ہندوستان کی عوامی تاریخ

سعیدالرحمن سنابلی تاریخ و سیرت

حیثیت کی تبدیلی کے لیے موجودہ حیثیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہم ایک ذلیل اور مظلوم و مقہور عوام ہیں تو ہمیں اپنے حالات میں بہتری لانے کے لیے اپنی عوامی حیثیت تسلیم کرنی ہوگی۔ اور پھر ایک عوام کی نگاہ سے پورے ماضی کو دیکھنا ہوگا اور مستقبل کی نقشہ بندی کرنی ہوگی۔

ہم اب تک تاریخ کا مطالعہ اسی نظر سے کرتے آئے ہیں جس نظر سے حکمران اور اشرافیہ نے تاریخ کو دیکھا ہے۔ ہم حکمرانوں کی تاریخ پڑھتے ہیں۔ ان کی مہموں، کامیابیوں اور ناکامیوں پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کو اپنی عظمت خیال کرتے ہیں اور ان کی ذلت کو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں۔ ہمارا تاریخی حکمرانوں کو لے کر لڑنا جھگڑنا، ان پر فلمیں بنانا ہماری اسی سوچ کا مظہر ہے کہ ہم نے اب تک عوام کی نگاہ سے تاریخ کو دیکھا ہی نہیں۔

جس نے تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہو وہ بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں عوام کی کیا حیثیت رہی ہے؟ یہاں تاریخ کے صفحات پر حکمراں بدلتے رہے ہیں۔ عوام کی سماجی حیثیت آج بھی وہی ہے جو ماقبل مسیحی تاریخ میں تھی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک پر ایک طویل عرصے تک برہمن سوچ کی حکمرانی رہی ہے۔ اور ان کے سخت طبقاتی نظام میں عوام کا کیا مقام رہا ہے سب جانتے ہیں کہ عوام یعنی شودر صرف خدمت کرنے اور اشرافیہ کے قدموں میں زندگی گزارنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان حکمرانوں کا دور بھی عوام کے حق میں اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا ہے۔ انھوں نے عوامی ریفارم پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ذات برادری کے درمیان تفریق جوں کا توں باقی رہی۔ زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظام جوں کا توں برقرار رہا۔ جس زمین کی پیداوار ہی دس روپیہ مشکل سے ہوتی اس زمین پر ٹیکس بیس پندرہ روپیہ حسب روایت وصول کیا جاتا رہا۔ تاکہ عوام ہمیشہ احساس جرم کے ساتھ حکمرانوں کے قدموں میں پڑی رہے۔ انگریز آئے اور ملک بہت بڑی تجارتی منڈی اور خام مال کی کان بن گیا۔ تجارت کو آسان اور نفع بخش بنانے کے لیے بہت سی اصلاحیں بھی ہوئیں لیکن عوام جوں کے توں ذلت کی وادیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ انگریز چلے گئے اور پھر سے ایک بار ملکی اشرافیہ بر سرِ اقتدار آ گیا اور عوام اب بھی کیڑوں مکوڑوں کی طرح بے وقعت زندگی کاٹنے پر مجبور ہیں۔ تاریخ کا ادنی سا طالب علم بھی عوام کی اس تاریخی حیثیت کو آسانی سے محسوس کر سکتا ہے۔

مگر عوام ہیں کہ خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنے حالات کی تبدیلی کے لیے فکرمند نہیں ہیں۔ بہت سے ماہرین نے 1857 کی جنگ آزادی کو ایک ناکام عوامی تحریک تو مانا ہے لیکن اگر وہ ایک عوامی تحریک تھی تو اب تک اس کا پھر سے احیاء کیوں نہیں ہوا۔ عوام تو اس تحریک کے بعد بھی موجود رہے۔ ان کے حالات بد سے بدتر ہو گئے۔ عوامی تحریک سماجی شعور سے جنم لیتی ہے۔ مجھے تو اس تحریک کے پس منظر میں ایسا کوئی ادب نظر نہیں آتا جو یہ بتا سکے کہ اس نے عوام کے سوچنے کا طور بدل دیا ہو۔ سوائے ان حادثات کے جو یہ بتاتے ہیں کہ انگریزوں کے تیزی سے پھیلتے اقتدار سے ملک کے اشرافیہ اور حکمران طبقوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا تھا۔ لہذا انھوں نے عوام کے جذبات کا استعمال کیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت چھیڑ دی۔ کیونکہ اگر یہ عوامی تحریک ہوتی تو یہ اتنی آسانی سے فرو نہ ہوتی۔ اگر یہ عوامی تحریک ہوتی تو خود انگریزوں کی صفوں میں کھڑے ہندوستانی فوجی اپنوں کا خون نہ بہا رہے ہوتے۔

