیا یہ ہمارا فرض نہیں تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں اس ایک انسان کا انتخاب کرلیتا جو سماج کی نظروں میں باغی تھا جسے معاشرہ  مجرم سمجھتا رہا۔ جن کی وجہ سے انسانی آبادی خوف و ہراس میں مبتلا تھی۔ جن کے دم سے انسانوں کے باہمی تعلق ان کی اخوت وبھائی چارگی پر بار بار حملے  ہوتے رہے ہوں۔
ہم نے انھیں اپنے جیسا بنانے کی اپنی سی کوئی کوشش  کیوں نہیں کی؟ ان کے سر پر سوار جنونیت اور درندگی کو شفقت سے سر پر ہاتھ پھیر کر اسی وقت کیوں نہ سلادیا؟
یہ تو اپنے اپنے اعتراف کی بات ہے کہ ہر مجرم اور گنہ گار پیدائشی گنہ گار نہیں ہوتا نہ ہی  پیدا ہوتے ہی کوئی بچہ دہشت گرد بن جاتا۔ اسکول میں داخلہ لیتے ہی کوئی عادی چور نہیں بن جاتا۔
بچپن ہی سے کوئی گلی محلے میں چوریاں کر پڑوسیوں کی عزت اور ان کے مال کو پامال کرنے کا رسیا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی تعلیم، تربیت، گھریلو ماحول اور صحبت کا اسے بنانے اور بگاڑنے میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
معاشرہ ماں کی کوکھ کی مانند ہے۔ معاشرہ دراصل وہ ساری سوچ اور حالات ہیں جس میں ایک انسان جی رہا ہوتا ہے اس لیے اس معاشرہ کا اثر ماں کی کوکھ سے شروع ہوکر قبر میں اترنے پر  ہی ختم ہوتا ہے۔ اور جیسا معاشرہ ہم نے تشکیل دے رکھا ہے اس سے مجرمین کا پیدا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔
تعجب کا مقام یہ ہے کہ ہم نے صرف مسائل کو ڈسکس کرنا سیکھا ہے سینکڑوں انسان بھی آپ کے گرد جمع ہوجائیں تب بھی مسائل  ہی گنے اور دوہرائےجاتے ہیں کوئی حل بتانے کی طرف نہیں آتا۔ 
آج کتنے قصوروار ہیں جو توبہ کو تڑپ رہے ہیں، کتنے بے گھر ایسے ہیں جنھیں ان کے اپنوں نے معمولی غلطیوں پر گھر سے بے گھر کر زمانے کے رحم وکرم پر چھوڑدیا ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ استاد نے انھیں ایسے زخم لگائے کہ پوری شخصیت ہی مسخ کرکے رکھ دی اب وہ تعلیم کی طرف مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتا۔ نہ جانے کتنے بدنصیب تو ایسے  بھی ہیں جنھیں سماج نے سزا ان کی غلطیوں سے  بڑھ کردی ہے، بلکہ اب بھی مسلسل سزائیں دیے جارہے ہیں۔
تو پھر ایسے مجرمین میں سدھار کیسے آئے؟
کیا خیال ہے؟ ان مجرمین کو کسی دوسرے سیارے پر لے جاکر بسادیا جائے یا پھر ان کے وجود سے دھرتی ہی پاک کردی جائے؟ یا پھر انسان بن کر  ان کے اصلاح کی کوشش کی جائے؟
ان کی غلطیاں ہم سے محبت چاہتی ہیں۔ آج محبت سے کسی قصوروار کی اصلاح کردی جائے تو شاید وہ جرم و گناہ  کی طرف اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو واپس سیدھے راستے کی طرف موڑ لے۔
سماج میں مزید مجرم پیدا کرنے کی بجائے ان کی شرح کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم اپنے رب کی طرف دیکھیں کہ اس نے انسانی آبادی کی اصلاح کے لیے پےدرپے شریعتیں نازل کیں، انبیاء و رسل بھیجے۔ ایسا نہیں ہوا کہ ایک قوم پر اس کی نافرمانیوں کے سبب پہلی  ہی بار میں عذاب نازل فرمایا۔ تو پھر ہم اس کے ہی بندے ہیں ہم کیوں دوسروں کی  غلطیاں محبت کے ساتھ چھڑوانے کی بجائے اسے معتوب بنادیتے ہیں۔

دربار رسالت ﷺ میں نوجوان نے زنا کی اجازت چاہی اللہ کے نبی نے اسے عقلی دلائل کے ساتھ قائل کیا ساتھ ہی اللہ کے نبی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کی ہدایت و اصلاح کی خاطر اللہ سے دعا فرمائی اور نوجوان اپنے برے عزائم سے باز آکر تائب ہوگیا۔
ایک بدوی آکر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کردیتا ہے۔ صحابہ اس کی طرف دوڑتے ہیں اللہ کے نبی انھیں روک دیتے ہیں۔ اس کے فارغ ہونے کے بعد اسے بڑے پیار سے اس کی غلطی کی جانب توجہ دلاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ یہ اللہ کا گھر ہے اس میں عبادت کی جاتی ہے اس لیے یہاں پاکی کا التزام کرنا چاہیے۔ بدوی نے آپ کی بات کو دل وجان سے تسلیم کیا اور ایمان لاکر آپ کا تابع ہوا۔
عمر ؓبن خطاب اور خالید بن ولید ؓ کی اسلام دشمنی جب حد سے آگے بڑھنے لگی اللہ کے نبی نے ان کے  قبول اسلام  کی دعا کے لیے اپنے ہاتھ اوپر اٹھادیے۔

دنیا کی کوئی تہذیب عرب کے زمانہ جاہلیت سے بدتر نہیں تھی قرآن اسی زمانے کو آگ کے گڑھے سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر اس دور کے انسانوں کا تزکیہ وتصفیہ نبی کریم کرسکتے ہیں تو آج بھی ان کی امت زندہ ہے اور نبی کریم کی تعلیمات ان کا اسوہ حسنہ زندہ و جاوید ہیں ہم انہی تعلیمات سے  لوگوں کے بجھے ہوئے دلوں میں زندگی کا چراغ روشن کرسکتے ہیں۔

اس اہم کام  کی خاطر ہمیں سماج کے مجرموں کو بھی  پہچاننا ہوگا کہ وہ واقعی سماجی مجرم ہے یا اپنے اعمال وخیال کا مجرم ہے یا پھر  وہ محض اپنے برے وقت اور حالات  کی چکی میں پسا ہوا ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے قصورواروں کو ہمارا سماج دھتکارتا ہے، کوستا ہے ان پر مسلسل طعنہ زنی کرکے ایک معمولی خاطی کو عادی اور پیشہ ور مجرم بنادیتا ہے۔
لیکن کبھی یہ سوچنے کی طرف نہیں آتا کہ اگر انسان کی سزا قانون شریعت کے ضابطے میں نہ آتی ہو تو ایسی سزا سے بہتر  ہے عفو و درگزر کا راستہ۔
یہاں یہ بات صاف کرتی چلوں کہ یہ کن قسم کے مجرموں کی بات ہورہی ہے؟
“عام مجرم” جو میری نظر میں مجرم نہیں بلکہ قصوروار ہیں جو راہ سے بھٹک گئے جو بہک گئے۔ اور کچھ تو برائے نام مجرم ہیں جن کا کبھی کوئی قصور ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی فطری کمیاں اور کوتاہیاں ہی عذاب بناکر ان پر مسلط کردی جاتی ہیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کے  مجرم کہاں پنپتے ہیں؟؟ ہمارے ہی گھروں محلّوں میں، ہمارے اپنے اسکول کالجز اور دفاتر میں۔ کوئی بھی ہوسکتا ہے ہمارا کوئی خونی رشتہ،  ہمارا کوئی پڑوسی، ساتھی، شاگرد، کوئی پہلو کا ساتھی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
بات  گناہ، خطا، جزا اور سزا کی ہورہی ہے تو میں بھی کہہ لوں! !!! کہ ہم  سبھی غلطیاں کرتے ہیں بلکہ اگر ہم غلطیاں نہ کریں تو شاید زندگی کے کئی نشیب وفراز سے جاہل رہ جائیں گے۔ جسے قرآن نے اس طرح تعبیر کیا:

وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا [آل عمران:103]؟

تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی۔
اور یوں بھی ابن آدم اپنی سرشت میں خطائیں اور  غلطیاں لکھواکر  لایا ہے تو پھر واویلا کس بات پر ہے۔ کسی سے مسلسل غلطیاں ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ انسان ابھی اپنے شعور اور فکر میں پختہ نہیں ہوا۔ اور اسے ہماری توجہ، محبت اور فکر کی اشد ضرورت ہے۔
بسا اوقات تو انسان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا غلطی کررہا ہے دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ غلطی کرنے والے کی توجہ اس جانب مبذول کرائے۔ برائی کے دلدل سے باہر آنے میں اس کی ہر ممکن مدد کرے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم  گناہ اور خطا میں تمیز کا مادہ ہی نہیں رکھتے ہیں۔ ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ جو رب ہے نا!! اس نے اس فرق کو قائم کیا ہے یہ کہہ کر کہ”خیر الخطائین التوابون”۔ کیونکہ ہم عاجز اور بے درد انسان ہیں۔ ہم کسی کو موقع، مہلت، فرصت، تربیت اور شفقت ومحبت دینے کے متحمل بھلا کیسے ہوسکتے ہیں؟
ہم کیا کسی کی اصلاح کریں گے اور کسی بہکتے ہوئے کو تھام کر اس کی بھٹکی ہوئی منزل کا پتہ دیں گے۔ کسی بہکتے ہوئے کو تھام لیں گے؟
لیکن ہماری اصلی قابلیت یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کے لیے بہترین وکیل اور دوسروں کی معمولی غلطیوں پر بھی جج بن کر ہم نے کوتوالی بٹھائی ہوئی ہے۔ ہمارے لیے ہماری غلطیاں ہاتھ کا چھالا ہیں اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی فطری کمیاں بھی چھوت کی متعدّی بیماری بنی ہوئی ہیں۔
کیا ہوا اگر کوئی جواں سال لڑکا بستر گیلا کرتا ہے۔ بظاہر یہ سب نارمل تو نہیں ہے جب ہمیں سننے میں یہ بات نہیں جمی تو پھر ذرا اس متاثر  لڑکے کی کیفیت کا اندازہ لگائیے کیا گذرتی ہوگی اس نوجوان پر جسے ہر روز دن چڑھے ایک نئی شرمندگی کا سامنا ہوتا ہوگا۔ والدین، سبلنگز، رشتے دار خاندان سبھی کے مذاق کا نشانہ اس کی یہ بیماری بنتی ہوگی۔
متاثر لڑکے کی والدہ نے سوشل میڈیا پر علاج ومعالجہ کے ایک گروپ میں یہ سوال پوچھا اور سماج کے اصل کمین فطرت لوگ اس بچے کے پیچھے پڑگئے ۔۔۔ ایسے ایسے تبصرے کہ الاماں و الحفیظ
اس روز اپنے انسان ہونے پر شرمندگی محسوس ہوئی۔
ہم سے تو لاکھ بہتر یہ حیوانی دنیا ہے جو کبھی ایک دوسرے کی کمیوں پر ٹَھہَاکے نہیں لگاتے۔ کسی کے عیبوں کے پیچھے پڑکر اس کی ذات کی دھجّیاں نہیں اڑاتے۔
ایک خاتون ڈپریشن کے آخری اسٹیج پر پہنچ چکی ہے  بیماری سامنے آنے پر لوگوں کے منہ کسی پھاٹک کی طرح کھل چکے ہیں طرح طرح کی باتوں کے ساتھ سب نے اپنا اپنا زور آزمالیا ہے حد تو یہ ہے کہ ایک  تکلیف دہ تجزیہ بھی خاتون کی حالت پر  کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن وپریشن کچھ نہیں ہوتا بس یہ بندے کے ایمان کی کمی ہے۔
یہ کس ماہر نفسیات نے آپ سے  سرگوشی کی؟ طبی ریسرچ بتاتا ہے کہ ڈپریشن کےشکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی لوگوں اور خوف خدا سے معمور بندوں کی ہوتی ہے جن کے لیے دنیا اور اس کی تن آسانیاں ایک آزمائش لیے ہوتی ہیں۔
خاتون کے ایمان کی پیمائش کرنے والے اللہ کے کس عابد و زاہد بندے نے اس ڈپریسڈ خاتون کی مخفی نیکیاں دیکھ رکھی ہیں؟ دنیا کیا جانے کہ کتنے گھروں کو اس نے جوڑ رکھا ہے جانے کتنے فاقہ زدوں کے گھر چولہےکی آگ اس کی سخاوت سے گرم رہتے ہوں، جانے وہ کتنے بے سہاروں  کی آس ہو، کون اس کی مخفی نیکیوں سے باخبر ہے؟

