ہمیں پہچانو قبل اس کے کہ زیادہ دیر ہو جائے

سعیدالرحمن سنابلی سماجیات

میں ایک مسلمان ہوں۔ نومبر 1993 میں بمبئی میں پیدا ہوا۔ ہوش سنبھالا تو لوگوں کو بات کرتے سنا یہ لفڑے کے ایک سال بعد پیدا ہوا ہے۔ تب سے ہی لوگوں سے لفڑے کے بارے میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی باتیں سنتا آیا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں لفڑے کے بعد پورے بمبئی میں ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چلتے پھرتے لوگ یوں برتاؤ کرتے تھے گویا ہم انسان نہیں جانور ہوں۔ یہ جب چاہیں ذبح کر دیں۔ ٹرینوں اور بسوں میں ہم سہمے سہمے سفر کرتے تھے۔ عوامی جگہوں پر اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا تھا۔ اور فسادات کے کھلے مجرم آزاد دندناتے پھر رہے تھے۔ لیکن 93 میں وہ افسوس ناک سیاہ جمعہ آیا جس میں کچھ سرپھرے اور جذباتی مسلمانوں نے انتقاماً پورے بمبئی کو دھماکوں سے لرزا دیا۔ سینکڑوں معصوموں کی جان چلی گئی۔ سارا ملک صدمے میں ڈوب گیا۔ ہمیں بھی دکھ ہوا۔ لیکن ہم اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ عوامی جگہوں پر ہمارے ساتھ لوگوں کے برتاؤ بدل گئے ہیں۔ ہمیں بسوں میں اور لوکل ٹرینوں میں چڑھتا دیکھ کر لوگ سہم جاتے تھے۔ ہمیں لوگ طنز کے بجائے خوف کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہمیں یہ برا بھی لگتا تھا۔ لیکن اس سے کم جو لفڑے کے بعد محسوس ہوتا تھا۔

یہ سب کچھ میں لوگوں کے منہ سے سنتا تھا۔ اس کا مجھے خود کوئی تجربہ نہیں تھا۔ بچپن کی اچھی یادیں بھی ہیں جو سب کے بچپن میں ہوتی ہیں۔ ہمارا محلہ بھی ہمارے پڑوس کے ہندو محلے جیسا ہی تھا۔ لیکن ہاں ان کی گلیوں میں اتنی چہل پہل یا بچوں کا شور شرابہ نہیں ہوتا تھا جتنا ہماری گلیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی گلیاں ہماری گلیوں سے تنگ اور کم گندی ہوتی تھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے گھروں میں بچے نہیں تھے۔ ہم سے تھوڑے کم ہوتے تھے۔ جتنا ہمارے محلے کے بچے کھیل کود میں وقت دیتے تھے وہ نہیں دیتے تھے۔ وہ پڑھنے لکھنے میں زیادہ وقت دیتے تھے۔ ان کے بچے اسکول سے آکر زیادہ تر گھروں میں رہتے تھے۔ ہاں کرکٹ سب ساتھ میں کھیلتے تھے۔ وہ سب بھی ہماری ہی طرح یوپی کے تھے۔ ہمارے آپس میں اچھے تعلقات تھے۔ ہمارے گھروں کی پیچھے والی کھڑکیاں ان کے دروازوں کی طرف کھلتی تھیں۔ ہمارے گھر بجلی چلی جاتی تو ان کے گھروں سے ادھار لے لیتے تھے، ان کے گھر چلی جاتی تھی تو ہم سے ادھار لے لیتے تھے۔

