یقین کیجیے کہ آدمی کے لیے صبح اٹھنا اتنا آسان نہیں جتنا نقادوں کو جھیلنا، جب سے ہم نے پطرس بخاری کا مضمون ”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ پڑھا تب سے خود کو بڑا نصیب ور گمان کرنے لگے ہیں، ہمیں بڑی تسلی ہوئی کہ دیر سے اٹھنے والوں میں صرف ہم ہی نہیں ہیں بلکہ پطرس مرحوم بھی تھے، یہ الگ بات ہے کہ شاعر مشرق مغرب میں جا کر بھی اپنی اس عادت سے چھٹکارا نہ پا سکے،”نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی“ ایک ہم ہیں کہ دو دہائی سے ہمیں برابر اس کی مشق کرائی جا رہی ہے مگر مجال ہے جو کبھی موقع ملے اور صبح کا گیارہ (سہولت کے لیے دوپہر پڑھیں)نہ بجا دیں ؎
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
ہمارے ایک عزیز اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ اپنے احباب سمیت صبح بنارس کا نظارہ کرنے کے لیے بنارس پہنچے اور ایک ہوٹل میں فروکش ہوئے، صبح بنارس دیکھنے کا طفلانہ شوق اس قدر شدید تھا کہ بزعم خویش صبح سویرے تیار ہوکر نکلنے لگے، ہوٹل کے مالک نے دریافت کیا کہ برخوردار! کہاں جارہے ہو؟ فرط مسرت سے کہنے لگے کہ صبح بنارس دیکھنے، مالک ہنسنے لگا اور دیر تک ہنستا رہا، پھر کہا کہ ایک بار گھڑی دیکھ لو، انھوں نے گھڑی دیکھی تو رات کے دو بج رہے تھے، موصوف کو بڑی شرمندگی ہوئی کہ صبح بنارس دیکھنے کی ’ہوس‘ میں رات ہی کو نکل پڑے۔ ہمارے یہ عزیز آج کل صبح گیارہ بجے اٹھتے ہیں۔
صبح سویرے اٹھنے کے لیے آدمی کے پاس بڑا کلیجہ اور سادہ موبائل ہونا چاہیے، بلکہ مؤخر الذکر کا ہونا زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اسمارٹ فون کے ہوتے ہوئے اگر آدمی سویرے سویرے اٹھ جاتا ہے تو یا تو اس کے فون میں گڑبڑی ہے یا نیت میں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صاحب کے فون کی بیٹری ایک روز خراب تھی جس کے سبب وہ رات نو بجے ہی سو گئے۔ گھر والے انھیں اسپتال لے کر چلے گئے کہ آخر انھیں ہوا کیا ہے؟رات تین بجے سونے والا بندہ نو بجے کیوں کر سو گیا؟ خود ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اگر کسی دن سویرے جلدی اٹھ جائیں (جس کے نہ تو ہم قائل ہیں اور نہ ہی عامل) تو افراد خانہ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی غیر ملکی بغیر ویزا کے ملک میں گھس آیا ہو یا کوئی جانی دشمن اچانک مائل بہ صلح ہو گیا ہو، ایک مرتبہ ہم ذرا جلدی بیدار ہو گئے تو ہماری ہمشیرہ نے پہلے ہمیں چٹکی کاٹی پھر خود کو کاٹ کر یقین کیا یہ انہونی بحالت خواب میں نہیں ہو رہی ہے، پھر کافی دیر تک ہم انھیں سمجھاتے رہے کہ اب ہم نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ روزانہ صبح سویرے اٹھا کریں گے اور فریش ہو کر منڈی سے تازہ سبزی اور قیمہ کا گوشت لایا کریں گے۔ گھر والوں کا بیان ہے کہ ہمارے اس عہد وپیمان سے قبل کم ازکم سبزی ہی آجایا کرتی تھی خواہ وہ جس قبیل سے بھی ہو، لیکن اس کے بعد سبزیاں ہی نصیب نہ ہوئیں تاآنکہ ہم نے اپنا عہد نامہ واپس لے لیا۔
روایت ہے کہ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ایک عالم دین سے درخواست کی کہ وہ انھیں معقولات پڑھائیں، عالم نے شرط رکھی کہ روزانہ فجر سے ایک گھنٹہ قبل ہی وہ انھیں پڑھائیں گے، مولانا مودودی نے شرط قبول کی اور فجر سے ایک گھنٹہ قبل حضرت کے دولت کدے پر حاضری دیتے اور ان سے معقولات سیکھتے، آج کل کے طلبہ بشمول راقم آثم مولانا مودودی کے معقولات خوانی کے اس وقت کواپنے لیے نا معقول سمجھیں گے یا یہ علت نکالیں گے کہ موصوف کو کمخوابی کی شکایت رہی ہو گی، مولانا آزاد مرحوم نے خود ذکر کیا ہے کہ وہ فجر سے ایک گھنٹہ قبل بیدار ہوکر ایک کپ چائے بناتے اور مطالعہ یا تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیتے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا کے قلم میں ایسی جولانی پیدا ہو گئی کہ وہ خوابیدہ افراد کو جگانے، جھنجھوڑنے اور بسا اوقات بھنبھوڑنے کا کام کرنے لگا، بلکہ بقول مشتاق احمد یوسفی ”رسوا کی امراؤ جان اور طوائفوں سے متعلق منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی ’جناتی‘زبان میں کر کے طوائفوں کو بالجبر سنایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صفحہ سن کر کان پکڑ لیں اور اپنے دھندے سے تائب ہو جائیں۔“پھر اس کی ایک مثال دیتے ہوئے مولانا آزاد کی تحریر سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں ”یہ غریب الدیار عہد، ناشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردۂ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888مطابق ذو الحجہ 1305ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم“ یوسفی فرماتے ہیں ”اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے، اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے، اتنی خجالت، طوالت واذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔“راقم کا خیال ہے کہ اس گنجلک اسلوب اور پیچیدہ بیانی کا اصل سبب سحر خیزی کے سوا اور کچھ نہ رہا ہو گا، واللہ اعلم بالصواب۔
ہمارے ایک بزرگ اور پڑوسی جو مدت ہوئی شہر سے ہجرت کر کے حیدرآباد میں سکونت پذیر ہوئے، ان کے بارے میں روایت (بلکہ ان کا اعتراف جرم بھی)ہے کہ وہ محض دو گھنٹہ سوتے ہیں۔ہم نے عرض کیا کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے، ہم بھی تو دوپہر میں محض دو گھنٹے ہی سوتے ہیں، جب راوی نے بتایا کہ موصوف چوبیس گھنٹہ میں محض دو گھنٹہ سوتے ہیں تو ہم خجالت سے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس کم خوابی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ محترم کو تیرہ (اور ایک روایت کے مطابق سترہ) زبانو ں پر عبور حاصل ہوا اور ترجمہ نگاری میں ایسی مہارت پیدا ہوئی کہ اپنے دولت کدے کا نام ہی ”عربی ترجمہ“ رکھ دیا۔ محترم امسال رمضان میں حیدرآباد سے راہ عدم کو روانہ ہو گئے ؎
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
بہر کیف صبح سویرے اٹھنا، ورزشیں کرنا، چہل قدمی کرنا، سورج کو نکلتے دیکھنا، خنک ہواؤں سے لطف اندوز ہونا، مرغ کی بانگ اورچڑیوں کی چہچہاٹ سننا وغیرہ وغیرہ ایسے امور ہیں جو یا تواردو شاعری میں اچھے لگتے ہیں یا فلموں میں، حقیقی دنیا میں اس کارہائے گراں مایہ کی ادائیگی کی سکت انہی کو حاصل ہے جو عظیم تر(Legend)ہیں، تادم تحریر مسلم قوم کو یہ عظمت نہیں حاصل ہو سکی ہے کیوں کہ اس کے نزدیک ”سونا“ اولین طاقت اور ”نیند“ قومی شوکت کا ذریعہ ہے، دوسری اقوام جب صبح سویرے اپنے کام پر لگ جاتی ہیں تو اس وقت بھی ہماری قوم اس ملی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف و مشغول رہتی ہے، اب تو رکشا ڈرائیورں نے بھی رکشے کے پیچھے لکھوا دیا ہے کہ ”ہارن آہستہ بجائیں، قوم سو رہی ہے۔“
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
آپ کے تبصرے