زیر نظر تحریر حجم کے اعتبار سے مقالہ، مواد کے اعتبار سے کتاب، اور مطالعہ کے وقت مضمون جیسی ہے۔ معلومات میں تجربہ ایسے تحلیل ہوگیا ہے جیسے پانی میں پانی کا رنگ۔ سلاست الگ، روانی الگ۔
عورت کی عظمت اور عورت کے چار بنیادی کرداروں کو ڈسکرایب کرنے کا جو ملکہ یہاں مشاہدے میں آیا ہے وہ محض ریاضت کا پرتو نہیں لگتا۔ بہت سارے نکات ایسے ہیں جو جیے ہوئے لگتے ہیں۔ کچھ جملے ایسے ہیں جو اشعار جیسے لگتے ہیں، اور کچھ اقوال زریں۔ اس کردار کا کوئی ڈایمنشن (DIMENSION) ایسا نہیں ہے جو زیر قلم نہ آیا ہو۔ پیشکش کی ترتیب میں حسن الگ۔ میں ایسا مضمون ہر ہفتے پڑھنا چاہوں گا۔
جہیز کی اوٹ لے کر بہن بیٹیوں کے حقوق سے بھی اعراض کرنے والوں کے جرم کی شناعت بہت بڑی ہے۔ ایسے مجرم اپنے گھر سے ڈولی نہیں اپنی بیٹیوں کا جنازہ رخصت کرتے ہیں۔ دنیا کے رواجوں سے بچنے کے لیے دین کا نام لیتے ہیں، اور پھر نہ دین پر رہتے ہیں نہ دنیا پر۔ اللہ انھیں ہدایت دے!
عورت بے وجہ عظیم نہیں ہے۔ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کی شکل میں باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے دل کو یہی نیوٹرل رکھتی ہے۔ اور کوئی ڈیوائس نہیں بنایا اللہ رب العالمین نے اس کام کے لیے۔ جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں انھیں دیکھو کیسے اپنے دل کے بلاسٹ میں راکھ بن کر اڑ جاتے ہیں۔ اس منظرنامے کو صاحب تحریر نے بڑی صراحت سے بیان کیا ہے۔ ما شاء اللہ!
افسوس صاحب تحریر ایسے حضرات کٹیادھاری ہوئے ہیں، اور جو ٹھیک سے لکیریں بھی نہیں کھینچ سکتے وہ الیاون جمع کرکے جابجا انڈیلتے رہتے ہیں۔ جنھیں لکھنا چاہیے وہ بس درشن دیتے ہیں۔ فری لانسر کو ویب پورٹل بنے زمانہ ہوا۔ اس پورٹل کے لیے صاحب تحریر کو مضمون بھیجنے کی درخواست کیے ہوئے اس سے بھی زیادہ زمانہ ہوا۔ دیر سے ہی سہی منظور تو ہوئی۔ امید ہے اب افادے اور استفادے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان شاءاللہ!
(ایڈیٹر )
عورت دنیا کی خوبصورت ترین مخلوق ہے۔ وہ کائنات کا سب سے بہترین اثاثہ، اور اس دارِ فانی کا سب سے قیمتی سامان ہے۔ وہ بظاہر ایک ضعیف مخلوق اور لطیف جسم وجان کی مالک ہے، مگر کائنات کی تمام رعنائیاں اور جلوے اس کی ایک ادا کے آگے ہیچ ہیں۔ ویسے تو وہ ناقص العقل بھی ہے، مگر اس کی ایک مسکراہٹ اچھے اچھوں کی عقل اڑا دیتی ہے۔
عورت بظاہر ایک کمزور سی مخلوق ہے، مگر اللہ تعالى نے اسے اس قدر قوت عطا کر رکھی ہے کہ کاروبار کائنات میں وہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہتی ہے، دکھنے میں تو اس کا حدود اربعہ اس کے گھر کی چہار دیواری تک محدود نظر آتا ہے، مگر اس کی عظمت لا محدود ہوتی ہے، اگر چہ اس کی آواز اس کے کمرے سے باہر نہیں جاتی، مگر اس کے دل سے اٹھنے والی صدا آسمانوں کو چیر دیتی ہے۔
عورت کا وجود ویسے تو ضعف ونقاہت کا استعارہ ہے، مگر تاریخ کی سنگلاخ راہوں کی وہ نا تھکنے والی مسافر ہے، اس کا لطیف جسم یوں تو کمزورى کی حسین تعبیر ہے، مگر زندگی کے موج طلاطم میں وہ ایسا پہاڑ ہے جس سے حالات کے مارے ڈانوا ڈول سفینے لگ کر سہارا لیتے اور دنیا میں اپنى آخرى پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں۔
عورت کی اصل قوت اس کی دینداری میں مضمر ہے، یہی اس کا اصل اثاثہ ہے اور یہی اس کی کل کائنات ہے۔ اسی بنا پر وہ دنیا کی سب سے قیمتی شیء اور ربانی عطیات و قدرتی نعمتوں سے مالا مال اس عالم رنگ و بو میں سب سے بہترین سامان ہے۔
عورت کا اصل سرمایہ اس کی عفت ہے، اور اس کی اصل دولت اس کی پاکیزگی ہے، عفت وپاگیزگی صنف نازک کا راس المال بھی ہے اور اس کے حسن وجمال کا آئینہ بھی، اگر یہ دولت اس کے پاس نہ ہو تو اس کا وجود کنگال اور بے معنى ہے، اور وہ ایک زندہ لاش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
عورت کا حسن وجمال اس کی حیا سے عبارت ہے، اور اس کی اصل خوبصورتی اس کى شرم و حیا میں پنہاں ہے، در اصل حیا ہی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ حیا اس کے حسن و جمال کا تاج ہے، اور لجاجت اس تاج کا کوہ نور ہے۔ غور کریں تو ایک عورت شرم وحیا ہی سے عورت ہے، اور یہی اس کے جمال کا حقیقی استعارہ ہے۔ بلا حیا کی ریشمی چادر کے ایک عورت کا نسوانی وجود بے لباسی کا شکار ہونے لگتا ہے، یہ نہ ہو تو عورت عورت نہیں کچھ اور ہے۔
عورت صبر وشکر کا مرقع ہے، در اصل اس کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ یہ دونوں عظیم صفتیں خون بن کر اس کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہیں، اور وہ صبر وشکر کا سراپا مجسم بن جاتی ہے۔
عورت دکھنے میں تو گوشت پوست کی ایک کمزور سی جسم کا مالک نظر آتی ہے، مگر درحقیقت وہ صبر وشکر کا پہاڑ ہوتی ہے۔ جب وہ بیٹی ہوتی ہے تب بھی اسے بیٹوں سے زیادہ صبر کی ضرورت پڑتی ہے، جب وہ بہن ہوتی ہے تو بھائیوں سے زیادہ صبر کرتی ہے، جب بیوی بنتی ہے تو صبر وشکر کا حقیقی مفہوم سمجھتی ہے، اور جب ماں بن جاتی ہے تو صبر وشکر کا پہاڑ ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ زندگی کے ان مختلف مراحل میں اس کا دامن صبر وشکر کی نعمت سے مالا مال ہوتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے یہاں جزع وفزع کی صفت بھی ہوتی ہے، شکوہ وشکایت میں اسے شہرت بھی حاصل ہے، مگر اس کے اندر یہ صفات یا تو عارضی ہوتے ہیں جو بظاہر دائمی نظر آتے ہیں، یا یہ اسی صبر وشکر کا وقتی رد عمل ہوتے ہیں جن سے اسے مسلسل گزرنا پڑتا ہے، یا پھر یہ جزع وفزع کبھی صبردائم سے تنفس اور یہ شکوہ وشکایت بسا اوقات پیار محبت کا نیا انداز ہوتے ہیں۔
عورت محبت کا جام ہے، یہ وہ نازک آبگینہ ہے جس میں پیار و محبت کا جام بھرا ہوتاہے، اور اہل دل وکشادہ ظرف اس جام کی کما حقہ قدر کرتے اور اسے اپنے جسم سے لے کر روح تک اتارتے ہیں۔ اس جام کا رنگ و روپ کوئی بھی ہو اس کے ظرف میں پیار محبت کی شراب ہی ملتی ہے۔ بعض نباض اہل قلم تو کہتے ہیں کہ عورت اس نازک جام بلور کی طرح ہے جس میں محبت کا جو رنگ ڈال دیا جائے وہی اس کا رنگ ہوجاتا ہے۔
عورت کتنی بھی تہی دامن ہو اس کی جھولی صدق وصفا سے بھری ہوتی ہے، عورت کتنی بھی قلاش ہو اس کے وجود کا جام پیار محبت سے لبریز ہوتا ہے، اور عورت کتنی بھی ٹوٹی بکھرى ہو اس کے ظرف سے فدائیت اور قربانی چھلکتی رہتی ہے۔
عورت بظاہر کتنى بھی سخت نظر آئے اس کی نقرئی ذات اندر سے نرم ونازک اور گداز ہوتى ہے، اس کے دل کا پیالہ محبت سے چھلکتا رہتا ہے۔ سخت سے سخت نظر آنے والی صنف نازک بھی بالکل اخروٹ کی طرح ہوتی ہے۔
عورت کا دل بلا شبہ جلدی ٹوٹتا ہے، مگر جلد ہی جڑ بھی جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے دل کا نازک آبگینہ ہلکی سی چوٹ سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ یقینی یہ ہے کہ اسی تیزی سے وہ اپنی پرانی حالت پر لوٹ بھی جاتا ہے، سخت سے سخت ناراض عورت بھی پیار کے دو شَبْد سے سب کچھ بھول جاتی ہے۔
عورت کا مرکزی کردار کچھ بھی ہو، اور وہ کردار کسی بھی مزاج کا تقاضا کرے، مگر اس کا قلب وجگر پیار کے بحر بیکراں کا حامل ہوتا ہے، لطافت ونازکی اس کے جسم وجان کی مالک ہوتی ہے، اور شفقت ومحبت اس کے شریانوں میں بسیرا کرتی ہے، کیونکہ وہ بیٹی ہے، بہن ہے، بیوى ہے، ماں ہے۔ پیار محبت کے اتنے مراحل وہ طے کرتی ہے کہ محبت کا بحر قلزم اس کے موج دریا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ اس کی کمزوری ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہی اس کی اصل قوت ہے جو قدرت نے بڑی فیاضی سے اسے ودیعت کر رکھی ہے۔
