احتجاجی مظاہرے جو تحریک بن گئے: 1
۱۵/ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا ملک آزاد ہوا، آزادی آئی بھی تو کفن اوڑھے آئی، تقسیم ہند کے خونیں واقعات نے جشن بھی ٹھیک سے نہ منانے دیا، اللہ اللہ کرکے حالات میں کچھ سدھار ہوا تو ہمارے رھنماؤں نے طرز حکومت کے لیے ڈیموکریسی کا انتخاب کیا۔ہندوستانیوں کے لیے یہ پہلا تجربہ تھا، صرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس بات سے آگاہ تھا کہ یہ طرز حکومت عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعے ہوتی ہے، یوروپ میں اس کے کئی ماڈل موجود تھے، لیکن ہندوستان کا ماحول وہاں سے بالکل الگ تھا، یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار تھے، رنگ برنگی تہذیبیں اور زبانیں تھیں، بھارت کے زیادہ تر سیاست داں جمہوریت شناس نہیں تھے اور نہ ان کی تربیت کی کوئی خاص کوشش کی گئی تھی،آزادی کی لڑائی کانگریس کے جھنڈے تلے لڑی گئی، ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری بھی اسے ملی ،جمہوری نظام کے پچیس سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ جمہوری حکومت اپنی راہ سے بھٹکنے لگی، اس کی قیادت نے آمریت کی راہ اپنالی اور سیاسی پالیسیاں ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھنے لگیں، ایسا کیوں ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آزادی کے بعد کے سیاسی منظرنامے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھ لی جائے۔
ملک آزاد ہونے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ آئین سازی کا تھا، یہ کام ایک کمیٹی کے سپرد کیاگیا، جس کے نگراں اور سر براہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے، ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ کو بحث و مباحثہ کے دور سے گزر کر دستور ہند پاس ہوگیا، اس دوران ایک عبوری حکومت بنائی گئی، انڈین نیشنل کانفرنس کی حیثیت ایک سیاسی پلیٹ فارم کی تھی، جس میں ہرقسم کے نظریات اور خیال کے لوگ شامل تھے، جنھیں ہم اجمالی طور پر تین گروپوں میں بانٹ سکتے ہیں، وہ لوگ جو سیکولر مزاج اور روشن خیال تھے جنھیں ہم لبرلز کہہ سکتے ہیں، دوسرے سوشلسٹ تھے جن کا موقف گاندھیائی نظریہ سے الگ تھا، تیسرا ہندووں کا وہ گروپ تھا، جن میں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے نظریات سے وابستہ لوگ تھے، ان کا پختہ خیال تھا کہ کانگریس میں رہتے ہوئے ہم ان پر پورا دباؤ ڈال سکتے ہیں اور ہندتو نظریہ کے مطابق ہندو ریاست کے قیام کی جد و جہد کرسکتے ہیں، آزادی کے بعددو ایسے واقعے ہوئے جن کی وجہ سے گرم دل کے ہندوؤں نے کانگریس میں رہنا خلاف مصلحت سمجھا، ۳۰/ جنوری ۱۹۴۸ کو آرایس ایس کے ایک سابق ممبر ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو گولی ماردی، ۸/اپریل۱۹۵۰ میں ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نہرو اور لیاقت علی خاں کے مابین ایک معاہدہ ہوا، بہت سے ہندو اس معاہدہ سے سخت ناراض تھے، چنانچہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھر جی جو نہرو کی کابینہ میں وزیر تھے، وہ مستعفی ہوگئے، اس وقت تک آر ایس ایس ایک ہندو سماجی تنظیم کی حیثیت سے معروف تھی، اس کے دوسرے سر سنگھ سنچالک گولوالکر تھے، ہند تو کے بارے میں ان کی آئیڈیالوجی خاصی مشہور ہوچکی تھی، انھوں نے آر ایس ایس کو سیاست سے دور رکھا تھا، لیکن گاندھی جی کی موت کے بعد ان کی تنظیم کافی بے وزن ہوگئی تھی، دوسری طرف اس نظریے سے وابستہ لیڈران اب کانگریس سے نکلنا چاہتے تھے، کانگریس میں شامل رہنے کا کوئی فائدہ انھیں نظر نہیں آرہا تھا،وقت آچکا تھا کہ آرایس ایس کی اپنی سیاسی پارٹی ہو جو ہندتو آئیڈیالوجی کو میدان سیاست میں متعارف کرائے، چنانچہ ۱۹۵۱ میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اس نےاپنا سیاسی ونگ لانچ کیا، ۱۹۵۲ کے الیکشن میں جن سنگھ نے حصہ لیا اور اسے تین نشستیں ملیں ،۱۹۵۳ میں شیاما پرساد مکھر جی کی موت ہوگئی لیکن سیاسی قیادت سنبھالنے کے لیے دین دیال اپادھیائے
جیسے لوگ موجود تھے۔
نہرو کے انتقال ۱۹۶۴ تک پورے بھارت میں کانگریس کا جلوہ برقرار رہا اور ملک کی ترقی جمہوریت کی راہ پر گامزن رہی، لیکن یہ حقیقت تھی کہ حصول آزادی کے بعد کانگریسیوں کے جوش و خروش میں بہت کمی آگئی تھی،اقتدار کے نشے نے بھی ان میں تبدیلی پیدا کردی تھی، متعدد بزرگ رھنما سیاست سے دور ہوچکے تھے ، گاندھی جی،مولانا آزاد، مولانا حسرت موہانی مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، مولانا حسین احمد مدنی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، چھٹی دہائی میں مدراس کے بزرگ رھنما کمارا سوامی کامراج نے نہرو کے سامنے تجویز رکھی کہ بزرگ وزرا کو منصب چھوڑ کر تنظیمی کاموں میں مشغول ہونا چاھیے تاکہ کانگریس پارٹی کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جا سکے، کئی وزرا جیسے جگجیون رام، لال بہادر شاستری، بیجو پٹنائک اور خود کامراج نے استعفی کی پیش کش کی، نہرو ۱۹۶۴ میں چل بسے ، وزارت عظمی کے لیے کامراج کانام سر فہرست تھا، لیکن انھوں نےلال بہادر شاستری کو ترجیح دی ،ہندوپاک میں جنگ (۱۹۶۵)کے تھوڑے عرصہ کے بعد معاہدۂ تاشقند کے دوران ۱۹۶۶ میں ان کا انتقال ہوگیا، وزیر اعظم کے دو مضبوط دعوے دار تھے، جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اور مرارجی ڈیسائی، تجربات اور صلاحیتوں کے اعتبار سے مرار جی فائق تھے، لیکن وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع اندرا گاندھی کو ملا، کہا جاتا ہے کہ انھیں وزیر اعظم بنانے میں کامراج کا اہم کردار رہا ہے، اسی لیے انھیں کنگ میکر بھی کہا جاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ کامراج کے بارے میں بتادوں، یہ صف اوّل کے ان گاندھیائی لیڈران میں تھے ،جنھوں نے اپنی پوری زندگی ملک، قوم اور کانگریس کے لیے وقف کردی تھی ، مدتوں مدراس کے وزیر اعلی رہے ، تعلیمی میدان میں انھوں نے اس قدر کام کیا کہ فادر آف مدراس بن گئے، زندگی بھر شادی نہیں کی، بڑی سادگی سے زندگی بسر کی،مدراس کے وزیر اعلی تھے لیکن کبھی کسی کٹیگری کی سیکورٹی نہیں رکھی، ایک گشتی گاڑی پر صرف پولیس کے ایک سپاہی کے ساتھ ہمیشہ سفر کرتے، آپ کے گھر ویروندھرا نگر میں میونسپلٹی نے خاص طور سے آپ کے لیے پانی کا کنکشن لگوادیا، آپ کو معلوم ہوا تو فورا کنکشن کاٹنے کا حکم دے دیا کیوں کہ عوام کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی، ۲/ اکتوبر ۱۹۷۵ میں مرے تو انکے پاس کوئی جائداد نہیں تھی ، جیب میں صرف ایک سو بتیس روپئے تھے،دو جوڑی جوتے، چار قمیصیں اور چار دھوتیاں چند کتابیں یہی ان کا کل ذاتی سرمایہ تھا۔
۱۹۶۶ کے الیکشن میں کانگریس کی جیت ہوئی اور مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بنیں، کانگریس میں ان کے کئی حریف تھے، آہستہ آہستہ پارٹی اور حکومت دونوں کی نکیل اپنے ہاتھوں میں لے لی، مرار جی ڈیسائی ڈپٹی پرائم منسٹر اور فائننس منسٹر تھے ، مسز گاندھی نے فائننس کا قلمدان ۱۹۶۹ میں ان سے واپس لے لیا،زیادہ تر کانگریسی ان کی آمرانہ روش اور سلوک سے ناراض ہوگئے، کانگریس دو حصوں کانگریس او( آرگنائیزیشن ) اور کانگریس آر( رکیوزیشن ) میں منقسم ہوگئی، اس تقسیم نے پارٹی کو کمزور کردیا، کانگریس او کے قائد مسٹر کامراج تھے، مرار جی استعفی دے کر اسی میں چلے گئے، ان سب کے باوجود اندرا گاندھی کی کانگریس (آر) نے حکومت کی پنج سالہ مدت نہ صرف پوری کی بلکہ ۱۹۷۱ کے الکشن میں اکثریت حاصل کرکے بر سر اقتدار آگئی، اس دوران جن سنگھ نے سیاست میں بھی اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
ساتویں دہائی میں کئی ایسے بڑے واقعات پیش آئے ،جنھوں نے سیاسی تاریخ کے دھارے کو موڑدیا، صوبائی اور مرکزی حکومت کے خلاف آزادی کے بعد پہلی بار طلبا نے دو بڑی تحریکیں چلائیں، جس میں عوام اور سیاسی رھنما بھی شامل ہوگئے، ان تحریکوں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ واضح کردیا کہ طلبا کے احتجاجات اور مظاہرےبر سر اقتدار سرکار کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں ، ان کی طاقت حکومت کو بدل سکتی ہے، تاریخ انھیں نونرمان اآندولن اور جے پی آندولن کے نام سے جانتی ہے۔
مسز گاندھی ۱۹۷۱کے الیکشن میں ۵۲۵ سیٹ میں ۳۶۰ سیٹوں پر قابض ہوکر اقتدار میں آئیں، اسی سال مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی، بنگالیوں نے اپنے لیے الگ ملک بنگلہ دیش کا اعلان کردیا، پاکستان نے اس بغاوت کوکچلنے میں پوری طاقت جھونک دی، بھارتی بارڈر پر بھی اس نے دخل اندازی کی، مجبوراً بھارت کو بھی جنگ میں کودنا پڑا۔ اس نے ملتی باہنی کا پور ا ساتھ دیا، پاکستان کو شکست فاش ہوئی، اس کا دایاں بازو الگ ہوگیااور بر صغیر میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک اور ملک وجود میں آگیا، تقریبا ایک لاکھ پاکستانی فوجی گرفتار ہوئے اور بھارت کی مختلف جیلوں میں رکھے گئے، ۱۹۷۲ میں شملہ معاہدہ کے بعد ہی یہ فوجی واپس جا سکے۔
اندرا گاندھی کایہ عروج کا زمانہ تھا، انھوں نے اس جنگ کے ذریعے جناح کے دو قومی نظریے کو غلط ثابت کردیا، فتح کا غرور کس کو نہیں ہوتا ہے، انھیں عوام نے ماں درگاکا خطاب دیا، لیکن جنگ تو جنگ ہے شکست ہو یا فتح تباہیاں ضرور آتی ہیں ، معاشی اعتبار سے ملک دس سال پیچھے چلا گیا، ہندوستان کی معیشت ڈانوا ڈول ہوگئی، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی، مرے کو مارے شاہ مدار، اچانک قحط سالی پیدا ہوگئی۔ لوگوں کے پاس غذائی اجناس کی قلت ہوگئی، صوبائی اور مرکزی حکومت میں بدعنوانیاں شباب پر پہنچ گئیں، افسران، وزرا لوٹ کھسوٹ میں لگ گئے، پورے ملک میں ضطراب کی لہر دوڑ گئی ، صبر کا پیمانہ چھلک گیا،عوام میں غصہ پھوٹ پڑا،احمدآباد اور بہار میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔
نونرمان تحریک: ۱۹۷۳ میں چمن بھائی پٹیل گجرات کے وزیر اعلی بنے، عوام مہنگائی اور معاشی بد حالی سے پریشان تھے، چمن بھائی پر بدعنوانی کا الزام تھا، دسمبر ۱۹۷۳ میں ایل ڈی انجینیرنگ کالج میں کھانے کی فیس میں بیس فیصد کا اضافہ کردیا گیا، کالج کے طلبا نے احتجاج اور مظاہرہ کیا، جنوری ۱۹۷۴کے اختتام تک یہ مظاہرے پورے گجرات میں پھیل گئے، اس میں میڈل کلاس بھی شامل ہو گیا، تشدد اور توڑ پھوڑ کی وارداتیں شروع ہوگئیں، چوالیس شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا، پولیس عوام اور طلبا پر ٹوٹ پڑی، سو جانوں کا زیاں ہوا، ایک ہزار سے تین ہزار تک لوگ زخمی ہوئے، آٹھ ہزار گرفتاریاں ہوئیں، سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور طلبا کی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں ، مرار جی ڈیسائی نے بھوک ہڑتال کی، جے پرکاش نرائن پٹنہ سے آگئے، بالاخر احتجاج اور مظاہروں کے آگے سرکار کو جھکنا پڑا، مرکزی حکومت کو دخل دینا پڑا، مسز اندرا گاندھی نے چمن بھائی پٹیل کو مستعفی ہونے کا حکم دیا، ریاستی اسمبلی تحلیل کردی گئی، صدارتی راج قائم ہوگیا، اندرا گاندھی نے نئے سرے سے الکشن کرانے کا مطالبہ منظور کرلیا، نو نرمان تحریک کاسب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود حکومت عوام اور طلبا کے حق احتجاج کو کچلنے میں ناکام رہی۔
سمپورن کرانتی( مکمل انقلاب) یا جے پی آندولن:
آپ میں سے بہتوں نے راجندر نگر اور دلی کے درمیان چلنے والی تیز رفتار ٹرین سمپورن کرانتی راج دھانی ایکسپریس کے ذریعے سفر کیا ہوگا، یہ ٹرین اس تاریخی تحریک کی یاد میں چلائی گئی ہے، جس نے کانگریس کا نہ صرف جغرافیہ بدل دیا، بلکہ یہ ثابت کردیا کہ ہندوستانی جمہوریہ میں آمریت کی راہ پر چلنے والی کسی بھی سیاسی پارٹی یا سماجی تنظیم کو ہندوستانی عوام زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں، سمپورن کرانتی کی اس تحریک کو ہم جے پی موومنٹ( جے پرکاش نرائن تحریک) کے نام سے بھی جانتے ہیں، اس تحریک کا آغاز بھی گجرات کی نو نرمان تحریک کے ساتھ ہوا، ۱۹۷۳ کے اواخر میں کانگریسی حکومت کے خلاف تمام سیاسی پارٹیوں نے متحدہ محاذ بنا کر مظاہروں کا آغاز کیا، بھوپال میں دھرنا پردرشن ہوا، مدھیہ پردیش کی کانگریسی حکومت آپا کھو بیٹھی اور پولیس نے گولیاں چلا دیں، دیکھتے ہی ہی دیکھتے آٹھ طالب علم خاک و خون میں لت پت ہوگئے، ۱۹۷۴ میں صوبہ بہار میں حکومت کے خلاف عام بے چینی پھیل گئی، سیلاب اپنا راستہ خود بنالیتا ہے ، پٹنہ یونیورسٹی کے طلبا نے تعلیم اور ہوسٹل کے کھانے کو لے کر ہنگامہ کیا، اس کی گونج پورے بہار میں سنائی دی، اسٹرائک، دھرنا اور گھراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس وقت کانگریسی نیتا مسٹر عبد الغفور بہار کے وزیر اعلی تھے، تحریک کی قیادت کی ذمہ داری جے پرکاش نارائن نے لی، وہ مشہور گاندھیائی لیڈر تھے، ۱۹۵۷ میں سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوچکے تھے، لیکن ملک کی ڈوبتی نیا کو ساحل سے لگانے کے لیے ۱۹۷۴ میں دوبارہ سیاسی افق پر نمودار ہوئے،پٹنہ کو انھوں نے مرکز بنایا ، طلبا نے لڑائی کے لیے “چھاتر یوا سمیتی کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جس کے صدر لالو پرشاد یادو بنائے گئے، اس تحریک میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن، اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد (ABVP) ،سماج وادی طلبا شریک تھے، احتجاج اور مظاہروں کے دوران پٹنہ میں تین طالب علم مارے گئے، اشتعال اور تشدد کی لپیٹ نے بہار کو اپنے قبضے میں لے لیا، مرکز گجرات کی طرح بہاراسمبلی تحلیل کرنے پر تیار نہیں ہوا، ایک سالہ تحریک میں سرکاری املاک کو بے پناہ نقصان پہنچا، لیکن اس کا کوئی جرمانہ مظاہرین سے نہیں وصول کیا گیا۔
