نیکی کر پکچر نہ بنا

رفیع اللہ عبد العزیز سلفی عبادات

انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ اس لیے سماج سے الگ ہوکر زندگی نہیں گزارا جاسکتا۔ اس کی تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے۔ مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہےاس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لیے آپسی تعاون، ہمدردی، خیرخواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔ مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علمبردار ہے اس لیے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو۔ سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے، تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے۔ اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کریں۔ اللہ تعالی برابر اس بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جو بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مصروف بہ عمل رہتا ہے۔ (مسلم رقم 2699)

حالات کے پیش نظر بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم تمام انسانوں کی مدد کریں کیونکہ حالات نے انھیں مجبور کردیا ہے۔ وہ ہمارے تعاون، ہمدردی اور خیرخواہی کے سماجی مستحق ہیں۔ اگر ہم طاقت رکھنے کے باوجود بھی اس کارخیر میں حصہ نہیں لیتے تو اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن ہماری بازپرس کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حال میں بھی رکھا ہے اسی حالت میں رہ کر ہمیں اپنے بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔

صرف پیسوں ہی سے مدد نہیں ہوتی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کتاب الفوائد ص 250 میں لکھتے ہیں کہ مسلمان کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کی کئی شکلیں ہیں: مال کے ذریعہ، منصب کے ذریعہ، جسم اور خدمت کے ذریعہ، نصیحت اور رہنمائی کے ذریعہ، دعاواستغفار کے ذریعہ، دردمندی وفکر مندی کے ذریعہ اور یہ ساری ہمدردیاں ایمان کے اعتبار سے ہوں گی۔ چنانچہ جس قدر ایمان مضبوط ہوگا ہمدردی اتنی زیادہ ہوگی اور ایمان جس قدر کمزور ہوگا ہمدردی اتنی کمزور ہوتی جائے گی۔
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ سب سے زیادہ ہمدرد وغمگسار تھے چنانچہ ہمیں بھی اسی طرح آپ کی امت کے لیے غمگسار ہونا چاہیے۔
ہمارے وہ بھائی جو اس معاملے میں ایک دوسرے کے معاون، ہمدرد اور خیرخواہ ہیں اور حسب استطاعت بھر پور تعاون پیش کررہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو تعاون پیش کرتے ہوئے ویڈیو اور فوٹو گرافی کا سہارا لے کر ان بھائیوں اور بہنوں کو شرمندہ کرکے اپنے نیک اعمال کو ضائع کررہے ہیں۔ جبکہ یہ اعمال اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے اعمال کی کوئی حیثیت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أنا أغني الشركاء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه (مسلم رقم 2985)

میں شرک والوں کے شرک سے بے پرواہ ہوں جو آدمی میرے لیے کوئی ایسا کام کرے جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ ریا والا عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ جب کسی عبادت میں ریا شامل ہو یعنی وہ عبادت محض دکھلاوے کے لیے کی جائے تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گنہگار اور شرکِ خفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر کوئی بندہ اپنے کسی صالح عمل میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے شرک سے مستغنی ہے وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو محض اس کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے۔
اللہ سے دعا ہے کہ سب کو اخلاص کی توفیق دے، ہمارے دلوں میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا کردے، ریاکاری جیسی مذموم صفت سے بچائے اور اس مہلک وبا کو ہم سب سے دور کردے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000