دلی کا فساد اور بدلتا ہندوستان!

ریاض الدین مبارک سیاسیات

ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ تو ہیں لیکن کاغذ کے کسی بوسیدہ ٹکڑے پر۔ زمینی حقیقت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اب وہ ڈاؤن گریڈیڈ شہری ہیں اور ہندوستان کا ڈسکورس بدل رہا ہے۔ دلی میں فساد برپا ہوا، جلے مکانوں اور دکانوں کے ملبے تلے چار روز بعد بھی اٹھتا دھواں اس بات کا غماز ہے کہ یہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد نہیں بلکہ اس سے بھی آگے کا ایک منظم پلان ہے۔ یوں تو وہاں ہندو مسلمان دونوں کا مشترکہ نقصان ہوا لیکن تباہی و بربادی کی جو داستان مسلمانوں کے نصیبے میں آئی وہ ناقابل بیان ہے۔ مسلمانوں کو بری طرح تباہ وبرباد کیا گیا، جو بچ رہے انہیں اب پولیس کسٹڈی میں بہیمانہ طور پر ٹارچر کرکے اپاہج بنا کر جیلوں میں ڈمپ کیا جا رہا ہے۔ وہاں خستہ حال مکانوں اور درد والم کی مورت بنے انسانوں کا منظر تو خوفناک ہے ہی وہاں کی اَن کہی داستان اس سے کہیں زیادہ ہولناک دکھائی دے رہی ہے!
دلی الیکشن نتائج کے فورا بعد میں نے صاف صاف لکھا تھا کہ اس الیکشن میں بی جی پی بھلے ہار گئی لیکن ہندوتوا نہیں ہارا۔ الیکشن کے دوران سنگھ نے پولرائزیشن کی کوشش کی اور عام آدمی پارٹی کو پوری طرح ٹریپ کر لیا۔ کیجریوال رام بھکت نہ سہی ہنومان بھکت تو ہے، ایک کا نعرہ ‘جے شری رام’ تو دوسرے کا نعرہ ‘جے بجرنگ بلی’! اب رام کا جھنڈا ہو یا ہنومان کا جھنڈا ہے تو بھگوا رنگ! اتنی سی بات بھی کیجریوال کے مداحوں کو اچھی نہیں لگی وہ اول فول بکنے لگے۔ سچ پوچھو تو بات اتنی سی تھی کہ
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا

جسٹس مرلی دھر نے آدھی رات کو اپنی رہائش گاہ پر ایک اہم بیٹھک بلائی اور صلاح و مشورے کے بعد دلی پولیس کو فوری آرڈر دیا کہ جلد سے جلد بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، ابھے ورما اور کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی جائے۔ مودی حکومت اور امیت شاہ کو اچھا نہیں لگا اور اس رات کی سحر طلوع ہونے سے پہلے جسٹس مرلی دھر کو عدالت کے روم سے نکال باہر کیا۔ حکومت کو اس کا اولین فائدہ یہ ہوا کہ ایف آئی آر درج کرنے کی عرضی پر غور وخوض کے لئے اب ایک دن کے بجائے پورا ایک مہینہ مل گیا۔ دوسری طرف نئی بینچ نے عرضی پیش کرنے والے سوشل ورکر مسٹر ہرش مندر پر الٹا بھڑکاؤ بھاشن اور ملک دشمنی کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کا پٹیشن قبول کرکے شنوائی شروع کردی ہے۔
اس نئی بینچ نے طاہر حسین جو ایسٹ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے کاؤنسلر ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ ادھر عام آدمی پارٹی نے راتوں رات اپنے اس کاونسلر طاہر حسین کو پارٹی کی پرائمری ممبرشپ سے معطل کردیا اور غبار صاف ہوگیا کہ دلی حکومت کس ڈگر پہ جارہی ہے۔
ابھی تو صرف ایک FIR درج ہوئی تھی، تحقیقات کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہوا تھا، ابھی تو یہ طے ہونا باقی تھا کہ طاہر حسین مجرم ہے بھی یا اس کو پھنسایا جا رہا ہے، لیکن کیجریوال نے طاہر کے خلاف ایکشن لینے میں اتنی جلدبازی کیوں کی کہ ایک سیکنڈ میں پارٹی کے ساتھ طاہر کی وفاداری کو مٹی میں ملا دیا؟ کیجریوال پر بی جے پی کا دباؤ تھا یا دلی کی فضاؤں میں بھگوا رنگ کا اثر تھا جو اب ہر جگہ نمایاں نظر آ رہا ہے؟ کیا عام آدمی پارٹی میں اور لوگ ایسے نہیں ہیں جن پر تہمتیں لگا کر ایف آئی آر درج ہوئے مگر ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا؟ کیا پارٹی کے سبھی ممبران گنگا میں اشنان کرکے آئے ہیں اور ان کے شریر و آتما سے لگے سارے پاپ دھل گئے اور وہ بالکل پوتر ہوگئے؟ یا پھر یوں کہ کیجروال عاپ پارٹی کا فرعون بن بیٹھا ہے جسے چاہے پارٹی میں رکھے اور جسے چاہے دھتکار دے؟ حالات اگر یونہی رہے تو دو چار جو بچ گئے ہیں ان کا بھی نمبر آ ہی جائے گا۔
ایک طرف کیجریوال کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے فرقہ واریت کی آگ میں تیل ڈالا یا فساد کو بھڑکایا انہیں سخت سزا دی جائے اور دوسری طرف جرم ثابت ہوئے بغیر خود ہی سزا بھی دے دی! یہ ظلم نہیں تمہارا غرور ہے جو دھیرے دھیرے تمہیں بھی کھا جائے گا۔
خیر بات چل رہی ہے دلی فساد کی جہاں پولیس کی موجودگی میں پچاس کے قریب جانیں چلی گئیں، سینکڑوں مکان اور دوکان جلا دئے گئے۔ کئی مسجدیں جلا کر تہس نہس کردی گئیں اور مقدس قرآن کے سینکڑوں نسخے آگ کی نذر کردئے گئے۔ پولیس کی بھاری تعداد موجود ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو مار کاٹ رہے تھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہورہی ہے کیونکہ ہندوستان میں کوئی شریف آدمی اگر ذرا سی خطا کر بیٹھے تو پولیس سے کترا کر بھاگ جاتا ہے اور یہاں پولیس کے سامنے تشدد اور تخریب کی نئی نئی داستان رقم کی گئی اور پولیس صرف تماشہ دیکھتی رہی! اس کا مطلب ہے وہ پولیس نہیں پولیس کے بھیس میں فسادی تھے۔ کچھ زخمیوں نے میڈیا کو بتایا بھی ہے کہ جب انہوں نے پولیس سے مداخلت کی اپیل کی تو ان خاکی وردی والوں نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ انہیں ایکشن لینے کا آرڈر نہیں۔ اب تک جتنی تصویریں اور ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں ان میں دلی پولیس نے کھل کر فسادیوں کا ساتھ دیا ہے۔ مسلمانوں کو دفاع تک کا موقعہ نہیں دیا اور ہندوتوا کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ پچھلے ڈھائی مہینوں سے CAA کے خلاف احتجاج چل رہا ہے لیکن کسی نے ان کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے نہیں دیکھے جبکہ حکومت کی طرف سے اتارے گئے سبھی دنگائی لوہے کے راڈ، لاٹھی، ڈنڈے اور طمنچے سے لیس ہو کر پولیس کے سامنے دندناتے پھر رہے تھے۔
ہمارے لب نہ سہی وہ دہان زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے

میڈیا کے مختلف اداروں سے منسلک صحافیوں نے پیر، منگل اور بدھوار کے روز فساد زدہ علاقوں کا کوریج کرتے ہوئے جن حالات کا سامنا کیا اور پھر اسے اپنے اپنے تجربات پر مبنی تحریروں میں بیان کیا ہے اس سے بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ فساد کی جڑ کیا ہے اور فساد کرنے والے لوگ کون تھے! ان سب کی آپ بیتی واضح طور پر بتاتی ہے کہ CAA کے خلاف دھرنا استھل پر بیٹھے لوگ پرامن احتجاج پر تھے، انہوں نے بڑی شرافت سے ان کا استقبال کیا اور سوالوں کے جوابات دئے۔ ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہوا جس میں مسلمانوں نے میڈیا والوں کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ تاہم دوسری طرف ہندوتوا کے حامیوں نے ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی، انہیں گالیاں دیں، انہیں مارا پیٹا اور ان پر گولی تک چلائی۔ انہیں چاروں طرف سے گھیر گھیر کر موب لنچنگ کا سماں پیدا کیا، ان کا نام پوچھ پوچھ کر ان کے ہندو ہونے کی شناخت کی اور ان کی پینٹ اتروا کر جب تصدیق کرلی تب جا کر ان کی جان کو امان ملی۔
یوں تو دنیا میں ہر روز فساد ہوتے ہیں لیکن دلی فساد کو دیکھ کر پوری دنیا چیخ اٹھی اور مسلمانوں کی نسل کشی پر افسوس ظاہر کیا۔ نسل کشی کسی فساد کا نام نہیں بلکہ اس کے مراحل ہوتے ہیں۔ نازی ہولوکوسٹ یک بیک گیس چیمبر سے نہیں شروع ہوا تھا۔ اس کی شروعات نفرت آمیز تقریروں سے ہوئی تھی۔

ابھی فساد تھم گیا ہے، اب تک جو خبریں آئیں وہ میڈیا اور کیمرے کی نگاہوں سے آئیں جو ظاہر ہے پورے گھٹناکرم کو کَوَر نہیں کر سکتیں، سو اب ایک طرف جہاں دھیرے دھیرے ہولناک اور دل دہلانے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں وہیں دوسری طرف امید کی شمعیں جلائے چند ایک ایسے واقعے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں جس سے اندازہ لگتا ہے کہ ابھی ہندوستان میں انسانیت زندہ ہے۔ حکومت کی آئیڈیولوجی سے اٹھ کر آگے سوچنے والے لوگ زندہ ہیں۔ جنہوں نے مصیبت کی ان گھڑیوں میں ایک دوسرے کو سہارا دیا اور شیطانوں سے بدترین غنڈوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی ہمسائیگی کا فرض ادا کیا۔ ہندوستانی تہذیب اور یہاں کے سیکولر تانے بانے کی بقا اگر مطلوب ہے تو پھر
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Hilal HidaiT

ماشاء اللہ
بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے