تعلیم ہورہی ہے

ابوالمیزان منظرنما

اظہار کا سلیقہ ہو تو مسلسل مشق سے اچھی صلاحیت بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اشاعت کے وسائل تو مفت میں سب کو دستیاب ہی ہیں۔ ایک ہی شعور مہنگا ہے جو کبھی سستا نہیں ہوسکتا۔

کانوں اور آنکھوں کو سماعت اور بصارت کے لیے ہمیشہ منظوری بھی نہیں دینی پڑتی۔ جو پسند نہیں وہ آوازیں بھی کانوں پڑسکتی ہیں اور کریہہ منظر بھی ویژول پولیوشن کا سبب بن سکتے ہیں اگرچہ ایک نظر پڑتے ہی آپ آنکھیں پھیر لیں۔ اللہ کی یہ دونوں نعمتیں جتنے مشاہدے دل و دماغ کو پاس آن کرتی ہیں وہ سب فلٹر کیے بنا استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ تمام علوم و مشاہدات کی بنا پر کیا اور کب بولنا یا لکھنا ہے، اسی کا شعور مہنگا ہوتا ہے۔

معاملہ کیسا بھی ہو سچ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اس سچ کو دیکھنے کے زاویے ہزار ہوتے ہیں۔ ہر زاویے سے فرق بھی نہیں پڑتا ہے۔ جتنے زیادہ زاویے اظہار بنتے ہیں اسی قدر سچ کو ڈیل کرنے کے اصولوں پر ضرب پڑتی ہے۔ جرم ہو یا حادثہ، متعلقہ مقام کا طرز تفتیش ثبوتوں کی بنیاد پر ایک حتمی فیصلے کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ اس پروسیس میں حصہ لینا ایک بات ہے اور غیر متعلق افراد کا آدھی ادھوری معلومات کی بنیاد پر اپنے زاویے کا اظہار کرنا دوسری بات۔

انصاف کی بات کرنے کے لیے صرف اظہار کی صلاحیت کافی نہیں ہے، فریقین کے بیانات اور ثبوتوں کی پڑتال بھی ضروری ہے۔ مشاہدے پر کنٹرول کرنا مشکل ہے، ٹی وی اور اخبار کے بنا جینے والے بھی بریکنگ نیوز کی مار سے نہیں بچ پاتے۔ سنجیدہ افراد جو اپنے ہی کئی معاملات کو کل پرسوں کے لیے اٹھا رکھتے ہیں وہ بھی ایسی خبروں کو کھانے پینے پر ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اظہار کا سلیقہ نہ ہو تو اپنے ہم خیال افراد کی کاوشیں شیئر کرنے سے باز نہیں آتے۔

اپنا زاویہ ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے اس کا مخالف اپنا زاویہ پیش نہ کرے۔ محض ایک دلچسپی جب یہاں تک لے آتی ہے تو وہ اپنے خیال کو ہولڈ پر کیوں رکھے گا جس کا کاروبار ہی ثالثی ہے۔ میڈیا کی روزی روٹی ہی بریکنگ نیوز کی عمر پر چلتی ہے۔ پیٹ کا مسئلہ تو پھر بھی بڑا ہے، یہاں لوگ اپنے دل اور دماغ میں جھوٹی تسلی کی بیماریاں پال کر رکھتے ہیں اور اس کا انحصار بھی بریکنگ نیوز کی مینوفیکچرنگ پر ہوتا ہے۔

انصاف کا‌ مادہ آسمان سے نہیں برستا ہے، نیک اعمال کی پریکٹس سے کمانا پڑتا ہے۔ فرد ہو یا سماج دونوں کے لیے ایک ہی اصول ہے۔ ظلم وہی نہیں ہوتا جو آپ پر ہوتا ہے ظلم وہ بھی ہوسکتا ہے جو آپ سے ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کے ساتھ جو ہوشیاری کرتے ہیں وہی آپ کے ساتھ ہوجائے تو ظلم لگنے لگتا ہے۔ خیرخواہی اور ظلم کے درمیان فرق سمجھنے کے لیے انصاف ضروری ہے اور انصاف کی توفیق پانے کے لیے ذاتی مفاد سے بالاتر ہونے کا بھسوٹ ہونا چاہیے۔

ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا تو تمام مذہبی عبادت گاہوں میں داخلے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ پارکنگ ایریا میں ایک جگہ کو نماز باجماعت کے لیے خاص کیا گیا تو سوسائٹی اراکین نے ایکشن لیا۔ پھر جمعہ کا قیام اپنے فلور پر پیسج میں کرادیا۔ سات مالے کی اس بلڈنگ میں چار ونگ ہیں۔ اے ونگ میں ایک فلور پر چھ فلیٹ ہیں۔
جب اس پر بھی اعتراض کیا گیا تو آج دوسرا دن ہے وہ حضرت مغرب بعد پھر آئے تھے بلانے: ” بھائی چلو، گھر پر تعلیم ہورہی ہے!”۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
صدیقی عبدالقدوس

بہترین تعلیم کیجیے. آپ کے ہاں تعلیم نہیں ہوتی؟ تعلیم تعلیم اور اس طرح کے بہت سے الفاظ ہے جس نے اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنا کر رکھ دیا ہے.ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے باضابطہ اس رکھ پر ڈال دیا ہے!جیسے اسٹیج پر ڈرامہ ہوتا ہے کوئی بادشاہ ہے کو کچھ کوئی کچھ اور جیسے پوری سلطنت قائم ہے اور اس کا نظام چل رہا. اسٹیج سے اتر کر ہر آدمی جو وہاں جو تھا وہاں جو اس کی باتیں اور حرکات و سکنات تھیں سب غائب رہتی ہیں. بس یہی ہے کہ تعلیم… Read more »

وسیم المحمدی

ایسی تحریریں بہت کم پڑھنے کو ملتی ہیں۔
لکھتے تو بہت لوگ ہیں، مگر ابو المیزان کی تحریروں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
ابو المیزان کی تحریریں ایسی فکری اور عام شعور سے ٹیچ ہوتی ہیں کہ قاری پڑھتے جاتا ہے اور کہتے جاتا ہے: میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
زبان ایسی پرفیکٹ اور سلاست سے بھرپور ہوتی ہے کہ رشک آئے۔
سچ تو یہ ہے کہ ابو المیزان اس میدان میں استاذ کا درجہ رکھتے ہیں!

ریاض الدین شاہد

اچھی تحریر ہے جو بہت کم دیکھنے و پڑھنے کو ملتی ہے

رشید سمیع سلفی

ایک ایک جملہ معنی خیزی اور گہرائی لئے ہوتا ہے،پوری تحریر اشاروں کی زبان لئےہوتی ہے لیکن مطلوب کے اردگرد گھومتی ہے،لفظوں سے ایسے کھیلتے ہیں جیسے کوئی ماہر سرکس کھلاڑی گیند سے کھیل رہا ہو،کویی کوئی لفظ تو گدگدی لگاکر لوٹ پوٹ کر جاتا ہے،جیسے لفظ “بھسوٹ”ہے۔ پڑھتے ہوئے اگر غور سے کام نہ لیا جائے تو بہت کچھ رہ جاتا ہے،الفاظ اور جملوں کے محیط میں بعض خطے نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں،اسلئے ابو المیزان سرسری پڑھنے کی چیز نہیں ہیں بلکہ تمام تر حسیات کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے،بس قدم قدم پرغور کیجئے اور… Read more »

سلمان ابوصالح

ایسی تحاریر بہت کم دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں