ہر نفرت اور مایوسی پھیلانے والے سے چند باتیں!

سعیدالرحمن سنابلی سماجیات

کورونا کے آتے ہی میں تو کافی خوش تھا کہ کورونا ہم بھارتیوں کو ساری نفرت بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دے گا۔ اور شروعات کے چند دن ایسے ہی گزرے۔ نیوز چینلوں پر کوئی شور شرابہ نہیں، کوئی تو تو میں میں نہیں۔ اور اسی وجہ سے زمینی لیول پر بھی کافی شانتی تھی۔ نیوز اینکر انتاکشری کھیل رہے تھے۔ کئی لوگ جو سوشل میڈیا پر بڑی مستعدی سے زہر بو رہے تھے بالکل خاموش ہوگئے تھے۔ دیش کا ہر امن پسند شہری خوش تھا کہ ہو سکتا ہے کورونا ہم میں سے کچھ لوگوں کی جان لے لے لیکن ہمارا بھائی چارہ واپس زندہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ سب کچھ زیادہ دن نہ چل سکا۔ ہمارے نام نہاد میڈیا نے ہماری غلط فہمی دور کر دی۔ اور اس کے بعد جو شروع ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ نیوز اینکروں نے ماسک اتار کر دوبارہ منہ سے گند پھیلانا شروع کر دیا۔ اور ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ لیکن انہی کے بیچ للن ٹاپ کے سوربھ دیویدی بھی نظر آئے تو دل بے چین ہو گیا۔ بِنا رائے ظاہر کیے چین نہیں مل رہا۔ گرچہ سوربھ اب بھی بات کہنے میں اپنی خاص احتیاط برت رہے ہیں لیکن چل تو اسی راہ پر رہے ہیں جو مناسب نہیں۔

دنیا کا پہلا کورونا کیس 17 نومبر 2019 کو چین کے ایک صوبہ ہویبی میں پایا گیا۔ وہان شہر اسی صوبہ کی راجدھانی ہے۔ لیکن جب یہ وائرس مہلک وبا بن کر تیزی سے پھیلنے لگا تو 23 جنوری 2020 کو چین نے مذکورہ صوبہ کے تمام شہروں کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا۔ اسے دیکھ کر دنیا کے سمجھدار دیشوں نے زبردست احتیاط شروع کر دی۔ ہمارے بھارت میں کورونا کا پہلا کیس رواں سال 30 جنوری کو کیرالا میں پایا گیا۔ یہ متاثر شخص وہان کے ایک تعلیمی ادارہ کا طالب علم تھا۔ اس کا نام، دھرم، ذات برادری کا کسی کو علم نہیں ہے۔ اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ ہر طرح کی پرائیویسی ایک مریض کا حق ہے۔ پہلا کیس آ جانے کے بعد بھارت کو بالکل چوکنا ہو جانا چاہیے تھا لیکن بھارت کیا چوکنا ہوتا بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جی نے اس خطرناک الارم کے بجنے کے تیئس چوبیس دن بعد ڈونالڈ ٹرمپ کے استقبال کے لیے “نمستے ٹرمپ” پروگرام میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا کیا۔ جہاں سوشل ڈسٹینس تو دور لوگ ایک دوسرے سے چپکے جاتے تھے۔ اسی بھیڑ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے علاوہ بہت سارے غیر ملکی بھی شریک تھے۔ یہ وزیر اعظم صاحب کا حال تھا تو باقی دیش واسیوں کا حال بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ جوں کا توں چلتا رہا۔ کنیکا کپور کورونا وائرس کے ساتھ مختلف لوگوں سے ملتی رہیں۔ ان کے علاوہ بھی کورونا متاثرین پورے ملک میں بے فکر گھومتے رہے۔ پہلے کیس کے قریب دو مہینے بعد 24 مارچ کو بھارت میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتا ہے۔ مسجد مندر کے ساتھ ساتھ تمام عوامی جگہیں بند ہو جاتی ہیں۔ کئی مسجدوں اور مندروں میں لوگوں کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے پولس کو سختی سے کام لینا پڑا۔ لاک ڈاؤن کے اعلان ہوتے ہی پورے ملک سے بے تحاشا لوگوں کا ہجوم اپنے اپنے گھروں کو پیدل نکل پڑا۔ سوشل ڈسٹینس کی خوب دھجیاں اڑیں۔ سبزی منڈیوں اور عام بازاروں میں لوگوں کا سیلاب امنڈتا رہا۔ مجنون کا ٹیلہ گردوارہ میں دو سو لوگ پھنسے رہے۔ دلی کے ایک لیبر کمپاؤنڈ میں ہزاروں مزدور پیشہ لوگ بنا کسی احتیاطی تدابیر کے ٹھس ٹھس کر پڑے رہے۔ اور بھی بہت سی جان لیوا لاپرواہیاں ہوتی رہیں۔ حکومت اور میڈیا ہاؤسز ان تمام باتوں کو خاموشی سے نظر انداز کرتے رہے۔ نمستے مودی سے لے کر اب تک کی بھیڑوں میں کورونا اپنا کام کرتا رہا اور سب خاموش رہے۔ اچانک نظام الدین کے تبلیغی مرکز کا مدعا اٹھتا ہے اور ایک بار پھر سے نفرت کی ہانڈی میں زوروں کا ابال آ جاتا ہے۔ تقریباً سارے میڈیا چینل تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک ایک خبر پوری تفصیل اور اپنی سابقہ مہارت کے ساتھ بتانے لگے۔ سارے کورونا متاثرین کا ذکر الگ اور تبلیغی کورونا متاثرین کا ذکر الگ الگ کیا جانے لگا۔ کچھ مہان نام نہاد صحافیوں نے تو اسے کورونا جہاد، کورونا بم اور مسلمانوں کی سوچی سمجھی سازش تک قرار دے دیا۔ اور سارے ملک میں اس معاملے کی آڑ میں مسلمانوں سے نفرت کی ہوا چل پڑی۔

