ملکی (بھارت) میڈیا نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کی ایک ایسی شبیہ بنانے کی کوشش کی ہے جس سے یہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ گنوار اور جاہل، مسلمانوں سے زیادہ غیر مہذب اور وحشی بلکہ مسلمانوں سے زیادہ انسانیت کا دشمن اس وقت دنیا میں کوئی اور نہیں۔ جب سے مرکز نظام الدین کی شکل میں انھوں نے ایک فرضی دشمن تخلیق کرلیا ہے اب میڈیا اور اس کے ذریعہ بنے گئے جال کی بدولت ملک کا محکمہ صحت کرونا کے ہر نئے معاملہ کا کنکشن تبلیغی جماعت میں تلاش کررہا ہے اور اس کو ایک مجرم کی طرح پیش کر رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب متاثرین یا مہلوکین کے تازہ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ بتانا نہیں بھولتا کہ اس کا نظام الدین مرکز سے کنکشن کیا ہے۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ جماعت کی بزرگ شخصیات پر ایسے ایسے بے ہودہ اور بے سروپا الزامات لگانے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتا جن کے صدور کا ایسے دیندار طبقہ کی طرف سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مثلا انھوں نے نرسوں کے ساتھ بدتمیزی اور گندی حرکتیں کیں، جن لوگوں کو تبلیغی جماعت کی صد سالہ تاریخ کا ذرا بھی علم ہے وہ اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ یہاں تقوی وطہارت، خشیت وللہیت، عفت وپاکیزگی اور غض بصر کی نبوی تعلیمات پر بھر پور طریقے سے عمل ہوتا ہے اور اس معاملہ میں مسلم سماج میں وہ ایک نظیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر یکبارگی وہ اس قدر بدتمیز اور آوارہ مزاج کیونکر ہوگئے کہ نرسوں کے ساتھ انھوں نے اوچھی اور غیر انسانی حرکتیں شروع کردیں۔ اس سے پہلے کیا ان کا اس طرح کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تھا؟ کہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی افواہوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیا جائے۔ ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے پولیس اہلکاروں پر تھوکا جبکہ ثبوت کے طور پر جو منظر دکھایا گیا وہ ڈیڑھ ماہ قبل مہاراشٹر کا ہے۔
غرض کہ میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی ایک غیر انسانی اور وحشیانہ شبیہ بنا کر پیش کی جارہی ہے تاکہ آگے چل کر ان کو ملک میں کرونا پھیلانے کا مجرم بنا کر پیش کیا جاسکے اور حکومت جس کے اشاروں پر پر یہ سب ہورہا ہے وہ اپنی نا اہلیوں اور ناکامیوں کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑ سکے۔ حالانکہ مسلمانوں کا اس بیماری کے تعلق سے عالمی منظر نامہ میں کیا کردار ہے وہ کچھ معلومات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت ہند نے جہاں صرف ایک فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے جب بغیر کسی تیاری کے صرف ساڑھے تین گھنٹہ کے شارٹ نوٹس پر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ ایک ایک جگہ پچاسوں ہزار مزدوروں وضرورت مندوں اور خانماں برباد لوگوں کا ہجوم امڈ پڑا۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بھوکے پیاسے پاپیادہ سیکڑوں میل کا پیدل سفر کرکے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے مجبور ہوئے۔ جب ہزاروں آدمی ایک ساتھ جمع ہوئے تو سوشل ڈسٹینسنگ کا کیا ہوا؟
نومی کے موقع پر اجودھیا سمیت کئی مندروں میں بھاری بھیڑ اکٹھا ہوئی سوشل ڈسٹینسنگ کہاں گئی؟ یوگی نے درجنوں عقیدتمندوں کی بھیڑ کے ساتھ رام للا کی استھاپنا کی تو سوشل ڈسٹینسنگ کا فرمان کس طاق پر رکھا؟ مدھیہ پردیش میں سازش کے ساتھ حکومت گرانے کے بعد تقریب حلف برداری کے لیے اس قدر جلدی کیا تھی؟ سوشل ڈسٹینسنگ کا کیا ہوا؟
درجنوں مثالیں اس بات کے لیے دی جاسکتی ہیں جہاں سوشل ڈسٹینسنگ کی دھجیاں اڑائی گئیں پھر ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کے مجرم صرف تبلیغی جماعت یا مسلمان ہی کیوں؟ مسلمانوں کو مجرم بنا کر پیش کرنے کے پیچھے کچھ خاص مقاصد ہیں جنھیں سمجھنے والے اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔
نہ تو اس ملک میں نہ دنیا کے کسے بھی ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ انھوں نے تو اس مسئلہ کی نزاکت وحساسیت، نسل انسانی پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات اور انسانیت پر منڈلانے والے خطرات کو اس وقت محسوس کر لیا تھا جب بھارت کا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا اور پوری حکومتی مشنری اور اس کے سنگھی گرگے ٹرمپ کے استقبال اور مدھیہ پردیش کی منتخب حکومت گرانے میں مگن اور دلی میں فسادات کرانے میں مصروف تھے۔ لیکن سعودی حکومت نے فروری کے آخری ہفتہ میں ہی عمرہ پر پابندی لگائی اور طواف کو مطاف کی تطہیر کی غرض سے روک دیا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل اس محرومی سے پارہ پارہ ہوئے لیکن سعودی حکومت نے محض انسانیت کے تحفظ وبقا کے لیے اس وقت اتنا اہم اور جراتمندانہ فیصلہ کیا، جب ہمارے ملک کے بقراطیوں کی اکثریت یہ جانتی بھی نہ تھی کہ کرونا کس بلاکا نام ہے۔ پھر عام مساجد میں بھی جمعہ وجماعت پر پابندی لگائی اور ایسے وقت میں جب یہاں ساری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری تھیں بلکہ غیر ملکوں سے لوگوں کی آمد بھی بے روک ٹوک اور بغیر کسی خاص چیکنگ اور موثر احتیاط کے جاری تھی لیکن ملک میں وائرس پھیلانے کی ذمہ دار تو صرف تبلیغی جماعت ہے۔ دراصل میڈیا کو ایک سافٹ ٹارگیٹ کی تلاش تھی پھر بھلا مسلمانوں سے آسان ہدف کہاں مل سکتا تھا جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر بالعموم خاموش ہی رہتا ہے اور کبھی موثر صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتا۔ اگر تبلیغی جماعت کے لوگ مرکز سے لاک ڈاؤن سے قبل نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اچانک لاک ڈاؤن اور بغیر پیشگی تیاری کا فرمان اس کا ذمہ دار نہیں، ان کی اس مجبوری کی تمام تفصیلات سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آچکی ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔
جو لوگ مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے بلکہ ان کا تمسخر اور مذاق اڑاتے ہیں کہ انھوں نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے کچھ کرنے کی بجائے صرف دعائیں کرنے پر اکتفا کیا ہے اور غیبی مدد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے بھی اس مرض سے لڑنے میں بساط بھر قربانیاں دی ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔
گزشتہ دنوں اٹلی مں طبی خدمات انجام دینے والے اردن کے ایک مسلمان ڈاکٹر کا جنازہ سوشل میڈیا کے توسط سے دکھائی دیا جس کے شرکاء کی تعداد صرف سات تھی۔ وہ اپنے ملک کے ایک بڑے اور معروف ڈاکٹر تھے جنھوں نے اٹلی میں کرونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جان دی ان کے سبھی مریض عیسائی تھے لیکن انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے انھوں نے مذہب نہیں دیکھا بلکہ اپنا فرض دیکھا۔
اسی طرح انگلینڈ میں اب تک کم از کم تین مسلمان ڈاکٹروں نے اپنے عیسائی مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی بلکہ وہ وہاں کے سب سے پہلے ایسے ڈاکٹر تھے جو دوسروں کا علاج کرتے ہوئے اس مرض میں گرفتار ہوئے۔ ان کا نام امجد الحورانی، عادل الطیار اور حبیب الزیدی تھا اور وہ ان ہزاروں مسلم ڈاکٹروں میں سے ایک تھے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فرنٹ لائن پر جاکر اس مرض کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کی ایک کمپنی جو ایسے ٹیسٹنگ کٹ بنانے کے لیے کوشاں تھی جس سے مشتبہ مریض کا ٹیسٹ کرکے جلد نتیجہ حاصل کیا جاسکے میڈیکل سائنس کے ماہرین کی جو ٹیم اس کام کے لیے کوشاں تھی اس ٹیم کی قیادت ایک مسلم خاتون ڈاکٹر مصری شہری ڈاکٹر ہبہ مصطفی کررہی تھیں اور بالآخر اس کمپنی کو اس میں کامیابی ملی اور وہ ایک ایسی ٹیسٹنگ کٹ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوئی جس سے رزلٹ صرف چند منٹ میں آجاتا ہے۔ آج امریکی پریسیڈنٹ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی کٹ سے اپنا دوسرا ٹیسٹ کرانے کے بعد بطور خاص اس کا ذکر کیا کہ میرے ٹیسٹ کا نتیجہ صرف پندرہ منٹ میں آگیا۔ اگر یہ میڈیکل کی دنیا میں کوئی اہم ایجاد ہے تو اس کا سہرا کمپنی کے ساتھ اس مسلمان خاتون ڈاکٹر کے سر جاتا ہے جو اس ٹیم کی سربراہ تھی۔
اسی کرونا وائرس سے جنگ میں اگر مسلمانوں کی قربانیاں دیکھنی ہوں تو تعصب کی عینک اتارنی ہوگی پھر پتہ چلے گا کہ انسانیت کی خدمت میں کوئی ان کا ہم پلہ نہیں۔
ایک کمپنی جو ونٹیلیٹر میں کام آنے والا مصنوعی تنفس کا آلہ تیار کرتی ہے اس کے مالک مسلمان ہیں جن کا نام عمر اشراق ہے۔ انھوں نے اپنی پوری کمپنی کرونا سے لڑنے کے لیے وقف کردی ہے اور اعلان کردیا ہے کہ پوری دنیا میں ان کی کمپنی کے تیار کردہ یہ آلات مفت فراہم کیے جائیں گے بلا تفریق مذہب وملت اور بلا تخصیص رنگ ونسل تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان بچائی جاسکے۔ کیا ایسے ظرف کا مظاہرہ کسی اور سے متوقع ہے ایک ایسے وقت میں جب ان آلات کی اہمیت وافادیت بہت بڑھ چکی ہے اور اپنے ملک سمیت دنیا میں ان چیزوں کی مہنگے داموں کالا بازاری ہورہی ہے کیونکہ لوگوں کی نظر میں جان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
کیا ہندوستان کے وہ کم ظرف اور تنگ نظر لوگ مسلمانوں کی ان قربانیوں کا اعتراف کریں گے؟ ان کی نظر میں تو مسلمان پوری دنیا میں بدی کا محور اور سارے فساد کی جڑ ہیں۔
آپ کے تبصرے