سلم کی زندگی

سعیدالرحمن سنابلی سماجیات

جو لوگ گاؤں یا شہروں کے پاش یا نیم پاش علاقوں میں رہتے ہیں وہ سلم کی زندگی کا اندازہ نہیں کر سکتے ہیں. سلم میں رہنے والوں کی سوچ، ان کا مزاج، ان کی خوشیاں، ان کے غم، ان کی امیدیں، ان کی آرزوئیں، ان کے منصوبوں کی بنیادیں سب مختلف انداز کی ہوتی ہیں. پیدائش سے اب تک میری زندگی کا ایک بڑا حصہ ایک اربن سلم میں گزرا ہے. میں نے بچپن اور لڑکپن سلم میں جیا ہے. آپ میں سے جسے بھی سلم گھومنا ہو وہ اگلے پیراگراف میں داخل ہو جائے.

سلم بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں. ایک تو کسی خالی جگہ ہر کالی، نیلی، پیلی پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی جھگیوں والا سلم. یہ وہی سلم ہوتے ہیں جنہیں نیتا لوگ مسیحا بننے کے لئے کبھی کبھی جلوا دیتے ہیں. برسات وغیرہ میں یہاں کی حالت انتہائی بری ہوتی ہے. استعمال کے پانی کے لئے کہیں دور لگی ٹونٹی سے لوگ ہنڈوں، کلسیوں اور پلاسٹک کی بالٹیوں اور گیلنوں میں پانی بھر کر لے آتے ہیں. کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں. اس میں انتہائی غریب، اور بھیک وغیرہ مانگنے والے اور کچرا چننے والے رہتے ہیں. نہانے وغیرہ کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت دیکھنے لایق نہیں رہتی ہے.
دوسرا لوہے کی ٹِنوں سے بنا سلم. اس سلم میں لوہے کی ٹِنوں کے اونچے نیچے مکانات ہوتے ہیں. دو منزلہ گھر بھی بہت نظر آ جاتے ہیں. ان مکانوں میں گرمی کے موسم میں چاروں طرف سے آگ برس رہی ہوتی ہے. اس کی گلیاں عموماً بہت تنگ اور کچی ہوتی ہیں. اس میں پچھلے کے مقابلے میں قدرے خوشحال لوگ رہتے ہیں.

تیسرا نمبر آتا ہے اربن سلم کا. یعنی پکے گھروں والا سلم. جن میں چال وغیرہ آتی ہیں. چال دراصل ایک لائن سے بنے گھر ہوتے ہیں جنہیں کوئی چھوٹا موٹا بلڈر بنوا کر بیچ دیتا ہے. کوئی کوئی چال دو منزلہ بھی ہوتی ہے. مکانات کی لائن کے شروع یا آخر میں ایک مشترکہ سیڑھی ہوتی ہے. اس میں اینٹ کی دیوار اور پکا پلاسٹر ہوتا ہے اور اوپر ٹِن کے بجائے سیمنٹ کا پترا ہوتا ہے. اس میں عام طور پر  ١٠×٢٠ فٹ کا ایک کمرا ہوتا ہے. جس کے ایک کونے میں کچن باتھروم بنا ہوتا ہے. بہت سارے گھروں میں تو ٹوائلٹ بھی نہیں ہوتا ہے بس نہانے کے لئے چھوٹی سی موری بنی ہوتی ہے. بیڈ روم، ہال اور ڈرائینگ روم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے. ایک نگاہ میں پورا گھر دیکھا جا سکتا ہے. پانی اسٹور کرنے کے لئے لوگ پلاسٹک کے ڈرم رکھتے ہیں. کسی کے پاس بیڈ ہوتے ہیں کسی کے پاس نہیں ہوتے. لوگ ایک کنارے سے زمین پر بستر بچھا کر سو جاتے ہیں. کسی کے پاس الماری ہو تو گھر کے بیچوں بیچ رکھ کر گھر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے. ایک حصہ بچوں کے لیے دوسرا والدین کے لئے. بہت کم لوگ اس چھوٹے سے گھر میں ہی ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر آڑ بنا پاتے ہیں. آگے پیچھے ایک ایک چھوٹی کھڑکی ہوتی ہے. آمنے سامنے لائن سے بنے گھروں کے درمیان پانچ فٹ کی گلی ہوتی ہے. کچھ گلیاں اس سے تھوڑی اور چوڑی ہوتی ہیں اور بہت ساری تو اس سے بھی تنگ ہوتی ہیں. بعض بعض گلیاں تو ایک آدمی کے گزرنے بھر کی ہوتی ہیں. گلیوں میں علاقے کا کارپوریٹر سیمنٹ یا پتھر کی لادی بچھوا دیتا ہے.جس سے دھول اور کیچڑ وغیرہ نہیں ہوتا. بعض بعض گلیوں میں وقفے وقفے سے لادی لگنے کی وجہ سے گلیاں اونچی ہو جاتی ہیں اور گھروں کے فرش نیچے رہ جاتے ہیں. اور برسات میں گھروں میں پانی بھی داخل ہو جاتا ہے. کچھ گلیوں کے بیچوں بیچ پتلی نالی ہوتی ہے. نالی والی گلیوں میں بے پردہ عورتیں باہر گلیوں ہی میں برتن اور کپڑے دھوتی ہیں.

تو عام طور پر یہی تین طرح کے سلم ہوتے ہیں. اربن سلم والے ٹِن والوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور ٹِن والے پلاسٹک کی جھگیوں والوں کو. پلاسٹک کی جھگی والے سوچتے ہیں ٹِن والے میں ایک مکان ہو جائے اور ٹِن والے آرزو کرتے ہیں چال میں ایک مکان ہو جائے. اور سب کا ایک یکساں اور حسرت بھرا خواب ہوتا ہے کہ کسی بلڈنگ میں ایک فلیٹ ہو جائے. یہاں لوگ فلیٹوں میں رہنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے ہیں. فلیٹ میں رہنا مالداری کی علامت ہے. پورے محلے میں کوئی بھی سلم چھوڑ کر کسی بلڈنگ میں رہنے چلا جائے تو اس کا خوب چرچا ہوتا ہے. بلڈنگ والے عام طور پر سلم والوں کو حقیر سمجھتے ہیں. بلڈنگ کے بچے سلم کے بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند نہیں کرتے.
گلیوں میں بچے پورا دن کھیل کود شور شرابہ کرتے رہتے ہیں. بڑے بوڑھے تنگ ہوتے رہتے ہیں. پلاسٹک کی گیند اور کسی ٹیبل کے پائے جیسی لکڑی کا بَلا ہوتا ہے. اصلی بلا خال خال کسی کے پاس ہوتا ہے. پلاسٹک کی گیند گلی کے پکے فرش پر کافی شور مچاتی ہے. اس وجہ سے اکثر گھر سے کوئی مرد یا عورت نکل کر ڈانٹ ڈپٹ کر بچوں کو بھگا دیتے ہیں. بھگانے والے گھروں میں گیند چلی جائے تو واپس ملنا تقریباً ناممکن ہے. گیندیں چھتوں پر بھی چلی جاتی ہیں. کچھ ہی بچے چھتوں پر چڑھ کر گیند اتارنے کی ہمت کر پاتے ہیں. کچھ چھتیں ناقابل تسخیر ہوتی ہیں. بچوں میں اکثر بات ہوتی رہتی ہے کہ اگر کوئی فلاں کی چھت پر چڑھ جائے تو گیندوں سے مالا مال ہو جائے گا. زمین پر لائنیں کھینچ کر لنگڑی کودنے والے کھیلوں میں آواز نہیں ہوتی اس وجہ سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھتی.
باہر دن بھر بچوں کے کھیل کود جاری رہتے ہیں اس لئے گھروں میں بیٹھ کر بچے اکثر پڑھائی نہیں کر پاتے ہیں. ان کا من باہر ہو رہے کھیلوں میں لگا رہتا ہے. گلی میں کھیل کود کر رہا اکیلا بچہ پوری گلی کے بچوں کا ذہن متاثر کرنے کے لئے کافی ہے. سلم کے کم ہی بچے پڑھائی میں بہت اچھے ہوتے ہیں. کچھ اچھے ہوتے ہیں تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں.
سلم میں اور بھی بہت سی پریشانیاں لوگوں کو جھیلنی پڑتی ہے. گرمیوں میں سخت گرمی ہوتی ہے. پنکھے بھی گرم ہوائیں پھینکتے ہیں. ایک آدھ لوگ ہی مکانوں میں اے سی لگوا پاتے ہیں. برسات میں بہت سے مکانوں میں چھت ٹپکتی ہے. کہیں باہر سے گھروں میں پانی آنے لگتا ہے. سرد علاقوں میں سردی بھی اور مکانوں سے زیادتی محسوس ہوتی ہے. کبھی سیور جام ہو جائے تو واشروم کے کموڈ اور موری میں پانی جمع ہو جاتا ہے. اکثر جگہوں پر پانی کی قلت ہوتی ہے. پانی وقت وقت پر آتا ہے. کسی کسی پائپ لائنوں میں پانی بہت کم ہوتا ہے. تو جس کے پاس پیسے ہوتے ہیں وہ ضرورت کا پانی جمع کرنے کے لئے پانی کی موٹر لگوا لیتے ہیں. ان موٹروں کی وجہ سے باقی گھروں میں پانی بالکل ہی بند ہو جاتا ہے. پھر انہیں باہر جا کر تھوڑا تھوڑا پانی بھر کر لانا پڑتا ہے. پانی کے لئے بچوں کی پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے. بہت ساری جگہوں پر تو مار پیٹ بھی ہوجاتی ہے. کسی کے پاس پیسے زیادہ ہوتے ہیں تو وہ اپنے گھر کے لئے الگ کنیکشن لے لیتے ہیں. لیکن کچھ دنوں تک ہی وہ وافر پانی سے لطف اندوز ہو پاتے ہیں. پھر وہ لائن بھی کئی کنیکشن ہو جانے کی وجہ سے پانی کی قلت کا شکار ہو جاتی ہے.

سلم میں لوگوں کا ایک دوسرے سے ربط تو بہت ہوتا ہے لیکن سماجی شعور کم ہوتا ہے. کاغذی طور پر سوسائٹی بھی رجسٹر رہتی ہے. لیکن سوسائٹی کبھی سماجی موضوع پر بات کرنے کے لئے جمع نہیں ہوتی ہے. جس کا جیسا من چاہتا ہے رہتا ہے. سوسائٹی کا کوئی اجتماعی پروگرام نہیں ہوتا ہے. لوگ بالکل غیر ذمہ دارانہ انداز میں جیتے ہیں. کسی کا من کرے تو گھر پر ڈی جے بجائے اور پوری گلی میں کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے. کسی کے گھر شادی ہو تو گلی میں ہی بینڈ باجا بجانا شروع کر دے. رات دیر تک ڈی جے بجتا رہے. لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن کسی کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے. لوگوں کے آپس میں جھگڑتے ہیں اور خود ہی فیصلے کرتے ہیں. سوسائٹی کا کوئی قانون ضابطہ نہیں ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کر دے تو سوسائٹی کے لوگ جمع ہو کر اس کے خلاف ایکشن لیں. ہر فرد قانون ضابطوں سے بالکل آزاد ہوتا ہے. اس وجہ سے سوسائٹی کے ذمہ داران کو میٹنگ وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ہے. بہتوں کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا سوسائٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ بس جب کوئی نیتا ووٹ کے لئے دورے پر آتا ہے تو سوسائٹی کا ذمہ دار آگے آگے چلتا ہے.