عورت کے طلائی سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ اگر لطافت ونزاکت کا استعارہ ہے، تو قوت وصلابت کی علامت بھی ہے، عورت اگر اپنى طبعی کمزوری سے پہچانی جاتی ہے، تو وہ طاقت وقوت اور عزم وحوصلہ کی علامت بھی تسلیم کی جاتی ہے، اس کی سحر ہر رنگ میں ہوتی ہے، اور ہر رنگ ساحرانہ ہوتا ہے۔
عورت اگر گل و بلبل اور فاختہ وکوئل ہوتی ہے، تو وہ شاہین اور چیتے کا کردار بھی بخوبی نبھاتی ہے، اللہ تعالى نے عورت کو جس قدر لطافت اور نزاکت سے نوازا ہے، اسی قدر اسے قوت بھی عطا کررکھی ہے، اور جب وقت آتا ہے تو یہی قوت عورت کا ہتھیار اور اس کا سرمایہ بن جاتی ہے۔
عورت کی سائبانی کا عالم یہ ہوتاہے کہ ایک گھر جب سائبان کھودیتا ہے تب یہ کمزور مخلوق چٹان بن کر حالات کا رخ موڑتی اور آنے والی نسل کے لئے انھیں سازگار بناتی ہے، ایک خاندان سے جب چھت گرجاتی ہے تو یہی ناتواں مخلوق اپنے عزم وحوصلے کا آسمان اس پر پھیلا دیتی ہے۔
عورت کی روشن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب ملک ٹوٹنے لگے، قومیں بکھرنے لگیں،سلطنتیں سمٹنے لگیں، تو متعدد بار اسی کمزرو مخلوق نے اپنے آہنی ارادوں اور آسمانی حوصلوں سے انھیں سہارا دیا۔ جب سفینہ نجات کے ناخدا ہار ماننے لگے تو اسی ناتواں مخلوق نے ڈگمگاتی کشتی کو برِّ امان تک پہنچایا۔ تاریخ نے کتنے ہی ایسے بھیانک حادثے دیکھے ہیں جب اس لطیف مخلوق کےٹھوس عزائم نے گھر وخاندان سے لیکر ملک وقوم تک کی بقا وسلامتی میں فیصلہ کن کردار ادا کئے ہیں۔
عورت محبت و وفا کا پیکر ہوتی ہے، اس کا دل نازک ہوتا ہے، وہ نازک آبگینوں کی طرح ہلکی سی حرکت سے ٹوٹ جاتی ہے، ذرا سی چوٹ سے اس کا وجود بکھر جاتا ہے، مگر اس کا عزم وحوصلہ بڑا آہنی اور آسمانی ہوتا ہے، یہ ایک بار سایہ فگن ہوجائے تو پھر موت ہی اسے ٹال سکتی ہے۔
عورت فطری طور سے بہت درد مند دل رکھتی ہے، جب حالات اس سے سختی اور سنگ دلی کا مطالبہ کرتےہیں تو اس کا وجود لرزنے لگتا ہے، کیونکہ یہ مطالبہ بظاہر اس کے اصل مزاج اور فطرت کے بالکل الٹا ہوتا ہے، مگر قدرت نے اس کی طبیعت میں جو لچک رکھی ہے، اور اس کو جو بے پناہ قوت ودیعت کر رکھی ہے، اس کی بدولت وہ دونوں کردار بہت خوبصورتی سے نبھا لے جاتی ہے، اسی لئے ہمیں بسا اوقات صنف نازک کا وجود تضادات سے بھر پور نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ تضاد نہیں بلکہ اس کے وجود سے مربوط لچک، اور اس کی بے پناہ قوت ہے۔
عورت کی معطر اور رنگارنگ ذات گلستاں صفت ہوتی ہے۔ وفا کی یہ دیوی ہر روپ میں نکھرتی ، اور ہر رنگ میں اپنى خوشبو بکھیرتی ہے، اسی کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے، اور اسی کے ساز سے زندگی کا سوز دروں ہے۔ ذرا تصور کریں اگر عورت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا کیسی ہوتی؟ اور زندگی کی یہ تمام رعنائیاں کیا دلکشی رکھتیں؟
عورت کا ہر روپ سہانا اور ہر کردار بھرپور ہوتا ہے، اگر بیٹی ہے تو گھر کے چمن کی سب سے نازک کلی اور اس کے باغ کا سب سے خوبصورت پھول ہے، اگر بہن ہے تو گھر کی شان بھائیوں کی مان اور سخت سے سخت حالات میں ان کا دست وبازو اور جان نچھاور کرنے والی محبت کا سمندر ہے۔ اگر بیوی ہے تو عشق ومحبت کا استعارہ ، رحمت وشفقت کا رمز اور فدائیت وقربانی کی نشانی ہے۔ اور اگر ماں ہے تو عظمت کا نشان، بلندی کی علامت، اور دنیا وآخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
عورت زندگی کے ہر مرحلہ میں الگ الگ رنگوں میں رنگی ہوتی ہے، ہر رنگ جان دار شاندار اور پر کشش ہوتا ہے، ہر رنگ پر وفا کا رنگ غالب، محبت کا رنگ ظاہر، اور قربانی کا رنگ حاوی ہوتا ہے۔ بیٹی سے بہن تک، بہن سے بیوی تک زندگی کے ہر سفر اور ہر مرحلے میں وہ با وفا، با کردار ، حیا کا پیکر، اور محبت وقربانی کی علامت ہوتی ہے، اور پھر ماں کا روپ دھار کر بدر تمام ہوتی ہوئی عظمت کے آخری نشان کو چھو لیتی ہے۔ اس طرح ایک عورت اپنی زندگی کے چاروں مراحل میں کائنات کی ایک اہم ترین مخلوق اور انسانی زندگی میں ایک فیصلہ کن کردار کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کا ہر مرحلہ خوبصورت بھی ہے، اور پیار محبت، وفا وقربانی کی علامت بھی۔
عورت چاہے بیوی ہو یا ماں، بیٹی ہو یا بہن، مرد کی تعمیری زندگی میں اس کا کردار بہت کلیدی ہوتا ہے، زندگی کے بڑے بڑے معرکوں میں وہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی اور اپنے ٹھوس وجود کو ثابت کرتی ہے، اور بار بار یہ بتلاتی ہے کہ مرد کی زندگی اس کے بغیر نامکمل اور ناقص ترین ہے۔ انسانی زندگی کے بے شمار واقعات، لا تعداد حوادث، اور ان گنت وقائع عورت کی عظمت اور اس کے فیصلہ کن کردار کے گواہ ہیں، تاہم عموما زندگی کے کلیدی معرکوں اور کاروبار حیات کے فیصلہ کن میدانوں میں اس کی حیثیت ایک جندی مجہول کی ہوتی ہے۔
عورت کا ہر کردار بہت پیارا، خوب سہانا، نہایت پر کشش اور گہرا ہوتا ہے، اور اس کی زندگی کا ہر مرحلہ اللہ کی عظیم نشانی ہوتی ہے۔ عورت اگر بیوی ہے تو گھر کی معمار، اس کا سکون، اور وقت آجائے تو اس کی چھت اور سائبان سب کچھ ہے، اور اگر ماں ہے تو اس کا مبارک وجود دنیا وآخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
عورت وہ خدیجہ بھی ہے جو سرور کونین صلى اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے مشکل ترین حالات میں سہارا دیتی ہے، عورت وہ عائشہ بھی ہے جس کے دم سے خاتم الانبیاء کی زندگی میں صدق وصفا اور پیار ووفا کے دریا بہتے ہیں،عورت وہ فاطمہ بھی ہے جو موت کےبعد بھی اپنے جنازے کا پردہ چاہتی ہے، عورت صفیہ بنت عبد المطلب بھی ہے، اور ہند بنت عتبہ بھی، عورت ام یاسر بھی ہے، اورام سلمہ بھی، عورت رابعہ بصریہ بھی ہے، اور سعید بن المسیب کی اعلى کردار بیٹی بھی، عورت فاطمہ غازیہ بھی ہے، اور ام کلثوم بھی۔
یہی عورت شجرۃ الدر بھی ہے اور رضیہ سلطانہ بھی، اور یہی عورت موت کو غلامی پر ترجیح دینے والی میدان کارزار کی رانی لکشمی بائی بھی ہے، اور میدان علم وفکر کی شہسوار سروجنی نائیڈو بھی۔ اگر یہ عورت نہ ہوتی تو تاریخ کے وہ تابناک صفحات بھلا کیسے لکھے جاتے جو اس کے وجود کی روشنائی سے روشن روشن ہیں؟
ہاں یہی عورت لیلى بھی ہے، اور شیریں بھی، اور یہی ہیربھی ہے، اور سوہنی بھی، اور یہی جولیٹ بھی ہے اور قلوپطرہ بھی۔ یہ عورت اگر نہ ہوتی تو پیار محبت کے یہ ترانے کیسے گائے جاتے؟ صدق وصفا کے یہ دریا کیسے بہتے؟ اور محبت کے یہ لازوال افسانے کیسے لکھے جاتے؟ بلا شبہ یہ عورت کی چھوٹی سی نظر آنے والی ذات اپنے سینے میں محبت کا بحر قلزم اور وجود میں قربانی کا صحراء لئے پھرتی ہے۔
تاریخ انسانی میں عورت کا کردار بہت متنوع اور نہایت بھرپور ہے، یہ آپ کو پیار محبت کے افسانوں میں بھی ملے گی اور حرب وضرب کے میدانوں میں بھی، یہ آپ کو گھر کی چہار دیواری میں ایک معاشرہ کی تعمیر کرتے ہوئے بھی نظر آئیگی، اور قوم وملت کے مستقبل کی تعمیر وبناء میں شرکت کرتی بھی۔
عورت کے دم سے اگر پیار محبت کو دوام حاصل ہے، اس کے وجود سے صدق وصفا، کردار ووفا کا نام باقی ہے، تو اس کے وجود سے میدان کارزار میں بہنے والے لہو کا رنگ بھی سرخ سرخ ہے، اور اس کے کارناموں سے تاریخ انسانی کے لازوال صفحات بھی روشن روشن ہیں۔
******
زندگی کے تہ دار اور پہلو بہ پہلو مراحل میں عورت کے چار اہم کردار ہوتے ہیں، اس کا خوب صورت سفر حیات بیٹی کی موہنی صورت سے شروع ہوتا ہے، اور بہن سے ہوتے ہوئے بیوی تک پہنچتا ہے، پھر وہ ماں کی عظمت تک پہنچ کر بدر تمام ہو جاتی ہے۔
