عام ہندوؤں کو بہت اونچا بولنا ہوگا

سعیدالرحمن سنابلی سماجیات

آپ نہیں لڑ سکتے ان سے۔ پورے ملک میں تو نہیں کہہ سکتا لیکن ملک کے ایک بڑے حصے میں یہ بڑی مستعدی سے نفرت کی گنگا بہا رہے ہیں۔ نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا نفرت کی اس آگ سے تپ رہے ہیں۔ اور ان کا کاؤنٹر کرنے کے لیے صرف اور صرف مسلمان موجود ہیں۔ اور کچھ مسلمان نفرت کا جواب نفرت سے بھی دے رہے ہیں۔ سوائے چند ہندوؤں کے اسے کوئی ہندو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہے۔ کچھ ہندو آگے آکر محبت کی بات کر بھی دیتے ہیں تو ان کے لیے “مسلمانوں کے دلال” کا ٹائٹل موجود ہے۔ آپ ان کے اثر کا عالم دیکھیے کہ ہندوؤں کا وہ طبقہ جو خود کو سیکولر اور سمجھدار کہتا آیا ہے اس نے پٹاخے تو نہیں پھوڑے لیکن دیا ضرور جلایا۔ بنا یہ سوال پوچھے کہ کورونا کے خلاف لڑائی میں دیے کا کیا کام ہے؟ میں نہیں کہتا کہ وزیراعظم کی ہر ہر قدم پر مخالفت ہونی چاہیے لیکن جب وزیراعظم اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بے تکی باتیں کرنے لگے تو اس کی مخالفت ہی نہیں اس پر سخت سوالات اٹھانا بھی لازم ہے۔

یہ نفرت جو پھیلائی جا رہی ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ غلط فہمی کی وجہ سے پھیلائی جا رہی ہے۔ بلکہ دیدہ و دانستہ نفرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ اور اس کا نتیجہ وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت بوئی گئی اس کا نتیجہ نکل کر آنے لگا۔ ایک ویڈیو تو میں نے ہی دیکھا ہے جس میں کچھ لوگ ایک تبلیغی جماعت کے فرد کو گھیر کر گالی گلوچ اور مار پیٹ کر رہے ہیں۔ اسی طرح دو روز پہلے راجستھان میں ایک حاملہ کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے بھرتی کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

اسی طرح ہمارے دیش میں عوامی ردعمل کو بھی ہندو اور مسلمان میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی ہندو، پولس کو بے دردی سے پیٹے، گولی مار دے، اپنے محلوں سے کھدیڑ دے، پولس پر پتھر برسائے یا پولس کو سربازار گندی گندی گالیاں دے کر ان سے دھکا مکی کرے سب کچھ بنا کسی ناگواری کے برداشت کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ بھی اگر ایک مسلمان سے سرزد ہوجائے تو اسے میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک میں خوب بھنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ اور سب سے خطرناک بات جو ہے وہ یہ کہ پھر کچھ سر پھرے ہندو انتظامیہ کی طرف سے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے خود قانون بن جاتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی بات دلی فساد میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ وہاں انتظامیہ کے بجائے کپل مشرا اور ان کے حواریوں نے خود آگے بڑھ کر لاء اینڈ آڈر اپنے ہاتھ میں لینے کی بات کی تھی۔ کپل مشرا نے کھلے عام اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ مظاہرین کو سڑک سے ہٹائیں گے۔ اور سارا دیش خاموش تماشائی بنا رہا۔ اس طرح لاء اینڈ آرڈر اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات ملک بھر میں بڑی تعداد میں پیش آ رہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے اکثر وہی نفرت کارفرما ہوتی ہے جس کی کھیتی میڈیا اور سوشل میڈیا پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

ملک کے سیکولرازم کو فی الحال ہندو ہی بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہندوؤں کو بہت بڑے پیمانے پر اور بڑی مستعدی کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر بھی ایکٹیو ہونا پڑے گا اور زمین پر بھی زیادہ سے زیادہ وقت نکال کر اترنا پڑے گا۔ یا پھر یہی سمجھا جائے گا کہ دیش کے اکثر ہندوؤں کو اس کی ہرگز پرواہ نہیں ہے کہ ملک کا سیکولرازم اور آئین بچے یا نشٹ ہو جائے۔ کیونکہ مسلمان اور کچھ ہندو ہی سمودھان اور سیکولرازم کی لڑائی مستعدی سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کے لیے دیش کی ایکتا کے دشمنوں نے کچھ ٹائٹل تیار کر رکھے ہیں۔ جوں ہی یہ کچھ بولتے ہیں ان پر فوراً کوئی نہ کوئی ٹائٹل ٹھوک دیا جاتا ہے۔ پھر وہ لاکھ سچ بولتے رہیں سادہ اور بھولے بھالے ہندو انھیں جھوٹا، دلال، پاکستانی، آ تنک وادی اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہی سمجھتے ہیں۔ ایسے میں کیا عام ہندوؤں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان نفرت کی کھیتی کرنے والوں سے بھی تیز اور اونچا بولیں تاکہ نفرت کی آواز دب جائے۔ محبت اور سمودھان کی بات چھا جائے۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عام ہندو ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت کا ہی مسئلہ لے لیں۔ کس طرح سے اس بے ضرر جماعت کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے جوڑنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر سمجھدار شہری اس نادانی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے لیکن پھر بھی نادانوں کی آواز بھاری پڑ جا رہی ہے۔ آنند وہار بس اڈا، ملک بھر کی سبزی منڈی، الگ الگ مندروں اور یاتراؤں میں جو بھیڑ اکٹھی ہوئی اس سے کتنا کورونا پھیلنے کا امکان ہے ان سب باتوں سے بالکل نگاہ پھیر کر حکومت بھی ملک بھر میں تبلیغیوں کو تلاش کر کر کے نکال رہی ہے اور ان کی خبریں چلائی جا رہی ہیں۔ اس سے تو سادے عوام کے ذہن میں ایک الگ ہی تصویر بنتی جا رہی ہے۔ اگر تبلیغی جماعت کی بھیڑ میں ودیشیوں کے ہونے سے کورونا پھیلنے کا امکان ہے تو مودی ٹرمپ ملاقات کے پروگرام کی بھیڑ میں کورونا پھیلنے کا خطرہ تھا۔ لیکن میڈیا صرف ایک دھرم کے لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے اور عام ہندو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تبلیغیوں کے خلاف جو بھی قانونی کارروائی بنتی ہے نہ کی جائے لیکن میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ دوغلا رویہ نہ اختیار کیا جائے۔ قانونی کارروائی اور بریکنگ نیوز چلانے سے پہلے مذہب اور کپڑے نہ دیکھے جائیں۔ اس انداز سے بات کی جائے کہ ایک سا جرم کرنے والے سبھی انسان برابر نظر آئیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہو رہا ہے تو ہندوؤں کو آواز اٹھانی چاہیے۔ کیونکہ یہ دوغلا رویہ بہت غلط نفسیات پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے میں عام ہندوؤں سے کہتا ہوں آپ اگر سیکولرازم اور ملک کے سمودھان کے تئیں ایماندار اور سنجیدہ ہیں تو آپ کو مسلسل بولنا ہوگا اور بہت اونچی آواز میں بولنا ہوگا۔

ممکن ہے کچھ لوگ سوچیں کہ میں مسلمان ہونے کے ناطے خود کو سنکٹ میں دیکھ رہا ہوں۔ اس وجہ سے دہائی دے رہا ہوں۔ کچھ حد تک یہ بات درست ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ نفرت ایک آگ ہے اور آگ کو جلانے سے مطلب ہے وہ کسی اپنے اور پرائے کا گھر نہیں دیکھتی ہے۔ نفرت کی اس آگ کو ابھی نہ بجھا دیا گیا تو اس آگ میں وہ بھی جلیں گے جو کنارے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Yusuf

بہت خوب، حالات کی نبض آپ نے پکڑ لی ہے، ماشاءاللہ، بہت صحیح مشورہ ہے آپ کا برادران وطن کے لیے