اسی طرح سلم کے مکانوں میں پرائیویسی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے. گھر میں جو بھی کام ہوتا ہے سب کے سامنے ہوتا ہے. اسی گھر میں کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہوتا ہے تو کوئی پڑھ رہا ہوتا ہے. کوئی ٹھونک بجا رہا ہوتا ہے تو کوئی سو رہا ہوتا ہے. چھوٹے چھوٹے مکانوں میں ہمیشہ چہل پہل رہتی ہے. بلکہ ہنگامہ رہتا ہے.
باپردہ خواتین کے لئے کافی دقتیں ہوتی ہیں. کوئی مرد مہمان آ جائے تو خود کو چھپانا مشکل ہوتا ہے. ان چھوٹے گھروں میں زیادہ دیر تک کوئی بند نہیں رہ سکتا. مرد دن بھر کام پر رہتے ہیں. بچے اسکول چلے جاتے ہیں. خواتین بور ہوتی ہیں تو اڑوس پڑوس میں چلی جاتی ہیں. بے پردہ خواتین دروازوں پر بیٹھ کر  باتیں کرتی رہتی ہیں. دن بھر ان گھروں میں بند رہنا ہو تو انسان پاگل ہو جائے. آج کل جو لاک ڈاؤن چل رہا ہے سب سے زیادہ سلم کے لوگ اس سے جوجھ رہے ہوں گے.
سلم کی کچھ اچھائیاں بھی ہیں. سلم زندہ دلوں کا محلہ ہوتا ہے. جہاں ہمیشہ چہل پہل ہوتی ہے. زندگی گلیوں میں چلتی پھرتی، گاتی گنگناتی اور ہنستی روتی نظر آتی ہے. ایک گھر میں سالن پکتا ہے تو پڑوس میں بھی پہنچایا جاتا ہے. چمچ، پلیٹ، ہانڈی، چولہا، دھنیا، لہسن، پیاز، نمک، شکر وغیرہ کا لین دین ہوتا رہتا ہے. گلی میں کوئی روتا ہے تو پوری گلی کو خبر ہو جاتی ہے. کسی کے مکان میں ہنسی کا فوارہ پھوٹے تو بھی پڑوس سے سوال آ جاتا ہے کہ کیا بات ہے؟ خوشی غم ساتھ اٹھائے جاتے ہیں. پڑوسی سے تعارف ہی نہیں رشتے داری تک ہو جاتی ہے. رمضان کی چہل پہل الگ ہی ہوتی ہے. افطاری کے پکوانوں کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے. عید میں گلیاں سجائی جاتی ہیں. جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں. گھروں میں چونے یا ڈسٹمبر سے رنگ برنگے کلر لگائے جاتے ہیں. عید کے دن بچوں کو گھر میں قید نہیں رکھا جاتا بلکہ بچے اپنے نئے لباسوں میں اترا اترا کر گھومنے پھرنے کے لئے بالکل آزاد ہوتے ہیں. بقر عید میں گلیاں خون سے رنگ جاتی ہیں. الیکشن کے دنوں میں بھی بڑا دھوم ڈھڑاکا رہتا ہے. آئے دن ان پتلی چوڑی گلیوں سے نیتاؤں کی ریلیاں گزرتی ہیں. ٹوپیاں اور بِلے بانٹے جاتے ہیں. نعرے بازیاں ہوتی ہیں. چائے سموسوں کے چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں سب فری ہو جاتا ہے. سب ٹوٹ ٹوٹ پڑتے ہیں. خوب موج ہوتی ہے.
اسی طرح سلم میں برسات کا الگ ہی انداز ہوتا ہے. چھتیں سیمنٹ کے پتروں کی ہونے کی وجہ سے بارش ہوتے ہی ایک شور شروع ہو جاتا ہے. شور سے بارش کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے. سب سے زیادہ لطف بچوں کو آتا ہے. گلیوں میں پتروں سے پانی کی موٹی موٹی دھاریں گرتی ہیں. بچے دوڑ دوڑ کر نہاتے ہیں.
راتوں کو کبھی بجلی گل ہو جائے تو اس کا الگ لطف ہے. سارے بچے بڑے گلیوں میں امنڈ آتے ہیں. کھیل کود شروع ہو جاتا ہے. شور گل مچتا ہے. لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں. اور یہ سب شباب پر ہی ہوتا ہے کہ بجلی آپ جاتی ہے اور سارا مزہ پھیکا پڑ جاتا ہے.

سلم میں یہ بات مشہور ہوتی ہے کہ بلڈنگوں میں جا کر لوگ خود غرض ہو جاتے ہیں اور پڑوسی تک سے کوئی سروکار نہیں رہتا. خوشی غمی کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے. تیوہار آکر چلے جاتے ہیں اور لوگ گھروں میں بند پڑے رہتے ہیں. اللہ بچائے ایسی بلڈنگوں سے! ان کی اس سوچ میں انگور کھٹے ہیں والی بات ہوتی ہے. اللہ کے فضل سے جوں جوں ملک میں دولت کی فراوانی ہو رہی ہے سلم کے معیار زندگی میں کافی بہتری آ رہی ہے. لیکن پھر بھی سلم کی زندہ دلی جوں کی توں برقرار ہے.

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Saif Azhar

بہت اچھا لکھا ہے۔ مضمون لطف انگیز ہے۔ہر اردو والے کی طرح پڑھ کر یہ محسوس نہیں ہوا کہ کچھ ملا نہیں۔ پہلی بار سلم کی زندگی کا احساس ہوا۔

عطا رحمانی س

اچھی تصویر کشی