ایک عورت کی زندگی کے یہ وہ چار اہم مرحل ہیں جن سے گزر کر اس کے زندگی کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر بیٹی اور بہن کا مرحلہ اس کی زندگی میں لاڈ ودلار اور پیار و محبت کی خمیر تیار ہونے کا مرحلہ ہے، تو بیوی اور ماں کا مرحلہ تجارب سے بھرپور ، اور عطا لا محدود کا مرحلہ ہے۔ جس طرح ایک عورت کا بیٹی اور بہن ہونا اس کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے، اسی طرح اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیوی اور ماں کے مرحلوں سے بھی گزرے تاکہ اس کی شخصیت کی تکمیل ہو سکے۔ ایک عورت کی زندگی کے یہی چار نہایت اہم مراحل اور چار انتہائی حسین روپ ہیں۔
******
بیٹی اللہ تعالى کی عظیم نعمت ہے، یہ دنیا میں باعث انسیت وسعادت اور قیامت کے دن جہنم سے نجات کا سبب ہے۔ یہ وہ الہی عطیہ ہے جو انبیاء کو خصوصی طور سے عطا کیا گیا۔ یہ وہ اہم، اعلى اور کشادہ ظرف مخلوق ہے جس نے ذریتِ انبیاء کی حفاظت کی، اور ان کی نسل کو آگے بڑھایا۔
بیٹى باعث برکت اور باعث سعادت ہوتی ہے، وہ گھر کے خوبصورت چمن کی سب سے نازک کلی اور اس کے باغ کا سب سے خوبصورت پھول ہوتی ہے۔ اس کےدم سے گھر میں محبت کے دریا بہتے ہیں، اور گھر اس کے نغموں سے مسحور اور اس کی خوشبو سے معطر رہتاہے۔ جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ گھر بلا شبہ بہت بڑے خیر سے محروم ہے، بیٹوں کے بغیر ایک خوبصورت گھر کا تصور کیا جا سکتا ہے، مگر بیٹی کے بغیر یہ تصور ہی خشکی اور شقاوت کی تعبیر ہے۔
بیٹی گھر میں چہچہاتی ایسی چڑیا ہے جس کے بغیر گھر کے در ودیوار سناٹا اور وحشت برسانے لگتے ہیں۔ بیٹی اپنے ماں باپ کا مان اور ان کے محبت کى ایسی امین ہوتی ہے جو موت تک اس امانت کو سینے سے لگائے ، دل ودماغ میں بسائے،عمر کے ہر مرحلے اور مختلف حالات میں اس کا واضح ثبوت دیتی رہتی ہے۔
ایک باپ جب دنیاوی مصروفیات سے تھکا ہارا گھر واپس آتا ہے تو بیٹی اس کے قدموں سے چمٹ اور اس کے دامن سے لپٹ جاتی ہے، بظاہر وہ پاؤں کا بندھن بن جاتی ہے، مگر اس چھوٹی عمر میں وہ محبت کی ایسی بارش برساتی ہے کہ باپ ساری تھکاوٹ بھول جاتا ہے، اور اس نازک کلی کو گود میں اٹھا کر اپنی ساری تھکان سے آزاد ہوجاتا ہے۔
بیٹی جب کچھ بڑی ہوتی ہے تو اپنی ماں کا سہارا اور بھائیوں کی سراپا خدمت گزار بن جاتی ہے، اور جب سنت الہی کے مطابق گھر چھوڑدیتی ہے، اور کسی اور کے زیر تسلط وزیر نگرانی ہو جاتی ہے تب بھی وقت نکال نکال کر والدین کی خدمت کرتى ہے ۔ وہ بکثرت اپنے شوہر اور بچوں کے قیمتی اوقات اور اہم اعمال پر اپنے والدین اور بھائیوں کو ترجیح دیتی، اور گھر کی خوشیوں اور غموں میں بھرپور شرکت کرتی ہے۔ بیٹی کی یہ خدمات بسا اوقات بہت بڑی نہیں ہوتیں، نہ ہی یہ اصل ہوتی ہیں، اصل تو محبت کی وہ سرشاری ہوتی ہے جو اس کے وجود سے نکل کر ماں باپ اور بھائیوں کے وجود کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔
بیٹی جب تک گھر میں ہوتى ہے گھر گل گلزار ہتا ہے، اس کے دم سے وہ آباد گلستان نیز چہچہاتے چمن کا نظارہ پیش کرتا رہتا ہے، اور جیسے ہی وہ گھر سے رخصت ہوتی ہے اپنے ساتھ وہ ساری چہچہاہٹ اور رونق لے کر چلی جاتی ہے۔
ایک انسان کے کتنے بھی بیٹے ہوجائیں، تاہم اگر وہ بیٹی کی نعمت سے محروم ہے تو وہ بے اولاد کی طرح ہے۔ وہ گھر جو بیٹیوں کی سعادت سے محروم ہوتے ہیں وہ گھر نہیں ہوتے بیابان ہوتے ہیں، بھلا بیٹى کے بغیر ایک ہمکتے دمکتے چہچہاتے گھر کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ جو افراد بیٹی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں وہ در اصل بہت بڑی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔
ایک بیٹی کے حالات کیسے بھی ہو جائیں والدین کی محبت کا وہ جام جو وہ رحم مادر میں پیتی ہے اس کے اثرسے وہ موت تک آزاد نہیں ہوپاتی، یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں والدین کے ساتھ بقدر استطاعت ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ بلا شبہ بیٹیاں رحمت وشفقت اور صدق وصفا کا خزانہ ہوتی ہیں۔وہ گھر کی زینت و رونق اورسعادت و انسیت کا سبب ہوتى ہیں۔
بیٹیوں کے خمیر میں محبت رچی بسی ہوتی ہے، وہ لاڈ پیار کی بھوکی ہوتی ہیں، ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش ان کے مزاج سے متصادم ہوتی ہے، ایک اچھا باپ اپنی بیٹی کو بھرپور محبت سے نوازتا ہے، اور پیار کے جام اسے اس قدر پلاتا ہے کہ وہ اس نعمت سے سیراب اور آسودہ رہتی ہے، اور اسے کہیں دوسری جگہ نہیں تلاش کرتی۔
انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالى نے اگر کئی دنیاوی نعمتوں سے حکمت الہی کے تحت محروم رکھا تو انھیں بیٹیوں کی یہ عظیم نعمت وافر مقدار میں عطا کی، اسی لئے انبیاء کو ابو البنات (بیٹیوں کے باپ) بھی کہا جاتا ہے۔
آپ صلى اللہ کی چار بیٹیاں تھیں، بار نبوت کا عظیم وثقیل بوجھ ہونے کے باوجود آپ صلى اللہ علیہ وسلم ایک باپ کا دھڑکتا دل رکھتے تھے، بیٹیاں بھی آپ پر جان نچھاور کرتی تھیں۔ بیٹیوں سے آپ کا تعامل مثالی تھا جس میں ایک باپ کے لئے بے شمار دروس وعبر اور اسباق وتعلیمات پنہاں ہیں۔
خاندان نبوت کتنی آزمائشوں سے گزرا، آپ کی بیٹیاں بھی زد میں آئیں، ایسے وقت میں ان کے ساتھ آپ کا اہتمام اور ان کے ہم وغم میں شرکت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہاں آپ ایک ایسے شفیق باپ اور مہربان پدر نظر آتے ہیں جو بشریت کے تمام تقاضے پورے کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ماں باپ کے دلوں میں پہلی اولاد کی محبت ہی کچھ اور ہوتی ہے، کیونکہ ان کی سچی محبت کی وہ پہلی یادگار ہوتی ہے، پھر اگر وہ بیٹی ہے تو یہ محبت اور دو آتشہ ہوجاتی ہے، کیونکہ محبت محبت کو جنم دیتی ہے، اور عورت کا تو خمیر ہی محبت تیار کیا گیا ہے۔
غزوہ بدر میں جب آپ کی بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو العاص بن الربیع رضی اللہ عنہ گرفتار ہوکر مدینہ آئے تو زینب نے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو در اصل آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی غمگسار اور محسن بیوی خدیجہ کا تھا، ہار دیکھ کر جہاں بیٹی کی کسمپرسی یاد آئی کہ اس نے اپنے شوہر کو چھڑانے کے لئے ماں کى اہم یادگار کو قربان کردیا تھا، وہیں خدیجہ کی یاد نے پرانی یادوں کو تازہ کردیا، پرانے زخم ہرے ہو گئے، آنکھوں سے آنسو نکل آئے، اور صحابہ کرام سے اجازت لے کر بلا فدیہ شوہر کو چھوڑ تو دیا تاہم بیٹی زینب کو عزت کے ساتھ مدینہ بھیجنے کی شرط لگا دی۔ شوہر نے اس عہد کو پورا کیا، اور زندگی بھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کا حق دار قرار پایا۔
زینب رضی اللہ عنہا کی کہانی بڑے اسباق سے پر ہے، جو زوجین کے درمیان بے مثال محبت کی ایک لازوال کہانی ہے۔ پہلے تو ان کی زندگی شوہر اور باپ کے درمیان ہچکولے کھاتی رہی، پھر جب شوہر اور باپ دونوں مل گئے تو زندگی ہی دغا دے گئی، شوہر پر ایسی باوفا اور باکردار بیوی کی جدائی کا ایسا بار پڑا کہ غم کے اس پہاڑ تلے وہ دب کر رہ گیا، اور کچھ ہی دنوں بعد وہ بھی اس سے جا ملا۔
جنتی عورتوں کی سردار فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی بیٹی تھیں، آپ کے جگر کا ٹکڑا تھیں، دونوں میں مشابہت اس قدر تھی کہ چال ڈھال تک یکساں اور ملتی جلتی تھی۔ وہ جب بھی آپ سے ملنے آتیں آپ کھڑے ہوجاتے، ان کا بوسہ لیتے، پھر انھیں اپنى مبارک جگہ پر بیٹھاتے۔
جب على رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا روتے ہوئے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور یہ کہہ کر ایک باپ کی محبت کو چیلینج کردیا کہ لوگ تو اب یہ کہنے لگے ہیں آپ نہ اپنى بیٹیوں کا دفاع کرتے ہیں، نہ ہی ان کی خاطر غصہ ہوتے ہیں۔ اب دیکھو على نے ابو جہل کی بیٹی کو میری سوکن بنانے کا ارادہ کرلیا ہے!
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور باپ بھی ، بیٹی کی تکلیف کو محسوس کرکے تڑپ اٹھے، اور شرعی مصالح کا اندازہ کرکے غیض وغضب میں آگئے، اعیان صحابہ کو پکارا، مسجد نبوی میں سب کو جمع کرکے لرزادینے والا خطبہ دیا، علی رضی اللہ عنہ پر اپنے احسانات یاد دلائے، فاطمہ کا مقام ومرتبہ بتایا، اور اس شادی سے جو مسائل پیدا ہونے والے تھے اس کی طرف اشارہ کیا، اور صاف صاف یہ کہہ دیا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس باپ کو بھی اس بات سے تکلیف پہنچتی ہے، اور جس چیز کی وجہ سے اسے غصہ آتا ہے اس باپ کو بھی اس سے غصہ آتا ہے۔ اور پھر وہیں کھل کر یہ اعلان کردیا کہ علی یہ شادی نہیں کر سکتے، رسول کی بیٹی اور دشمن رسول کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ علی رضی اللہ عنہ کو اس قدر سنگینی کا اندازہ نہیں تھا، وہ کبھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو ناراض نہیں دیکھ سکتے تھے، فورا اس سے باز آکر آپ صلى اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیٹی کو راضی کرلیا۔
جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دل بے چین ہو اٹھا، غم کا ایک پہاڑ تھا جو سر پر آچکا تھا، دریائے حزن کا اضطراب تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، جب تک آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہہ دیا کہ سب سے پہلے مجھ سے تم ملو گی تب تک ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں آئی۔ مگر پھر بھی عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک بیٹی کی وہ کون سی محبت تھی جو خاندان نبوت میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے اپنے مرنے کی خبر سن کر ہنس رہی تھی؟ بلا شبہ باپ کی یہ ایسی محبت تھی جس کی مثال ملنا تاریخ انسانی میں بہت ہی مشکل ہے۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ باپ کے رخصت ہونے کے بعد محبت کا یہ پیکر جب تک زندہ رہا اس کے لبوں کو مسکراہٹ چھو کر نہیں گزری، اور کچھ ہی دنوں بعد یہ بے چین محبت باپ سے ملاقات کرنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئی!۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی اس عملی سنت اور بیٹیوں کی اس عظیم اور لا زوال محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی اچھی تربیت کی جائے، انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، انھیں بھر پور محبت دی جائے، ان کے ناز نخرے برداشت کئے جائیں، انھیں ہرگز ہرگز بوجھ نہ تصور کیا جائے، بلکہ انھیں سعادت کا سبب اور باعث برکت سمجھا جائے۔
******
بہن اللہ تعالى کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، وہ بھائیوں کی شان، مان اور ان سے بلا حساب و کتاب محبت کرنے والی ایسی مخلوق ہے جو اپنے پیار کا سودا نہیں کرتی، اپنی محبت میں سود وزیاں کا حساب نہیں کرتی۔ اس کی محبت لازوال اور دائمی ہوتی ہے۔
بھائیوں کے تئیں بہنوں کی محبت ایسی واضح ،شفاف ، بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہوتی ہے کہ چہرے اور بشرے سے چھلکتے رہتی ہے۔ یہ محبت اس قدر بَری، بے تکلف اور بے ساختہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات شوہر کے لئے باعث رشک وحسد بن جاتی ہے۔
بہن عمر کے کسی بھی مرحلے میں پہنچ جائے، حالات کیسے بھی ہوجائیں، بھائی کی محبت سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت بھائی اس کا مان اور قابل فخر اثاثہ ہوتا ہے، جس پر وہ ہمیشہ ناز کرتى اور اسے اپنا سرمایہ حیات سمجھتی ہے۔ زندگی کی سنت ہی کچھ ایسی ہے کہ بھائی بہن ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں، زندگی کی بے رحم مصروفیات انھیں ایک دوسرے سے دور کئے رہتی ہیں، مگر جب بھی کبھی ایک بھائی اپنی بہن کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اس سراپا محبت کو سراپا انتظار پاتا ہے، اس کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی ہے، اس کی مسرت قابل دید ہوتی ہے، خوشی اور مسرت سے وہ جھومنے لگتی ہے، سرور وسعادت کے شدید احساس سے اس کا رواں رواں لرزنے لگتا ہے، اور خوشی کی بوجھ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں۔
بے پناہ محبت کی اسیر یہ بہنیں بھائیوں کے گھروں کو اپنا گھر ان کے سازو سامان کو اپنا سازوسامان سمجھتی ہیں، گھر اگر آبائی نہ ہو تب بھی محبت کا یہ شعور ان کے یہاں اس قدر پختہ ہوجاتا ہے کہ بھائی اور اس کی کل کائنات انھیں اپنی نظر آتی ہے، جو چیز پسند آگئی اٹھا لیا، جو چیز بھلی لگی بلا تردد مانگ لیا۔ یہ -حاشا وکلا- کسی لالچ اور طمع کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ در اصل یہ اس لا زوال اور قلزمی محبت کا عین رد عمل ہوتا ہے جو وہ اپنے بھائیوں کے تئیں اپنے دلوں میں رکھتی ہیں، اسی کا نتیجہ یہ بھی ہوتاہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو بھی اپنى محبت کے زیر تسلط سمجھتی ہیں۔
ایک عظیم شخصیت اور دانا انسان – رحمہ اللہ- اپنے بعض بیٹوں کو سمجھاتے ہوئے کہتے تھے کہ بیٹا ہمارے بعد تمہاری بہنیں تمہارے گھر آئیں گی۔ بہنیں بڑی لطیف اور بھولی ہوتی ہیں، محبت کا دریا ان کے سینوں میں بہتا رہتا ہے، وہ کوئی بھی چیز طلب کریں، انھیں گھر کی کوئی بھی چیز پسند آجائے ، تو کبھی انکار نہ کرنا، نہ اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا، کبھی ایسا بھی ہوگا کہ تمہاری بہن کو گھر کا جھاڑو پسند آجائیگا تو وہ اسےلے لیگی، تمہیں یہ کبھی ناگوار نہ لگے، خوشی سے دے دینا۔ یہ بہنیں در اصل تمہارے گھر کو اپنا گھر اور تمہارے سامان کو اپنا سامان سمجھتی ہیں، جو ان کے سینے میں رواں دواں دریائے محبت کا عین رد عمل اور فطری تقاضا ہوتا ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں انھیں فیملی سے مربوط رکھتی، اور محبت کے سفینے کو جاری رکھتی ہیں۔ سو اس میں کوئی کوتاہی نہ کرنا، اور اپنى سرد مہری سے ان تعلقات پر برف نہ جمنے دینا۔
بنی نوع انسان کے عجیب رویوں میں سے ایک رویہ جو بہت کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ عموما دیکھا جاتا ہے اگر بہن مالدار اور بھائی غریب ہے تو بہن کا تعاون بھائی تک ضرور پہنچتا ہے، صلہ رحمی کے اصول وضوابط اور اس کے تقاضے وہ بخوبی نبھاتی ہے، جبکہ وہ کسی اور کے زیر تسلط ہوتی ہے۔ مگر اس کے برعکس اگر بھائی کو اللہ تعالى نے نعمتوں سے نواز رکھا ہے، اور بہن غربت کا شکار یا آزمائش میں مبتلا ہے تو دنیا کے ہنگامے ایک بھائی کو صلہ رحمی کے آداب حقوق اِس قدر بجانے کی اجازت نہیں دیتے، جبکہ بظاہر وہ خود مختار اور اپنے گھر کا مالک ہوتا ہے۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو حکمت الہی نے سگی بہن کی نعمت سے محروم کر رکھا تھا، مگر آپ کی رضاعی بہنیں تھیں، انھیں میں ایک شیماء بنت الحارث تھیں، آپ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ دونوں کا بچپن ساتھ گزرا تھا، شیماء نے آپ کو ایک بہن کی طرح کھلایا پلایا تھا، دونوں میں بڑی محبت تھی، کسی دن شیماءآپ کو پیٹھ پر لئے ہوئی تھیں، آپ نے ان کو دانت کاٹ لیا، آپ کا یہ دانت کاٹنا بھی ایک لمبے زمانے کےبعد شیماء کے لئے بہت مبارک ثابت ہوا۔
فتح مکہ کے بعد جب ہوازن سے جنگ ہوئی تو قیدیوں میں شیماء بھی شامل تھیں۔ وہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں آپ کی بہن شیماء ہوں۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس کی کیا نشانی ہے؟ انھوں نے کہا وہ دانت جو آپ نے میری پیٹھ میں کاٹا تھا جب میں آپ کو اپنی پیٹھ پر لئے ہوئی تھی۔ یہ سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، بچپن کا زمانہ یاد آگیا، بنی سعد میں گزرے ہوئے لڑکپن کی حسین یادیں تازہ ہوگئیں۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے، انھیں گلے لگایا، اور ا پنی چادر بچھا کر اپنی مبارک اور عظیم جگہ پر ان کو بیٹھا دیا۔ سارے کام چھوڑ کر ان کا حال چال دریافت کرنے لگے، پھر کہا: شیماء اگر میرے ساتھ رہنا چاہو تو تم میری بہن ہو، تم سے میرا زندگی اور موت کا رشتہ ہے، اور اگر اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہو تو تمہاری مرضی۔ جب انھوں نے واپس اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ان کی غایت درجہ تکریم کرتے ہوئے خوب خوب نوازا، اور بہت سارا سازو سامان اوراونٹ کا پورا ایک ریوڑ دیکر انھیں روانہ کیا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی وجہ سے بنی سعد کے سارے قیدیوں کوآزاد کردیا، اور انھیں مع سازو سامان واپس جانے دیا۔
