کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بڑی بڑی شخصیتوں کے اچانک انتقال سے کچھ غیر معروف لوگوں کو ان کی جگہ موقع مل جاتا ہے اور وہ شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ بعینہ لفظوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حادثہ ہوتا ہے اور اس کے بعد اس سے متعلق کچھ مرے ہوئے یا کم استعمال میں آنے والے لفظوں کو زندگی مل جاتی ہے اور وہ بہ کثرت استعمال ہونے لگتے ہیں۔ کچھ ادیب بھی ایسے ہوتے ہیں جنھیں غیر معروف الفاظ کے استعمال یا مرے ہوئے لفطوں کو زندگی بخشنے میں بڑا لطف آتا ہے۔ مشہور مصری مجلہ البیان کے بانی مشہور ادیب عبد الرحمن برقوقی کے بارے میں مصری ادیب سلامہ موسی لکھتے ہیں کہ انھیں مرے ہوئے لفظوں کے ذریعے کسی مفہوم کی تعبیر میں بڑا مزہ آتا تھا۔ بلکہ وہ کہتے بھی تھے کہ ہمیں ایسے الفاظ کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سلامہ موسی کہتے ہیں کہ میں ان سے کہتا تھا کہ یہ الفاظ کسی نہ کسی سبب سے مرتے ہیں اور ان کو زندہ کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا لیکن وہ مانتے ہی نہیں تھے۔ (مضمون: بعض الادباء الذین عرفتہم)
میں نے یہ تمہید یہ بتانے کے لیے باندھی ہے کہ جب سے کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا پر قہر ڈھانا شروع کیا ہے خاص طور سے برصغیر کو جب سے اپنی چپیٹ میں لیا ہے ایک لفظ کانوں سے بہت ٹکرا رہا ہے۔ اسے بہت لکھا بھی جارہا ہے اور پڑھا بھی جارہا ہے اور بولا بھی جارہا ہے۔ اور وہ لفظ ہے Quarantine۔
یہی کم وبیش بارہ پندرہ سال قبل کی بات ہے۔ میرے کمپیوٹر میں وائرس آگیا۔ اینٹی وائرس کا استعمال کیا گیا تو اس نے کچھ وائرسوں کو گرفتار کرکے اسکرین پر لاکر رکھ دیا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ کیا انھیں ڈلیٹ کردیا جائے یا Quarantine کردیا جائے۔ کچھ وائرس جو ڈلیٹ نہیں ہوتے انھیں Quarantine کردیا جاتا ہے اور پھر ان کے اثرات سے کمپیوٹر محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے اور کمپیوٹر استعمال کرنے والے غالبا سبھی لوگ اس لفظ کے اصطلاحی مفہوم سے واقف ہوں گے۔
لیکن جب سے کرونا وائرس آیا ہے اس سے متاثر لوگوں کو Quarantine کیا جانے لگا ہے تاکہ ان کو لاحق کرونا وائرس کے اثرات سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اس کے لیے ایک اور لفظ بھی استعمال کیا جارہا ہے اور وہ ہے isolation۔ جس کا معنی ہے الگ تھلک کرنا علیحدہ کرنا۔ یعنی کرونا وائرس کے مریض کو کسی ایسی جگہ الگ کردینا جہاں اس سے نہ کوئی مل سکے نہ ہی اس کے وائرس سے دوسرے لوگ متاثر ہوسکیں۔ لیکن اصطلاحی مفہوم میں Quaratine ہی زیادہ درست لفظ ہے۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ آج کل اس لفظ کی تورید کردی گئی ہے یعنی اسے اردوا دیا گیا ہے۔ اب اسے اردو میں قرنطائن یا قورنطائن لکھا جانے لگا ہے۔ دیکھیے کتنی خوبصورتی سے اردو نے اسے اپنا بنالیا۔ صرف ایک دو حرف گھٹانے بڑھانے سے یہ اردو کے لبادے میں آگیا۔ گویا نہ نمک لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا۔
مجھے یاد آتا ہے ہم لوگ بی اے میں جامعہ ملیہ میں پڑھتے تھے۔ یہ ۹۲ـــــ-۱۹۹۱ کی بات ہے۔ کسی مسئلے پر جس کے ذکر کا یہاں محل نہیں اسٹوڈنٹس یونین نے اسٹرائک کردی جو تقریبا دو ماہ تک چلتی رہی۔ جب مسئلہ زیادہ گمبھیر ہونے لگا تو انتظامیہ نے یونیورسٹی کو سائن ڈائی کردیا۔ میں نے اور شاید میری طرح بہت سارے لوگوں نے بھی اس لفظ کو پہلی بار سنا ہوگا اور پھر یہ لفظ بہت استعمال ہوا۔ کچھ لوگ اسے سائن ڈائی کہتے تھے تو کچھ لوگ سائنے ڈائی۔ بس اپنے اپنے حساب سے اسے لوگ بولنے لگے تھے۔ ڈکشنری میں کم ہی لوگوں نے اس کا تلفظ دیکھا ہوگا۔ قرنطائن تو صرف لکھا جارہا ہے بولا وہی لفظ جارہا ہے جو انگریزی کا ہے۔ ہاں مگر اس کے تلفظ میں بھی لوگوں کا اختلاف ہے۔ کچھ کوارنٹائن تو کچھ کوارنٹن بول رہے ہیں۔ ایسے مرے ہوئے الفاظ جب بہ کثرت استعمال ہونے لگتے ہیں تو ان کی تحقیق بھی کم ہوتی ہے اور لوگ سنے سنائے تلفظ پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں۔اس طرح ایک زبان سے دوسری زبان میں لفظوں کی کہانی گردش کرتی رہتی ہے۔ لفظ مرتے اور زندہ ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ بس باقی ہوس!
آپ کے تبصرے