موجودہ حالات میں ہماری ترجیحات

شعبان بیدار تعلیم و تربیت

زیر نظر تحریر ایک روڈ میپ ہے اس منزل کا جو ہمارا مقصود ہونا چاہیے۔ عزت کی جو راہ ہے وہی غلبے کی بھی ہے۔ دین صرف کچھ علامتوں یا چند خاص عبادتوں کا نام نہیں ہے، جینے کا سلیقہ ہے دین۔ جیسا دل ہو ویسی شکل بھی ہونی چاہیے، جیسی انترآتما ہو ویسا سلوک بھی ہونا چاہیے۔ من کا رنگ نیلا ہو تو ہریالی نہیں اگتی، دماغ میں جو کیلکولیشن ہوتا ہے زبان وہی بھاشا بولتی ہے۔
ہمارے حالات دگرگوں تو تھے ہی اب ہنگامی ہوگئے ہیں۔ جو دکھائی دے رہا ہے وہ نہ صرف فوری توجہ اور ایکشن کا طالب ہے بلکہ ایک سٹیک محاسبے کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ نظر چوکے یا نشانہ، نتیجہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ قیمت کور کی نہیں ہوتی، دل کے عالم پر رب دوعالم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ انسان ہو یا مسلمان یا پھر دنیا کی کوئی اور مخلوق اگر اس کے ساتھ ہمارا معاملہ اللہ کی مرضی کے مطابق ہے تو ہم باقی رہیں گے چاہے ہماری بقا کے لیے کسی فرعون کو دریا میں ڈوبنا پڑجائے۔ اور اگر ہماری ریپیرنگ کا امکان بھی ختم ہوگیا ہے تو نوح کی کشتی بھی ہمیں ڈوبنے سے بچا نہیں پائے گی۔ اصل ایمان ہے اور وہ تقوی جو ہمارے نیک اعمال کی سیف گارڈنگ کرتا ہے۔ زندگی تو ایک ہی ہے اور موت بھی ایک ہی بار آتی ہے۔ گزران کا لیول میٹر کرتا ہے، کمیت تو مقدر ہے۔ ہر ولادت گھر میں یا ہاسپٹل میں نہیں ہوتی، وفات بھی۔ جب وقت آجائے تب نبض رک جاتی ہے۔
اس پس منظر میں موجودہ حالات کے تقاضے بڑی سادگی سے بلاتکلف اس مضمون میں درج کردیے گئے ہیں۔ فری لانسر ٹیم کے ہمارے پرانے ساتھی شعبان بیدار صاحب نے ایک زمانے بعد پورٹل کے لیے یہ تحریر عنایت فرمائی ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا
(ایڈیٹر )


موجودہ بحران میں ہم جتنی قانونی اور آئینی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں وہ اپنی جگہ ضروری اور مناسب ہیں ان کے ساتھ ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم متعین اہداف کے ساتھ کام کرنا شروع کریں:

پہلی چیز ہے دعوت وإصلاح
دعوت کا کام غیر مسلمین میں ہو اور مجرد دعوت پیش کریں یعنی دعوت دین اس انداز میں شور شرابے کے بغیر پیش کریں جس سے فرقہ پرستوں کے یہاں یہ چیز جلدی موضوع نہ بن سکے اور اسے کوئی دوسرا رخ دینا ان کے لیے آسان نہ ہوپائے۔ یہ دعوت، عام غیر مسلمین میں ایسے دور دراز مقامات میں ہو جہاں سادہ طبیعت کے لوگ ہوں اور دعوتی تنظیموں کی وہاں پہنچ نہ ہو خود غیر مسلم دعوتی تنظیموں کی پہنچ بھی کم ہو اور دعوت کا جو ٹیگ ہو وہ یہ ہو کہ ہم لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم حقیقت میں کیا ہیں؟ ہم جس مذہب کو مانتے ہیں وہ کیا ہے؟ اور ہمارے بارے میں آپ کیسا سوچتے ہیں کھل کر بتائیں؟ تاکہ ہم دل و دماغ میں پنپنے والے شبہات کو دور کرسکیں۔
اسی کے ساتھ ایک ٹارگٹ یہ ہو کہ سرکاری اور پرائیویٹ عہدوں پر بیٹھے لوگوں اور دیگر خاص خاص شعبوں سے جڑے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو ٹارگیٹ کیا جائے اور ان تک پہنچنے کی کوشش کی جائے مثلا صحافی برادری، رائٹرس، فلم میکرس، ٹیچرس، ڈاکٹرس، سیاست دانوں وغیرہ کے کوائف کو پیش نظر رکھتے ہوئے میدان میں نکلا جائے۔
کوشش یہ ہو کہ ایک پورا گھر بدلے یا ایک پورا سماج بدلے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر رضاکارانہ طور پر لوگ تبدیلی مذہب کرتے ہیں تو تبدیلی کے بعد جو سماجی دباؤ ہوتا ہے وہ دباؤ کسی صورت باقی نہیں رہے گا اور شادی بیاہ کے لیے موجودہ مسلم سماج کی کمزوریاں انھیں برگشتہ اور دل برداشتہ نہیں کریں گی۔ اس ضمن میں یہ چیز توجہ کی ہے کہ ہمارا مقصد بھلے فی نفسہ درست ہے ہم جب اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو لالچ دینا، دباؤ بنانا، کوئی غیر اخلاقی حربہ اختیار کرنا یا کسی قوم سے نفرت کرنا ہمارا مقصد نہیں ہوتا نہ تو کسی قوم سے ہماری کوئی مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔ ہم جس چیز کو مانتے ہیں اسے لوگوں کو صرف بتاتے ہیں جسے وہ چیز پسند آتی ہے قبول کرلیتا ہے بایں طور برادران وطن کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی مرضی سے قبول کرنے والوں کو اسلام چھپانے کی تلقین کی جائے تاآنکہ وہ ایک مضبوط کمیونٹی کی صورت اختیار کرلیں۔ دراصل ہمارے یہاں شہرت اور چندے بازی کا جو چسکہ ہے وہ بہت خطرناک ہے کوئی ایک کہیں اسلام نہیں قبول کرتا کہ عرب وعجم میں ایسا بھونچال مچایا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یہ بھونچال بھی اس انداز میں گویا ہم غیر مسلموں کو چڑھارہے ہوں۔

توحید کا تعارف، رسالت کا تعارف، قرآن کا تعارف، اسلام کی تعلیم، اسلام کے محاسن اور اسلام سے متعلق پھیلائے جارہے اشکالات کا جائزہ وغیرہ دعوتی موضوعات ہوسکتے ہیں۔
یہ دعوت مختصر ویڈیوز، آڈیوز، ہندی مراٹھی اور مختلف زبانوں میں بھی ہو۔ اس کے ساتھ اسلامی موضوعات پر ڈرامہ نما مختلف طرح کی مختصر فلمیں شوٹ کی جائیں جو پورے طور پر شرعی دائرے میں ہوں۔
بطور خاص یہ کام انفرادی ملاقاتوں کی شکل میں ڈور ٹو ڈور ہو اور متعین مقامات پر ہو، مقامات کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے اور ان کا مطالعہ کیا جائے تاکہ دعوت میں آسانی ہو۔ اس پوری دعوت میں پہلی ترجیح یہ ہو کہ غیر مسلم مسلمانوں کو خطرہ نہ سمجھیں اور ان کے بارے میں جو شبہات غیر مسلمین کے ذہنوں میں ہیں وہ دور ہوں اور وہ خالی الذھن ہو جائیں۔
اصلاح کا کام مسلمانوں میں ہو۔ اولا انھیں توحید و رسالت کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔ دوم حصول علم کی رغبت دلائی جائے۔ پھر انھیں حکمت وبصیرت سکھائی جائے اور گفتگو کے آداب، مجلسوں کے آداب کھانے پینے کے آداب صفائی کے آداب معاشرتی قدروں کے لحاظ کی تربیت دی جائے تاکہ مسلمانوں کی جو غلط شبیہ غیروں کے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہے وہ زائل ہو۔ انھیں یہ تلقین کی جائے کہ خاموش دعوت کا طریقہ اختیار کریں کچھ ایسا بہتر کرتے رہیں جس سے غیر مسلم اسلام کے بارے میں سوال پوچھنے پر مجبور ہوجائے۔
دعوت کے جو کورس ہمارے یہاں کرائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے بیانیہ پر مبنی ہیں اور بیانیہ بھی ایسا جو گہرے مطالعہ سے رشتہ نہیں رکھتا، مشاہدات کی باریک بینیوں سے بہت دور ہوتا ہے، ادھر ادھر سے پرانا مواد ملا جلا کر محاضرہ تیار کرکے ایک چٹکارہ پیش کردیا جاتا ہے، غوروتدبر اور خون جلانے کا عمل تو بالکل نہیں ہوتا، بڑے بڑے خطباء نما اہل علم ہائر کیے جاتے ہیں جو حصول مقصد کے بجائے پروگرام کی کامیابی کے ذہن سے بلائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں تجربات اور ڈسپلن کی بے حد کمی ہے اخلاص کا بڑا فقدان ہے۔ فقدان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اخلاص کی مٹی سینے میں موجود نہیں ہے دراصل اس مٹی کو زرخیزی دینا ہمارا کام ہے۔ بحیثیت مجموعی جتنے لوگ اس طرح کے پروگرام کرتے ہیں ان کا مقصد کام کا شمار ہوتا ہے اور جو لوگ شریک ہوتے ہیں ان کے یہاں بھی جانبی مقاصد اس قدر زائد ہوتے ہیں کہ بھر پور فائدہ نہیں ہو پاتا۔
ملک میں ہزاروں داعی ایسے مل جائیں گے جو دعوت الی اللہ کے جذبے سے شرسار ہیں ان کی پہچان کی جائے پہچان کے لیے مختلف قسم کے پروسیزر سے انھیں گزارا جائے۔ نفسیات کے ماہرین سے بھی مدد لی جائے اس کے بعد انھیں علمی وعملی تربیت دی جائے، زبانوں کا علم دیا جائے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو دعوہ کے شعبے ہوتے ہیں وہ چندے کی فہرست عمدہ کرنے کا سامان محض ہوتے ہیں اور صرف ایک شعبہ کا اضافہ ہوتے ہیں سو مقصدیت لائی جائے مہمات سونپی جائیں پھر اس کے بعد جب وہ ڈسپلن میں پختہ ہو جائیں تو ان کی تمام ضروریات کو پوری کرکے انھیں آزاد کرکے میدان میں اتارا جائے۔ ایسے دعات کا رزلٹ بے حد شاندار ہوگا اس کے لیے ایک کام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جماعت اولی سے ہی اس قسم کے طلباء کی بھی شناخت کی جاتی رہے۔ مگر سوء قسمت اداروں کا ہدف اتنا گنجلک، مبہم اور ذاتی مقاصد سے آلودہ یا پھر محض ادارہ ہوتا جارہا ہے کہ اللہ کی پناہ! بہرحال عرض کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ فکرہ پر کوئی منظم خاکہ تیار ہوجائے اور ڈھنگ سے ان کی تربیت ہوتی رہے ان کے لیے مختلف کورسیز چلائے جاتے رہیں ان کی تعطیلات کو دل چسپ اور بامقصد مصروفیات سے پر کیا جائے۔ غرض افراد سازی کے طریقوں پر ڈھنگ سے غور کیا جائے یہ غور تب ہوگا جب آپ کا مقصد ادارہ چلانے اسکول چلانے جماعت چلانے اور تنظیم چلانے کے بجائے تعلیم اور دعوت وإرشاد ہوگا۔
ہمارے یہاں تصنیفات کی بہار آئی ہوئی ہے جو لوگ ایک صفحہ کا ڈھنگ کا مضمون نہیں لکھ سکتے وہ کئی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس سے اندازہ لگاییے کہ کھانے کمانے اور شہرت وناموری کا دھندہ کس قدر عروج پر ہے۔ اور اسی لیے اصل مقاصد کو پانے میں ہم ناکام ہیں۔