جے پرکاش نرائن نے بڑی خوب صورتی اور ہنر وری سے ملکی پیمانے پر تحریک کو حکمراں پارٹی کے خلاف موڑ دیا اور اندرا گاندھی کے خود ساختہ جمہوری سسٹم پر سیدھاوار کیا، انھوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کو متحد کیا، ظاہری طور پر یہ تحریک ناکام رہی، اندرا گاندھی نے ان کے مطالبات ٹھکرادیے،—۱۲/ جون ۱۹۷۵ کو ہائی کورٹ نے اندراپرالکشن لڑنے کی پابندی لگا دی، ۲۵/ جون ۱۹۷۵ کو انھوں نے ایمر جنسی لگادی —لیکن اسی تحریک کی وجہ سے تمام حزب مخالف جنتا دل کے جھنڈے تلے ایک جٹ ہوگیااور ۱۹۷۷ کے الکشن میں کانگریس کو شکست فاش دی ،آزادی کے بعد پہلی بار غیر کانگریسی حکومت بنی، مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم بنے، مختلف اور متضاد نظریات والی پارٹیوں کی حکومت پانچ سالہ مدت پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال میں ہی ڈھیر ہوگئی، دوسری طرف کانگریس ایک عام سی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی، اس کا وہ رتبہ اور مقام جو آزادی سے قبل تھا، ختم ہوچکا تھا،اس کے پاس میراث میں سیکولر نظریہ تو تھا، لیکن سیکولر افراد کی سخت کمی تھی، اس سے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی کونپلیں بھی وقتا فوقتا پھوٹنے لگیں، بالآخر وہ بھی ہندتو کا سوفٹ ورژن بن کر رہ گئی
۱۹۷۴ میں ایک اور آندولن چلا جس نے عوام کے روز مرہ کے معمول کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا، ریلوے مزدور یونین کی تاریخی اسٹرائک آج بھی یاد ہے، اس اسٹرائک کی قیادت مشہور سوشلسٹ لیڈر جارج فرنانڈیز نے کی تھی، آزادی کے تیئیس چوبیس سال گزرنے کے باوجود ریلوے ملازمین کی تنخواہوں میں پے کمیشن اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں نکال سکا تھا، یہی مسئلہ اس اسٹرائک کا بنیادی محرک بنا،۱۹۷۵ کی ایمرجنسی اس اسٹرائک کے اختتام کا سبب بنی ، جارج فرنانڈیز پہلے تو زیر زمین ہوگئے، ان کے گھر والے تعذیب کا ھدف بننے لگے تو مجبوراً انھیں سرینڈر ہونا پڑا۔
یہ تین عظیم احتجاجی مظاہرے تھے جو ایک دو ماہ کے فرق سے وجود میں آئے اور اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی نے ان کو ختم کردیا، لیکن ان کے اثرات نے پورے ملک کی سیاست ہی کو بدل کر رکھ دیا، جنتا دل کی کوکھ سے کئی سیاسی پارٹیوں نے جنم لیا، بھارتیہ جن سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں نئی سج دھج اور بھرپور توانائی کے ساتھ نمودار ہوئی،صوبوں میں علاقائی پارٹیوں کا زور بڑھ گیا، مذھبی، علاقائی اور لسانی عصبیتیں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرنے لگیں۔( مسز اندرا گاندھی کی شخصیت سناشی کے لیے اوما واسودیو کی کتاب Two Faces of Indra Gandhi کا مطالعہ کریں)
منڈل کمنڈل کی سیاست اور مظاہرے:
آزادی کے بعد جو مظاہرے بر سر اقتدار حکومتوں کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ،ان میں سے ایک منڈل کمیشن سے متعلق تھا، ۱۹۷۹ میں مرار جی ڈیسائی نے پس ماندہ ذاتوں کی تعلیمی اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے ایک کمیشن بی پی منڈل کی سر براہی میں متعین کیا، اس نے اپنی رپورٹ ۱۹۸۰ میں پیش کی ،کمیشن نے سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اوبی سی کے لیے ستائیس فیصد رزرویشن کی سفارش کی، منڈل کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات ایک دہائی تک زیر بحث رہیں، ۱۹۸۹ میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ وزیر اعظم بنے، انھوں نے کمیشن کی سفارشات کو نافذ کردیا، پورے ملک میں بھونچال آگیا، طلبا سڑکوں پر نکل آئے، ایک بار پھر دھرنا ، ہڑتال اور قومی شاہراہیں بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، ذات پات کی لڑائی شروع ہوگئی، اونچی ذات کے طلبا رزرویشن کے شدید مخالف تھے، یہ ایجی ٹیشن اس قدر زبردست تھا کہ مرکز کو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا، لڑکوں نے نقل وحمل کے تمام ذرائع کو مسدود کر نے کی کوشش کی، ملک کا شمالی حصہ اس سے زیادہ متاثر تھا، دلی یونیورسٹی کے ایک طالب علم راجیو گوسوامی نے خود سوزی کی کوشش کی، اس واقعہ نے طلبا کو اور زیادہ مشتعل کردیا،خود سوزی کےواقعات میں تیزی آتی گئی، دوسری طرف رزرویشن حمایتی طلبا بھی میدان میں آگئے، ملک کے تمام بڑے تعلیمی اداروں میں طلبا کے باہمی تصادم نے بھیانک صورت اختیار کرلی،
رزرویشن تو نافذ کردیا گیا،لیکن اس کے نتائج نے عوامی زندگی مفلوج کردی، سرکاری املاک کا بے پناہ نقصان ہوا، ڈیڑھ سال میں تین حکومتیں بدلیں، وی پی سنگھ اس میدان میں اکیلے پڑ گئے، جن لوگوں نے انھیں آگے بڑھایا وہ پیچھے ہٹ گئے،نیشنل فرنٹ کا اتحاد بکھر گیا، وی پی سنگھ کا ایک زمانے میں کانگریس میں عروج تھا،وہ سیاسی سرگرمیوں سے اس قدر بددل ہوئے کہ کچھ سالوں کے بعد سیاست ہی سے سنیاس لے لیا، رزویشن کے خلاف تحریک کے شعلے ماند بھی نہیں پڑے تھے کہ مسٹر ایل کے ایڈوانی نے رام جنم بھومی کی تحریک چھیڑ دی ،جمہوریت کی کشتی ایک بھنور سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ دوسرے بھونر میں پھنس گئی ،وہ بھاجپا کو اونچائیوں پر لے گئے، لیکن ان کی رتھ یاترا نے باہمی نفرت کا جو ماحول بنایا اور فرقہ واریت کاجو رنگ دکھایا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔ رزرویشن کا مسئلہ آج بھی زندہ ہے، جس کے سہارے ذات پات کی بنیاد پر کئی سیاسی پارٹیاں میدان سیاست میں وقتا فوقتا اپنا گیم کھیلنے لگتی ہیں۔
جمہوری حکومت میں احتجاج اور پرامن مظاہرے عوام کا بنیادی حق ہے انھیں جبریہ اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے، عوام کو پورا حق ہے کہ وہ ارباب حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کریں، ان کے حقوق کی پائمالی ہورہی ہو تو اس پر احتجاج کریں، جائز مطالبات پورے نہ ہوں تو آواز اٹھائیں اور پارلیمانی نمائندوں کے ذریعہ اسے پارلیمنٹ تک پہنچائیں، جمہوری دستور نے ہندوستان کے ہر شہری کو اس کا حق دیا ہے، یہ ہمارا آئین کہتا ہے، کوئی حکومت زور زبردستی سے اسے نہیں چھین سکتی ہے۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی اگر متعصب اور جانب دار بن جائے تو وہ اکثریتی طاقت کےسہارے من مانے قانون وضع کرسکتی ہے اور اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنا سکتی ہے، یہی وجہ ہےکہ جمہوریت اپنی تمام تربرکات اور ثمرات کے باوجودآزادی سے آج تک سینکڑوں بار داغ دار ہوتی رہی ، سرکاری مشنریاں جانب دارانہ کارروائیاں کرتی رہیں ، شہری حقوق کچلے جاتے رہے، فرقہ وارانہ فسادات کا تسلسل ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا ، تکثیری وحدت کا خواب پارہ پارہ ہوچکا ہے۔
اکیسویں صدی کا ربع اوّل گزرنے والا ہے گزشتہ سالوں میں بے شمار احتجاج اور مظاہرے ہوئے، لیکن شہریت ترمیمی بل کے خلاف حالیہ احتجاج ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت او ر کیفیت کے اعتبار سے سب سے منفرد اور اہم ہے، یہ پہلا احتجاج ہے جو نہ صرف ایک قوم کی بقاکی لیے جد جھد کا آغاز ہے بلکہ تحفظ دستور اور حکومت کی آمریت ،جبراور ظلم کے خلاف آوازہے ،یہ پہلا مظاہرہ ہے جس کا علم پردہ نشین خواتین اٹھائے ہوئے ہیں ، جن کے بارے میں عام رائے یہی تھی کہ یہ ناخواندہ ہیں ، گھروں میں مقید رہتی ہیں ،اُنھیں زندگی کے مسائل کا ادراک نہیں ہے،وہ بولنا نہیں جانتی ہیں ،جامعہ ملیہ ، جے این یواور شاہین باغ سے شروع ہونے والے ان مظاہروں کی صدائے بازگشت عالم گیر بن چکی ہے،
یہ حقیقت ہے کہ سی اے اے ،این پی آر ، این آرسی اگر تینوں ایک پیکج کی طرح استعمال کیے جائیں تو عوام کی شہریت چھیننے اور نسل کشی کا پورا سامان اس میں موجودہے، جس کی براہ راست زد مسلمانوں پر پڑتی ہے اور مسلمان ہی اس کے نشانہ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ان کے ساتھ اس قانونی چکی میں ملک کے پچاسی فیصد عوام پسیں گے، میں سمجھتا ہوں این آرسی کے بغیر صرف سی اے اے اور این پی آر ہی سے حکومت کا مقصد حل ہو جائے گا،سی اے اے ایک طبقہ کو شہریت دے رہا ہے، تو این پی آر میں حکومت اپنی خواہش اور ٹارگٹ کے مطابق لوگوں کو ڈی یعنی مشکوک میں ڈال سکتی ہے، یہ مشکوک لوگ کون ہوں گے اس کا فیصلہ حکومت کی منشا کرے گی، شہریت کے مسئلے کو ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے ،جب ملک کی معیشت ڈانوا ڈول ہوگئی ہے ،بے روزگاری کا مسئلہ عروج پر ہے ،اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جو ترجیحات کی لائن میں لگے ہوئے ہیں، ظاہر ہے حکومت کی نیت پر شبہ پیدا ہونا لازمی ہے ، نیز کئی ایسے سوالات ہیں جن کا تشفی بخش جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے:
۱- کیا اس قانون سے قبل حکومت کے پاس شہریت دینے کا اختیار نہیں تھا، اگر تھا تو اس قانون کی ضرورت کیوں پڑی ؟
۲-در انداز کون ہیں ، ان کی پہچان کا پیمانہ کیا ہے، کیا ہماری ملکی ایجنسیاں ان کی شناخت میں مکمل ناکام رہیں؟
۳-شہریت دینے کے لیے پہلی بار مذھب کو پیمانہ بنایا گیا ہےکیا یہ قانون آئین کی دفعہ نمبر۱۴ سے متعارض نہیں ہے؟
۴- ایسی کون سی ایمرجنسی پیش آگئی تھی کہ اس قانون کے نفاذکو اولیت دی گئی؟
اس قانون کے ہولناک نتائج کے بارے میں اتنا کچھ مواد آچکا ہے کہ مزید اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے، بس اتنا جان لیں کہ آر ایس کے نظریہ کے مطابق ہندوستان ہندوؤں کا ہے، اگر دیگر مذاہب والوں کو اس میں رہنا ہے تو انھیں ہندو تہذیب میں ضم ہو نا پڑے گا، یا ہندو قوم کے تابع رہیں، خاص قسم کے برتاؤ یا مراعات حتی کہ شہریت کا وہ مطالبہ نہیں کرسکتے ہیں ،گولوالکر کے مطابق: ’’ہماری نسلی حمیت ہمارے مذہب کی دین ہے اور ہمارا تمام تر تمدن ہمارے مذہب کی پیدا وار ہے۔۔۔نسلی پاکیزگی کی بقا کیلئے سیمیٹک نسل ۔یہودیوں۔ کا صفایا کر کے جرمنی نے دنیا کو چونکا دیا۔ یہ حرکت نسلی فخر کی مظہر ہے۔ جرمنی نے یہ بھی ثابت کردیا کہ مختلف نسلوں اور ثقافتوں کا آپس میں ضم ہو نا اور ایک قوم بن جانا نا ممکن ہے ۔ یہ ہمارے یاد رکھنے اور فائدہ اٹھانے کیلئے ایک سبق ہے۔ تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیں گولوالکر کی تصنیفات:
We;or Our Nationhood Defined, Nagpur
Bunch of Thought
ونائک دامو در ساورکر کا پمفلٹ:
Hindutva:Who is Hindu
یہ ہے وہ نظریہ جسے آر ایس ایس کا سیاسی ونگ عملی جامہ پہنانےکی جد جہدمیں مصروف ہے سی اے اے اور این پی آر کے ذریعہ آر ایس ایس کے بنائے ہوئے خاکے میں صرف رنگ بھر ا جارہا ہے۔
جیسا کہ پیچھے گزرچکا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ۱۹۸۰ میں منظر عام پر آئی تو اس کے پاس کوئی انقلابی منشور نہیں تھا،لیکن اس کے پاس ایسی پالیسیاں تھیں، جس سے وہ ہر لڑائی آسانی سے جیت سکی، وہ تنہا سیاسی پارٹی ہے جس کے پس پشت ہندوستان کی سب سے طاقت ور تنظیم ہے، جس کی گرفت ہندوستانی سماج کے ہر طبقہ اور ہر شعبہ میں ہے، جس کی سینکڑوں شاکھائیں ہیں اور ہر شاکھا اپنی مضبوط اکائی رکھتی ہے، مسلم سماج میں بھی ان کی دو شاکھائیں مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علما کام کررہی ہے، بی جے پی کے لیڈران روز مرہ کے فیصلے خود کرتے ہیں، لیکن اہم فیصلے اور پالیسیاں ناگ پور سے طے ہوتی ہیں۔
، ہندوستان کو ہندو ریاست بنانے کے لیے ان کے زیادہ تر منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں ، اس کامیابی میں اس کے سیاسی ونگ اور اس کے ممبران کی بے لوث اور بے غرض خدمات کا اہم کردار رہا ہے، ۲۰۲۰ تک اسکے حریف گھٹنے ٹیک چکے ہیں، کانگریس اپنا دم خم کھو چکی ہے،علاقائی پارٹیوں کی ہوا نکل چکی ہے، ( تفصیل کے لیے اے جی نورانی کی کتابThe RSS:A Menac to India ملاحظہ فرمائیں)
اپنے چھ سالہ دور حکومت کا بی جے پی نے پورا فائدہ اٹھایا، ماحول کو اپنےلیے اس طرح سازگار کیا کہ اس کے حالیہ ہر فیصلہ کو ہندوؤں کا ایک طبقہ اپنی فتح کے طور پر دیکھنے لگا۔
مسلمانوں کے لیے اس وقت سارے راستے پرخار ہیں، آگے کنواں ہے پیچھے کھائیں ہے، حکومت کے پاس لامحدود اختیارات اور وسائل ہیں، اس سے ٹکرانا خود ہی اپنی گردن پر چھری پھیرنا ہے، ہر طرف سے مسلسل اشتعال بھی اسی لیے دلایا جارہا ہے کہ آپ بولیں تو ان کو کچلنے کا موقع ملے، این پی آر کا بائیکاٹ کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، حکومت اگر پر عزم ہے تو آپ کے لیے مفر نہیں ہے، وہ زندگی کے ہر شعبہ میں این پی آر کی تصدیق لازمی کرسکتی ہے،
۔ بر سر اقتدار کسی بھی حکومت سے خواہ مخواہ کی امیدیں نہیں لگانا چاہیے ،آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی مکی زندگی کے بارے میں پڑھیں، ان کی استقامت سے سبق حاصل کریں، تشدد کا جواب تشدد نہیں ہے، پر امن راستہ ہی سلامتی کا راستہ ہے۔
احتجاج ہماراقانونی حق ہے ،ہم پرامن مظاہرے کو اس لیے ترک نہیں کرسکتے کہ یہ مظاہرے ہماری آواز کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں،لیکن قانونی حدود کا ہمیشہ دھیان رکھیں ، اس مشن میں ان سیاسی نیتاؤں سے دور رہیں جن کے پاس جذباتی اور اشتعال انگیزباتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے،
ہندو مسلم کے درمیان جو خلیج پیدا ہوچکی ہے، اسے پاٹنے کی اس وقت سخت ضرورت ہے، ہم ان لوگوں کو اپنے قریب کریں جو ایک ہزار سال سے ہمارے ساتھ رہتے آئے ہیں، مانا کہ ان کے ذہنوں میں بھی نفرت کی آگ بھردی گئی ہے ،لیکن یہ آگ اسلامی اقدار اور حسن اخلاق سے بجھ بھی سکتی ہے، ابھی ہندوستان میں سیکولزم باقی ہے، سیکولر افراد بھی ہیں جو آپ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ،اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو کس طرح ساتھ لاسکتے ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے آپ مسلکی اور گروہی عصبیتوں سے اوپر اٹھیں، وقت کی نزاکت کو محسوس کریں، موجودہ حالات سے قطعا نہ گھبرائیں ، آندھیاں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں ،یہ یاد رکھیں کہ
نظریہ وہی زندہ رہ سکتا ہے ،جس میں وسعت اور لچک ہو ،سب کو سمونے کی صلاحیت ہو، وہ نظریہ جس کی بنیاد تنگ نظری، نفرت، نسلی تفوق، تشدد اور صرف طاقت کاستعمال ہو،، اس کی زندگی زیادہ طویل نہیں ہوسکتی ہے۔ حالات ضرور بدلیں گے ان شاء اللہ، انسانی غرور اور تمرد اپنی منصوبہ بندی کرتا ہےاورقانون قدرت چند لمحات میں اسے خاک میں ملا دیتا ہے-
آپ کے تبصرے