کیا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا، خلق خدا کی مشکلات کا حل بننے والا انسان ایمان سے خالی ہوتا ہے؟ تو پھر اللہ کے کن کامل ولیوں کو کب اور کیسے اس بات کا کشف ہوا کہ خاتون سے ایمان سلب کرلیا گیا؟

بے سر و پا کے الزام اور تہمت لگانے والے کیا جانیں کہ کتنی راتیں اس مغموم و مجبور  نے مصلے پر آہ و بکا  میں گزاری ہوں گی۔ دل رنجیدہ کو، یقیں سے خالی وجود کو رب ذو الجلال کے سامنے کس عجز سے بار بار جھکایا ہوگا۔ دل کے سارے راز ونیاز اپنے مالک کے سامنے کھول کر رکھ دیے ہوں گے۔ روتی رہی ہوگی، گڑگڑاتی رہی ہوگی اور اس کی قبولیت کی تڑپ نے جانے کتنی راتوں کو اسے  بے خواب کیا ہوگا، پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ کن جملہ کہ “بی بی یہ سب ایمانی کمزوری ہے بس اور کچھ نہیں”

اللہ سبحانہ وتعالی کا ایک نام ہے “الودود” یہ نام محبت اور مودت کا پتہ دیتا ہے اس نام کے ساتھ اللہ کا دوسرا نام بھی جڑا ہوتا ہے غفور ٌ ، رحیمٌ ۔۔ یعنی معاف کرنے والا۔ بخش دینے والے رب کا معاملہ ہم سے بے حد مختلف ہے ہم غلطی کرنے والے کو معاف تو کردیتے ہیں لیکن کبھی اس سے محبت نہیں کرتے، اس پر محنت نہیں کرتے۔
اللہ تعالی خاطی کے لیے توبہ کی زمین کو زرخیز بناتا رہتا ہے وعظ ونصیحت کے ذریعے اپنی نشانیوں کے ذریعے  تاکہ بندہ اس کی طرف پلٹ آئے اور جب خاطی ایک عمر گناہوں بھری زندگی گزارنے کے بعد اللہ کی طرف سچی  توبہ کی لگن لیے لوٹ آتا ہے  تو اللہ اس کے سابقہ گناہوں کو  بھی مٹا دیتا ہے اور دھتکارے کی بجائے بڑی گرم جوشی، خوشی اور محبت کے ساتھ اسے تھام لیتا ہے اس پر رحم بھی کرتا ہے۔
اس لیے کہتی ہوں کہ غلطیاں “سزا” سے پہلے محبت چاہتی ہیں… غلطیاں محبت چاہتی ہیں!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
حبیب اللہ

ماشاء اللہ اللہ ہم سب کو سمجھ دے