بلا شبہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ عملی سیرت، اور ایک بہن کی یہ لا زوال اور بے غرض محبت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایک بھائی اس محبت کی پوری طرح قدر کرے، اور اس کی دنیاوی مشغولیات اس محبت کی حرارت کو ٹھنڈی نہ پڑنے دیں، اس کا سرد رویہ ان گرم تعلقات پر برف نہ جمنے دے، اور اس کی سرد مہری اس دریائے محبت کی روانی کو پرسکون نہ کردے، اور نہ ہی اس کے خشک اور سخت معاملات اس بحر محبت کو خشکی میں تبدیل کردیں۔
ضروری ہے کہ اسے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی بھر پور عزت دی جائے، اور اس کا وہ گھر جہاں اس نے اپنے ماں باپ کے سایہ شفقت میں اپنی عمر گزاری ہے اسے اس کے لئے کبھی اجنبی نہ بننے دیا جائے، اسے بھر پور مان سمّان دیا جائے، اور ہمیشہ اس کے اصل گھر کا اہم رکن سمجھا جائے۔
کتنے محروم ہیں وہ لوگ جنھیں دنیا کے مختصر راستے میں پڑے چند سنگ ریزے ایسے حسین رشتوں سے مشغول کر دیتے ہیں؟ کتنے قابل رحم ہیں وہ افراد جو اس حقیر دنیا کی خاطر ایسےمبارک اور با سعادت رشتوں سے کٹ جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم خوشیوں کو ان کی جگہ نہیں تلاش کرتے، بلکہ کہیں اور تلاش کرتے رہتے ہیں، اس لئے ہمیں نہ تو خوشی ہی ملتی ہے نہ رشتے ہی، اس طرح ہم اس چند روزہ حقیر دنیا کے حقیر اسباب میں کھوکر، اور اس کے پر فتن شور وہنگامے کی نذر ہوکر اپنی اصل متاع کھودیتے ہیں۔
******
بیوی اس سکون کا نام ہے جسے اللہ تعالى نے مصائب وہنگام سے بھری اس دنیا میں ایک شوہر کو عطا کیا ہے۔ بیوی اس عظیم نعمت کا نام ہے جو نسل آدم کی بقا کا ضامن ہے۔ بیوی وہ عطیہ الہی ہے جو مرد کی زندگی میں بہار بن کر آتی ہے، اور اس کی زندگی کو گل گلزار کر دیتی ہے۔ بیوی شوہر کے لئے صرف سکون ہی نہیں، بلکہ لباس بھی ہے جو اس کے اور فسق و فجور کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، تاکہ اس کے لئے تزکیہ نفس کى راہ آسان ہو، اور عبودیت کی صفت مزید مستحکم ہوجائے۔ بیوی ایک ایسی نعمت ہے جو ایک انسان کی فطری ضرورت ہے، اور یہ ضرورت جس قدر اہم ہے خلاق عظیم نے – جو خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے- اسی قدر اسے سنوارا بھی ہے۔
بیوی کا مرحلہ ایک عورت کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے، یہ مرحلہ بڑی قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے، اپنے گھر میں لاڈ پیار میں پلی بڑھی یہ نازک کلی اچانک خدمت گزار عورت بن جاتی ہے۔ اور اپنے گھر کی شہزادی اچانک اسیرہو جاتی ہے۔
ایک عورت کے لئے یہ مرحلہ اس لئے بھی بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی مرحلہ سے گزر کر وہ باکردار بیوی ماں کے بلند اور عظیم الشان مرتبت کا حقدار بنتی ہے۔
ایک کامیاب بیوی کی اہم علامت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے مقام ومرتبہ کو پہچانے، اس کے اولویات اور اس کی ترجیحات کو سمجھے، اپنے غیر اہم اور غیر ضروری مسائل کو اس کى زندگی کے مشن اور مقاصد کی راہ کا پتھر نہ بننے دے، بلکہ سراپا تعاون بن جائے۔
عورت کا اصل کردار اس کی دینداری سے مربوط ہے، اسی لئے نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اگر دینداری ٹھوس نہ ہو تو انسانی کردار کے سارے پیچ پرزے ڈھیلے رہتے ہیں، جو زندگی کے ہموار اور پرسکون شاہراہ پر تو خلل نہیں ڈالتے اور دینداری کا بھرم قائم رکھتے ہیں، مگر زندگی کے طویل سفر میں جوں ہی راستے سخت اور نا ہموار آتے ہیں یہ ڈھیلے پیچ وپرزے کھل کھل کر گرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ کردار کی پوری مشینرى کھل کر بکھر جاتی ہے، اور ایک تہ دار سے تہ دار انسان بھی اپنے اصل کردار میں بے لباس ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
ایک اچھى بیوی شوہر کی زندگی کو خوشنما چمن بنا کر رکھتی ہے، اور اس چمن میں ہر ڈال اور ہر شاخ پر چہچہاتی اور اسے اپنے نغموں سے معطر کئے رہتى ہے۔ تاہم بیوی کا اصل کردار شوہر پر پڑنے والے دینی اثرات میں ظاہر ہوتا ہے، یہی وہ کلیدی شعبہ ہے جہاں پہنچ کر ایک بیوی کا کردار نہ صرف اہم ترین ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مقام ومرتبہ ماں کی عظمت کے قدم چومنے لگتا ہے۔
ایک اچھى بیوی کا کردار صرف یہ نہیں ہے کہ وہ شوہر کی دنیا کو جنت بنائے، اس کے چمنہائے زندگی کو رنگارنگ اور خوشنما کردے، اس کی حیات مستعار کے ہر شعبے کو نغموں سے بھردے، بلکہ اس کا اصل کردار شوہر کی اس زندگی میں ظاہر ہوتا ہے جس کا تعلق اس کی آخرت اور اس کی ذریت کے اصلاح سے ہے۔ جس طرح شوہر بیوی کے لئے لباس ہے اسی طرح بیوی شوہر کے لئے بھی لباس ہے، بلا شبہ بیوی شوہر کی زندگی میں اس کے اور معاصی کے درمیان ایک ڈھال ہے، یہ ڈھال جس قدر ٹھوس اور مضبوط ہوگی شوہر اسی قدر زندگی کے معرکوں میں سرخرو ہوگا۔ بیوی کی اصل آزمائش گاہ یہی ہے، اور اس کے میدان کارزار کا اصل معرکہ یہیں انجام پاتا ہے، بلکہ زندگی کے رزم وبزم کا یہی محور ومناط ہے۔
زندگی کی مختلف اور ان گنت راہوں میں ایک کربناک موڑ وہ ہے جہاں پہنچ کر دو چاہنے والے ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ زوجین پیار کے منار، چاہت کا رمز اور عشق ومحبت کا استعارہ ہیں ۔ جہاں زوجین کے راستے الگ ہوجاتے ہیں شاید وہ موڑ کرب و اذیت کا آخری موڑ ہوتا ہے۔ جہاں کوئی وفا شعاربیوی کسی با وفا شوہرسے بچھڑ جاتی ہے وہ جگہ ہم وغم کی علامت اور حزن والم کا استعارہ بن جاتى ہے۔
مرد وہ عقل عیار ہے جو سو بھیس بدل لیتا ہے، اور جینے کے سو بہانے ڈھونڈ لیتا ہے، اس کائنات کے ہنگامے میں اس کی مشغولیات کے لئے کئی اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر بیوی بیچاری وہ سراپا عشق ومحبت ہے جو نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم، اس کی زندگی کے رنگ کتنے بھی بدل جائیں، دنیاوی مشغولیات اور زندگی کے ہنگامے اس کے سفینہ حیات کو کسی بھی طوفان سے دوچار کردیں، مگر شوہر کی محبت اس کے دل کے نہاں خانے میں امین کی امانت کی طرح صحیح سالم موجود رہتی اور اس کے وجود کو غم کی سولی پر چڑھائے رہتی ہے۔
بلا شوہر ایک عورت کی زندگی اجڑا دیار بن جاتی ہے، اولاد کتنی بھی وفا شعار اور فرمانبردار ہو ایک با وفا اور با کردار شوہر کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا بدیل نہیں ہو سکتی۔ شوہر سے جدائی کے بعد عورت کی زندگی میں سناٹا چھا جاتا ہے، مصائب ومحن اور آفات وآلام اس کی زندگی کے شیش محل میں ڈیر ہ ڈالنے لگتی ہیں، آزمائشیں اس کی ہم رکاب ہونے لگتی ہیں۔ اگر دنیا کی ساری نعمتیں بھی اسے حاصل ہوجائیں تب بھی اس کی زندگی وحشت کا نمونہ بن جاتی ہے، اور بظاہر ہنسنے مسکرانے والی عورت، اور اپنے عزم وحوصلے سے حالات کا پسینہ چھڑا دینے والی آہنی صنف نازک بھی اندر سے ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔
تقریبا ہر عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی بڑے آدمی کی بیوی بنے، جس کی سوسائٹی میں ایک حیثیت اور معاشرے میں عزت ہو، لوگوں میں اس کا ایک مقام ومرتبہ ہو، مختصرا اس کی دنیاوی زندگی کامیاب اور قابل رشک ہو۔
کسی بڑے آدمی کی بیوی بننا کوئی آسان چیز نہیں ہوتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ عموما یہ چیز شہرت وبلندی، عزت وتکریم، اور بہت سارے دنیوی بلکہ اخروی فوائد کا بھی سبب بنتی ہے۔ مگر ایسے ہم سفر کے ساتھ ایک باوفا اور باکردار بیوی کو جن سنگلاخ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ادراک وہی عورت کر سکتى ہے جو اس راہ کی مسافر ہے۔ بڑے آدمی کی بیو ی بننا اگر باعث شرف وسعادت ہے تو یہ بہت ساری اضافی ذمہ داریوں کا سبب بھی ہے۔ یہ ایک با وفا و باکردار اور باشعور بیوی سے مزید قربانیوں کا تقاضہ، اور متعدد ومتنوع آزمائشوں سےدوچار ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی بھی شرف اور کسی قسم کی بھی عزت وتکریم کبھی مفت میں نہیں ملتی، بلکہ اس کے حصول کی راہ ہمیشہ پر مشقت اور کٹھن ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بہت قربانی کا مطالبہ کرتى ہے:
لا یَسْلَمُ الشَّرَفُ الرَّفیعُ مِنَ الأذَى حتَّى یُرَاقَ مِنْ جَوانِبِہِ الدَّمُ
(شرف ومنزلت اور مقام ومرتبہ کی بلندی بلا تکلیف برداشت کئے حاصل نہیں ہوتی، عموما اس کے حصول کی راہ میں ایک انسان کو خاک وخون سے گزرنا پڑتا ہے)۔
در اصل بڑے آدمی کا ٹارگٹ بڑا ہوتا ہے، اور وہ اپنے اہداف ومقاصد کو پانے کے لئے ہمیشہ سرگرم اور پیہم کوشاں رہتا ہے۔ جدو جہد کا یہ سفر بہت پرخار ، کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ یہاں اس کی بیوی کا اصل امتحان ہوتا ہے، کیونکہ شوہر کی زندگی جس قدر پرعزم اور مشغول ہوگی اسی قدر اس کا رد عمل اس کی فیملی پر ظاہر ہوگا، اور جس قدر اس کی زندگی گھر کے باہر ہنگاموں کی نذر اور تھکاوٹ سے دوچار ہوگی اسی قدر اس کا براہ راست اثر اس کے گھر کے اندر اس کی فیملی اور خصوصا بیوی پر پڑیگا۔
ایک مرد کی زندگی گھر کے باہر جنتے طوفانوں سے دوچار ہوگی، اور زندگی کی موج بلا جس قدر اس کو آزمائے گی، اس کا گھر اسی قدر اس سے متاثر ہوگا، اور ہر طوفان اور ہر تھپیڑے کی بازگشت سیدھے اس کے گھر کے درو دیوار سے ٹکرائے گی، اور ہر بار اس کا گھر اس صدائے باز گشت سے گونج اٹھے گا۔
یہیں ایک بیوی کی اصلی آزمائش شروع ہوتی ہے، اور یہ چیز ایک باکردار اور باعمل عورت کے لئے اصل امتحان ثابت ہوتى ہے۔ پھر بظاہر کمزور نظر آنے والی وہ باہمت اور باعمل عورت صرف ایک بیوی نہیں رہ جاتی، بلکہ اپنے بچوں کے لئے ماں اور باپ دونوں کا کردار بیک وقت بہت خوبصورتی سے ادا کرتی ہے۔
ایسے وقت اور ایسی صورت میں اگر بیوی کا کردار اعلى نہ ہو، اس کا ظرف وسیع اور دست تعاون دراز نہ ہو، وہ اپنے شوہر کی پشت پر مضبوطی سے کھڑی نہ ہو، اور ہر گام اور ہر موڑ پر وہ ثابت قدمی کا مظاہر ہ نہ کرے، تو یا تو شوہر زندگی کے امتحان میں فیل ہوکر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہوجائے گا، یا پھر دونوں کے راستے الگ الگ ہوجائیں گے، اور زندگی کے یہ مسافر کسی موڑ پر پہنچ کر تھک ہار کر ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے، یا کسی ناہموار اور سنگلاخ راستے سے گزرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیں گے، یا پھر ایسا ہوگا کہ مرد باہر تو خوب معرکے سر کرے گا، مگر گھر کے اندر اس کی فیملی لائف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ جائیگی۔ غرضیکہ ایک بڑے آدمی کی کامیابی کا راستہ اس کى وفاشعار بیوی کے تعاون سے طے ہوتا ہے، شاید اس لئے بھی یہ کہا گیا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یاد رکھیں گھر میں جس قدر خوشى کا ماحول ہوگا، آپ اسی قدر سعید ہوں گے، اور جس قدر گھر میں اختلاف اور ناچاقی کا ماحول ہوگا اسی قدر آپ مضطرب اور بے چین ہوں گے۔ اور اس بات پر اہل خرد کا تقریبا اجماع ہے کہ گھر میں خوشی کا ماحول بغیر بیوی کی خوشی کے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک اہم بات ذہن نشین کرنے کی یہ ہے کہ انسان کی سعادت کا تعلق دو اہم امور سے ہے، ایک اس کے اور اس کے رب کے درمیان تعلق سے، اور دوسرا اس کے اور بندوں کے درمیان تعلقات سے۔ جس سعادت کا تعلق بندوں سے ہے اس کے تقریبا پچہتّر فیصد (75%) حصے کا تعلق انسان کی اپنی ذات اور اس کے گھر سے ہے۔ اصل سعادت کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے، اس لئے اگر سعید رہنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر سے اس کی شروعات کریں۔ گھر میں خوشى کا ماحول پیدا کریں، اور یہ ماحول بلا بیوی کے بھرپور تعاون کے ناممکن لگتا ہے۔ فافہم!!!
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا تعامل بیویوں کے ساتھ ایسا تھا کہ خاندان نبوت میں پیار محبت کے دریا بہتے تھے، امہات المؤمنین کے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا بے مثال تعامل دیکھ کر حیرت سی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک عظیم ترین انسان چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات میں بھی عورتوں کی نفسیات کا خیال رکھتا، اور ان کی رعایت کرتا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم یومیہ ان کی خبر گیری کرتے، انھیں جمع کرتے، اور حساس معاملات میں ان سے مشورہ بھی کرتے،ان کے احسانات کو قبول وتسلیم کرتے، اور انھیں یاد رکھتے، ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے، اور ان کی ہر طرح خاطر داری کرتے۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی خاطر انھوں نے بڑی قربانیاں دیں، نفس سے لیکر مال تک سب کچھ قربان کردیا، اور آزمائش سے پر زندگی گزارتے ہوئے قبل اس کے کہ اسلام کا بول بالا ہوتا، اور آپ کو وہ شان وشوکت حاصل ہوتی وفات پاگئیں۔ان کی وفات پر غم کی شدت اس قدر تھی کہ جس سال ان کی وفات ہوئی وہ سال “عام الحزن” قرار پایا۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کردار ایک بہت بڑے محسن اور غمگسار کی حیثیت سے رہا۔ نبوت کے ابتدائی دنوں میں آپ جس قدر آزمائشوں کے شکار رہے ان میں وہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، ہر تکلیف کو برداشت کیا، مگر ایمان میں جنبش نہیں آئی، وہ پہلی مومنہ تھیں، اور اس اولیت کو انھوں نے اپنے اعلى کردار سے بھرپور شرف بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی محبت میں احسان کا احساس اور غمگساری کا شعور غالب ہے، نیز پیار محبت اور صدق ووفا کی اس کہانی میں امتنان کا پہلو حاوی اور ظاہر وباہر ہے۔
مکی زندگی کا وہ زمانہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایسا پر آشوب ، آزمائشوں سے بھرا ، اور ہم وغم سے بوجھل زمانہ تھا کہ اس میں دب کر دونوں کی مبارک اور مہم جو زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے، صدق وصفا اور پیار محبت سے لبریز کتنے حسین قصوں نے دم توڑ دیا ہوگا۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کا جواب بھی بھرپور محبت، اور اس وفا کا جواب وفا سے دیا، ان کے احسانات کو یاد رکھا، اور ان کی حسین یادوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جب بھی ان کو یاد کرتے ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے، جب بھی گھر میں بکری ذبح کرتے ان کی سہیلیوں کو گوشت بھیج کر ان کی محبت کو تازگی بخشتے، اور ان کے احسانات کو خراج تحسین پیش کرتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی وہ اس بلند مقام پر پہنچیں کہ درجہ کمال تک پہنچ گئیں، جبریل علیہ السلام کے سلام کی حقدار ٹھہریں، اور جنت میں شاندار اور پرسکون گھر کی بشارت پائی۔
تاہم یہ ان کی قربانیاں تھیں، اور یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور وفاداری تھی کہ ان کی یادوں سے آپ عمر بھر نہیں نکل سکے، اور انھیں اس قدر یاد کرتے اور ان کے احسانات کا تذکرہ فرماتے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تک کو غیرت آنے لگتی۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حسین اور حسرت بھری یادوں نے کبھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا، جب بھی ان کی یاد آتی تو ہر نقش ما سوا کو مٹاتی چلی جاتی۔
