لاک ڈاؤن میں کیا کریں

ڈاکٹر شمس کمال انجم تعلیم و تربیت

کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا لاک ڈاؤن موڈ پر ہے اور ہندوستان بھی۔ جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں بند ہیں۔ وہ تو بھلا ہو انٹرنیٹ کاکہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنا ٹائم پاس کررہے ہیں۔ وقت کو سوشل میڈیا کی تلوار سے کاٹ رہے ہیں۔ کوئی فیس بک پر ہے کوئی انسٹاگرام پر کوئی ٹک ٹاک پر ہے اور کوئی واٹس اپ یا اس کے اسٹیٹس پر۔ چھوٹے بڑے، مردو زن، بچے بچیاں، لڑکے لڑکیاں، بے شعور باشعور۔ سب کے سب انٹر نیٹ کے چوراہے پر بیٹھ کر فیس بک انسٹاگرام، واٹس اپ اور ٹک ٹاک کی چراگاہوں میں اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق جھانک رہے ہیں۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بہت سارے بزرگ بھی انہی گلیوں کی سیر کررہے ہیں۔ انہی چراگاہوں میں جھانک رہے ہیں اور حظ اٹھارہے ہیں۔
یہاں میں آپ کو دو چھوٹے چھوٹے واقعے سناتا ہوں پھر آگے چلتا ہوں۔
کسی شہر کے اسکول کے پاس سے کسی نیک انسان کا گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ استاد کسی چھوٹے سے بچے کو بڑی بے دردی سے پٹائی کررہا ہے۔ اس نیک آدمی کو اس چھوٹے بچے پر رحم آگیا۔ وہ اس استاد کے پاس آیا اور اس سے معاملے کے بارے میں دریافت کیا۔ استاد نے کہا: یہ بڑا ہی سست، شریر اور ضدی بچہ ہے۔ میں اس کو کئی ماہ سے سکھا رہا ہوں کہ الف، ب، ت پڑھنا سیکھے۔ لیکن ابھی تک وہ الف بے تے بھی پڑھنا سیکھ نہیں سکا۔
اس نیک آدمی نے بچے سے کہا: بیٹے! تم تو بڑے ذہین لگتے ہو۔ یہ الف ب، ت تو بہت ہی آسان ہے۔ دیکھو کتنا آسان ہے! اور اس نے الف، ب، ت پڑھ کر اسے سنادیا۔ چھوٹے بچے نے اس نیک آدمی کی طرف دیکھا اور کہا: میں جانتا ہوں یہ بہت آسان ہے۔ الف ب، ت۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے بعد ث، ج، ح، خ بھی ہے۔ اور اس کے بعد ک، ل، م، ن وغیرہ بھی۔ اور اس کے بعد نحو بھی ہے صرف بھی ہے۔ پھر بلاغت ہے۔ پھر ادب ہے۔ پھر ریاضی، طبیعیات، تاریخ، جغرافیہ اور نہ جانے کیا کیا۔ اور میں یہ سب پڑھنا نہیں چاہتا۔ میں یہ سب سیکھنا نہیں چاہتا۔
عمر فروخ عربی ادب کا بہت بڑا نام ہے۔ اس نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یورپ کے اس کھلے ماحول میں وہ لڑکیوں سے بات ہی نہیں کرتا تھا۔ کسی لڑکی نے اگر کچھ پوچھ لیا تو اس کا جواب دے دیا اور بس! کسی صاحب نے عمر سے پوچھا کہ تم لڑکیوں سے بات کیوں نہیں کرتے ہو۔ اس نے شہزادۂ شعر وسخن احمد شوقی کا یہ شعر سنایا۔ جس میں وہ کہتا ہے:

نظرۃٌ فابتسامۃٌ فسلامٌ
فکلامٌ فموعدٌ فلقائُ

(یعنی: پہلے نگاہ ٹکراتی ہے پھر مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا ہے پھر سلام پھر کلام پھر جگہ کا تعین پھر ملاقات) عمر فروخ نے کہا جب مجھے کسی سے ملاقات کی خواہش نہیں تو پھر سلام اور کلام سے کیا فائدہ؟
ایک حدیث بھی سن لیجیے۔ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حلال واضح ہے حرام واضح ہے۔ اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں۔ جو ان مشتبہ چیزوں میں واقع ہوگا وہ اللہ کے محرَّمات (حرام کردہ چیزوں) میں واقع ہوجائے گا۔ جیسے کہ کوئی چرواہا کسی چراگاہ کے اردگرد اپنا ریوڑ چراتا ہے تو اس کا ریوڑ اس میں واقع ہوجاتا ہے۔ الحدیث(بخاری ومسلم)
انسان پہلے فیس بک وال پر جاتا ہے۔ پھر فیس بک ویڈیو پر دستک دیتا ہے۔ پھر ایک کے بعد ایک ویڈیو یہاں تک کہ وہ اس کی ٹانگ کھینچ کر کسی نہ کسی مخرب اخلاق مناظر تک پہنچادیتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا (فیس بک، انسٹاگرام، اسٹیٹس) کے اپنے فوائد ہیں لیکن یہ اللہ کی محرمات سے بھرے پڑے ہیں۔ جو آدمی ان میں جھانکے گا وہ اللہ کی محرمات میں واقع ہوجائے گا۔ جوان تو جوان طبعی عمر کو پہنچے ہوئے بزرگ اور کئی ایک دینی علماء، فضلا اور طلبہ بھی اسی چراگاہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ وہ بھی دانستہ یا نادانستہ طور سے انہی محرمات میں واقع ہورہے ہوں گے اور وہ کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے جنھیں پچھلی نسل کے لوگ اپنے چشم تصور سے بھی نہیں دیکھ سکے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ انٹرنیٹ کے چوراہے پر بیٹھا ہوا جو شخص اللہ کے خوف سے اللہ کی محرمات پر نظر نہیں ڈالے گا تو مجھے یقین ہے قیامت کے روز وہ اللہ کے عرش کے سایے میں ہوگا۔
یہ موقع ہمارے ایمان کی آزمائش کا ہے۔ اللہ کے عذاب نے پوری دنیا پر دستک دیا ہوا ہے۔ نہ جانے یہ وائرس کب اور کسے لقمۂ اجل بنالے ایسے میں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنے کے بجائے اللہ کے ذکر واذکار میں وقت بسر کرنا چاہیے۔ چھوٹے بڑے گناہوں میں واقع ہونے کے بجائے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اپنے محرمات سے بچ بچاکر چلنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000