زندگی عام لوگوں کی طرح اطمینان سے گزرتی تھی لیکن اتنا محسوس کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں کچھ لوگ ہمیں ناپسند کرتے ہیں۔ واقعی اس وقت نفرت کرنے والے اتنے زیادہ نہیں تھے۔ بس کچھ ہی تھے۔ اور تھے بھی تو نفرت کا کھل کر اظہار نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسی بیچ گجرات فسادات ہو گئے اور بہت ہی بھیانک خبریں آنے لگیں۔ لوگوں کو زندہ جلایا دیا گیا تھا اور دل میں احساس ہوا کہ مسلمان ہو کر رہنا شاید کچھ مشکل ہے۔ جب عمر دس گیارہ سال کی ہوئی تو ایک بار ہماری دونوں پھوپھیوں نے جو کہ غیر مسلم اکثریتی محلے میں رہتی تھیں اپنے سوٹ کیس جن میں زیورات وغیرہ تھے ہمارے گھر بھیجوا دیا۔ پتہ چلا لفڑا ہونے والا ہے۔ 92 کے لفڑے میں پھوپھی کے گھر کو بری طرح سے نقصان پہنچایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اس بار اپنے زیورات وغیرہ پہلے ہی ہمارے گھر بھیجوا دیے تھے۔ پہلی بار دل میں ایک خوف سا جاگا تھا۔ اللہ کے فضل سے کوئی لفڑا نہیں ہوا‌۔ حالات جوں کے توں رہے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں نامعلوم شرپسندوں نے بم دھماکے کر دیے۔ بہت بے گناہ لوگ مارے گئے۔ شور ہوا کہ یہ سب مسلمانوں نے کیا ہے۔ اور پھر پورے ملک سے داڑھی ٹوپی والوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔ میرے ابا بھی بڑی داڑھی والے تھے۔ مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ابا کو بھی نہ کوئی گرفتار کر لے۔ اخبار پڑھتا تھا۔ روزانہ ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی نفرت بھری بات ضرور نظر سے گزرتی تھی۔ لوگ ہمیں دہشت گرد، پاکستانی، ملے، کٹوے، انڈین مجاہدین، الگاؤ وادی اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھے۔ اور آج بھی کہتے ہیں۔ آخر کیوں وہ ایسا کہتے ہیں؟

کیا وہ ہمیں نہیں جانتے ہیں؟ یا ہمیں جاننا ہی نہیں چاہتے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم اکثر غریب ہیں۔ ہم پنکچر بناتے ہیں۔ ہم کوڑے بھی چنتے ہیں۔ ہم میں کم ہی لوگ بہت مالدار ہیں۔ ہمارے محلے اکثر گندے رہتے ہیں۔ ہم تعلیم میں پچھڑے ہیں۔ ہم فسادات کے ڈر سے گھیٹو میں رہتے ہیں۔ لیکن ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم مسلمان ہیں لیکن پاکستانی نہیں ہیں۔ ہم کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں لیکن الگاؤ وادی نہیں ہیں۔ ہم جہاد کو مقدس سمجھتے ہیں لیکن انڈین مجاہدین نہیں ہیں۔ ہم خود فسادات اور بے جا گرفتاریوں سے ڈرے سہمے لوگ ہیں ہم کیا کسی کو ڈرائیں گے؟ ہم خود ستائے لوگ ہیں ہم کیا کسی کو ستائیں گے؟