معیاری کام کرنا ہے تو ہر شعبہ زندگی سے متعلق الگ الگ طرح کے دعاة ہونے چاہیے۔ دیہاتی معاشرہ کے لیے الگ شہری معاشرہ کے لیے الگ خواتین میں کام کرنے والے الگ بچوں میں کام کرنے والے الگ کمپنیوں سے وابستہ افراد میں کام کرنے والے اور مزدوروں میں کام کرنے والے غرض تمام اہم اور بڑے شعبوں میں کام کرنے والے افراد ہوں جنھیں متعلقہ شعبوں کا بھرپور علم اور مطالعہ اور مناسب حال اسلوب کلام اور مواد پر پختہ گرفت ہو۔ اور یہ تمام داعی مسلمانوں اور غیر مسلمین دونوں میں سرگرم ہوں تو ان شاء اللہ بہتر کام ہوگا۔
مسلمانوں میں اصلاح کا کام کرنے کے لیے متعدد گوشوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کا بنیادی سلوگن رجوع الی اللہ ہونا چاہیے اس سلوگن کو منظم اور مرتب کرنے کے ساتھ اس کی تفصیلات کو خوب دل چسپ بنانے کی حاجت ہوگی تاکہ بامعنی طریقے سے اس سلوگن کا مفہوم عام وخاص کا ذہن اسے سمجھے اور قبول کر سکے اور اس کے لیے اپنے دل ودماغ میں رغبت محسوس کرے۔ رجوع الی اللہ جیسے مرکزی مضمون کو سنوارنے اور بنانے کے ساتھ اس کے مقتضیات اور اس کے معاون موضوعات کو خاص اہمیت دی جائے۔
نماز کی پابندی سستی وکاہلی سے دوری، اسلامی روایات کی پاسداری، عورتوں میں پردہ، حیا کی ترغیب، محنت ومشقت کی تعلیم، جسمانی صحت کی اہمیت، عہد نبوی کے کارآمد کھیلوں کی تلقین، ڈنڈوں کا کھیل، گھڑدوڑ، دوڑ، کبڈی، پہلوانی، جوڈو کراٹا، ورزش، نشانہ بازی ؤغیرہ کھیلوں کا شدید اہتمام، شادی بیاہ کو سہل اور سستا بنانے کی مہم، موبائل کلچر اور ٹی وی کلچر سے دوری، کمپیوٹر کلچر سے قربت، خاندانی بکھراؤ پر لگام، رشتہ داروں کے کمزور پڑتے تعلقات کی مضبوطی، پڑوس اور گاؤں محلے کے سرد پڑچکے پرانے محبانہ ماحول کی واپسی، حقیقی اسلام کا فہم، اختلاف کے آداب، اتحاد کی بنیادوں کی تلاش، بھڑکاؤ اور گالی گلوچ والی تقریروں سے دوری، اپنے مسلک اور منہج پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے احترام کا ادب جیسی مختلف چیزوں پر زور دیا جائے اور پورے معاشرے میں تبدیلی کی حقیقی لہر پیدا کی جائے جس میں کسی خاص وضع قطع کے بجائے اسلام کی روح پر اصل توجہ ہو۔

دوسری چیز جو کرنے کی ہے کہ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات سے نکالا جائے اور خود بھی نکلا جائے، سب کچھ اللہ کے حوالے کرکے جینے کا ہنر پیدا کیا جائے اور اس جان کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے عزت کے ساتھ جان کی قربانی کا حوصلہ رکھیں تاکہ کسی آفت پر اپنا آپا قابو میں رکھ سکیں اور شعور سے کام لے سکیں۔
تیسری چیز یہ ہے کہ مایوسی کے ماحول سے نکلا جائے اور نکالا جائے اور تمام تر مشکلات کے باوجود ہر محاذ پر ڈٹ کر کام کیا جائے بطور خاص تعلیم اور معاش پر بھر پور توجہ دیں تعلیم کا پانچ پانچ سالہ مختلف سطح پر ہدف متعین کریں اور تعلیم کے خاص ٹرینڈ داعی بھی میدان میں اتار دیے جائیں جو تعلیم پر مبنی مواد کا گہرا مطالعہ رکھتے ہوں اور جذبے کی صلاحیت سے بھرپور ہوں۔
ہدف کی تعیین یوں کرسکتے ہیں کہ جو بچے اسکولوں میں پہلی جماعت میں ہیں وہ چار سال میں اے گریڈ کے بچے ہوں گے اوروہ عالمی معیار پر قابل تعارف ہو سکیں گے۔
جو بچے پانچویں میں ہیں وہ دسویں میں عالمی معیار کا کوئی بھی کمپٹیشن بیٹ کرنے کی صلاحیت سے معمور ہوں گے اور جو بچے دسویں میں ہیں وہ پانچ سال بعد ملک کے اعلی تعلیمی لیاقت، اونچی بصیرت، سچا دینی فہم، دینی حمیت وغیرت، اور فکر وشعور کی دولت سے لیس مضبوط جسم کے مالک ہوں گے۔ اور ملک ہی نہیں بیرون ملک وہ اس قدر پھیل جائیں اور اتنی بڑی تعداد میں پھیل جائیں کہ سیاسی سماجی اور معاشی ہر لحاظ سے مؤثر کردار ادا کرسکیں۔
اس طرح ہر پانچ سال پر پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں قابل نوجوان ہمارے پاس ہوں گے۔
اسی انداز میں معاشیات پر کام ہو مختلف طرح کی گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کی ٹریننگ، روزگار کی رہنمائی، روزگار میں تعاون، رکاوٹوں پر گفتگو غرض ہر پہلو سے ایک قومی تحریک جو معاش پر مبنی ہو۔
چوتھی چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی بیداری کو فروغ دیا جائے، سیاست کے خدوخال کی درست معرفت ہو اور ذاتی سیاست کے بجائے قومی سیاست کا مزاج پیدا کیا جائے اور پردھانی الیکشن کے سبب تعلقات میں جو انتشار پیدا ہوتا ہے اس کی کمی کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے اس پر توجہ کی جائے۔
ایک پانچویں چیز یہ ہے کہ ہر منفی طریقے کی حوصلہ شکنی کی جائے مثلا بین المذاہب شادیوں کا رواج ہوچلا ہے ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ پہلے گناہ کے تعلقات بنتے ہیں پھر لڑکی شادی کو تیار ہوتی ہے اور پھر لڑکے کا مذہب قبول کرتی ہے۔ فقہی اور قانونی لحاظ سے اگرچہ اس کا مذہب تبدیل کرنا تبدیلی کے زمرے میں آئے گا مگر یہ چیز جس سماج کی وہ لڑکی ہوتی ہے اس میں نفرت اور انتقام کا زہر بھر دیتی ہے اس لیے کسی منفی داعیہ کے بغیر کوئی اسلام میں آنا چاہے بلاشبہ اس کا استقبال ہو مگر کمیونٹی کی حیثیت سے اس قسم کی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ اگر پڑھا لکھا سماج ہو تو خوش اسلوبی سے ان چیزوں کو حل کرلینا چاہیے۔
بہت سی مسلم لڑکیاں غیر مسلمین کے ساتھ ہوتی ہیں اور بالعموم یہ ایک منصوبہ کا حصہ ہوتی ہیں اب جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا ہمارے لیے اس شر میں خیر تلاشنے کا کام ہونا چاہیے۔ ان لڑکیوں اور ان کے گھر والوں سے مثبت رابطہ رکھ کر دعوتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے خون اور سماج کا رشتہ بہت معاون ثابت ہوگا۔
بطور خاص یہ چیز یاد رکھنے کی ہے کہ دعوت سے پہلے برادران وطن کے متعین سماج میں نفرت کا ماحول کم کر کے محنت سے محبت کی فضا ہموار کی جائے۔
یہ چند منتشر خیالات تھے جو مایوسی کی کوکھ سے جنمے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں سرپر ہاتھ رکھ لینے، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینے سے بات ہرگز نہیں بن سکتی آپ خود کو کتنا بھی بچائیں آپ بچ نہیں سکتے اگر اللہ کی مرضی شامل نہیں اس لیے زندگی کا جو بھی موقع غنیمت ملا ہے اسے مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے کہ یہی حاصل زندگی ہے بس ترجیحات کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔

آپ کے تبصرے

3000