انقلاب فرانس کا سرسری مطالعہ کرنے والا بھی جانتا ہے کہ بادشاہ کی فوج نے اپنے حق کے لیے اٹھے عوام پر گولیاں چلانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ عوامی تحریک اٹھتی ہے تو وہ عوام کے ہر طبقے کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ تحریک عوام کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے نہیں اٹھی تھی۔ اس کا کوئی پلان نہیں تھا۔ اس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں تھی۔ اس کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ ایک نئی طاقت کو جو اقتدار پر تیزی قابض ہوتی جا رہی ہے اس کے بڑھتے قدموں کو روکا جا سکے۔ لہذا اسے عوامی تحریک کہا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ ایک دفاعی جنگ تھی جس میں عوام کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ کون سی عوامی تحریک تھی کہ عوام کا خون چوسنے والے راجہ اور نواب بھی اس میں عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں؟

عوامی تحریک تو اسے کہا جاتا ہے جس کا نصب العین عوام کی عزت کو بحال کرنا ہو۔ جس کا مقصد عوام کی زندگیوں کی حیثیت کو بحال کرنا ہو۔ عوامی تحریک کا مقصد عوام کی اصلاح ہوتی ہے اور اگر عوام کی اصلاح میں اشرافیہ روڑا بنتے ہوں تو یہ عوامی تحریک اشرافیہ سے بھی لوہا لینے کو تیار ہوتی ہے۔ عوام کی اصلاح میں اقتدار حائل ہو تو یہ تحریک ایسے اقتدار کو اپنی ٹھوکروں میں رکھتی ہے۔ تعجب ہے کہ دنیا بھر کی اقوام کو ہوش میں آئے زمانے بیت گئے۔ اور ہندوستانی عوام کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک خود کو عوام کی نگاہ سے دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ آج بھی خود کو کسی نہ کسی صاحب اقتدار سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور وہی صاحب اقتدار ان کے کمزور کندھوں پر اپنا تخت سجاتا ہے۔ ابتدائی تاریخ سے آج تک جو ذلت ہندوستانی عوام کا مقدر رہی ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور عوام کا حصہ رہی ہو۔

تاریخ میں ہم سے زیادہ ذلیل عوام نے اپنی عزتیں بحال کی ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان میں ایسے حقیقت پسند پیدا ہوئے جنھوں نے عوام میں شعور و آگہی پیدا کی۔ عوام کو ان کی ذلت کا احساس دلایا۔ عوام کو ان کی طاقت کا احساس دلایا۔ عوام میں ایمان و یقین کی شمع روشن کی۔ اپنے قلم سے وہ ادب تخلیق کیا جس نے عوام کی روحوں کو گرما دیا ان کے دلوں کو تڑپا دیا۔ ہمارے ہاں بھی کچھ جیالے اٹھے لیکن قبل اس کے کہ عوام بیدار ہوتی نام نہاد آزادی مل گئی اور عوام خوشی کے مارے نہال۔ اور پھر کولہو کے بیل کی طرح اسی ذلت کے دائرے میں گھومنے لگے۔ مجھے تو اس آزادی میں سوائے اقتدار کی منتقلی کے کوئی اور بات نظر نہیں آتی۔ اس میں عوام کے لیے نیا کیا تھا کہ وہ نہال ہو گئے؟ مختلف حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی منتقلی کا کھیل تو ہمارے ملک میں صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔

آپ کے تبصرے

3000