وہ کون ہے جو نہیں دستِ امتحان میں ہے

ثناء اللہ صادق تیمی شعروسخن

وہ کون ہے جو نہیں دستِ امتحان میں ہے

جو فائدے میں نظر آتا ہے گمان میں ہے


مرے ہی کام کی دولت سے وہ امیر بنا

مرا ہی نام نہیں اس کے خاندان میں ہے


بڑا ذہین ہے قاتل کہ قتل کرتے ہوئے

یہ دیکھتا ہے کہ نقصان کس کی جان میں ہے


تپش کی کون سی شدت کو جھیل کر آیا

جھلس رہا ہے بدن جب کہ سائبان میں ہے


تو شیخ جی کبھی رفعت کا استعارہ ہوے؟

تمام حسن کی دنیا کہاں بیان میں ہے


کسی کی آنکھ میں حسنِ حیا نہیں ملتا

ہوس کا روگی ہی بیٹھا ہوا دھیان میں ہے


اسے ہی کہتے ہیں ساگر شرافتوں کا اثر

حیا میں آنکھ ہے ڈوبی کشش زبان میں ہے

آپ کے تبصرے

3000