غزوہ بدر کے بعد ان کی چہیتی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابو العاص بن الربیع کو چھڑانے کے لئے وہ ہار بھیجا جو کبھی ماں خدیجہ کے گلے کی زینت اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نظروں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وہ ہار زینب کو ان کی شادی کے وقت ہدیہ کردیا تھا۔ آج ایک بار پھر یہ ہار پرانی یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے سرور کونین کی آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا تھا، دیکھ کر آپ صلى اللہ علیہ وسلم پھر ایک بار پرانی یادوں میں کھو گئے، اس وفا شعار بیوی کی موسلادھار یادیں اس طرح نازل ہوئیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے وجود کو تر بتر کرتی چلی گئیں، صبر کا بندھن ٹوٹ گیا، اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ وفا شعار بیوی بھی کیسی بیوی تھی کہ زندگی بھر تن من دھن سے آپ صلى اللہ کا ساتھ دیتی رہی، اور آج جب وہ نہیں تھی تو اس کا قیمتی ہار ان کی چہیتی بیٹی کے شوہر کو آزاد کرانے آیا تھا۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی محبت واحترام کا عالم یہ تھا کہ آپ ان کی کوئی بات نہیں کاٹتے تھے، ان کى کوئی خواہش ہوتی تو اسے خوشی سے پوری کرتے، بعض روایتوں کے مطابق خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کی خواہش پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص بن الربیع (جو خدیجہ کی بہن ہالہ بنت خویلدکے بیٹے تھے) سے کی تھی۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ کو اس قدر لگاؤ تھا، اور ان کی یادیں اس طرح آپ کے دل ودماغ میں بسیرا کئے ہوئے تھیں کہ ان کی وفات کے بعد جب ان کی بہن ہالہ بنت خویلد آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے آئیں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سن کر چونک اٹھے، کیونکہ ان کی آواز ان کی بہن خدیجہ سے بہت مشابہ تھی، جب آپ نے وہ آواز سنی تو چونک اٹھے، اور بے ساختہ کہا: “اللہم ہذہ ہالہ” (یا اللہ! یہ تو ہالہ ہیں)۔
رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا ذکر ہو اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہ آئے تو بات مکمل نہیں ہو سکتی، آپ کے دم سے بیت نبوت میں محبت کے دریا بہتے تھے، آپ صلى اللہ علیہ و سلم نہ صرف ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے تھے، چنانچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو بلا تردد آپ نے کہا: عائشہ۔ سائل نے گمان کیا کی شاید عورتوں میں عائشہ ہوں گی، پوچھا مردوں میں سب سے محبوب کون ہے؟ کہا اس کے والد! چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ ابو بکر! بھلا ابو بکر کو کون نہیں جانتا تھا، مگر سوال محبت کے تعلق تھا، لہذا محبت کی دونوں نسبت عائشہ کی ذات سے جوڑ دیا۔ گویا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب محبوب عائشہ تھیں جو آپ کے محبوب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ شرف کی یہ انتہاء ہے کہ بیٹی اور باپ دونوں سرور کونین سید الاولین والآخرین صلى اللہ علیہ وسلم کے سب سے چہیتے ہیں۔
آپ کی چہیتی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی شکایت آپ سے کی تو آپ نے ان کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ میری پیاری بیٹی کیا تم اس عورت سے محبت نہیں کروگی جس سے تمہارا باپ محبت کرتا ہے؟
کسی مناسبت سے مسجد نبوی میں جب کچھ حبشی کھیل دکھانے لگے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کا او ٹ کرکے کھڑے ہوگئے، وہ کھیل دیکھتی رہیں، اور جب تک آسودہ ہو کر خود نہیں چلی گئیں آپ صلى اللہ علیہ وسلم ویسے ہی کھڑے رہے۔
یہ بے مثال محبت ہی تھی کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو یہ خواہش ظاہر کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوجائیں، اور جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی موت ہوئی تو سر مبارک ان کی گود میں تھا۔
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر کی سب سے چہیتی اور خاندان کی لاڈلی تھیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم سےان کی شادی بہت عجیب حالات میں ہوئی تھی، ان کے باپ شوہر اور دیگر کئی رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھر پور محبت دی، اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ فرمایا کہ ان کا سارا غم جاتا رہا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی چہیتی بیوی نے ایک دن ان کی دل آزاری کردی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے، اور خلاف توقع بہت سخت رد عمل دیا۔
ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا جیسی نیک اور صالح خاتون سے ایک بار ان کے حق میں غلطی ہوگئى، اور انھوں نے ان کے نرم ونازک دل کو کافی ٹھیس پہنچا دی، آپ صلى اللہ علیہ وسلّم کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہوئے، اور کئی دنوں تک ان کے یہاں نہیں گئے۔
ایک دفعہ آپ اونٹنی پر چڑھنے لگیں تو پریشانی ہوئی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا گھٹنہ موڑ کر پاؤں سامنے کردیا، اوروہ سرور کونین سید الاولین والآخرین کے ران مبارک پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹنی پر سوار ہوگئیں۔
چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی، ازواج مطہرات سے آپ کا حسن سلوک، اور ایک باکردار بیوی کی وفاشعاری اور اس کی عظیم قربانیوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بھرپور محبت دی جائے، اس کی کما حقہ قدر کی جائے، اس کے جائز مطالبات بقدر استطاعت پورے کئے جائیں، اس کی تکریم کی جائے، اور اسے وقتا فوقتا تحفے تحائف سے نوازا جائے۔ اسی طرح اسے گھر کا اہم ترین جزء سمجھا جائے، اسے گھریلو معاملات میں پورى طرح شریک رکھا جائے، اس سے مشورے لئے جائیں، اور اس کو گھر میں دوسرے درجہ کا مکین ہرگز نہ سمجھا جائے۔ اس کی بے پناہ خدمات کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے، اور اس سے تعامل کرتے وقت اس کى اصل فطرت کی رعایت کی جائے۔
******
ماں رب العالمین کی عظیم نشانی ہے۔ ماں محبت کی علامت اور شفقت ومہربانی کی پہچان ہے۔ ماں قدرت کا کرشمہ اور خلاق اعظم کی اعلى صنعت گرى ہے۔ ماں وہ بحر محبت ہے جس کی گہرائی ناپنے کا کوئى آلہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ ماں محبت کا وہ چشمہ ہے جس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ ماں محبت کا وہ دریا ہے جس کی روانی حالات کے بدلنے سے نہ بدلتی ہے نہ رکتى ہے۔ ظروف کیسے بھی ہوں محبت کا یہ دریا پورى قوت سے جاری وساری رہتا ہے۔
حالات کی تپش کتنی بھی شدید ہوجائے اس کے بحر محبت کا ایک قطرہ بھی خشک نہیں ہوتا، موسم کتنا بھی بدلتا رہے اس کی سختیوں کو ایک ماں نہ صرف نہایت خند ہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے، بلکہ انھیں پریشانیوں میں وہ اپنی خوشی ڈھونڈتی اور سرور و سعادت تلاش کرتی ہے، اور انھیں تکالیف ومصائب سے اپنے بحر محبت کو طوفان عطا کرتی، اور اپنے دریائے صدق وصفا کو روانی بخشتی ہے۔
ماں کا سراپا وجود محبت سے بنا ہے، اس کے شریانوں میں محبت لہو بن کر دوڑتی ہے، اور دل ودماغ محبت سے معمور ہوتے ہیں، اس کے جسم کی روح محبت ہے، اور اس کے جسد خاکی کی سانس بھی محبت ہی ہے۔
ماں چاہے غریب ہو یا امیر وہ ماں ہوتى ہے، ماں چاہے ملکہ ہو یا باندی وہ ماں ہوتی ہے، ماں چاہے گھر کے آنگن میں ہو یا میدان کارزار میں وہ ماں ہوتى ہے، ماں چاہے اپنے بچے کو لوری سنارہی ہو یا معرکہ حیات میں الجھی کوئی خطاب کر رہی ہو وہ ماں ہوتى ہے، ماں چاہے اونٹنی ہو وہ ماں ہوتى ہے، ماں چاہے شیرنی ہو وہ ماں ہوتى ہے۔
اس دنیا نے محبت کے جتنے بھی رنگ وروپ دیکھے ہوں گے، اس کی جتنی بھی شکلیں دیکھى ہوں گی، اس کے جتنے بھی رویے دیکھیں ہو گے، ماں پر جاکر سب ختم ہوجاتے ہیں، اور اس کی محبت کے سامنے سب ہیچ ہو جاتے ہیں۔ اگر رحمت وشفقت کو مجسم روپ دی جائے تو وہ ماں کا روپ ہوگا، اگر پیار محبت کو جیتی جاگتی صورت عطا کی جائے تو وہ ماں کی پیاری اور موہنی صورت ہوگی، اور اگر ہم اخلاص وبے غرضی کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ماں کو دیکھ لیں کہ یہی وہ ذات اقدس ہے جو ہر غرض سے بے نیاز اور ہر مصلحت سے عاری ہوتی ہے۔
ماں کی محبت اور اس کی گہرائی و گیرائی کا عالم یہ ہے کہ سرور کونین صلى اللہ علیہ وسلم نے جب رب العالمین کی اس کے بندوں سے بے پناہ محبت کو بتانا چاہا تو ایک ماں کی محبت کا سہارا لیا۔ اگرچہ خالق اور مخلوق کی محبت میں زمین وآسمان سے زیادہ فرق ہے، بلکہ دونوں میں کوئی جوڑ ہی نہیں ہے، مگر افہام وتفہیم کی خاطر بالمقابل اسی کو لا کر رکھنا بہت کچھ بتلاتا ہے!
ماں کو قدرت نے عظمت کا وہ تاج پہنایا ہے کہ جب وہ ایک بار اسے پہن لیتی ہے تو پھر قیامت کے بعد بھی وہ نہیں اترتا۔ اسے اس قدر اللہ تعالى نے بلند مرتبہ اور اعلى مقام عطا کیا ہے کہ وہ ہمیشہ بے نیاز، اور اس کی اولاد ہمیشہ اس کی محتاج ہوتی ہے۔ اللہ کی یہ عجیب سنت ہے کہ اولاد ہر حال میں ماں کے دست شفقت ، اس کی محبت، اور اس کی دعاؤں کا محتاج ہوتی ہے، تا حیات یہ سائبان آسمان کی طرح اس کے وجود پر سایہ فگن رہتا ہے، اور کٹھور سے کٹھور حالات میں اس کے درد کا درماں بنتا ہے۔
عورت ماں بن کر وقار وعظمت کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جہاں جنت اس کے قدموں تلے خاک بن جاتی ہے۔ جب حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں تو ماں کے الفاظ انھیں جوڑتے ہیں، جب زندگی کا صحرا ء دھوپ کی تمازت سے آگ برسانے لگتا ہے تب اس کے آنچل کا سایہ روح کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے، جب بد اعمالیاں انسان پر مصائب وآلام کے جال ہر طرف سے تان دیتی ہیں تب اس کے لبوں سے نکلنے والى ایک دعا اس جال کو تار عنکبوت بنا کر اس کے تانے بانے بکھیر دیتى ہے، اور بسا اوقات قضا وقدر جیسی نا قابل تسخیر قوت کو بھی شکست دے دیتی ہے۔
جب زندگی کی راہیں تاریک ہونے لگتی ہیں تو اس کے زبان کی ایک آہ اس تیرہ شبی کو چیر کر ان ظلمتوں کا خاتمہ کردیتی ہے، جب زیست بے مقصد ، خواہشات فرسودہ اور عزائم پست ہونے لگتے ہیں تب آسمان کی طرف اٹھنے والی اس کی نگاہ بجلی کی طرح چمکتی اور سورج کی طرح زندگی کو منور کردیتی ہے۔ جب ایک مرد گناہ کے دلدل میں پھنس کر ساری امیدیں کھونے لگتا ہے تب اس کی دعائیں مغفرت کا سامان بنتی اور جینے اور پانے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔
فراق کی راہ میں پائی جانے والی زندگی کی المناکیوں میں اس المناکی کی کوئی انتہاء نہیں کہ کو ئی بیٹا اپنی ماں کو کھودے، جدائی کے سفر میں موجود مصائب وآلام کے سمندر میں شاید اس مصیبت سے بڑا کوئی بحر بیکراں نہیں ہے کہ کوئی فرزند اپنی ماں سے بچھڑ جائے، اور دنیا میں اس محرومی سے بڑی شاید کوئی محرومی نہیں ہے کہ کوئی بیٹا اپنی ماں کے سایہ شفقت اور اس کی دعاؤں سے محروم ہوجائے۔
ماں کے بغیر زندگی کس قدر سنسان سنسان اور خالی خالی ہوتی ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی وحشت کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ ماں اپنے بچے کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتى، اس کا بچپنا کبھی رخصت نہیں ہونے دیتی، اسے کبھی جوان بناتی کبھی بچہ بنا دیتی ہے، اس کے وجود کی ٹھنڈک اور بقا کی خوشبو سے وہ ہمیشہ پرسکون، معطر اور چہچہاتا رہتا ہے۔ اور عمر کے ہر مرحلہ میں اپنے بچپنے سے کندھا سے کندھا ملا کر چلتا رہتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے:
“یَظَلُّ الرَّجُلُ طِفْلاً حتّى تَمُوتَ أُمُّہُ”
(جب تک ماں زندہ رہتی ہے آدمی بچہ رہتا ہے)۔
متنبی نے کہا تھا:
وَعَذَلْتُ أہلَ العِشْقِ حتَّى ذُقْتُہُ
فَعَجِبْتُ کَیْفَ یَمُوْتُ مَنْ لَا یَعْشِقُ
(میں عاشقوں کو ملامت کرتا رہا، اور انھیں بیکار کا بازیگر سمجھتا رہا، یہاں تک کہ میں خود اس المناک لذت سے آشنا ہوا، تب مجھے یہ حیرانگی دامن گیر ہوئی کہ بھلا جو عشق نہیں کرتا وہ کیسے مرتا ہوگا؟)
متنبی کا خیال یہ تھا کہ مرنے کا اصل سبب عشق ہے، جو عشق نہیں کرتا بھلا اس کے پاس مرنے کا کیا بہانہ ہے؟متنبی نے جو بات عشق اور اہل عشق کے بارے میں کہی ہے، وہ مجھے ماں کے فراق پر زیادہ صادق لگتی ہے۔ ایک ماں کے بغیر جینے کا بھلا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ ماں کے بغیر صرف ظلمت ہے، تاریکی ہے، وحشت ہے، اور اجنبیت وغربت ہے۔ کیوں کہ “غربت مال ودولت سے محرومی کا نام نہیں ہے، غربت اصل میں اکیلے رہ جانے کا نام ہے، اس بھری دنیا میں اگر کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے کندھے پر سر رکھ کر ہم آنسو بہا سکیں تو ہم غریب ہیں”۔ یہ کندھا جس قدر مضبوط ہوگا ہم اسی قدر غربت سے دور ہوں گے۔ بھلا ماں سے مضبوط کندھا اور اس سے پر امن ٹھوس وجود کس کا ہو سکتا ہے جہاں ہم آنسو بہا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے حقیقی ماں کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا تھا، مگر ان کی رضاعی ماں ثویبہ اور حلیمہ سعدیہ تھیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم جب بڑے ہوئے تو دونوں کا بھر پور خیال کیا، ان کی بھرپور رعایت کی۔ جب تک مکہ میں رہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں ثویبہ کی تکریم کرتے، انھیں تحفہ تحائف اور ہدایا بھیجتے، پھر جب آپ مدینہ ہجرت کر آئے تو یہاں سے ان کے لئے کپڑے اور دیگر سازو سامان بھیجتے، یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوگیا، تو ان کے دیگر اقارب کے بارے میں آپ نے پوچھا تاکہ یہ صلہ رحمی جاری رہے، مگر پتہ چلا کہ کوئی نہیں بچا ہے۔
جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوگئی تو ایک دفعہ حلیمہ سعدیہ آپ کی زیارت کرنے آئیں، اور اپنی تنگ دستی کی شکایت کی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہہ کر انھیں کئی بکریاں اور اونٹ دلایا، اور پوری عزت وتکریم سے ان کو رخصت کیا۔
ام ایمن جو ماں نہ ہو کر بھی ماں کی طرح تھیں، ماں کی وفات کے بعد انھوں نے آپ کو پالا پوسا، اور ایک ماں کی طرح پوری محبت وعنایت سے آپ کا خیال رکھا۔ ان کی یہ خوش نصیبی ہی تھی کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر وفات تک آپ کے ساتھ رہیں۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کے وہ احسانات کبھی نہیں بھولے جو انھوں نے بچپن میں آپ کے ساتھ کئے تھے، ان کا بھرپور خیال رکھا، اور ان کے ساتھ خوب اہتمام کیا۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف انھیں آزاد کردیا، بلکہ ان کی شادی اپنے محبوب ترین شخص زید بن حارث سے کرائی، ان کے بطن سے اسامہ بن زید پیدا ہوئے جو آپ کے نزدیک محبوب ترین شخص تھے۔
جب تک آپ صلى اللہ علیہ وسلم زندہ تھے برابر ان کی زیارت کرتے، ان کی ضرورتیں پوری کرتے، جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلو جس طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم ام ایمن کی زیارت کرتے تھے ہم بھی ان کی زیارت کرتے ہیں۔ مگر آپ کی یہ وفادار جس نے آپ کو گود کھلایا تھا، ماں کی وفات کے بعد ماں بن کر آپ کو پالا پوسا تھا، اور ساری زندگی آپ کی مبارک صحبت سے شرفیاب ہوتی رہی، ایسا لگا جیسے صرف آپ کی عمر بھر کی ساتھی تھی، چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند ہی مہینوں بعد اس نے بھی اپنا رخت سفر باندھ لیا ، اور اپنے محبوب سرور کونین صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوگئی۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ قابل نمونہ طرز زندگی، اور ماں کی شکل میں موجود یہ عظیم نعمت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں، اپنى زندگی میں اسے سب سے زیادہ اہمیت دیں، اس کی خدمت کو اپنے لئے سرمایہ حیات سمجھیں، اس کی خوشى میں اپنى خوشی ڈھونڈیں، اور اس کی سعادت میں اپنى سعادت تلاش کریں۔
ماں کی عظمت ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتى ہے کہ ہم عظمت کی اس علامت کو اپنے لئے دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی کا سبب بنالیں۔ اور کہیں ایسا نہ ہو اس کو بڑھاپے میں پانے کے باوجود بھی ہم شقاوت ومحرومی کے شکار ہو جائیں، اور یہ آسان راستہ ہوتے ہوئے بھی ہم جنت تک نہ پہنچ سکیں۔ بھلا اس سے بڑى محرومی اور شقاوت کیا ہوگى؟
******
یہ ان ناز ک آبگینوں کے اعلى کردار کی چند جھلکیاں ہیں، ان کی بلند سیرت کے کچھ پہلو ہیں، ان کى رواں دواں محبت کی بعض کہانیاں ہیں، جن میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ان کہانیوں کے کچھ تقاضے بھی ہیں، ان قصوں کے کچھ مطالبات بھی ہیں، جن کو پورا کرنے میں سُکھ ہے، سعادت ہے، کامرانی ہے، کامیابی ہے۔
مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ عموما ہم سعادت غلط جگہ ڈھونڈتے ہیں، خوشیوں کو فی غیر محلہ تلاشتے ہیں، کامیابی وکامرانی کے لئے ناکامی ونامرادی کے راستوں کی خاک چھانتے ہیں، نتیجہ وہی نکلتا ہے جو نکلنا چاہیئے کہ بسا اوقات سب کچھ ہوتے ہوئے بھی قلاش رہتے ہیں۔
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سعادت کے اسباب کی سچی معرفت دے، اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے مکمل توفیق عطا کرے، آ مین!
(ختم شد)
جزاکم اللہ خیرا شیخ محترم
قلم شرمارہا ہے تبصرہ کرتے ہوئے،زبانوبیان کی لطافت وچاشنی کے ساتھ موضوع پر علمی نوادرات کی جو جھڑی لگائی ہے وہ آپ جیسے ادیب ہی کا حصہ ہے،ایک بار جو شروع ہواتو لفظوں کے ساتھ بہتا چلا گیا،صنف نازک پر لکھی گئی یہ تحریر اپنا نقش چھوڑے بغیر نہ رہیگی،ظاہر سی بات ہیکہ جب تحریر دماغ سے زیادہ خون دل کی مہک لئے ہو تو وہ پذیرائی کی مستحق ہوگی،ادارتی نوٹ نے جو خراج تحسین پیش کی ہے وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔
واہ!
بہترین تحریر
پانچ کیلومیٹر کی اس تحریر کو پڑھے بغیر واہ واہ لکھے دیتا ہوں یار کیونکہ صاحبِ مضمون عالم، فاضل جہاں دیدہ اور مدرسہ گزیدہ انسان ہیں ،منصورہ نامی بھٹی میں تپے نہیں بلکہ جلے ہیں جہاں اندر کوئلے آنچ باہر کی آنچ سے زیادہ تیز ہے اس لیے جس موضوع پر قلم اٹھائیں گے ، اچھا لکھیں گے گر چہ وہ موضوعِ حسن وعشق ہی کیوں نہ ہو گرچہ وہ مدنی ہی کیوں نہ ہوں ۔۔
جزاکم اللہ خیرا
کافی زیادہ دلکش و خوب سے خوب تر مضمون
بیوی کی عظمت کافی زیادہ بڑہ گئی ساتھ ہی ساتھ رشتے کی اہمیت پر کافی زیادہ شیخ کی اس تحریر نے فائدہ پہنچایا
جزاکم اللہ خیرا شیخ محترم
داد بھی وہی شخص دے جو اس قابل ہو
ماشاء اللہ
💐💐🌹🌺🌺
ما شاءاللہ منفرد تحریر
زبردست، مضمون میں اتنی شیرینی و شائستگی ہے کہ ایک بار جو شروع ہوا تو پڑھتا چلا گیا، مضمون طویل ہونے کے باوجود کب ختم ہوا پتہ نہیں چلا، کمال کی روانگی اور سلاست ہے، صنف نازک پہ لکھی گئی یہ تحریر یاد رکھی جائے گی، بہت خوب، اللہ زور قلم اور زیادہ کرے.
ماشاءاللہ
شكرا جزاكم الله خيرا وأحسن الجزاء