نظام الدین معاملے میں اصل غلطی مرکز کی تھی یا انتظامیہ کی اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ مجھے امید ہے اصل ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ لیکن جو غلطی ہم سے اور میڈیا سے ہو رہی ہے وہ ہے جانے انجانے میں مرکز معاملے کی آڑ میں نفرت کی کھیتی۔ مریضوں کے قانونی حقوق میں سے ایک پرائیویسی کا حق بھی ہے۔ تاکہ اس کے مرض کی وجہ سے سماج میں اسے کسی بھی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن یہاں تبلیغی کورونا متاثرین کی تعداد خصوصی طور پر بیان کی جا رہی ہے۔ جس سے صرف کورونا متاثرین ہی نہیں ان کی پوری قوم عوامی نفرت کا شکار ہو گئی۔ ان کو ٹریس کیا جا رہا ہے۔ ان کو قرنطینہ کے لیے مجرموں کے سے انداز میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے لوگوں کو تلاش نہ کیا جائے۔ انھیں قرنطینہ میں نہ رکھا جائے۔ لیکن جہاں “نمستے ٹرمپ” کی بھیڑ پر کوئی چرچا نہ ہو، جہاں سبزی منڈیوں اور آنند وہار جیسے بس اڈوں کی بھیڑ پر کوئی بات نہ ہو۔ وہ بھیڑ کہاں کہاں گئی اس کی کوئی تلاش نہ ہو، تالی اور دیا یاترا میں شریک لوگوں کو بالکل نظر انداز کیا جائے، گردوارہ میں پھنسے لوگوں کا الگ سے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ وہاں تبلیغی جماعت کا خصوصی طور پر ذکر کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ مریضوں کا برادری کی بنیاد الگ سے ذکر کرنا ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ کوئی مجھے بتائے “نمستے ٹرمپ” اور مرکز کی بھیڑ میں کیا فرق ہے؟ ملک بھر میں پلاین کرنے والے مزدوروں اور مرکز کی بھیڑ میں کیا فرق ہے؟ مان لیتا ہوں کہ مرکز کے لوگ لاک ڈاؤن کی مخالفت کر رہے تھے۔ تو کیا رام نومی کی پوجا میں مختلف جگہوں پر جمع بھیڑ لاک ڈاؤن کی مخالفت نہیں کر رہی تھی؟ مان لیتا ہوں کہ تبلیغی کورونا کو لے کر پورے دیش میں گھومتے رہے تو کیا آنند وہار جیسے بس اڈوں کی بھیڑ نے پورے ملک میں کورونا کو نہیں پھیلایا ہوگا؟ اگر اس بھیڑ کو بنا کسی بھید بھاؤ کے کورنٹاین کیا جا سکتا ہے تو کیا تبلیغی جماعت میں سے کورونا متاثرین کو بنا کسی بھید بھاؤ کے کورنٹاین نہیں کیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ لاک ڈاؤن میں پھنسی لاکھوں لوگوں کی بھیڑ قابلِ رحم ہو سکتی ہے لاک ڈاؤن میں دنیا بھر میں پھنسے تبلیغی لوگ کیوں رحم کے قابل نہیں ہیں؟
میں ایک برائی سے دوسرے برائی کو جائز نہیں ٹھہرا رہا۔ میں بس اس بھید بھاؤ پر سوال اٹھا رہا ہوں جس بھید بھاؤ کی وجہ سے پورے ملک میں مسلمان عوامی نفرت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ شروع کر دیا گیا۔ کہیں مسلمان سبزی اور پھل فروشوں کو بھگایا جانے لگا۔ داڑھی ٹوپی والوں سے گالی گلوچ اور انھیں مارا پیٹا جانے لگا۔ غرض ملک میں کورونا کا سارا الزام مسلمانوں کے سر ڈال کر لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بھر دی گئی۔ جناب والا! بہت مایوس ہو چکے ہیں ہم۔ اب اور کتنا مایوس کرنا چاہتے ہیں؟ ایک مایوس انسان کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اپنی جان تک لے سکتا ہے اور دوسرے کی بھی۔ اور آپ ہیں کہ ایک انسان کو نہیں ایک بھیڑ کو مایوس کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے لیے نہ سہی دیش کی بھلائی کے لیے یہ مایوسی پھیلانے کا کاروبار بند کر دیجیے۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بند کر دیجیے۔ لیکن خدارا اب بند کر دیجیے۔

آپ کے تبصرے

3000