کہیں ایک آدمی کی لنچنگ ہوتی ہے ہم کانپ جاتے ہیں۔ جہاں بلا وجہ کسی بھی مسلمان کو مار دیا جا رہا ہو وہاں اہل اسلام کے دل میں خوف کا آنا تو لازمی ہے۔ لیکن جب ہم اپنے خوف کا اظہار کرتے ہیں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پاکستان چلے جانے کے مشورے دیتے ہیں۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی تھالی میں چھید کرنے والا کہتے ہیں۔ سارے میڈیا ہاؤسز ہم پر اس طرح پل پڑتے ہیں جیسے ہم نے اپنے خوف کا اظہار کر کے جرم کر دیا ہو۔ ہم اپنا دل مار کے رہ جاتے ہیں۔ ہم دل میں خوف ہونے کے بعد بھی اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم بہت خوش ہیں دیش میں۔ اور وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں۔ اور لنچنگ ہوتی رہتی ہے۔ آپ ہی بتائیے جہاں چلتے پھرتے آپ کی کہیں بھی جان لی جا سکتی ہے وہاں آپ کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ہم لنچنگ کے ڈر سے سفر میں چکن اور انڈے تک لے جانے سے گھبراتے ہیں۔ لیکن ہم مسکرا کر کہتے ہیں ہم خوش ہیں ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاکہ ہمارے بھائیوں کو تکلیف نہ ہو۔ لیکن ہمیں تعجب بھی ہوتا ہے کہ اگر دیش کی انتظامیہ اور سرکار سے ہمیں کوئی شکایت ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ سرکاریں بنتی ہی اس لیے ہیں کہ وہ ہماری شکایتیں اور ہمارے ڈر اور خوف کو دور کریں۔ لیکن ہمارا اظہارِ خوف ہی جرم ہے۔ اگر کوئی صحافی ہمارے حق میں دو لفظ بول بھی دیتا ہے تو یہ اسے مسلمانوں کا دلال بول کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے اس دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح وہ ہمیں اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہم کسی بھی روپ میں ان کے مقابلے پر نہیں ہیں۔ ہم اقلیت میں ہیں۔ لٹی پٹی اقلیت۔ ڈری سہمی اقلیت۔ گرچہ مولانا آزاد نے کہا تھا کہ مسلمان بھارت میں اقلیت نہیں دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اقلیت میں ہونے کا احساس ہمارے دلوں سے نہیں نکل سکا ہے‌۔ نہ تو کسی سرکار نے نکالنے کی کوشش کی۔ تقسیم ہند کے بعد سے مسلسل مسلم کش فسادات اور نفرت کی آندھی نے ہمیں اس احساس سے نکلنے ہی نہیں دیا ہے۔ اس لیے ہمیں سمجھنے کے لیے اقلیتوں کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ اقلیتوں کی نفسیات بھی ان کے حالات اور اکثریتی فرقوں کے برتاؤ کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے علاوہ پارسی اور یہودی بھی بھارت میں اقلیت میں ہیں اس کے باوجود ان کی نفسیات ہماری نفسیات سے مختلف ہے۔ ان کے اندر وہ خوف اور بے بسی کا احساس نہیں ہے جو ہم میں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ دو اقلیتوں کی نفسیات ویسے ہی مختلف ہوتی ہے جیسے ایک جوائنٹ فیملی میں ایک لاڈلے اور ایک ناپسندیدہ بچے کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی ہم ان کی نگاہوں میں ناپسندیدہ ہیں۔ ممکن ہے یہ بات حقیقت نہ ہو۔ اکثر ہندو ہمیں ناپسند نہ کرتے ہوں۔ لیکن ہمارے تجربات ہمیں یہ ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جاتا رہا ہے۔ یقیناً ہم میں سے بھی بہت سے لوگوں سے زیادتی ہو جاتی ہے لیکن یہ زیادتی ہمیشہ دفاعی یا مایوسی کے بعد کی حالت میں ہوتی ہے۔ اور ایسا کرنے کے بعد بھی ایسا آدمی خود کو ہی مظلوم سمجھتا ہے۔ یعنی وہ سمجھتا ہے کہ اسے زیادتی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے ایک چھوٹا بھائی ہے جسے بڑا بھائی اکثر مارتا پیٹتا اور ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ اگر وہ چھوٹا بھائی کبھی ردعمل میں دو چار ہاتھ مار بھی دے تو بھی وہ خود کو مظلوم ہی سمجھے گا۔

اسی طرح ہم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہم سے جانتے بوجھتے دیش کا ماحول خراب نہ ہو۔ ہم ایسا کام کرنے سے بچتے ہیں جس سے انھیں غصہ آئے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں نقصان ہمارا ہی ہونا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی بات پر ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں جو ہر سماج اور دھرم میں عام ہے۔ اس کا تعلق ہماری قومی شناخت سے نہیں ہے۔ مثلاً ہم میں سے کوئی ہندو لڑکی سے شادی کر لے۔ حالانکہ ہمارے ہاں اس بات کو انتہائی ناپسند کیا جاتا ہے کہ ایک مسلمان ایک غیر مسلم سے شادی کرے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی مسلمان ایسا کر لیتا ہے تو ان کے شر پسند اس بات کو بھی ہمارے خلاف ایک ایشو بنا لیتے ہیں۔ اسے تو باقاعدہ نیشنل نیوز چینل تک “لو جہاد” کا نام دے کر پھیلاتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی حرکتیں یا غلطیاں ہیں جو کہ ہر مذہب کے لوگوں سے ہوتی رہتی ہیں ہم سے بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن ہماری غلطیوں کو ہی ہائی لائیٹ کر کے ہمارے خلاف ماحول بنایا جاتا ہے۔ اس دوغلے پن کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے اور اکثر ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

ہر قوم میں کچھ لوگ بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر بھی ہوتے ہیں۔ چاروں طرف ہو رہی زیادتیوں اور دوغلے پن کو دیکھ کر ہم میں سے کوئی سرپھرا غلط راہ پر چل دیتا ہے تو اس کی تہمت بھی ہماری پوری قوم کے سر منڈھ دی جاتی ہے۔ ہم لاکھ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ہم ایسی انارکی کے خلاف ہیں لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے ان کا یہی رویہ ہی ہے جو جذباتی لوگوں کو غلط راہ اختیار کرنے پر ابھارتا ہے۔ لیکن وہ ہر مسئلہ کا حل اسٹوڈیو اور بھری بھیڑ میں تقریر کر کے ہی تلاش کرتے ہیں۔ شاید انھیں اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے جوان چاہے جس راہ پر چل پڑیں۔ اگر پرواہ ہوتی تو وہ ضرور سنجیدگی سے اس کی اصل وجہ تلاش کرتے۔ ان میں سے بہت سے لوگ تو سارا الزام اسلام کی تعلیمات پر ڈال کر ایک الگ ہی نفرت کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ اور بھولی بھالی جنتا بھی نہیں سمجھ پاتی ہے کہ اگر یہی اسلام کی تعلیم ہوتی تو یہ پچیس کروڑ مسلمان کیوں وہی راستہ اختیار نہیں کرتے؟ لیکن نہ تو نیوز چینل سمجھاتے ہیں نہ جنتا سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور صاف محسوس ہوتا ہے یہ نفرت کی کھیتی کسی خاص وقت کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔

ایک بہت اہم بات جو شاید دنیا بھر کی اکثریتوں کی سمجھ نہیں آتی وہ یہ کہ پورے ملک میں کہیں بھی ایک اکثریتی فرقے کی طرف سے کسی اقلیتی فرقے پر زیادتی کی جاتی ہے تو اکثریت کو تو یہی لگتا ہے کہ انھوں نے ایک آدمی پر زیادتی کی ہے لیکن دراصل وہ پوری اقلیت پر زیادتی کے مترادف ہوتی ہے۔ پورے ملک کی اقلیت خوف زدہ ہوتی ہے۔ پھر جب اقلیت کے لوگ پورے ملک میں ہر پلیٹ فارم سے آواز اٹھاتے ہیں تو اکثریت کو لگتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ہنگامہ ہو رہا ہے۔ اور پھر جب کسی اقلیت کی طرف سے کسی اکثریت پر زیادتی ہوتی ہے تو بھی وہ اسی انداز کی آواز کے اٹھنے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن جب اس انداز کی آواز اٹھتی نہیں دیکھتے ہیں تو ناراض ہوتے ہیں اور ہنگامہ کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ حالانکہ انھیں سمجھنا چاہیے کہ اقلیت پر زیادتی کے بعد جو آوازیں اٹھی تھیں وہ اس خوف کی آوازیں تھیں جو بڑے پیمانے پر ہر اقلیتی کے دل نے محسوس کیا تھا۔ اور یہ ایک فطری بات ہے۔ اس پر ناراض ہونے کے بجائے اس سے اقلیتوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں ہمارے دل میں کلام کے لیے جگہ ہے قصاب کے لیے نہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں نہ تو قصاب ہوں نہ ہی کلام ہوں۔ میں ایک پنکچر بنانے والا، رکشہ چلانے والا اور محنت مزدوری کرنے والا ہوں کیا میرے لیے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے؟ کیا دل میں جگہ بنانے کے لیے کلام ہی بننا پڑے گا؟ وہ کہتے ہیں ہم مسلمان بچے زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ ہماری ہاں پیدایش کی شرح میں ان کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔ لیکن پھر بھی ایک جھوٹ پھیلایا جاتا ہے ہمارے خلاف کہ ہم آبادی بڑھا کر دیش پر قبضہ کر لینا چاہتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ اپنے ملک پر کیسا قبضہ!

ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ انھیں پڑوس کی اقلیتوں کا درد محسوس ہوتا ہے لیکن تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی اقلیتوں کا درد نہیں محسوس کر پاتے۔ خوشی کی بات ہے کہ وہ پڑوس کی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کی بات کرتے ہیں لیکن دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ سوتیلا برتاؤ کرتے ہیں اور اسے جائز ٹھہراتے ہیں۔ پڑوس کی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے فساد سے ان کی روح کو تکلیف ہوتی ہے لیکن یہاں پچاسوں فسادات کی مار جھیل جھیل کر ہماری روح چھلنی ہو چکی ہے اس کے بعد بھی کہتے ہیں ہم فسادی ہیں۔

کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم بھی دنیا کی اور اقلیتوں کی طرح ایک اقلیت ہیں۔ ہم بھی جارحانہ سوچ کے بجائے ہمیشہ دفاعی سوچ رکھتے ہیں۔ ہم اکثریت کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ قانون میں بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون کی بالادستی ہو جس سے ہمارے جان و مال محفوظ ہوں۔ ہم قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ملک کی اکثریت عام طور پر ہماری کوئی رعایت نہیں کرتی۔ بہت سی باتیں، جملے اور حرکتیں وہ کر گزرتے ہیں اور انھیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ ایک بات بھی پورے دیش کی اقلیت پر تیر کی طرح لگتی ہے۔ وہ تو کہہ کر بھول جاتے ہیں لیکن ہمیں ایک ایک بات یاد رہتی ہے اور تکلیف پہنچاتی ہے۔ ہم اتنے برے نہیں ہیں جتنا میڈیا نے ہمیں برا بنا دیا ہے۔ ہم اکثر ایسے کام کرتے رہتے ہیں جسے دیکھ کر ان کی سوچ ہمارے بارے میں بدل جائے۔ لیکن وہ سب باتیں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ ہر قوم انتظامیہ سے اکثر ناراضگی کا اظہار کرتی رہتی ہے لیکن ہماری ناراضگی الگ ہی رنگ دے دی جاتی ہے۔ اور دھرم کے شرارتی عناصر بھی پولس پر پتھراؤ کرتے دیکھے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے پتھراؤ کو الگ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور لوگ بھی کورونا لاک ڈاؤن کی کھلے عام دھجیاں اڑاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی کوتاہی کو جانی بوجھی سازش کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اوروں کے پر تشدد مظاہروں کو بس مظاہرہ کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے پرامن مظاہروں کو ملک سے بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔ آپ ہی بتائیں آپ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں سکون سے کب تک سانس لے پائیں گے؟ ان ساری نفرتوں کے بیچ ہم سانس لیتے آئے ہیں۔ اب تو یہ نفرتیں آسمان چھوتی معلوم ہورہی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ایسا صرف نیوز چینلوں پر معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ ہم سے محبت کرتے ہیں لیکن شاید اس زور سے محبت کا اظہار نہیں کرتے کہ نفرت کا دھنڈھورا پیٹنے والے شرما جائیں۔

میں نے اس مضمون میں صرف منفی باتیں ہی ذکر کی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثبت باتیں نہیں ہیں۔ مثبت باتیں بھی ہیں اور اتنی ہیں کہ بیان نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن دیش کی اکھنڈتا اور ایکتا کو بچانے کے لیے ان منفی باتوں کو جاننا اور ان کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کو انصاف اتنا متاثر نہیں کرتا جتنا ناانصافی متاثر کرتی ہے۔ پھر وہ ناانصافی چاہے عدالت میں ہو یا سماج کے میدان اور میڈیا ہاؤسز میں۔

آپ کے تبصرے

3000